انڈیا کا سب سے زیادہ آسیب زدہ‘ مقام

انڈیا کا سب سے زیادہ آسیب زدہ‘ مقام

انڈیا کا سب سے زیادہ آسیب زدہ‘ مقام جو یہاں جاتا ہے وہ زندہ نہیں لوٹتا‘، مگر ان دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟

جو بھی غروب آفتاب کے بعد یہاں آتا ہے وہ زندہ واپس نہیں لوٹتا۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں اندھیرے میں آنے والے یا تو مر جاتے ہیں یا گُم ہو جاتے ہیں۔‘

ٹور گائیڈ سنتوش پراجپت نے  بھانگڑھ قلعے کی کہانی سنانے کی ابتدا کچھ ان الفاظ میں کی۔

یہ وہ قلعہ ہے جہاں نصب بورڈ پر واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ غروب آفتاب کے بعد سے طلوع آفتاب تک یہاں داخلہ سختی سے ممنوع ہے۔ مقامی روایتوں کے مطابق یہ قلعہ آسیب زدہ ہے اور اسے انڈیا کا ’سب سے آسیب زدہ‘ مقام قرار دیا جاتا ہے۔

بھانگڑھ قلعے کی تعمیر 16ویں صدی میں ہوئی تھی اور یہ راجہ مادھو سنگھ کی سلطنت کا صدر مقام یا مرکز تھا۔ مگر تعمیر اور آبادکاری کے چند ہی برس بعد اس کے مکین اسے چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے اور مقامی روایات کے مطابق ایسا اس لیے ہوا کیونکہ ایک مقامی جادوگر (تانترک) نے اس قلعے کی رانی کو حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد قلعے اور اس کے رہائشیوں پر جادو کر دیا تھا۔

ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر وینے کمار گپتا کے مطابق انڈیا میں اس قلعہ کو ’سب سے آسیب زدہ‘ جگہ قرار دیا جاتا ہے جہاں بھوت پریت بستے ہیں۔

ڈاکٹر وینے کمار گپتا کے مطابق اس قلعے کی تعمیر کا آغاز سنہ 1570 کے لگ بھگ شروع ہوئی تھی اور اس کی تعمیر کا کام لگ بھگ سنہ 1600 میں مکمل ہوئی۔ آمیر کے راجہ بھان سنگھ کے نام پر اس قلعے کا نام رکھا گیا تھا۔ بھان سنگھ کا دوسرا معروف نام مان سنگھ بھی تھا۔

قلعہ

ٹور گائیڈ سنتوش پراجپت کے مطابق مادھو سنگھ یہاں کے راجہ تھے جبکہ رتناوتی اُن کی ملکہ تھیں اور یہ قلعہ راجہ مادھو سنگھ کی سلطنت کا ابتدائی دارالخلافہ تھا۔

سنتوش کے مطابق ’یہ قلعہ لگ بھگ ساڑھے چار سو سال پرانا ہے۔ اور یہ انڈیا بھر میں معروف اس لیے ہے کہ اسے ملک کی سب سے آسیب زدہ جگہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بھوت پریت کی کہانیوں کے حوالے سے انڈیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہ مشہور ہے کہ یہاں اب صرف بھوت بستے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ رات کے وقت یہاں عجیب و غریب آوازیں سنائی دی جاتی ہیں، جو بھی رات کے وقت یہاں آتا ہے وہ زندہ بچ پر واپس نہیں نکلتا ہے یا پھر کہیں کھو جاتا ہے۔ شروعات میں یہاں چند اموات ہوئی تھیں اور اب کہا جاتا ہے کہ مرنے والوں کی روحیں اس قلعے میں بھٹکتی ہیں۔‘

انڈیا پیرانارمل سوسائیٹی سے تعلق رکھنے والے سدھارتھ بنٹوال کہتے ہیں کہ ’بھانگڑھ کے حوالے سے چند لوک داستانیں مشہور ہیں جو آپ نے بھی ضرور سنی ہوں گی۔ اس میں سب سے معروف داستان رانی رتناوتی کے حوالے سے ہے۔ وہ حسین و جمیل ملکہ تھیں جو قلعہ کے اندر ہی رہتی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس پورے قلعے کی انچارج تھیں۔‘

’اور پھر اس کے بعد اس جادوگر (تانترک) کی کہانی ہے جو رانی کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس جادوگر نے رانی کی توجہ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس کی یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس ناکامی کے بعد تانترک نے اس قلعے کے باسیوں کو بددعا دی اور اس نے اس امر کو یقینی بنایا کہ یہ قلعہ تباہ و برباد ہو جائے۔‘

ٹور گائیڈ سنتوش پراجپت نے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس قلعے کے اوپر چھتری نما واچ ٹاور ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سنگھ سیودا نامی تانترک رہتا تھا۔ ’(رانی کو حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد) تانترک نے بھانگڑھ قلعے پر جادو کر دیا جس کے نتیجے میں 24 گھنٹے کے اندر اندر اس مضبوط قلعے کا بیشتر حصہ تہس نہس ہو گیا۔ یہ شاید سنہ 1605 کی بات ہے جب اس قلعے میں آباد افراد کی تعداد 14 ہزار کے لگ بھگ تھی۔  انھی 24 گھنٹوں کے دوران کچھ ایسی آفت پڑی کہ راجہ سمیت یہاں بسنے والی آدھی آبادی یہاں سے نکل کر بھاگ گئی۔‘

سنتوش کہتے ہیں کہ ’اس جگہ کو پرانا جے پور بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہاں بسنے والے یہاں سے بھاگ کر آمیر نامی علاقے میں جا بسے اور پھر یہاں انھوں نے موجودہ شہر جے پور کو بسایا۔ اب انڈیا میں ایک نیا جے پور ہے اور پرانا جے پور یہاں ہے۔‘

’بھانگڑھ میں جانوروں کے علاوہ کچھ نہیں‘

قلعہ

انڈیا پیرانارمل سوسائیٹی سے تعلق رکھنے والے سدھارتھ بنٹوال بتاتے ہیں کہ وہ بھانگڑھ کے متعدد دورے کر چکے ہیں۔ ’ہماری ٹیم نے سنہ 2012 میں رات کے اوقات میں بھانگڑھ کا دورہ کیا تھا۔ اور یہ پہلا موقع تھا کہ کسی پیرانارمل ٹیم نے اس جگہ کا دورہ کیا۔ ہماری ٹیم ایک رات یہاں رُکی اور معاملے کی مکمل تفتیش کی۔ ہماری ابتدائی تحقیق کی بنیاد وہ آلات تھے جو ہم یہاں لائے تھے اور جن کی مدد سے ہم نے ریڈنگز لیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آیا یہاں کوئی پیرانارمل ایکٹیویٹی تو نہیں۔‘

سدھارتھ کہتے ہیں کہ ’ہم نے اپنے آلات کو کوئی غیرمعمولی اُتار چڑھاؤ نہیں دیکھا۔ درحقیقت وہاں پر کچھ خاص ایکٹیویٹی تھی ہی نہیں جو ہم نے اس رات محسوس کی ہو یا ریکارڈ کی ہو۔‘

سدھارتھ بنٹوال کے مطابق اس علاقے میں انواع و اقسام کے جانور بستے ہیں جو طرح طرح کی آوازیں نکالتے ہیں، اس قلعے میں بہت سے بندر بھی رہتے ہیں جو عمومی طور پر یہاں موجود درختوں پر پناہ لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان بندروں کی حرکت کی وجہ سے درختوں کی ٹہنیاں ہلتی ہیں، سوکھے پتے کچلے جانے کی آواز پیدا ہوتی ہے اور اس سب کی وجہ سے عجیب سے آوازیں آتی ہیں۔ یہاں کے حوالے سے مشہور کہانیوں اور قصوں کی وجہ سے شاید لوگوں پر سائیکلوجیل اثر ہوتا ہو گا۔‘

قلعے میں کیا کچھ ہے؟

قلعہ

ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر وینے کمار گپتا کہتے ہیں اس قلعے تک پہنچنے کے لیے آپ کو دیواروں کے تین متوازی سلسلوں کو پار کر کے جانا پڑتا ہے۔ ’اس قلعے کے آغاز میں ان دکانوں کے آثار ہیں جہاں شاید اشیائے ضروریہ فروخت کی جاتی ہوں گی، یہاں جوہری بازار ہے جہاں سُناروں کی دکانیں ہوتی ہوں گی، کچھ ایسی چھوٹی چھوٹی عمارتیں ہیں جہاں شاید انٹرٹینمنٹ سے متعلقہ امور ہوتے ہوں گے، ایک جگہ ہے جسے رقاصوں کی حویلی بھی کہا جاتا ہے۔‘

’اس قلعے میں جو امیر کبیر افراد بستے تھے ایک حصہ ان کے لیے بھی مخصوص تھا۔ چونکہ راجہ دربار اور عدالت لگاتے ہوں گے اس لیے اس سے مخصوص چند سٹرکچرز بھی ہیں۔ چونکہ اس دور میں جنگوں میں گھوڑوں اور ہاتھیوں کا بکثرت استعمال ہوتا تھا اس لیے اس قلعے میں ان جانوروں کے باڑے اور اصطبل بھی موجود ہیں۔ اس قلعے میں ایک خوبصورت محل بھی ہے جو راجہ اور اس کی رانیوں کے لیے مخصوص تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’سکیورٹی کے تناظر میں دیکھیں تو ہر قلعے میں واچ ٹاور ہوتا ہے جس کی مدد سے قلعہ کے باسیوں اور بیرونی حملہ آوروں پر نظر رکھی جاتی تھی، ایسا ہی واچ ٹاور یہاں بھی ہے جو پہاڑ کی اونچائی پر موجود ہے۔ اس کی مدد سے ناصرف دشمنوں اور حملہ آوروں پر اپنے قلعے کے باسیوں پر نظر رکھی جاتی تھی۔ اس سب کے علاوہ قیدیوں اور دشمنوں کو بند کرنے کے لیے یہاں ایک جیل بھی بنائی گئی تھی۔‘

یہ قلعہ ساریسکا ٹائیگر ریزرو کے بہت قریب واقع ہے۔ یہاں موجود تازہ پانی کے چینلز آبی اور جنگلی حیات کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔

ٹور گائیڈ سنتوش پراجپت کے مطابق ساریسکا ٹائیگر ریزرو اور جنگلاتی علاقہ ہونے کے باعث اس پورے علاقے میں بجلی کی سہولت موجود نہیں ہے۔ ’شام کے اوقات میں اس پورے علاقے پر اندھیرے کا راج ہوتا ہے۔ اور اندھیرے کی وجہ سے یہاں بہت زیادہ چمگادڑیں ہوتی ہیں، جبکہ ٹائیگر اور تیندووں سمیت دیگر جانور بھی یہاں بستے ہیں اور ان جانوروں کی وجہ سے رات کے اوقات میں یہاں خطرہ ہوتا ہے۔‘

مگر اس قلعے کو چھوڑا کیوں گیا؟

قلعہ

ڈاکٹر وینے کمار گپتا کہتے ہیں کہ اگر آثار قدیمہ کی زبان میں بات کی جائے تو ایک اچھی خاصی جگہ کو اس کے مکین کیوں چھوڑ جاتے ہیں اس کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں۔ مثال کی طور پر اگر کسی جگہ اشیائے ضروریہ یا زندگی کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے درکار ذرائع اور چیزیں موجود رہتی ہیں تو وہ جگہ کبھی چھوڑی نہیں جاتی۔

’مگر اگر کوئی ایسا بڑا بیرونی حملہ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہاں کے رہائشیوں کو نکلنا پڑے تو جگہیں ویران ہو جاتی ہیں۔ شاید ایسی ہی کوئی وجہ ہو گی جس کی وجہ سے یہاں کے باسیوں کو اس علاقے کو چھوڑنا پڑا ہو گا۔‘

ان کے مطابق ’یہ بھی ممکنات میں سے ہے کہ شاید کوئی اتنا بڑا قحط آیا ہو کہ جس کی وجہ سے اس علاقے میں موجود تازہ پانی کے قدرتی ذرائع سوکھ گئے ہوں اور یہاں کے رہائشیوں کو اس علاقے کو چھوڑنا پڑا ہو۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *