مریم نواز کی بطور چیف آرگنائزر تقرری سے

مریم نواز کی بطور چیف آرگنائزر تقرری سے

مریم نواز کی بطور چیف آرگنائزر تقرری سے مسلم لیگ کیا حاصل کر پائے گی؟

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر نائب صدر کے عہدے پر تقرر کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں وزیر اعظم شہباز شریف نے بطور پارٹی صدر ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے مطابق مریم نواز کو نائب صدارت کا عہدہ دینے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر بھی مقرر کیا گیا ہے۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ وہ اب پارٹی کی ہر سطح پر تنظیمِ نو بھی کریں گی۔

مسلم لیگ ن کی سیاسی تاریخ میں مریم نواز شریف وہ پہلی خاتون ہیں جنھیں سینیئر نائب صدر بنایا گیا ہے اور چیف آرگنائزر بھی۔

خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن میں مریم نواز کے علاوہ چار دیگر پارٹی نائب صدور بھی ہیں، جن میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سرتاج عزیز، یعقوب ناصر اور صابر شاہ شامل ہیں۔ تاہم پارٹی رہنماؤں کے مطابق چیف آرگنائزر کا عہدہ پہلے پارٹی سٹرکچر میں موجود نہیں تھا اور یہ خاص طور مریم نواز کے لیے بنایا گیا ہے۔

مریم پارٹی کا ’پاپولر اور پسندیدہ چہرہ‘

بطور سینیئر نائب صدر مریم نواز مسلم لیگ ن کے سیاسی اور تنظیمی محاذ پر ذمہ داریاں سنبھالیں گی۔ پارٹی رہنماؤں کے مطابق نئے عہدے کے تحت ان کا مقصد ملک کے موجودہ حالات، آنے والے انتخابات اور نواز شریف کی واپسی کا راستہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کو متحرک اور فعال بنانا ہے۔

بعض سیاسی مبصرین اس اقدام کو نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار کرنے کی ایک کوشش کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں تو دوسری جانب یہ رائے بھی موجود ہے کہ غالباً اب نواز شریف کی واپسی سے قطع نظر مریم نواز ہی مسلم لیگ ن کی قیادت سنبھالیں گی۔

ان کی اس عہدے پر تقرری کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں مختلف رائے پائی جاتی ہیں مگر اس پر اتفاق ہے کہ مسلم لیگ ن کی ازسرنو تنظیم سازی کا اصل مقصد رواں برس ہونے والے انتخابات میں جماعت کی ’کھوئی ہوئی ساکھ‘ کو بحال کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے مریم نواز ہی ’بہترین آپشن‘ ہیں۔

ایک طرف مسلم لیگ ن کے رہنما مریم نواز کے معاملے پر اس بات پر قائل نظر آتے ہیں کہ انھوں نے مشکل دور میں پارٹی کو متحد رکھا اور وہ اس وقت مسلم لیگ ن کا ایک ’پاپولر‘ اور ’عوامی سطح پر پسندیدہ چہرہ‘ ہیں جبکہ پارٹی کے کارکن بھی بڑی حد تک ان پر اعتماد کرتے ہیں۔

دوسری جانب ان کے سیاسی مخالفین خصوصاً پاکستان تحریک انصاف پُراعتماد ہیں کہ مریم نواز کی کسی بھی کردار میں موجودگی اور مسلم لیگ نواز کی تنظیم نو ان کے لیے بڑا خطرہ نہیں ہے۔

 تجزیہ کاروں کے مطابق انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کو مریم نواز کی ضرورت تھی اور پارٹی نے اپنی ضرورت کے تحت ان کی خدمات حاصل کی ہیں۔

مریم

’مریم نواز اپنی سیاسی جماعت کا مقدمہ لڑنا جانتی ہیں‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مریم نواز کے قریب سمجھے جانے والے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ مریم نواز اپنی سیاسی جماعت کا مقدمہ لڑنا بھی جانتی ہیں اور مخالفین کے مقدمے کے پوسٹ مارٹم بھی کرتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’مریم نواز کی مسلم لیگ ن میں ایک طویل جدوجہد رہی ہے۔ جب پارٹی مشکل دور سے گزر رہی تھی اور ہمارے رہنماوں گرفتار کیا گیا، مریم نے اس وقت پارٹی کو قیادت فراہم کی اور بڑے عوامی اجتماعات کیے۔ انھیں گرفتار بھی کیا گیا، انھوں نے جیل بھی کاٹی مگر اپنے موقف پر قائم رہیں۔‘

پروہز رشید کے مطابق آج پارٹی کو ملنے والی کامیابیوں کے پیچھے اصل حکمت عملی مریم نواز کی ہی ہے۔

ماضی میں مریم نواز اسٹیبشلمنٹ کے سیاست میں مبینہ کردار پر سخت اور کُھل کر تنقید کرتی رہی ہیں، مگر حالیہ دنوں میں انھیں اس تنقید کا سامنا رہا ہے کہ انھوں نے اپنے اسی بیانیے میں لچک دکھائی ہے۔

اسی بارے میں سوال پر پرویز رشید نے کہا کہ وہ شخصیات کی بجائے اس عمل کی مخالفت کرتی تھیں جس میں ادارے اپنے آئینی دائرے سے باہر نکل کر کام کر رہے تھے۔ ’مریم نواز نے تو اپنے بیانیے کو تسلیم کروایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا مقابلہ اپنے سیاسی مخالفین اور سیاسی قوتوں سے ہے، نہ کہ اداروں کے آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے سے۔ مریم اب انہی سیاسی مخالفین سے مقابلہ کریں گی۔‘

مریم مخالفین کے لیے ’بڑا خطرہ نہیں‘

لیکن ان کے سیاسی مخالفین یعنی پاکستان تحریک انصاف بظاہر ان کی اس پوزیشن کو بڑا خطرہ نہیں سمجھ رہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی سینیر رہنما شیریں مزاری کہتی ہیں کہ ’مریم نواز تو ہمارے ہی فائدے کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کے بیانات اور ناتجربہ کاری پی ٹی آئی کے مفاد میں ہے۔‘

مسلم لیگ ن کے سیاسی مخالفین کی طرف سے یہ اعتراض بھی کیا جا رہا ہے کہ مریم نواز شریف کی اس عہدے پر تعیناتی سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ جماعت کی جڑوں میں فی الحال روایتی اور خاندانوں پر مبنی سیاست بیٹھی ہوئی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی جماعتیں اس وقت تک ریوائیو نہیں ہو سکتیں جب تک وہ جدید دور کی سیاست شروع نہیں کرتیں۔

فواد چودھری کا کہنا تھا ’انھیں یہ احساس نہیں ہو رہا کہ پاکستان کی پچاس فیصد سے زائد آبادی کی عمر اٹھائیس سال سے کم ہے۔ ان کے پاس انٹرنیٹ تک رسائی ہے اور وہ مہذب اور جمہوری دنیا میں جاری ماڈرن سیاست جیسا نظام پاکستان میں بھی چاہتے ہیں۔ لیکن مسلم لیگ ن کی سیاست فی الحال روایتی اور چند خاندانوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے وہ آگے نہیں بڑھ پاتے۔‘

شیریں مزاری بھی اپنے ساتھی فواد چودھری کی طرح مریم نواز کی اس عہدے پر تعیناتی کو موروثی سیاست کا تسلسل سمجھتی ہیں۔ ان کے مطابق ’پارٹی کے سینیئر اور وفادار رہنماوں کی بجائے مریم نواز کو ایسے عہدے پیش کرنا دراصل ان کی اپنی جماعت میں ہی اختلافات اور مایوسی کا باعث بنے گا۔ وہ ہمارے لیے مسئلہ نہیں بنیں گی، وہ مسلم لیگ ن کے لیے ہی مسئلہ بنیں گی۔‘

تاہم سینیٹر پرویز رشید ایسے بیانیے سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’ شہباز شریف کو بھی مریم پر اعتماد ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ نوٹیفکیشن کیا ہے، پارٹی میں ان کی تعیناتی پر کوئی اختلافات نہیں ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’پارٹی میں مریم نواز کو پسند اس لیے کیا جاتا ہے کہ وہ میرٹ پر فیصلے کرتی ہیں، اور ہماری روایت بھی ہے کہ ہم مشکل وقت میں ساتھ رہنے والوں کو عہدوں پر فوقیت دیتے ہیں۔‘

مریم

’مریم پارٹی کو مایوسی سے نکالیں گی؟‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک وفاقی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ انتخابات کی باگ ڈور مریم کے ہاتھ میں دینے سے پارٹی کے ان ’جہاندیدہ سیاست دانوں میں کچھ تلخی ضرور ہے جو سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کی سیاست موقف میں انتہاپسندی کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔ ہم اداروں کو ان کے آئینی دائرے میں رکھتے ہوئے ساتھ لے کر چلنے کے قائل ہیں، مگر انتخابی مہم کے دوران مریم نواز کا بیانیہ کچھ مشکل پیدا کر سکتا ہے۔ اور یہ خود نواز شریف کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ بھی بن سکتا ہے۔‘

لیکن ان کی اس رائے سے تجزیہ کار سلمان غنی اتفاق نہیں کرتے۔ وہ سینیئر صحافی ہیں اور کئی دہائیوں سے خصوصاً پنجاب میں مسلم لیگ ن کی سیاست پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مریم نواز مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو ’مایوسی‘ سے نکالیں گی۔

’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مریم نواز حکومتی پالیسیوں کا دفاع کریں گی تو ایسا بالکل نہیں ہے۔ حکومتی پالیسی کی تائید کی بجائے یہ مہنگائی اور بے روزگاری کی بات کرتی نظر آئیں گی۔ ایک جارحانہ حکمتی عملی اختیار کی جائے گی اور یہ مایوسی سےنکالنے میں کامیاب ہوں گی۔‘

سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’پارٹی کی صفوں میں ان کی جڑیں ہیں اور مسلم لیگ ن کا سیاسی ورکر نواز شریف کے بعد مریم نواز کی طرف دیکھتا ہے۔ یہ عمران خان کے دور میں ان کی مخالف آواز بن کر باہر نکلی تھیں۔ اور خاص طور پر پنجاب میں پارٹی کو فعال بنانے کے لیے مریم نواز ہی کی ضرورت تھی۔ شہباز شریف انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں مگر اب مسلم لیگ ن کے سیاسی معاملات مریم نواز کے ہاتھ میں ہی ہوں گے۔‘

ان کے مطابق یہ تاثر غلط ہے کہ مریم نواز اور مسلم لیگ ن نے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور حکومت میں آئے، ’مریم نواز نے عدم اعتماد تحریک کے بعد حکومت کرنے کی مخالفت کی تھی، اور یہی موقف نواز شریف کا بھی تھا کہ چند ترامیم کر کے فوری الیکشن کروائے جائیں۔‘

مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید بھی سمجھتے ہیں کہ مریم نواز نے ماضی میں ثابت کیا کہ ان کی سٹریٹجی سے پارٹی کو فائدہ ہوا ہے اور وہ مشکل سے نکلی ہے اور اب ایک نئے انداز میں انتخابات میں جا رہے ہیں، ’وہ جو منصوبہ بنایا جا رہا تھا کہ 2023 کے انتخابات کو ہائی جیک کیا جائے گا، وہ ناکام ہوا ہے، اس کے کردار بے نقاب ہوئے ہیں اور یہ سب مریم نواز نے ہی کیا ہے۔‘

اس سوال پر کہ کیا مریم نواز اب نواز شریف کی جگہ لیں گی یا ان کی واپسی کی راہ ہموار کرنے میدان میں آ رہی ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری سمجھتے ہیں کہ ’نواز شریف کی واپسی اب ممکن نہیں رہی ہے۔ ہم تو جب حکومت میں تھے، یہی کہتے تھے کہ وہ واپس آئیں، مریم تو ہمارے لیے کوئی تھریٹ ہی نہیں ہیں۔ نواز شریف واپس نہیں آئیں گے اور اب ایسا لگتا ہے کہ مریم نواز ہی مسلم لیگ ن کی قیادت کریں گی۔‘

تاہم سینیٹر پرویز رشید کے مطابق نواز شریف کی وطن واپسی اور الیکشن مہم اب مکمل طور پر مریم کے سر ہو گی، پرویز رشید کے مطابق ’یہ نواز شریف کی واپسی کی جانب پہلا قدم ہے۔ نواز شریف کی قیادت اور رہنمائی مریم نواز کو حاصل ہو گی۔‘

سلمان غنی کے مطابق آج یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ مریم نواز آئندہ انتخابات میں کوئی بڑا اپ سیٹ کریں گی مگر وہ پارٹی کو مایوسی سے نکالنے کی کوشش ضرور کریں گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *