موئن جو دڑو کی ثمرین سولنگی، جو مٹی کو بھی ’سونا‘ بنا دیتی ہیں
ثمرین سولنگی جب پیدا ہوئیں تو ان کی دادی نے کہا ’یہ سونے کی انگلیوں والی لڑکی ہے۔‘
اور جب ثمرین نے مٹی میں اپنے ہاتھ ڈالے تو واقعی اس کو سونا بنا دیا۔
ثمرین سولنگی موئن جو دڑو کے قریب واقع گاؤں حاجی لال بخش شیخ میں رہتی ہیں۔ وہ چکنی مٹی سے زیورات اور موئن جو دڑو سے برآمد ہونے والی مورتیاں اور مہروں کے انداز میں اشیا بناتی ہیں۔
بیس سالہ ثمرین سولنگی کے چچا اور والد بھی موئن جو دڑو سے برآمد ہونے والے راہب، رقاصہ، مہریں اور ہاتھی وغیرہ کے طرز پر فنپارے بناتے تھے۔ انھوں نے یہ کام اپنے والد سے سیکھا تھا جو محکمہ آثار قدیمہ میں ایک چھوٹے سے ملازم تھے۔
ثمرین بتاتی ہیں کہ انھیں بچپن سے ہی مٹی سے چیزیں بنانے کا شوق تھا لہذا وہ سکول نہیں گئیں اور یہ ہی کام شروع کیا، اب وہ سب کچھ بنا لیتی ہیں۔
دریا کی مٹی
حاجی لال بخش شیخ گاؤں دریائے سندھ کے قریب واقع ہے جہاں سے یہ چکنی مٹی لاتے ہیں۔ مٹی کو پہلے سکھایا جاتا ہے، اس کے بعد کوٹ کر باریک کیا جاتا ہے۔ باریک مٹی کو معدہ کہتے ہیں۔ ثمرین کے مطابق معدہ نکالنے کے بعد باقی مٹی میں پانی ڈال کر اس کو گوندا جاتا ہے جبکہ معدہ اس میں مکس ہوتا ہے
ان کے پاس راہب یا کنگ پریسٹ کا سانچہ موجود ہے جبکہ باقی اشیا ہاتھ سے بنائی جاتی ہیں، جنھیں بنا کر سوکھنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ گرمیوں میں یہ ایک سے ڈیڑھ دن جبکہ سردیوں میں دو سے تین روز میں سوکھتے ہیں۔
مٹی کے زیورات
مٹی سے زیوارت بنانے اور پہننے کا رواج تو موئن جو دڑو سے لے کر صدیوں پرانا تھا، حال ہی میں اس فیشن نے ایک بار پھر انگڑائی لی ہے۔ انڈیا سمیت متعدد ممالک میں اب انھیں بنایا جارہا ہے۔
ثمرین سولنگی بتاتی ہیں کہ غیرسرکاری ادارے سندھ رول سپورٹ آرگنائزیشن نے انہیں جوئیلری بنانے کی تربیت فراہم کی۔ تین روزہ تربیت میں ان کے ساتھ دس کے قریب لڑکیاں تھیں اور ان میں سے ثمرین نے اس خیال کو مٹی کی طرح اپنا ذہن میں پکا لیا ہے۔
اب وہ مٹی سے جھمکے، بالیاں اور دیگر زیورات بنا لیتی ہیں۔ انھیں بنانے کے لیے ان کے پاس کوئی خصوصی آلات نہیں ایک ٹوٹی ہوئی چھری، بال پوائنٹ کا کیس اور ایک باکس ہے جس سے گولائی وغیرہ کرلیتی ہیں یہ سارے کمالات کسی سٹوڈیو یا کارخانے میں نہیں کچے گھر اور صحن میں ہوتے ہیں۔
’پہلے میں جھمکے کے گھنگھرو اور اوپر والی چکی بناتی ہوں۔ اس کے بعد نچلی کپی بنا کر اس کو پین سے ڈیزائن بناتی ہوں ان دونوں حصوں کو جوڑ کر سوکھنے کے لیے چھوڑ دیتی ہوں اس کے بعد گوبر کے اپلے ڈال کر اس کو پکاتی ہوں صبح کو یہ تیار ہو جاتے ہیں۔
ان مٹی کے زیورات پر ہر طرح کے رنگ کیے جاتے ہیں لیکن خاص طور پر جھمکیوں پر چاندی اور سونے کا رنگ زیادہ مقبول ہیں۔ ثمرین کے مطابق پہلے سنہری رنگ لگانے کے بعد اس پر سرخ اور سبز رنگ بھرا جاتا ہے جس سے یہ دلکش نظر آنے لگتا ہے۔
‘کورونا نے سوشل میڈیا کی طرف راغب کیا‘
ثمرین سولنگی کے گھر کا دال دلیا موئن جو دڑو آنے والے سیاحوں سے وابستہ تھا جو کورونا کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ گرمیوں میں سیاح کم آتے تھے اور سردیوں میں زیادہ لیکن کورونا کی وجہ سے سیاحوں نے یہاں کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے ان کے بنائی ہوئی مورتیاں اور مہریں وغیرہ فروخت نہیں ہوتی تھیں۔
سکھر کی طالبہ اقصیٰ شورو نے ثمرین سولنگی کی مدد کی اور انہیں سوشل میڈیا سے متعارف کرایا، جس سے ان کے اس ہنر نے پذیرائی حاصل کی اور انہیں مٹی کے زیورات کے آرڈر آرہے ہیں۔
’ہم بابا کے بیٹے ہیں‘
ثمرین سولنگی کے والد کا ہنر ان کی نسل کی بھی وارث ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ چھ بہنیں ہیں لیکن بھائی نہیں۔ ’بھائی کی کمی ہوتی ہے بھائی تو بھائی ہوتا ہے، ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ ہم بابا کے لیے بیٹے ہیں اور ہم بیٹوں والا ہی کام کرتے ہیں بابا کو کبھی بیٹے کی کمی ہونے نہیں دی، بیٹا تو بیٹا ہوتا ہے اگر بیٹیوں کو بھی اس نظر سے دیکھا جائے تو بیٹیاں بھی بیٹے ہی ہوتے ہیں۔
ثمرین کے والد کی طبعیت ٹھیک نہیں رہتی وہ کام کاج نہیں کرتے بلکہ بیٹیوں کا اس ہنر میں ہاتھ بٹاتے ہیں ثمرین اور ان کی بہنیں ان کی خیال رکھتی ہیں۔ وہ صبح سویر اٹھتی ہیں اور مٹی سے مورتیاں، مہریں تو کبھی زیورات بنا شروع کردیتی ہیں ایک جھمکا بنانے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے رنگ وروغن سمیت فی جھمکے کی قیمت تین سو رپے ہے۔ ‘جو آمدن ہوتی ہے اس سے صرف گذارہ ہوتا ہے کیونکہ راشن کے علاوہ رنگ و دیگر سامان کے علاوہ پیکنگ بھی خرید کرنی ہوتی ہے۔‘
جب میں نے ثمرین سے معلوم کیا کہ ان کا خواب یا خواہش کیا ہے؟ تو انھوں نے حسب عادت مسکراتے ہوئے کہا کہ میری تو کوئی خواہش نہیں میں نے پوچھا کہ کچھ تو ہوگا تو وہ ایک بار مسکرائی اور کہا کہ میں گھر والوں اور بنہوں کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔