جاسوسی کی دنیا میں سابق انڈین آئی بی

جاسوسی کی دنیا میں سابق انڈین آئی بی

جاسوسی کی دنیا میں سابق انڈین آئی بی چیفس اجیت ڈوول اور ایم کے ناراینن کا نام عزت سے کیوں لیا جاتا ہے؟

عموماً خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ اپنی سوانح عمری لکھنے سے گریز کرتے ہیں اور اگر لکھتے بھی ہیں تو اپنے ساتھیوں کا کُھل کر تذکرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

لیکن انڈیا کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دُلت کی حال ہی میں شائع ہونے والی خود نوشت ’اے لائف ان دی شیڈوز: اے میموائر‘ اس معاملے میں استثنی کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس کتاب میں انھوں نے اپنے باس ایم کے ناراینن اور اپنے جونیئر اجیت ڈوول کے کام کرنے کے انداز پر اپنی بے باک رائے ظاہر کی ہے۔

یاد رہے کہ ایم کے ناراینن انڈیا کی انٹیلیجنس بیورو کے سربراہ اور بعدازاں حکومت کے مشیر برائے قومی سلامتی رہے ہیں۔ جبکہ اجیت ڈوول بھی انٹیلیجنس بیورو کی سربراہی کر چکے ہیں اور فی الحال وہ انڈین حکومت کے مشیر برائے قومی سلامتی ہیں۔

دُلت لکھتے ہیں: ’میں نے انٹیلیجنس بیورو کے دہلی ہیڈکوارٹر میں ایک تجزیہ کار کے طور پر چار سال گزارے۔ اس وقت مجھے نارتھ بلاک میں ایم کے ناراینن کے ساتھ ایک کمرہ شیئر کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت میرا سب سے بڑے باس اے کے دوے ہوا کرتے تھے۔ ان کے نیچے آر کے کھنڈیلوال تھے جنھیں ناراینن ’کینڈی‘ کہتے تھے۔‘

‘دوے کو یہ دیکھنے کا جنون تھا کہ آپ فائل پر کیسے نوٹنگ کرتے ہیں۔ اکثر وہ اپنے ساتھیوں کی فائل پر موجود نوٹنگ پر جھلا کر کہتے کہ ایک سب انسپکٹر بھی اس سے بہتر لکھ سکتا ہے۔ کبھی کبھی ناراینن بھی ان کی اس بات پر ناراض ہو جاتے تھے۔ دوسری طرف، کے این پرساد تھے جو باہر سے سخت نظر آتے تھے لیکن اندر سے بہت نرم مزاج تھے اور نوجوانوں کو وہ سب کچھ سکھانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے جو وہ جانتے تھے۔‘

کتاب

ناراینن کمیونزم کے بڑے ماہر تھے

اے ایس دُلت نے اعتراف کیا کہ انھوں نے خفیہ معلومات کے تجزیے کا ہنر ناراینن کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر سیکھا۔ ان سے یہ بھی سیکھا کہ فیلڈ سے آنے والے ہر پرجوش انٹیلیجنس افسر کی رپورٹس کو کیسے کم کرنا ہے۔ ناراینن نے انھیں یہ بھی سکھایا کہ اگر ممکن ہو تو ایک صفحے کے اندر جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہہ دو۔

دُلت لکھتے ہیں: ’جب ناراینن کے پاس کسی موضوع پر کوئی فائل ہوتی تو وہ اسے کچھ دیر کے لیے اپنے پاس رکھتے اور اس پر گہری مشاورت کے بعد اپنی رائے دیتے۔ ناراینن انڈین انٹیلیجنس ایجنسیوں میں کمیونزم کے سب سے زیادہ ماہر تھے۔ میرا ان سے رابطہ اس وقت محدود تھا لیکن مجھے ہمیشہ یہ احساس ہوتا تھا کہ میں ایک عظیم شخصیت کی موجودگی میں کام کر رہا ہوں، بعد میں مجھے آر این کاؤ کی موجودگی میں ایسا احساس ہوا۔‘

ایم کے ناراینن
ایم کے ناراینن

ناراینن انتظار کے کھیل کا ماہر تھے

کاؤ صاحب ناراینن سے اس لحاظ سے مختلف تھے کہ وہ بہت خاموش رہتے تھے اور لوگوں کے ساتھ کم ہی بات کرتے تھے۔ ان کے بارے میں یہ قصہ مشہور تھا کہ جب تک وہ را کے چیف کے عہدے پر رہے ان کی تصویر نہ تو کسی میگزین میں آئی اور نہ ہی کسی اخبار میں۔

جہاں ناراینن کافی دیر تک موصول ہونے والی معلومات کا تجزیہ کرتے تھے، کاؤ عمل میں یقین رکھتے تھے۔ وہ ایک عملی یا آپریشنل آدمی تھے جسے اپنی عام معلومات پر بہت بھروسہ تھا۔ دونوں کی شخصیت میں بڑا فرق تھا لیکن دونوں انڈین خفیہ ایجنسیوں کے بہترین لوگ تھے۔

دُلت لکھتے ہیں: ’اگر ناراینن آپ کو پسند کرتے تھے، تو وہ آپ کے بارے میں سب کچھ پسند کرتے تھے، لیکن اگر بات اس کے برعکس ہوتی، تو آپ کی پریشانیوں کی کوئی انتہا نہ تھی۔‘ اگرچہ وہ اس وقت اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کر رہے تھے لیکن اس وقت تک بہت مشہور ہو چکے تھے۔

’معلومات کی کثرت کے باوجود، وہ فیصلے کرنے میں جلدی نہیں کرتے تھے۔ کبھی وہ ایک فائل کو پڑھنے میں گھنٹے، دن اور کبھی مہینوں لگا دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا تجزیہ ہمیشہ اعلیٰ معیار کا ہوتا ہے۔ یہ بات میں نے ناراینن سے سیکھی کہ کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے تمام پہلوؤں پر غور کرنا بہتر ہے۔ انٹیلیجنس ہمیشہ سے انتظار کا کھیل رہا ہے۔ اب تک میں نے جتنے لوگ دیکھے ہیں وہ ناراینن سے زیادہ اس کھیل کو کھیل چکے ہیں لیکن کوئی بھی ان سے زیادہ ماہر نہیں تھا۔‘

ایم کے ناراینن
ایم کے ناراینن

’ناراینن کو ایشیا کا بہترین انٹیلیجنس افسر سمجھتے تھے‘

ناراینن کی نظر ہمیشہ تیز تھی۔ اگرچہ وہ دُلت سے بہت سینیئر تھے، لیکن انھیں بہت پہلے احساس ہو گیا تھا کہ وہ اپنے باس آر کے کھنڈیلوال سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ لیکن ان کی ایک کمزوری یہ بھی تھی کہ وہ اپنی ہیرو ورشپ کو پسند کرتے تھے۔

انھیں اپنی شہرت کا اندازہ تھا اور وہ ہمیشہ چاہتے تھے کہ ان کی تعریفوں کے پل باندھے جائیں۔ اور انھیں کبھی اس کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ جواہر لعل نہرو کے انٹیلیجنس چیف بی این ملک نے ایک کتاب ’مائی ایئرز ود نہرو‘ لکھی ہے۔ وہ ایم کے کو ایشیا کا بہترین انٹیلیجنس افسر کہتے ہیں۔

اے کے  دُلت لکھتے ہیں: ’میں نے کئی بار ناراینن کو جمعہ کی ہفتہ وار میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب وہ بولتے تھے تو ان کے اعزاز میں کمرے میں خاموشی چھا جاتی تھی۔ وہ ہمیشہ جانتے تھے کہ کس علاقے میں کیا ہو رہا ہے۔ انھیں یہ بات بھی پسند تھی کہ لوگ تمام طرح کی معلومات کے لیے ان پر انحصار کریں اور کسی بھی موضوع کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے انھیں بلایا جائے۔‘

’اس میں وہ سابق سی آئی اے (امریکی خفیہ ایجنسی) سربراہ ایڈگر ہوور کی طرح تھے۔ وہ ہر موضوع اور ہر اس شخص کی فائل رکھنے کے لیے مشہور تھے جس سے وہ اپنی زندگی میں کبھی ملے۔ دہلی میں اقتدار کے حلقوں میں ان سے بہتر کوئی چلنا نہیں جانتا تھا۔‘

راجیو گاندھی
راجیو گاندھی

ناراینن کی راجیو گاندھی سے قربت

گاندھی خاندان کو ان پر بہت اعتماد تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ انٹیلیجنس کی دنیا میں موزوں رہے۔ خاص طور پر راجیو گاندھی کے لیے، جو ناراینن پر بہت زیادہ انحصار کرتے تھے۔ راجیو گاندھی کو انٹیلیجنس معلومات کا بہت شوق تھا۔ انھیں اندازہ تھا کہ خارجہ پالیسی کو انٹیلیجنس سے کیسے متاثر کیا جا سکتا ہے۔

 دُلت لکھتے ہیں: ’وہ ناراینن سے ملنا پسند کرتے تھے اور ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ وہ رات گئے ملاقاتیں کرتے تھے جس میں ناراینن کو کافی اور چاکلیٹ پیش کی جاتی تھیں۔‘

’راجیو ہمیشہ یہ جاننے کے خواہشمند رہتے تھے کہ دہلی میں غیر ملکی سفارت خانوں کی سرگرمیاں کیا ہیں۔ ایک بار ارون سنگھ اور ارون نہرو بھی انٹیلیجنس بیورو کی ایک جاسوس ٹیم کے ساتھ یہ دیکھنے گئے کہ گراؤنڈ پر کیا ہو رہا ہے۔‘

’ناراینن نے ایک بار مجھے بتایا کہ جب انھیں ایک خاص معلومات دی گئی تھیں تو وہ اس معلومات کا ذریعہ جاننے کے لیے ان کے پیچھے پڑ گئے تھے۔ لیکن ناراینن کا جواب تھا، ’وزیر اعظم، میرا کام آپ کو معلومات فراہم کرنا ہے لیکن آپ کو یہ پوچھنے کا حق نہیں کہ مجھے یہ معلومات کہاں سے ملیں؟‘

سابق کانگریس رہنما راجیش پائلٹ کو جب کشمیر کا انچارج بنایا گیا تو وہ کشمیر کی زمینی حقیقت جاننے کے لیے ناراینن کے پاس ہی جاتے تھے۔

اجیت ڈوول
اجیت ڈوول

اجیت ڈوول نے سب سے پہلے نواز شریف سے رابطہ کیا

اجیت ڈوول ناراینن کے دور میں ایک ابھرتا ہوا ستارہ تھے۔ اجیت کو پہلے پہل سب نے اس وقت دیکھا جب انھیں شمال مشرقی انڈیا کی ریاست میزورم میں کام کے سلسلے میں بھیجا گیا۔

وی کے دُگّل بتاتے ہیں کہ ان دنوں میزورم میں ڈوول فیلڈ مین ہوا کرتے تھے۔ ان کے روپوش ہونے والوں یا انڈرگراؤنڈ رہنے والوں سے اچھے تعلقات تھے۔

سنہ 2006 میں ڈوول نے ٹائمز آف انڈیا اخبار کو ایک انٹرویو دیا جس میں انھوں نے کہا: ’ایک بار میں نے لالڈینگا کے میزو نیشنل فرنٹ کے باغیوں کو اپنے گھر رات کے کھانے پر مدعو کیا، وہ بھاری ہتھیاروں سے لیس تھے۔ میں نے انھیں یقین دلایا کہ وہ محفوظ رہیں گے۔ بیوی نے ان کے لیے سور کا گوشت پکایا حالانکہ انھوں نے اس سے پہلے کبھی سور کا گوشت نہیں پکایا تھا۔‘

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ڈوول اصول سے ہٹ کر کام کر سکتے تھے۔

سنہ 1982 سے 1985 تک کراچی میں انڈیا کے قونصل جنرل رہنے والے جی پارتھا سارتھی بتاتے ہیں کہ ’ڈوول نے سب سے پہلے نواز شریف سے رابطہ قائم کیا۔ اس وقت وہ پاکستان کی سیاست میں ابھرنا ہی شروع ہوئے تھے۔ 1982 میں جب انڈین کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر لاہور پہنچی تو ڈوول کے مشورے پر نواز شریف نے اپنے گھر کے لان میں انڈین ٹیم کی میزبانی کی۔‘

نواز شریف

آپریشن بلیک تھنڈر میں ڈوول کا کردار

سنہ 1988 میں آپریشن بلیک تھنڈر-2 میں ڈوول کے کردار نے ان کی شہرت میں اضافہ کیا۔ ان کے سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ جب انتہا پسند گولڈن ٹیمپل میں داخل ہوئے تو ڈوول بھی خفیہ طور پر مندر میں موجود تھے۔

نیو انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والی اجیت ڈوول کے سوانحی خاکے میں، یتیش یادو نے لکھا: ’1988 میں امرتسر کے رہائشیوں اور گولڈن ٹیمپل کے آس پاس رہنے والے خالصتانی جنگجوؤں نے ایک شخص کو رکشہ چلاتے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے جنگجوؤں کو یقین دلایا کہ وہ آئی ایس آئی کا رکن ہے اور خاص طور پر ان کی مدد کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘

’آپریشن بلیک تھنڈر شروع ہونے سے دو دن پہلے، رکشہ والا گولڈن ٹیمپل میں داخل ہوا اور اہم معلومات لے کر باہر آیا۔ اسے پتہ چلا کہ مندر کے اندر کتنے انتہا پسند ہیں۔‘

یہ رکشہ چلانے والا کوئی اور نہیں بلکہ اجیت ڈوول تھے۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے، ڈوول نے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے ساتھ رابطے قائم کیے۔

 دُلت لکھتے ہیں: ’میں نے کشمیر میں ڈوول کے کام میں کبھی مداخلت نہیں کی کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ اس قسم کا شخص ہے جو مجھے نتائج دے گا۔ ڈووال مجھ سے بہتر جاسوس تھا کیونکہ وہ چیزوں کو بغیر کسی خاص دلچسپی کے دیکھتے تھے، ان کے لیے چیزوں پر غور کے بعد فیصلہ کرنا آسان تھا۔‘

قندھار

ڈوول کو اغوا کاروں سے بات چیت کے لیے قندھار بھیجا گیا

 دُلت مزید لکھتے ہیں: ’جب 1999 میں انڈین طیارہ ہائی جیک کر کے قندھار لے جایا گیا تو برجیش مشرا نے مجھے اور شیامل دتہ سے کہا کہ وہ اپنے آدمیوں کو بات چیت کے لیے وہاں بھیج دیں۔ میری نظر میں اس کام کے لیے موزوں ترین شخص سی ڈی سہائے اور آنند آرنی تھے کیونکہ یہ دونوں آپریشنل افسر تھے اور افغانستان کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ لیکن شیامل دتہ نے کہا کہ یہ کام انٹیلیجنس بیورو میں اجیت ڈوول اور نہچل سندھو سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔‘

’بالآخر ان دونوں کو قندھار بھیجا گیا۔ وویک کاٹجو جو اس وقت وزارت خارجہ میں جوائنٹ سیکریٹری کے طور پر کام کر رہے تھے، وہ بھی ان کے ساتھ گئے۔ میں حیرت اس بات پر تھی کہ قندھار سے سی ڈی سہائے کے بجائے ڈوول مجھے ساری صورت حال بتا رہے تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا، ’فیصلہ جلدی کروائیے، یہاں بہت دباؤ ہے، پتہ نہیں یہاں کب کیا ہو سکتا ہے۔‘

ایل کے اڈوانی نے کبھی کھل کر نہیں کہا، لیکن وہ انتہا پسندوں کے ساتھ بات چیت کے حق میں نہیں تھے۔

اڈوانی کا آدمی ہونے کے ناطے غالباً ڈوول کی بھی یہی رائے تھی۔ ایک اور شخص مسافروں کے بدلے شدت پسندوں کی رہائی کی مخالفت کر رہے تھے۔ اور وہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ تھے۔

فاروق عبداللہ
فاروق عبداللہ

فاروق عبداللہ نے شدت پسندوں کی رہائی کی مخالفت کی

اپنی ایک دوسری کتاب ’کشمیر دی واجپائی ایئرز‘ میں اے ایس دُلت نے لکھا ہے کہ جب فاروق عبداللہ نے شدت پسندوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تو ان کو منانے کے لیے دُلت کو سری نگر بھیجا گیا۔

 دُلت لکھتے ہیں: ’فاروق نے مجھے دیکھا تو کہنے لگے تم پھر آ گئے؟ آپ روبیہ سعید کے اغوا کے وقت بھی تم ہی آئے تھے۔ میں نے کہا، ’سر، میں اس وقت آپ کے ساتھ تھا، لیکن اس بار میں حکومت ہند کے ساتھ ہوں۔ اس وقت میں آپ کی طرف سے حکومت سے بات کر رہا تھا اس بار میں حکومت کی طرف سے آپ کے پاس آیا ہوں۔‘

’فاروق عبداللہ نے کہا کہ دو پاکستانیوں مسعود اظہر اور عمر شیخ کے ساتھ جو چاہو کرو لیکن میں اس کشمیری مشتاق احمد زرگر کو نہیں چھوڑوں گا کیونکہ اس کے ہاتھوں پر کشمیریوں کے خون کے نشانات ہیں۔‘

اس کے بعد فاروق دُلت کے ساتھ کشمیر کے گورنر گیری سکسینہ کے پاس گئے۔ انھوں نے بتایا کہ ’میں نے را کے چیف کو بتا دیا ہے کہ میں ان شدت پسندوں کی رہائی کے فیصلے کا حصہ نہیں بن سکتا۔ میں استعفیٰ دینے کو ترجیح دوں گا اور میں یہی کرنے یہاں آیا ہوں۔‘

گیری سکسینہ نے بلیک لیبل سکاچ کی بوتل نکالی اور فاروق سے کہا؛ ’ڈاکٹر صاحب، آپ فائٹر ہیں، اتنی آسانی سے ہار نہیں مان سکتے۔ فاروق نے کہا، ’یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ انتہا پسندوں کو چھوڑ کر کتنی بڑی غلطی کر رہے ہیں۔‘

گیری نے کہا: ’آپ کی بات صد فیصد درست ہے، لیکن اس وقت کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس کے متعلق دہلی میں ضرور بات ہوئی ہو گی۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے تو ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ اگلے دن مسعود اظہر اور زرگر کو را کے گلف اسٹریم طیارے میں بٹھا کر میں ہی سری نگر سے دہلی لے گیا تھا۔‘

ڈوول اپنے کریئر کے عروج پر پہنچے

قندھار ہائی جیک میں شدت پسندوں کو رہا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ حکومت ہند نے فیصلہ لینے میں بہت زیادہ وقت لیا۔

دُلت لکھتے ہیں کہ ’ڈوول انھیں سیٹلائٹ فون کے ذریعے قندھار میں ہونے والی مشاورت کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرتے رہے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں رہنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ اب وہ دھمکیاں دینے لگے ہیں کہ اگر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے تو یہاں سے چلے جائیں۔ میں شروع سے جانتا تھا کہ ڈووال ایک دن اپنے کریئر کے عروج پر پہنچ جائیں گے۔ اس ذمہ داری کے لیے ڈوول سے زیادہ موزوں کوئی نہیں تھا۔‘

’جب نریندر مودی انڈیا کے وزیر اعظم بنے تو قومی سلامتی کے مشیر کے لیے سب سے پہلے ہردیپ پوری کا نام لیا گیا۔ لیکن ارون جیٹلی کے علاوہ بی جے پی میں ان کا کوئی حامی نہیں تھا۔ آخر میں نریندر مودی نے اجیت ڈوول کے نام پر اپنی مہر ثبت کر دی۔‘

’جب میں 2004 میں وزیر اعظم کے دفتر سے نکل رہا تھا، ناراینن نے مجھ سے پوچھا تھا کہ اب کشمیر کون دیکھے گا؟ تو میں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا، ڈووال۔ اس وقت ناراینن نے مجھ سے کہا، نہیں ڈووال کشمیر نہیں دیکھیں گے کیونکہ وہ انٹیلیجنس بیورو کے ڈائریکٹر بننے جا رہے ہیں۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ اجیت ڈوول کو بی جے پی کے مخالف کانگریس کے دور میں انٹیلیجنس بیورو کا سربراہ بنایا گیا تھا۔

جے این دیکشت کے بعد جب ایم کے ناراینن قومی سلامتی کے مشیر بنے تو وہ کھلے عام کہا کرتے تھے کہ ’جب مجھے کسی معاملے میں نرم رویہ اختیار کرنا ہوتا ہے تو میں امرجیت سنگھ  دُلت کا استعمال کرتا ہوں، لیکن جب لاٹھی کا استعمال کرنا ہوتا ہے تو میں ڈوول کو بلاتا ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *