عوض نور کیس آٹھ سالہ بچی کو ریپ کے بعد قتل

عوض نور کیس آٹھ سالہ بچی کو ریپ کے بعد قتل

عوض نور کیس آٹھ سالہ بچی کو ریپ کے بعد قتل کرنے پر ایک مجرم کو سزائے موت، سہولت کار کو عمر قید

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کی ایک عدالت نے آٹھ سالہ بچی عوض نور کو ریپ کے بعد تشدد کر کے قتل کرنے کے جرم میں ایک شخص کو سزائے موت اور ایک دوسرے مجرم کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شہناز حمید نے بدھ کے روز عدالت میں مرکزی مجرم ابدار کو سزائے موت جبکہ ان کے سہولت کار مجرم رفیق کو عمر قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ اس موقعے پر عدالت میں بچی عوض نور کے رشتہ دار بھی موجود تھے۔

عدالت نے اس مقدمے کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ آج اس بارے میں فیصلہ جاری کیا گیا ہے۔

عوض نور کی جانب سے وکیل عزیزاالدین نے بی بی سی کو بتایا کہ نوشہرہ کی ضلعی عدالت میں مقدمے کی جاری سماعت کے دوران مرکزی ملزم نے ضمانت کی درخواستیں دی تھیں جو ڈسٹرکٹ کورٹ کے علاوہ پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے بھی مسترد ہو گئی تھیں۔

یہ واقعہ کب پیش آیا تھا؟

یہ واقعہ ضلع نوشہرہ میں زیارت کاکا صاحب نامی گاؤں میں گذشتہ برس جنوری میں پیش آیا تھا۔ پولیس کے مطابق آٹھ سالہ بچی عوض نور اپنے مدرسے سے لوٹ رہی تھیں جب واپسی پر ملزم بچی کو بہلا پھسلا کر ساتھ لے گیا اور بچی کو ریپ کا نشانہ بنایا۔

مقتولہ کے چچا ریاض علی شاہ کاکا خیل نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ‘بچی روزانہ سہ پہر تین بجے سپارہ پڑھنے اپنی بہن کے ساتھ جاتی تھی۔ اس روز بھی وہ پڑھ کر واپس آئی تو ملزم لڑکا راستے میں کھڑا تھا۔ اس نے اسے چیزیں دلانے کا لالچ دیا۔ چھوٹی بہن گھر چلی گئی اور وہ اسے بہلا پھسلا کر ساتھ لے گیا۔ اس کے بعد بچی لاپتہ ہو گئی۔‘

انھوں نے بتایا تھا کہ اس واقعے کے بعد مقامی لوگ ان کے ساتھ بچی کو تلاش کرنے میں مدد کر رہے تھے اور اس دوران وہ ملزم بھی لوگوں کے ساتھ مل کر بچی کو تلاش کرنے کا بظاہر ڈھونگ کرتا رہا۔ بچی کے چچا نے بتایا کہ ’یہ لڑکا انھیں گمراہ کرتا رہا۔‘

ان کے بقول ‘یہ ہم سے کہتا میں نے اسے وہاں دیکھا تھا کبھی کہتا وہاں دیکھا تھا۔ پھر نور کے ساتھ جانے والی اس کی چھوٹی بہن نے بتایا کہ یہی لڑکا اسے اپنے ساتھ لے کر گیا تھا۔ پھر ہم نے اسے پکڑ لیا۔‘

مقتولہ کے چچا کے مطابق ’ملزم ہمارے پکڑے جانے پر بھی بچی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے گریزاں تھا اور بچی کے متعلق غلط معلومات فراہم کرتا رہا لیکن ’تلاش کرنے پر بچی کا دوپٹہ مل گیا اور وہاں سے سراغ ملا کہ بچی پانی کی ٹینکی میں تھی۔ ہم نے اسے نکالا۔‘

اس نے پکڑ جانے کے بعد تفتیش پر بتایا کہ ایک رفیق نامی ٹیکسی والا بھی اس کے ساتھ تھا۔ ریاض علی شاہ نے بتایا کہ یہ لڑکا مقامی افراد کے گھروں میں کام کرتا تھا اور اس کی عمر 18 سال کے لگ بھگ ہے جبکہ شریک جرم رفیق نامی شخص قریباً 35 برس کا ہے۔

نوشہرہ ریپ
پانی کی وہ ٹینکی جہاں سے بچی کی لاش ملی

ریاض علی شاہ نے بتایا کہ ‘ہمارے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیا جائے اور دونوں کو پولیس کے حوالے کر دیا۔‘ انھوں نے بتایا کہ جس جگہ سے بچی کی لاش ملی وہ ان کے گھر سے محض دس منٹ کے فاصلے پر تھی لیکن یہ جگہ خالی اور ویران تھی اور وہاں درخت تھے۔

اس مقدمے میں ابدار مرکزی ملزم تھا جبکہ رفیق سہولت کار تھا۔ اس واقعے کے بعد مقامی سطح پر جرگے منعقد ہوئے اور علاقے کے لوگوں نے مشترکہ طور پر مطالبہ کیا تھا کہ اس واقعے میں ملوث مجرمان کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔

’نہیں معلوم تھا اپنی بیٹی سے آخری مرتبہ بات کر رہا ہوں‘

بچی کے والد اسجد خان جو گذشتہ سات برس سے ایک خلیجی ملک میں ملازمت کے لیے مقیم ہیں کو اس واقعے کی اطلاع ٹیلیفون پر دی گئی تھی اور وہ فوری طور پر پاکستان پہنچ گئے تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کی بیٹی مدرسے جانے سے پہلے ٹیلیفون پر ان سے بات کر رہی تھی، انھیں نہیں معلوم تھا کہ وہ اپنی بیٹی سے آخری مرتبہ بات کر رہے ہیں۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ساحل کے مطابق سال 2020 میں پاکستان بھر میں بچوں کے ساتھ ریپ کے تقریباً 2960 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں 51 فیصد لڑکیاں اور 49 فیصد لڑکے تھے۔ اسی طرح بچوں کے ساتھ ریپ اور جنسی تشدد کے بڑی تعداد میں مقدمات عدالتوں میں بھی زیر سماعت ہیں۔

نور
ابتدائی رپورٹ کے مطابق بچی کو گلا گھونٹ کر مارا گیا ہے

بچوں کے تحفظ کے قانون کی منظوری

خیبر پختونخوا میں 30 نومبر کو صوبائی کابینہ کے اجلاس میں بچوں کے تحفظ اور ویلفیئر کے مجوزہ قانون میں ترامیم کے بعد منظوری دے دی گئی ہے۔ اس قانون کے تحت بچوں کو ریپ یا جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والے مجرم کو سزائے موت دی جائے گی اور اس طرح بچوں کے ساتھ دیگر جرائم کی سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں۔

اس قانون کے تحت چائلڈ پورنو گرافی میں ملوث مجرمان کو 14 سال قید اور پچاس لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔ جبکہ بچوں کی ویڈیو بنا کر ان کو بلیک میل کرنے والے مجرمان کو دس سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

اس ترمیمی مسودے میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی غیر قانونی سمگلنگ میں ملوث مجرمان کو 25 سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس قانون میں یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث مجرم کی سزا کی ویڈیو بنا کر بھی جاری کرنی چاہیے لیکن اس تجویز کو منظور نہیں کیا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *