محمد علی سدپارہ کے ٹو پر لاپتہ ہونے والے کوہ پیما

محمد علی سدپارہ کے ٹو پر لاپتہ ہونے والے کوہ پیما

محمد علی سدپارہ کے ٹو پر لاپتہ ہونے والے کوہ پیما اور ان کے ساتھیوں جان سنوری اور پابلو موہر کی ’لاشیں مل گئیں

دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سردیوں میں سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہونے والے پاکستانی کوہ پیما علی سد پارہ کی لاش کے ٹو پہاڑ کے ’بوٹل نیک‘ کے قریب مل گئی ہے۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق گلگت بلتستان کے وزیر اطلاعات فتح اللہ خان نے تصدیق کی ہے کہ محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں جان سنوری اور ہوان پابلو موہر کی لاشیں مل گئی ہیں۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ لاشوں کو فوج کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے منتقل کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پہلے علی سد پارہ اور جان سنوری کی لاشیں ملنے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں لیکن کے ٹو پر مہمات کا انتظام کرنے والی کمپنیوں اور ہون پابلو موہر کے مینیجر فیڈریکو شیچ نے ان کی لاش ملنے کی بھی تصدیق کی ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ محمد علی سد پارہ کی لاش کے ٹو کے ’بوٹل نیک‘ سے 300 میٹر نیچے جبکہ پہلی لاش ’بوٹل نیک‘ سے 400 میٹر نیچے ملی ہے (کے ٹو کے کیمپ فور سے اوپر ڈیتھ زون میں 8200-8400 میٹر کے درمیان ایک راک اینڈ آئس گلی موجود ہے، کیونکہ اس کی شکل بوتل کی گردن کی طرح دکھتی ہے لہذا اسے بوٹل نیک کہتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے کےٹو سر کرنے کی کوشش کرنے والے کوہ پیماؤں کو ہر حال میں گزرنا پڑتا ہے، اس کا کوئی متبادل راستہ موجود نہیں ہے اور یہ کے ٹو کا سب سے مشکل ترین حصہ ہے)۔

یاد رہے کہ پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو موہر کو پانچ فروری کو آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلندی پر کے ٹو کی چوٹی کے قریب آخری مرتبہ علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے دیکھا تھا جو آکسیجن ریگولیٹر کی خرابی کی وجہ سے مہم ادھوری چھوڑ کر واپس آنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ اس مہم میں بطور ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر شریک تھے۔

تقریباً دو ہفتے تک زمینی اور فضائی ذرائع کا استعمال کرنے کے بعد حکام نے 18 فروری کو علی سدپارہ سمیت لاپتہ ہونے والے تین کوہ پیماؤں کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی تلاش کے لیے جاری کارروائی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

ساجد سدپارہ اپنے والد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو موہر کی لاشوں کی تلاش کے سلسلے میں اس وقت کے ٹو پر موجود ہیں اور ان کے ہمراہ کینیڈین فوٹو گرافر اور فلم میکر ایلیا سیکلی اور نیپال کے پسنگ کاجی شرپا بھی ہیں۔

ہوان

ساجد سد پارہ کی ریسکیو مہم کے انتظامات کرنے والی کمپنی جیسمن ٹورز کے بانی اور پاکستان میں ہیڈ آف ریسکیو مشن فار پاٹو (پاکستان ٹور آپریڑ ایسوسی ایشن) اصغر علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تین لاشیں ملنے کی تصدیق کی ہے۔ ان کے مطابق یہ تینوں لاشیں لاپتہ کوہ پیماؤں علی سدپارہ، جان سنوری اور جان پابلو موہر کی ہی ہیں۔

ان کے مطابق آرمی کی طرف سے ان کے لئیزن آفیسر جن کا بذریعہ ریڈیو ساجد سدپارہ سے رابطہ ہے، تصدیق کی ہے کہ یہ لاشیں علی سدپارہ، جان سنوری اور ہوان پابلو موہر کی ہیں۔

اس سے پہلے کے ٹو پر مہمات کا انتظام کرنے والی کمپنی مہاشا برم ایکسپیڈیشن کے مالک محمد علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے علی سدپارہ کی لاش ملنے کی تصدیق کی تھی۔

مہاشا برم ایکسپیڈیشن کے مالک محمد علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ٹیم میں شامل رسیاں لگانے والے شرپاؤں کو ’بوٹل نیک‘ کے قریب دو لاشیں ملی ہیں جن میں سے ایک کی شناخت کر لی گئی ہے اور وہ محمد علی سد پارہ کی لاش ہے جبکہ دوسری لاش کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔

محمد علی کے مطابق ان کی مختلف ممالک کے 19 کوہ پیماؤں پر مشتمل ٹیم کے ٹو کی جانب رواں دواں تھی اور اس دوران سات شرپا (جن میں ان کی ٹیم کے چار شرپا) بھی شامل ہیں، سب سے پہلے رسیاں فکس کرنے اوپر جا رہے تھے۔ جب یہ سات افراد سمٹ کی جانب رسی فکس کرنے گئے تو کیمپ فور سے آگے بوٹل نیک کے قریب پہنچنے پر انھیں پہلے ایک لاش ملی اور گھنٹے بعد تقریباً سو میٹر اوپر جا کر دوسری لاش ملی۔

کچھ دیر بعد انھوں نے بتایا کہ تیسری لاش بھی مل گئی ہے۔

جے پی موہر، محمد علی سدپارہ اور جان سنوری (دائیں سے بائیں)
جے پی موہر، محمد علی سدپارہ اور جان سنوری (دائیں سے بائیں)

محمد علی سدپارہ کی لاش کی شناخت کیسے کی گئی ہے؟

محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کو پیش آنے والے حادثے کو تقریباً پانچ ماہ گزر چکے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ اتنا عرصے گزر جانے کے بعد ان شرپاؤں نے محمد علی سدپارہ کی لاش کیسے شناخت کی؟

محمد علی کے مطابق جس وقت ان کی ٹیم بیس کیمپ سے نکل رہی تھی اس وقت محمد علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ نے انھیں کچھ تصاویر اور نشانیاں بتائیں تھیں جن کی بنا پر علی سد پارہ کی لاش کی شناخت کی گئی ہے۔

محمد علی نے بتایا تھا کہ ان کی ٹیم نے ساجد سدپارہ تک یہ خبر پہنچا دی ہے اور لاشوں کو نیچے لانے کے متعلق فیصلہ ساجد ہی کریں گے۔

علی

لاشوں کی تصدیق سے متعلق سوال پر پاکستان میں ہیڈ آف ریسکیو مشن فار پاٹو (پاکستان ٹور آپریڑ ایسوسی ایشن) علی اصغر پورک کا کہنا تھا کہ ’اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا، ہمیں سب ہسٹری معلوم ہوتی ہے کہ کون کب گیا، کون کوہ پیمائی کر رہا ہے کون نہیں کر رہا اور کون ہلاک ہوا ہے۔۔۔ ہم ہر سال مہمات کرتے ہیں اور ہمیں ساری معلومات ہوتی ہیں۔‘

اصغر علی پورک نے یہ بھی بتایا کہ ’کل آرمی کے ہیلی کاپٹر جائیں گے اور سلنگ آپریشن (جس میں رسیوں کی مدد سے لاش اوپر لائی جاتی ہے) کے ذریعے لاشوں کو بیس کیمپ تک لانے کی کوشش کی جائے گی۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ آج سے قبل پاکستان میں ایسا آپریشن کبھی نہیں کیا گیا کہ اتنی اونچائی سے لاشوں کو نیچے لایا جائے۔ اصغر علی کے مطابق اس آپریشن کے لیے آرمی کو اپنے ہیلی کاپٹر میں سیٹیں اور پٹرول کم کر کے ہیلی کاپٹر کا وزن کم کرنا پڑتا ہے اور یہ انتہائی خطرناک آپریشن ہوتا ہے۔

’اگر آرمی کامیاب ہو گئی تو دنیا میں اتنی اونچائی سے لاش نیچے لانے کا یہ ایک ریکارڈ آپریشن ہو گا۔‘

کے ٹو

’جب تک ان لاشوں کو 7000 میٹر تک نہیں لایا جاتا، دنیا کا کوئی سلنگ آپریشن ممکن نہیں

کوہ پیمائی کے ماہر مہم جو عمران حیدر تھہیم کے مطابق پاکستان آرمی کے پاس کوئی ایسا ہیلی کاپٹر موجود نہیں ہے جو 7000 میٹر سے اوپر پرواز کر سکے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ لاشیں 8200-8300 میٹر کے آس پاس پائی گئی ہیں۔

’لہذا ان لاشوں کو جہاں یہ موجود ہیں ( 8200-8300 میٹر) وہاں سے ورٹیکل 7000 میٹر نیچے تک لانا پڑے گا جو کے ٹو کا ’بلیک پیرامڈ سیکشن‘ ہے اور یہ بہت زیادہ پتھریلا حصہ ہے۔ کوہ پیماؤں کو ہر حال میں یہاں تک لاشوں کو اٹھا کر لانا پڑے گا۔‘

عمران کے مطابق اس کام کے لیے ایک منظم اور مربوط کوشش کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ’دو تین بندوں کے بس کا کام نہیں ہے‘۔

ان کے مطابق لاشوں کو 7000 میٹر تک لانے کے لیے کم از کم 10-15 ایکلیمٹائزڈ (سطح سمندر سے بلندی پر آکسیجن کی کمی کے ساتھ انسانی جسم کے موافقت اختیار کرنے کے عمل کو ایکلیمٹائزیشن کہتے ہیں) کوہ پیماؤں کی ضرورت ہے اور ’جب تک ان لاشوں کو 7000 میٹر تک نہیں لایا جاتا، دنیا کا کوئی سلنگ آپریشن ممکن نہیں ہے۔‘

یاد رہے کہ ہیلی کاپٹر سے ریکسیو لانگ لائن کے ذریعے کیا جاتا ہے یعنی ہیلی کاپٹر اوپر جا کر لانگ لائن کی رسی نیچے پھینکتا ہے اور نیچے سے زندہ انسان یا لاش کو اس کے ساتھ باندھ کر اوپر اٹھا لیا جاتا ہے۔

instagram\@eliasaikaly

رواں برس 18 فروری کو اپنے والد سمیت تینوں کوہ پیماؤں کی موت کا اعلان ساجد سدپارہ نے سکردو میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ اس وقت ساجد کا کہنا تھا کہ ‘کے ٹو نے میرے والد کو ہمیشہ کے لیے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔’

اس وقت بیس کیمپ سے سکردو پہنچنے پر علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ نے بتایا تھا کہ جب انھیں ڈیتھ زون میں 8200 میٹر کی بلندی پر ہیلوسنیسیشن شروع ہوئی اور آکسیجن ماسک کا ریگولیٹر خراب ہو جانے کے باعث انھوں نے واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا اس وقت آخری بار انھوں نے اپنے والد علی سدپارہ کی ٹیم کو بوٹل نیک میں 8200-8300 میٹر پر بہت اچھی اور فٹ حالت میں سمٹ کی جانب رواں دواں دیکھا تھا۔

ساجد کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں لگتا ہے کہ ان کے والد نے سمٹ کیا ہے (یعنی کے ٹو کی چوٹی تک پہنچے ہیں) اور ان کے ساتھ جو بھی حادثہ ہوا وہ سمٹ سے واپسی کے سفر میں بوٹل نیک یا کہیں نیچے ہوا۔

اینجیلا
ایکسپلورلز ویب سے وابستہ کوہ پیمائی پر مہارت رکھنے والی معروف صحافی اینجیلا بیناودیس، ایورسٹ ٹو ڈے اور رشئن کلائمب نے بھی اپنے ذرائع کی بنیاد پر لاپتہ کوہ پیماؤں کے ملنے کی تصدیق کی ہے

دو ہفتوں کی تلاش کے دوران محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی تلاش کے لیے پاکستان فضائیہ کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس خصوصی طیارے نے آٹھ ہزار چھ سو گیارہ میٹر سے اوپر پروازیں کی تھیں اور کے ٹو کی چاروں اطراف سے خصوصی فلم بندی اور ہائی ایچ ڈی کیمروں کی مدد سے تصاویر لی گئیں تھیں۔

سرچ آپریشن کے دوران آئس لینڈ اور چلی نے بھی سیٹلائٹ تصاویر جاری کی تھیں جس میں محمد علی سدپارہ اور ٹیم کے اس آخری مقام کی نشاندہی کی گئی تھی جہاں ان سے آخری بار رابطہ ہوا تھا۔

اس سرچ کے دوران زمینی راستوں سے بھی ان تینوں کوہ پیماؤں کی لاشیں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم اس مقصد میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی تھی۔

اس وقت بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مہم جو عمران حیدر تھہیم نے بھی یہی اندازہ لگایا تھا کہ جون جولائی میں سمٹ کے لیے آنے والوں کو ان تین افراد کی لاشیں ملنے کا امکان ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *