ظہیر عباس 274 رنز کی وہ اننگز جس نے گمنام پاکستانی

ظہیر عباس 274 رنز کی وہ اننگز جس نے گمنام پاکستانی

ظہیر عباس 274 رنز کی وہ اننگز جس نے گمنام پاکستانی بلے باز کو ایشیئن بریڈمین بنا دیا

یہ 60 کے عشرے کا ذکر ہے۔ کراچی کے اسلامیہ کالج میں چار ایسے نوجوان تعلیم حاصل کر رہے تھے جو عملی زندگی میں اپنے اپنے شعبوں میں شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچے۔

میر جاوید رحمان نے صحافت میں اپنے والد کی روایات کو آگے بڑھایا، اُن کے ساتھ ڈیسک پر بیٹھنے والے نوجوان نے اصلاح الدین کے نام سے ہاکی کے میدانوں پر راج کیا، تیسرے نوجوان نے فلمی دنیا کی راہ لی اور ندیم کے نام سے شہرت حاصل کی جبکہ چوتھے طالبعلم کی دلچسپی کرکٹ کے کھیل میں جنون کی حد تھی اور یہ جنون انھیں انٹرنیشنل کرکٹ تک لے گیا، یہ ظہیرعباس تھے۔

اداکار ندیم بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے ظہیر عباس کے بارے میں پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’اُن دنوں میں بھی کرکٹ کا بہت شوقین تھا اور کلب کرکٹ کھیلا کرتا تھا۔ پاک کریسنٹ کلب کے نیٹس پر ظہیرعباس سے میری ملاقات ہوا کرتی تھی۔ ان کی بیٹنگ خداداد صلاحیتوں کی حامل تھی جس نے انھیں عروج پر پہنچایا۔

یہ وہ دور تھا جب ظہیرعباس ایک جانب اپنے کالج کی کپتانی کرتے ہوئے ایک کے بعد ایک سنچری بنا رہے تھے تو دوسری طرف پاک کریسنٹ کلب کی طرف سے بننے والے ان کے بڑے سکور اخبارات کی شہہ سرخیوں میں تھے۔ ایک ایسی ہی اننگز پر جب ان کی تصویر بھی اخبار میں شائع ہوئی تو اُن کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔

ظہیرعباس اس دور کو قہقہہ لگاتے ہوئے یاد کرتے ہیں۔ ’فرسٹ کلاس اور ٹیسٹ کرکٹ میں میری سنچریاں تو ریکارڈ بُک میں محفوظ ہو گئیں لیکن زمانہ طالب علمی میں بنائی گئی سنچریوں کا کوئی حساب کتاب موجود نہیں ہے۔ نہ جانے کتنی سنچریاں میں نے بنا ڈالی تھیں۔ صحیح تعداد تو مجھے بھی یاد نہیں۔‘

ظہیر عباس کے والد سید غلام شبیر ایک سرکاری افسر تھے جو چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر اپنا مستقبل بنائے لیکن ظہیر عباس کے دل و دماغ پر کرکٹ چھائی ہوئی تھی۔ آخرکار والد نے بھی بیٹے کے شوق کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

ظہیر اور ڈان بریڈمین
ظہیر عباس اور سر ڈان بریڈمین

ظہیرعباس کو سائنس میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ انھیں لیب میں جا کر پریکٹیکل کرنا بھی پسند نہ تھا لہذا انھوں نے سائنس چھوڑ کر آرٹس کے مضامین رکھ لیے اور گریجویشن مکمل کی کیونکہ وہ اپنا مستقبل کرکٹ میں تلاش کر چکے تھے۔

وہ باقاعدگی سے عبدل ڈائر کے نیٹ پر جایا کرتے تھے جہاں ٹیسٹ اور فرسٹ کلاس کرکٹرز بھی کھیلنے آتے تھے۔ ایک دن انتخاب عالم نے انھیں بولنگ کی اور اُن کی بیٹنگ سے متاثر ہوئے اور پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے؟

اس کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے انبار لگانے والے ظہیرعباس کو پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی نیوزی لینڈ کی ٹیم کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں اپنے ٹیسٹ کریئر کے آغاز کا موقع ملا۔

ان کے پہلے ٹیسٹ کپتان بھی انتخاب عالم تھے لیکن ظہیر عباس میچ کی دونوں اننگز میں متاثر کن کارکردگی نہ دکھا سکے اور سیریز کے اگلے دونوں ٹیسٹ سے باہر ہو گئے۔

سکول ٹیچر یا یونیورسٹی پروفیسر؟

سنہ 1971 میں جب پاکستانی ٹیم کے دورۂ انگلینڈ کا وقت آیا تو کپتان انتخاب عالم کا ووٹ ظہیرعباس کے حق میں گیا جو ڈومیسٹک سیزن میں پانچ سنچریاں بنا چکے تھے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کا روشن باب ہے۔

تین جون کو پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ایجبسٹن میں پہلا ٹیسٹ شروع ہوا لیکن ابھی پہلا اوور ہی جاری تھا کہ فاسٹ بولر ایلن وارڈ کی تیسری گیند اوپنر آفتاب گل کے سر پر لگی اور انھیں میدان چھوڑنا پڑا۔ اُن کی جگہ ڈریسنگ روم سے نمودار ہونے والے بیٹسمین کو دیکھ کر گراؤنڈ میں موجود ہر شخص حیران رہ گیا۔

یہ ظہیر عباس تھے جو اس وقت دبلے پتلے 23 سالہ نوجوان تھے۔ انھوں نے عینک لگا رکھی تھی اور ڈھیلی ڈھالی چال کے ساتھ کریز پر پہنچے لیکن اس کے بعد ایجبسٹن گراؤنڈ میں دو روز کے دوران جس طرح کی بیٹنگ دیکھنے میں آئی اس نے ہر ایک کو اُن کا دیوانہ بنا دیا۔

جب ظہیر عباس اپنی کلائی کا استعمال کرتے ہوئے خوبصورت ٹائمنگ سٹروکس کھیل رہے تھے تو ایک انگریز مبصر نے کہا ’یہ بیٹسمین تو بالکل سکول ٹیچر معلوم ہو رہا ہے!‘ جس پر اس کے برابر میں بیٹھے ایک پاکستانی مبصر نے جواب دیا ʹجی نہیں یہ بیٹسمین یونیورسٹی کا پروفیسر لگ رہا ہے۔ʹ

یہ جواب دینے والے صحافی قمر احمد تھے جنھوں نے یہ اننگز عام مداح کی حیثیت سے دیکھی تھی۔ ظہیر عباس دوسروں کی طرح قمر احمد کے لیے بھی بالکل نئے تھے۔

ٹیسٹ میچ کے پہلے دن ظہیرعباس 159 رنز ناٹ آؤٹ

چار جون کو ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن ظہیرعباس کے خوبصورت سٹروکس نے انگلینڈ کی بولنگ کو اپنے اشاروں پر نچانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ کوئی عام بولنگ اٹیک نہیں تھا۔ اس میں ایلن وارڈ، پیٹر لیور، کین شٹل ورتھ، باسل ڈی الیورا، ڈیرک انڈر ووڈ اور رے النگورتھ جیسے بولرز شامل تھے جو ایشیز میں آسٹریلیا کو ہرا چکے تھے۔

Zaheer Abbas out caught & bowled Yardley for 90. December 12, 1981.

ظہیر عباس کے ہر خوبصورت سٹروک پر سلپ میں کھڑے کالن کاؤڈرے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تالی بجا کر انھیں داد دے رہے تھے۔ ظہیر عباس کو پہلا خراج تحسین فوراً ہی مل گیا تھا۔

ظہیر عباس اپنی اس اننگز کے بارے میں کہتے ہیں ’کوئی بھی بیٹسمین ریکارڈ کا سوچ کر نہیں جاتا۔ میں نے جب پچاس کیے تو سنچری کے بارے میں سوچنا شروع کیا جب سنچری ہوئی تو میری کوشش تھی کہ اسے ڈبل سنچری میں تبدیل کروں۔ʹ

ظہیر عباس یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ڈبل سنچری کے بعد سر گیری سوبرز کے 365 رنز کا عالمی ریکارڈ ان کے ذہن میں آیا تھا لیکن وہ اس تک نہ پہنچ سکے۔

ظہیر عباس کے دیرینہ دوست اور اپنے دور کے ایک اور عظیم بیٹسمین سنیل گاوسکر کہتے ہیں ’میں نے ظہیر عباس سے پوچھا تھا کہ آپ 274 کے سکور پر کیسے آؤٹ ہو گئے؟ اس کی وجہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی تھی یا تھکاوٹ؟ جس پر ظہیرعباس کا جواب تھا ’رے النگورتھ کی گیند توقع سے زیادہ سلو تھی جسے میں سوئپ کرنے کی کوشش میں برائن لکہرسٹ کے ہاتھوں کیچ ہو گیا۔‘

انگلینڈ کے اس دورے میں ظہیر عباس نے مجموعی طور پر 1508 رنز بنائے تھے جن میں چار سنچریاں اور سات نصف سنچریاں شامل تھیں۔ وزڈن نے انھیں سال کے پانچ بہترین کرکٹرز میں شامل کیا تھا۔

اگر سعید احمد انکار نہ کرتے تو۔۔۔؟

انتخاب عالم بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’اس دورے کے لیے ون ڈاؤن بیٹسمین کے طور پر سعید احمد کا سلیکشن ہوا تھا۔ دورے کے پہلے فرسٹ کلاس میچ میں ووسٹرشائر کے خلاف پہلے دن آدھا گھنٹہ باقی تھا کہ پاکستان کی بیٹنگ آ گئی، میں نے ڈریسنگ روم میں بیٹنگ آرڈر لکھ دیا تھا۔ اس دوران کمنٹیٹر جان آرلٹ نے آ کر مجھ سے لائیو انٹرویو کی درخواست کی تو میں ان کے ساتھ کمنٹری باکس میں چلا گیا۔‘

’میں دیکھتا ہوں کہ پہلی وکٹ گرنے کے بعد سعید احمد بیٹنگ کے لیے نہیں آئے۔ میں نے ڈریسنگ روم میں آ کر ان سے پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ میری طبعیت ٹھیک نہیں تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ فاسٹ بولر وینبرن ہولڈر کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے تھے۔ میں نے اگلی صبح دوسری وکٹ گرنے کے بعد سعید احمد کے بجائے ظہیر عباس کو بیٹنگ کے لیے بھیجا اور انھوں نے کھانے کے وقفے سے پہلے سنچری بنا دی۔‘

انتخاب بتاتے ہیں کہ ’میں نے اسی وقت ظہیر عباس کو بتا دیا کہ آج کے بعد آپ نمبر تین بیٹسمین ہیں۔ آپ اس دورے میں ہر میچ کھیلیں گے میں آپ کو کسی میچ میں باہر نہیں بٹھاؤں گا۔ʹ

ایشیئن بریڈمین سب سے پہلے کس نے کہا؟

274 رنز کی اننگز کے بعد دنیا کو ظہیر عباس کی شکل میں دوسرا سر ڈان بریڈمین نظر آنے لگا تھا۔

یہ سوال خاصا دلچسپ ہے کہ ظہیر عباس کو سب سے پہلے ایشیئن بریڈمین کس نے کہا اور کب؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مشہور کمنٹیٹر جان آرلٹ نے ظہیر عباس کو ایشیئن بریڈمین کہہ کر پکارا۔ چند ایک کا کہنا ہے کہ ای ڈبلیو سوانٹن نے یہ خطاب دیا۔

کرکٹر
ظہیر عباس 12 سال گلوسیسٹر شائر سے وابستہ رہے اس دوران انھوں نے 16 ہزار سے زائد رنز بنائے جن میں 49 سنچریاں شامل تھیں

کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ انھیں 1971 کے دورے میں نہیں بلکہ 1974 کے دورے میں ایشیئن بریڈمین کہا گیا جب انھوں نے اوول ٹیسٹ میں 240 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔

خود ظہیر عباس کا اس بارے میں کہنا ہے ’274 رنزکی اننگز کے بعد انگلینڈ کے اخبار ٹائمز نے سرخی لگائی تھی۔ میٹ دا ایشیئن بریڈمین۔‘

’مجھے مضمون نگار کا نام ابھی یاد نہیں۔ یہ اخبار کسی سوٹ کیس میں دیگر اخباری تراشوں کے ساتھ موجود ہے۔ʹ

انتخاب عالم بھی ظہیر عباس کی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ انھیں ایشیئن بریڈمین کا خطاب 1971 کے دورے میں ہی مل گیا تھا۔

ایشیئن بریڈمین کے اسی تذکرے میں سنیل گاوسکر کی یہ گفتگو بھی کم دلچسپ نہیں جس میں انھوں نے بتایا ʹجب میں اور ظہیر عباس 1971 کے اواخر میں ورلڈ الیون کے ساتھ ایڈیلیڈ پہنچے تھے تو ہمارے استقبال کے لیے سر ڈان بریڈمین بھی ایئرپورٹ پر موجود تھے اور جب ہم تینوں بات کر رہے تھے تو اس دوران روہن کنہائی یا سر گیری سوبرز میں سے کسی نے یہ کہا کہ ممبئی کے بریڈمین اور کراچی کے بریڈمین اصل سر ڈان بریڈمین کے ساتھ ہیں۔ʹ

ظہیر عباس کی 274 رنز کی اننگز کے چند ہفتوں بعد پلے فیئر کرکٹ منتھلی نامی جریدے میں گورڈن روز نے اپنے مضمون میں بڑے کھلاڑی اور عظیم کھلاڑی کے فرق کے بارے میں تجزیہ کیا تھا اور لکھا کہ صرف ایک لفظ یہ فرق ظاہر کرتا ہے اور وہ ہے بیٹسمین کی کلاس۔

انھوں نے کہا تھا کہ ظہیر عباس کی یہ اننگز انھیں عظیم کھلاڑیوں میں شامل کرتی ہے۔

کرکٹر انٹرنیشنل میگزین میں ارون روز واٹر نے لکھا تھا کہ ٹیسٹ میچ میں ڈبل سنچری بنانا ٹیمپرامنٹ اور مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔

انھوں نے اپنے مضمون میں متعدد ایسے بڑے بیٹسمینوں کا ذکر کیا تھا جو ٹیسٹ میچ میں ڈبل سنچری بنانے میں ناکام رہے تھے جن میں ڈبلیو جی گریس، فرینک وولی، ہربرٹ سٹکلف، کالن کاؤڈرے، اور رنجیت سنجھی قابل ذکر تھے۔

کاؤنٹی کے سکورر کو گھڑی کا تحفہ

انگلش کاؤنٹی گلوسٹر شائر سے تیرہ سالہ تعلق کے دوران ظہیر عباس کی کاؤنٹی کے سرکاری سکورر برٹ ایوری سے دوستی ہو گئی تھی۔

کرکٹرز کی بڑی تعداد اعداد و شمار میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی لیکن ظہیر عباس کے ساتھ یہ معاملہ نہیں تھا۔ وہ باقاعدگی سے برسٹل گراؤنڈ کے سکور باکس میں جا کر برٹ ایوری سے اپنے سکور اور اعداد و شمار کے بارے میں بات کرتے تھے اور پوچھتے رہتے تھے کہ والی ہیمنڈ کی سنچریوں تک پہنچنے کے لیے انھیں کتنی سنچریاں درکار ہیں اور برٹ ایوری کا جواب ہوتا تھا ’زیڈ آپ اتنی دور نہیں جا سکیں گے۔‘

انتخاب عالم، عمران خان اور ظہیر عباس
انتخاب عالم، عمران خان اور ظہیر عباس

برٹ ایوری کے پاس آج بھی کلائی کی گھڑی موجود ہے جو ظہیر عباس نے انھیں تحفے میں دی تھی۔

برٹ ایوری کے پاس ظہیر عباس کے تمام ریکارڈز بھی محفوظ ہیں۔ ظہیرعباس نے جب سنہ 1976 میں سرے کے خلاف اوول میں ایک ہی میچ میں ڈبل سنچری اور سنچری سکور کی تو برٹ ایوری نے انھیں ایک خوبصورت چارٹ تیار کر کے پیش کیا جس میں ان کے ہر سکورنگ شاٹ کی ڈائریکشن دکھائی گئی تھی۔

ظہیر عباس اتنے خوش ہوئے کہ اس کی کاپی کرائی تاکہ وطن واپس جا کر اسے اپنے والد کو دکھا سکیں۔

بیٹ کہیں ٹوٹ نہ جائے۔۔۔

انتخاب عالم بتاتے ہیں ʹظہیر عباس کی یہ عادت تھی کہ اگر وہ کسی اننگز میں پچیس، تیس رنز کر لیں تو آپ سمجھ لیں کہ انھوں نے سنچری کرنی ہی ہے۔

’سنہ 1974 میں انگلینڈ کے دورے میں اوول ٹیسٹ سے پہلے اولڈ ٹریفرڈ کے سائیڈ میچ میں وہ تیس، پنتیس رنز کر چکے تھے کہ انھوں نے پویلین کی طرف اشارہ کیا اور بیٹ منگوایا۔ مجھے پتا تھا کہ ان کے بیٹ میں کوئی خرابی نہیں تھی۔ انھوں نے بیٹ تبدیل کیا لیکن فوراً ہی آؤٹ ہو گئے۔‘

’کھیل کے اختتام پر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے بیٹ کیوں تبدیل کیا؟ ظہیر عباس نے جواب دیا میں اپنے اس بیٹ کو ٹیسٹ میچ کے لیے سنبھال کر رکھنا چاہتا تھا کہ کہیں یہ ٹوٹ نہ جائے۔ بعد میں ظہیر نے اُسی بیٹ سے اوول ٹیسٹ میں ڈبل سنچری بنائی تھی۔ʹ

ظہیر، اب بس!

ظہیر عباس کہتے ہیں ʹ1982 میں انڈیا کے خلاف ہوم سیریز میں میں فارم میں تھا اور لگاتار تین ٹیسٹ میچوں میں سنچریوں کے علاوہ ون ڈے سیریز میں بھی لگاتار تین سنچریاں بنائی تھیں۔ اس دوران انڈیا میں امول بٹر نے اپنے ایک اشتہار میں میرے بارے میں یہ دلچسپ عبارت لگائی تھی کہ ‘Zaheer ab-bas‘ جس کا مطلب تھا کہ ظہیر اب بس کر۔

سنیل گاوسکر بھی ظہیر عباس کے بڑے سکور کرنے کے ہمیشہ معترف رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کے خلاف ظہیر کی بڑی اننگز یقیناً بولنگ کے نقطہ نظر سے تکلیف دہ تھیں لیکن ان کی بیٹنگ بھی کسی خوبصورت نظارے سے کم نہ تھی۔

ظہیر عباس نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں 108 سنچریاں بنائی ہیں۔ انھیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ واحد ایشیائی بیٹسمین ہیں جنھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں سنچریوں کی سنچری مکمل کی ہے جبکہ غیر برطانوی کھلاڑیوں میں ان کے علاوہ صرف سر ڈان بریڈمین، سر ویوین رچرڈز اور گلین ٹرنر نے سنچریوں کی سنچری مکمل کر رکھی ہے۔

ظہیر عباس کے دو ریکارڈز ٹوٹنا آسان نہیں۔ ان میں سے ایک آٹھ مرتبہ کسی فرسٹ کلاس میچ کی دونوں اننگز میں سنچریاں سکور کرنا ہے جبکہ دوسرا ریکارڈ یہ ہے کہ ان آٹھ میں چار میچ ایسے ہیں جن میں ظہیر عباس نے ایک اننگز میں ڈبل سنچری اور دوسری میں سنچری سکور کی ہے۔

ظہیر عباس سے جب بھی ان ریکارڈز پر بات کی جائے تو وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ یہی جواب دیتے ہیں ʹیہ ظاہر کرتا ہے کہ میں لمبا سکور کیا کرتا تھا۔ یہ سب فارم کی بات ہوتی ہے۔ میرے مولا کا مجھ پر ہمیشہ کرم رہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *