طالبان کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے بعد متاثرہ پاکستانی طالبات بھی سڑکوں پر آ گئیں
ہماری پڑھائی متاثر ہوئی ہے، افغانستان میں اچانک سے خواتین کو کہا گیا کہ وہ اب یونیورسٹی نہیں آسکتیں۔ اب پاکستان آنے پر کہا جا رہا ہے کہ آپ یہاں کیوں داخلہ لینا چاہتی ہیں۔‘
یہ بات بی بی سی کو ایک متاثرہ پاکستانی طالبہ نے بتائی ہے جو خواتین کی تعلیم پر طالبان حکومت کی طرف سے لگائی جانے والی پابندی کے بعد دیگر 120 پاکستانی طالبات کے ساتھ واپس پاکستان آ گئی ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ سال 22 دسمبر کو طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی، جس کے بعد پاکستان سے تعلق رکھنے والی طالبات وہاں سے نکلنے پر مجبور ہو گئیں۔
اس پابندی کے بعد متعدد شہروں میں خواتین نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کیا، جبکہ دنیا بھر میں طالبان کے اس عمل پر تنقید کی گئی۔ کچھ روز پہلے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے ان متاثرہ طالبات میں سے دس طالبات نے اپنا مطالبہ سامنے رکھا کہ انھیں پاکستان کی میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ دے دیا جائے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک طالبہ نے بتایا کہ ’میں یہ سوچ کر کابل پڑھنے گئی تھی کہ وہاں پڑھائی قدرے سستی ہے۔ جب میں نے وہاں پڑھنے کا فیصلہ کیا تب افغانستان کے حالات قدرے بہتر تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ان کی طرح متعدد اور طالبات کی بھی یہی رائے ہے کہ انھیں پاکستان کی میڈیکل یونیورسٹی میں جگہ دی جائے اور ان کے مایئگریشن سرٹیفیکیٹ ان سے لے کر انھیں میڈیکل یونیورسٹیز میں داخلہ دیا جائے۔ لیکن پاکستان میڈیکل کمیشن ایسا نہیں کرنا چاہتا۔
کمیشن کے نائب صدر ڈاکٹر خورشید احمد نے بتایا کہ ’بہت سے طلبہ آسانی سے چین اور افغانستان کی یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان بچوں کو داخلے کے لیے ایم ڈی کیٹ کا امتحان نہیں دینا پڑتا۔ ایسے طالبعلموں کو داخلہ دینے کا رِسک ہم نہیں لے سکتے۔
پی ایم سی کے ایک رکن نے بتایا کہ ان طالبات نے داخلے کے لیے امتحان نہیں دیا ہے جبکہ ’قانوناً انھیں کسی اور ملک جانے سے پہلے پی ایم سی کو مطلع کرنا بہت ضروری تھا تاکہ ان کی شنوائی ہوسکتی۔ ورنہ پی ایم سی ان کی ذمہ داری قبول نہیں کرسکتا۔‘
سوات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد طارق کمیشن کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بھی ان طالبات کو ٹیسٹ دینا پڑا تھا اور وہ ٹیسٹ زیادہ مشکل ٹیسٹ تھا۔
ڈاکٹر طارق کے مطابق خیبرپختونخوا سے طالبات اس وجہ سے افغانستان کے تعلیمی اداروں کا رخ کرتی ہیں کیونکہ ایک تو وہاں سالانہ پانچ سے چھ لاکھ فیس ہوتی اور دوسرا وہاں میڈیکل کی تعلیم بھی بہتر ہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں ایک میڈیکل کے شعبے کی طالبہ کو 15 سے 16 لاکھ فیس ادا کرنا پڑتی ہے اور تعلیمی ادارے بھی محدود تعداد میں ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے رکن ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ ’ایک واضح حل تو یہ ہے کہ ان بچیوں کا دوبارہ امتحان ہونا چاہیے۔ لیکن پی ایم سی کے اوپر اب منحصر کرتا ہے کہ وہ ایسا کرتی ہے یا نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ جو طالبات پڑھائی مکمل کرچکی ہیں وہ نیشنل ایگزیمنیشن بورڈ کا امتحان دے سکتی ہیں۔ طالبات کا کہنا ہے کہ انھیں دسمبر 2022 میں ’اچانک سے پتا چلا‘ کہ امتحان ہونے والے ہیں اور انھیں امتحان میں نہ آنے پر فیل کر دیا گیا۔ ’اب ہم چیف جسٹس سے امید ہی کرسکتے ہیں کہ وہ ہمارے معاملے کا نوٹس لیں۔ ہم نے وزیرِ اعظم سے بھی درخواست کی ہے کہ ہماری مدد کریں ورنہ ہمارا مستقبل ختم ہوجائے گا۔‘