شاہ محمود قریشی پاکستان امریکہ کے ساتھ لین دین

شاہ محمود قریشی پاکستان امریکہ کے ساتھ لین دین

شاہ محمود قریشی پاکستان امریکہ کے ساتھ لین دین پر مبنی نہیں بلکہ کثیر الجہتی تعلقات چاہتا ہے

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ‘پاکستان امریکہ کے ساتھ لین دین پر مبنی نہیں بلکہ کثیر الجہتی تعلقات چاہتا ہے’

دارالحکومت اسلام آباد میں جاری مارگلہ ڈائیلاگ 21 کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہم امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘

شاہ محمود قریشی حال ہی میں امریکہ کی جانب سے ورچوئل سمِٹ میں شرکت نہ کرنے سے متعلق بات کر رہے تھے۔

یاد رہے کہ چند روز قبل امریکہ نے پاکستان کو جمہوریت پر ایک ورچوئل سمِٹ میں مدعو کیا تھا۔ یہ دو روزہ سمِٹ 9 دسمبر کو شروع ہوئی تھی۔ پاکستان نے اس سمِٹ میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ ‘مستقبل میں کسی اور موقع پر ساتھ بیٹھنے’ کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے 110 ممالک کو اس ورچوئل سمِٹ میں مدعو کیا گیا تھا جن میں کئی بڑے مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ انڈیا اور پاکستان بھی شامل تھے۔ چین، روس اور بنگلہ دیش سمیت چند دیگر ممالک کو اس سمِٹ میں نہیں بلایا گیا۔ چند ماہرین کے مطابق پاکستان نے چین کے دباؤ میں آ کر یہ فیصلہ لیا جو دانشمندانہ نہیں تھا۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہم ایسے کثیر الجہتی تعلقات چاہتے ہیں جو علاقائی اور بین الاقوامی پالیسیوں کے انتشار کا شکار نہ ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس میں تبدیلی کے وژن کے مطابق پاکستان امریکہ کے ساتھ ایسے تعلقات چاہتا ہے جو ’ہماری تبدیل شدہ ترجیحات کے مطابق ہوں‘۔

انھوں نے چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں مزید وسعت آ رہی ہے۔ انھوں نے سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کی اہمیت پر بھی بات کی۔

وزیر خارجہ نے افغانستان کے حالات پر بھی بات کی اور افغانستان کی مدد کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے بتایا کہ او آئی سی کی افغانستان کے حوالے سے اجلاس کا انعقاد 19 دسمبر کو کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ ان کی زمین دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

cemron munter

اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر کیمرون منٹر نے پاکستان کو مخاطب کر کے کہا کہ ’آپ اس وقت امریکہ کی جانب سے ڈو مور کے مطالبے کے پریشر میں نہیں ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اس وقت ایک موقع ہے کہ وہ اس صورتحال میں لیڈ کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ’آپ افغانستان کے حوالے سے اسلامی کانفرنس بلوائیں گے تو آپ اس کے نہ صرف میزبان ہوں گے بلکہ آپ ایک ایسا ملک بھی ہیں جو خطے کے مسائل سے نہ صرف سفارت کاری بلکہ جیو اکنامک کی طاقت کی مثال بھی ہے، آپ یہ کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے بہت محنت کرنا ہو گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ٹرانزیشن کے عمل سے گزر رہا ہے۔ انھوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ 20 برس میں امریکہ اس خطے کو انسداد دہشت گردی کے حوالے سے دیکھ رہا تھا۔

انھوں نے پاکستان کے حوالے سے امریکہ کے سابقہ وژن کو بدقسمتی قرار دیا جس میں اسے افغانستان کے تناظر میں ہی دیکھا گیا۔

’پاکستان کو افغانستان میں کشیدگی اور مسائل کے تناظر میں دیکھ کر امریکی وژن کو مسخ کر دیا گیا ہے اور یہ دور ختم ہونے کو ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ امریکہ کے لیے بھی موقع ہے کہ وہ پاکستان کو نئے نظریے سے دیکھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *