لوٹی ہوئی دولت کے ساتھ لایا گیا ایتھوپیا کا شہزادہ جسے تاج برطانیہ نے کبھی واپس نہ کیا
بکنگھم پیلس نے ایتھوپیا کے ایک شہزادے کی باقیات واپس کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے جنھیں 19ویں صدی میں ونڈسر کاسل میں دفن کیا گیا تھا۔
صرف سات سال کی عمر میں شہزادہ علیمایو کو برطانیہ لے جایا گیا تھا لیکن سفر میں ان کی والدہ کی وفات ہوگئی اور اس طرح وہ ایک یتیم کی حیثیت سے وہاں پہنچے۔
ان کے خاندان کا حصہ فاسل میناس نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم ان کی باقیات کو بطور خاندان اور ایتھوپیا کے باشندوں کے طور پر واپس چاہتے ہیں کیونکہ یہ وہ ملک نہیں ہے جہاں وہ پیدا ہوئے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ان کے لیے برطانیہ میں دفن رہنا ’درست نہیں۔‘
ملکہ وکٹوریہ کی درخواست پر شہزادے کی مالی امداد شاہی خاندان نے کی لیکن سنہ 1879 میں سانس کی بیماری کی وجہ سے 18 سال کی عمر میں ان کی موت ہو گئی۔
بی بی سی کو بھیجے گئے ایک بیان میں بکنگھم پیلس کے ترجمان نے کہا کہ ان کی باقیات کو نکالنے سے ونڈسر کاسل میں سینٹ جارج چیپل کے تہہ خانوں کی قبروں میں دفن دیگر افراد کے باقیات متاثر ہو سکتے ہیں۔
بکنگھم پیلس کے ترجمان نے کہا: ’اس بات کا بہت امکان نہیں ہے کہ آس پاس کے دیگر کافی لوگوں کی باقیات کو چھیڑے بغیر (شہزادے کی) باقیات کو نکالنا ممکن ہو۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ چیپل کے حکام شہزادہ علیمایو کی باقیات کے احترام کے بارے میں تشویش میں مبتلا تھے، لیکن اس کے ساتھ یہ ان کی ذمہ داری بھی تھی کہ وہ ’مرنے والے کے وقار کو برقرار رکھیں۔‘
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماضی میں شاہی خاندان نے ’ایتھوپیا کے وفود کی طرف سے چیپل کا دورہ کرنے کی درخواستوں کا خیال رکھا ہے۔‘
اتنی کم عمری میں شہزادہ علیمایو کا برطانیہ پہنچنا اور پھر ان کی موت سامراجی کارروائیوں اور سفارت کاری کی ناکامی کا نتیجہ تھی۔
سنہ 1862 میں اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کے لیے شہزادے کے والد بادشاہ تیودروس دوم نے برطانیہ کے ساتھ اتحاد کی کوشش کی، لیکن اس بابت انھیں ان کے خطوط کا ملکہ وکٹوریہ کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔
تاج برطانیہ کی جانب سے خاموشی اور معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے سے ناراض ہو کر بادشاہ نے کچھ یورپیوں کو یرغمال بنا لیا جن میں برطانوی سفارتکار بھی شامل تھے۔ اس کے نتیجے میں انھیں بچانے کے لیے ایک بہت بڑی فوجی مہم شروع کی گئی جس میں تقریباً 13,000 برطانوی اور ہندوستانی فوجی شامل تھے۔
اس فوج میں برٹش میوزیم کے ایک اہلکار بھی شامل تھے۔
اپریل سنہ 1868 میں انھوں نے شمالی ایتھوپیا کے مقدالہ میں تیودروس کے پہاڑی قلعے کا محاصرہ کر لیا اور چند ہی گھنٹوں میں اس دفاع کو مغلوب کر دیا۔
بادشاہ نے انگریزوں کا قیدی بننے کے بجائے اپنی جان دینے کا فیصلہ کیا جس سے ان کے خیال میں وہ اپنے لوگوں میں بہادری کی مثال بن سکتے تھے۔
جنگ کے بعد انگریزوں نے ہزاروں ثقافتی اور مذہبی نوادرات کو لوٹ لیا۔ ان میں سونے کے تاج، مخطوطات، ہار اور ملبوسات شامل تھے۔
مورخین کا کہنا ہے کہ خزانے کو لے جانے کے لیے درجنوں ہاتھیوں اور سینکڑوں خچروں کی ضرورت تھی۔ اور یہ نوادرات آج یورپی عجائب گھروں اور لائبریریوں کے ساتھ ساتھ نجی ذخیروں میں بکھرے پڑے ہیں۔
انگریزوں نے شہزادہ علیمایو اور ان کی والدہ مہارانی ٹیرو ورک ووبے کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا۔
برطانوی نقطہ نظر سے یہ انھیں محفوظ رکھنے اور تیودروس کے دشمنوں کے ہاتھوں پکڑے جانے اور ممکنہ طور پر مارے جانے سے بچانے کے لیے تھا۔
‘دی پرنس اینڈ دی پلنڈر’ کے مصنف اینڈریو ہیونز کے مطابق ان کے دشمن مقدالہ کے قریب ہی تھے۔ انھوں نے اپنی تصنیف میں علیمایو کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا ذکر کیا ہے۔
جون سنہ 1868 میں برطانیہ پہنچنے کے بعد شہزادے کی مشکلات اور یتیمی نے ملکہ وکٹوریہ کی ہمدردی کے جذبے کو بیدار کیا۔ دونوں کی ملاقات آئل آف وائٹ پر ملکہ کے چھٹیاں گزارنے والے گھر میں ہوئی، جو انگلینڈ کے جنوبی ساحل کی دوسری طرف ہے۔
ملکہ شہزادے کی مالی مدد کرنے پر راضی ہوگئیں اور انھوں نے شہزادے کو کیپٹن ٹریسٹرم چارلس سویر سپیڈی کی سرپرستی میں ڈال دیا۔ یہ وہی شخص تھے جو ایتھوپیا سے شہزادے کو ساتھ لے کر آئے تھے۔
پہلے تو وہ آئل آف وائٹ پر ایک ساتھ رہتے رہے اور پھر کیپٹن سپیڈی انھیں ہندوستان سمیت دنیا کے دیگر حصوں میں لے گئے۔
لیکن پھر یہ طے پایا کہ شہزادے کو باقاعدہ تعلیم دی جانی چاہیے۔
انھیں برطانیہ کے پبلک سکول رگبی بھیجا گیا لیکن وہ وہاں خوش نہیں تھے۔ بعد میں انھیں سینڈہرسٹ کے رائل ملٹری کالج منتقل کر دیا گیا جہاں انھیں بُلیئنگ (تنگ کرنے) کا نشانہ بنایا گیا۔
ہیونس نے جن خطوط کا حوالہ دیا ہے اس کے مطابق شہزادے کو گھر واپس جانے کی ’خواہش‘ تھی۔ لیکن انھیں گھر واپس بھیجنے کے خیال کو فوراً ہی مسترد کر دیا گيا۔
شہزادے کے خاندان میں سے ایک ابے بیک کاسا نے بی بی سی کو بتایا: ‘میں ان کے لیے ایسا محسوس کرتی ہوں جیسے میں انھیں جانتی ہوں۔ وہ ایتھوپیا سے، افریقہ سے، سیاہ فام لوگوں کی سرزمین سے الگ کر دیے گئے تھے اور وہاں رہ رہے تھے جیسے کہ ان کا کوئی گھر ہی نہ ہو۔’
آخر کار علیمایو کو لیڈز کے ایک نجی گھر میں ٹیوشن دیا جانے لگا۔ لیکن وہ بیمار ہو گئے، ممکنہ طور پر نمونیا کی وجہ سے۔ اور ایک موقع پر تو انھوں نے علاج سے انکار کر دیا کیونکہ انھیں یہ خیال گزرا کہ انھیں زہر دیا گیا ہے۔
ایک دہائی کی جلاوطنی کے بعد شہزادے کی سنہ 1879 میں صرف 18 سال کی عمر میں وفات ہوئی۔
ان کی بیماری قومی پریس میں مضامین کا موضوع بن چکی تھی اور ملکہ وکٹوریہ ان کی موت سے غمزدہ تھیں۔
ان کی موت کا سن کر انھوں نے اپنی ڈائری میں ایک تعزیتی پیغام لکھا۔
انھوں نے لکھا کہ ‘ٹیلیگرام کے ذریعے یہ سن کر بہت غمگین اور صدمے میں ہوں کہ آج صبح ہی نیک علیمایو کی موت ہو گئی ہے۔ یہ بہت افسوسناک ہے! ایک اجنبی ملک میں، کسی بھی اپنے یا رشتہ دار کے بغیر، بے سرو سامانی میں۔‘
‘اس کی زندگی کوئی خوش گوار نہیں تھی، ہر طرح کی مشکلات سے بھری ہوئی تھی، اور بہت حساس تھی کہ لوگ اس کے رنگ کی وجہ سے اسے گھورتے ہیں۔۔۔ سب کو بہت افسوس ہے۔’
اس کے بعد انھوں نے شہزادے کی ونڈسر کاسل میں تدفین کا انتظام کیا۔
بہر حال ان کی لاش کو واپس کرنے کا مطالبہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
سنہ 2007 میں ملک کے اس وقت کے صدر گرما وولڈے جیورجس نے ملکہ الزبتھ دوم کو باضابطہ درخواست بھیجی تھی کہ شہزادے کی باقیات کو واپس بھیج دیا جائے، لیکن ان کی یہ کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔
مز ابے بیک نے کہا: ‘ہم اسے واپس چاہتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ وہ کسی غیر ملک میں رہے۔
‘ان کی زندگی اداسیوں سے بھری تھی۔ جب میں ان کے بارے میں سوچتی ہوں تو میں رو پڑتی ہوں۔ اگر وہ ان کی باقیات واپس کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں تو میں اسے یہ سمجھوں گی کہ جیسے وہ زندہ گھر واپس آئے ہوں۔’
انھیں امید تھی کہ نئے ولی عہد بادشاہ چارلس سوم کی طرف سے مثبت جواب ملے گا۔
برطانیہ اور ایتھوپیا کے مابین تعلقات کے ماہر پروفیسر الولا پینخرسٹ نے کہا: ‘واپس کرنا مصالحت پیدا کرنے کا ایک طریقہ ہے جو ماضی کی غلطیوں کا اعتراف بھی ہے۔’
ان کا خیال ہے کہ باقیات کی واپسی ‘برطانیہ کے لیے اپنے ماضی پر نظر ثانی کا ایک طریقہ ہو گا۔ یہ اس کی سامراجی ماضی کے ساتھ مصالحت ہو گی۔’