بنگلہ دیش کے قیام کے 50 سال مشرقی پاکستان کے سبز کو

بنگلہ دیش کے قیام کے 50 سال مشرقی پاکستان کے سبز کو

بنگلہ دیش کے قیام کے 50 سال مشرقی پاکستان کے سبز کو سرخ کر دیا جائے گا‘ کس نے اور کیوں کہا تھا؟

بنگلہ دیش میں ہر سال 14 دسمبر کو ’شہید بدھی جیبی دبوش‘ منایا جاتا ہے جس کا سلیس اردو میں ترجمہ ہوگا ’شہید کیے گئے دانش وروں کا دن۔‘ یہ دانش ور کون تھے اور ان کا قتل عام کس نے کیا؟ اس بارے میں بنگالی اور پاکستانی مؤرخین کا مؤقف الگ الگ ہے۔

بنگالی مؤرخین کے مطابق یہ 10 دسمبر سے 14 دسمبر 1971ء کا دورانیہ تھا جب مبینہ طور پر پاکستانی فوج کے شہری رضاکارانہ ونگ البدر نے 200 کے لگ بھگ بنگالی دانش وروں کو ان کے گھروں سے گرفتار کیا۔ اُنھیں میرپور، محمد پور، نخل پارا، راج گڑھ اور بعض دوسرے مقامات پر قائم عقوبت خانوں میں منتقل کیا گیا اور پھر بیشتر افراد کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا کہ اُنھیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔

بنگالی مؤرخین کے مطابق ان دانش وروں میں سے بیشتر کو ہلاک کر کے ان کی لاشیں ریئر بازار کے پختہ کناروں پر پھینک دی گئیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان دانش وروں کے اغوا اور پھر قتل کا محرّک یہ تھا کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد یہ دانش ور اس نئے ملک کی تعمیر اور استحکام میں اپنا کردار ادا نہ کر سکیں۔

ان دانش وروں میں اساتذہ، ماہرین قانون، سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئرز اور صحافی شامل تھے۔ ان میں ایک اہم نام شہید اللہ قیصر کا تھا جو بنگالی زبان کے نامور صحافی اور ادیب تھے۔

وہ 1952ء کی لسانی تحریک کے دوران بھی گرفتار ہوئے تھے اور رہائی کے بعد صحافت کے پیشے سے منسلک ہوئے۔ ان کے معرکہ آرا ناول ’سارنگ بو‘ پر اُنھیں آدم جی ادبی انعام سے بھی نوازا گیا تھا۔ ایک اور دانش ور منیر چوہدری تھے، وہ بھی اپنے کمیونسٹ خیالات کی وجہ سے معروف تھے اور عوامی لیگ کے حامیوں میں شمار ہوتے تھے۔

احمد سلیم نے اپنی کتاب ’حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ، جرنیل اور سیاست دان‘ میں اس معاملے کے بارے میں کئی تحریریں شامل کی ہیں۔ ان میں ایک تحریر 1971ء میں گورنر مشرقی پاکستان کے شہری امور کے مشیر میجر جنرل راؤ فرمان علی کی ہے۔

اس تحریر کے مطابق بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جب شیخ مجیب الرحمٰن بنگلہ دیش کے وزیرِ اعظم بنے تو اُنھوں نے الزام لگایا کہ اُنھیں گورنر ہاؤس میں خدمات انجام دینے والے پاکستانی فوج کے افسر میجر جنرل راؤ فرمان علی کی ایک ڈائری ملی ہے جس میں ان دانش وروں میں سے بیشتر کے نام موجود ہیں۔ اُنھوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ان کی اس ڈائری میں یہ الفاظ بھی تحریر تھے کہ ’مشرقی پاکستان کے سبز کو سرخ کر دیا جائے گا۔‘

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد میجر جنرل فرمان علی ان فوجی افسران میں شامل تھے جو جنگی قیدی بنے۔ وہ ان 195 افسران میں بھی شامل تھے جن پر بنگلہ دیش جنگی جرائم کے الزام میں مقدمہ چلانا چاہتا تھا مگر ذوالفقار علی بھٹو کی کوششوں سے ایسا ممکن نہ ہوسکا اور جب انڈیا میں مقید جنگی قیدی وطن واپس آئے تو اپریل 1974ء میں پاکستان پہنچنے والے ان قیدیوں کے آخری گروپس میں میجر جنرل راؤ فرمان علی بھی شامل تھے۔

پاکستانی فوج نے جی ایچ کیو میں لیفٹیننٹ جنرل آفتاب احمد خان کی قیادت میں ایک خصوصی کمیٹی قائم کی تھی جس میں میجر جنرل یا اس کے عہدے کے برابر بحری، برّی اور فضائی افواج کے تین سینیئر افسران بھی شامل تھے۔

اس کمیٹی نے انڈیا سے لوٹنے والے تمام فوجی قیدیوں سے پوچھ گچھ کی۔ اُنھیں ایک سوال نامہ دیا گیا جسے پُر کر کے واپس کرنا ضروری تھا۔ اس کمیٹی نے میجر جنرل راؤ فرمان علی کو بھی طلب کیا اور اُنھیں باعزت طریقے سے تمام الزامات سے بری کر دیا۔

اس کے بعد راؤ فرمان علی حمود الرحمٰن کمیشن کے روبرو پیش ہوئے جس نے پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی، میجر جنرل راؤ فرمان علی اور بعض دوسرے افسران کے واپس آنے پر ان سے تفتیش کی جائے گی۔

راؤ فرمان علی کہتے ہیں کہ اس بات کو مسخ کر کے چرچا کیا گیا جیسے کمیشن نے ہم چند فوجی افسران کو مجرم قرار دیا ہے۔

یہ درست ہے کہ ہماری واپسی کے بعد کمیشن کو دوبارہ فعال کیا گیا اور اس نے ہمارے بیانات کی سماعت کے بعد اپنی حتمی رپورٹ تیار کر کے حکومت کو پیش کی تاہم اس تفتیش میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا جس کا غیر معمولی چرچا کیا گیا۔

جسٹس حمود الرحمٰن
جسٹس حمود الرحمٰن جن کی زیر سربراہی سقوط ڈھاکہ کی وجوہات کے تعین کے لیے کمیشن قائم کیا گیا

میجر جنرل راؤ فرمان علی کے مطابق ان سے سوال و جواب کا یہ سلسلہ تین دنوں میں پھیلے ہوئے تقریباً 13 گھنٹے تک جاری رہا۔

وہ کہتے ہیں کہ ابتدا میں میں نے محسوس کیا کہ یہ کمیشن ایک مخالف عدالت ہے مگر میں نے کمیشن نے سے کوئی بحث نہ کی بلکہ جیسے جیسے جرح کا سلسلہ آگے بڑھتا گیا، فضا میرے حق میں بدلتی گئی۔ آخری دن جسٹس حمود الرحمٰن نے کہا ’جنرل فرمان! ہم نے آپ کو اپنے روبرو پیش ہونے والے افسروں میں سب سے زیادہ ذہین اور راست رو پایا ہے۔‘

سنہ 2000 میں حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ عام کر دی گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کمیشن کو خصوصی طور پر کہا گیا تھا کہ وہ میجر جنرل راؤ فرمان علی پر لگائے گئے الزامات کی پوری جانچ پڑتال کریں۔

رپورٹ کے مطابق سنہ 1974ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو بنگلہ دیش کے سرکاری دورے پر ڈھاکہ گئے تو ان کے ہم منصب شیخ مجیب الرحمٰن نے اُنھیں ایک ڈائری دکھائی تھی جس میں سرخ روشنائی سے لکھا تھا ’مشرقی پاکستان کے سبز کو سرخ کر دیا جائے گا۔‘

شیخ مجیب الرحمٰن نے یہ ڈائری بھٹو ہی کو نہیں دکھائی بلکہ وہ اسے ساری دنیا کو دکھاتے پھر رہے تھے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کی نسل کشی کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ وہ متذکرہ جملہ ثبوت کے طور پر پیش کرتے تھے۔ اُنھوں نے اس جملے میں سرخ بنا دینے کا مطلب یہ نکالا تھا کہ مشرقی پاکستان کو خون میں نہلا دیا جائے گا۔

میجر جنرل راؤ فرمان علی نے کہا کہ جب کمیشن نے مجھ سے اس الزام کی بات کی تو میں نے تسلیم کیا کہ تحریر میری ہے مگر الفاظ میرے نہیں۔ اُن کے مطابق اس کے پس منظر میں جو کہانی تھی وہ یوں تھی:

’انتخابی مہم کے دوران نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی گروپ) کا ایک جلسہ جون 1970ء میں پلٹن میدان میں منعقد ہوا۔ جیسا کہ تقریروں میں ہوا کرتا ہے کہ جب مقرّر اپنے سامنے لاکھوں افراد کے مجمعے کو دیکھتا ہے تو وہ ہوش کھو بیٹھتا ہے اور اس کے منہ سے وہ باتیں بھی نکل جاتی ہیں جو وہ عام طور پر کبھی نہیں کہتا۔

’ایسا ہی ایک مقرر طٰہٰ تھا جس کے بارے میں مشرقی پاکستان کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یعقوب نے مجھے ٹیلی فون کیا اور کہا کہ فرمان! طٰہٰ سے کہو کہ اشتعال انگیز تقریریں نہ کرے ورنہ ہمیں کارروائی کرنی پڑے گی۔

’میں نے دریافت کیا کہ طٰہٰ نے کیا کہا ہے، تو جنرل نے مجھے جو کچھ بتایا، وہ میں نے سامنے میز پر پڑی ہوئی ڈائری پر لکھ لیا۔ الفاظ تھے ’مشرقی پاکستان کے سبز کو سرخ کر دیا جائے گا۔‘‘

بنگلہ دیش، پاکستان

’میں نے طٰہٰ سے کہا کہ وہ آ کر مجھ سے ملے۔ وہ کٹر کمیونسٹ تھا اور سائنسی کمیونزم پر یقین رکھتا تھا۔ اس کے خلاف بہت سے مقدمے درج تھے، اسی لیے وہ روپوش تھا۔ آٹھ افراد کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے بعد میں اس سے مل سکا اور اسے یقین دلایا کہ جب وہ گورنر ہاؤس مجھ سے ملنے کے لیے آئے گا تو اسے کوئی شخص گرفتار نہیں کرے گا۔

’وہ آیا، میں نے لکھا ہوا بیان پڑھ کر سنایا اور پوچھا کہ اس نے یہ بات کیوں کی ہے، اس نے کہا کہ یہ جملہ اس کی تقریر میں نہیں تھا بلکہ یہ جملہ قاضی ظفر نے کہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سبز (اسلامی مملکت) پاکستان کو سرخ (کمیونسٹ) بنائیں گے۔ ساری دنیا میں کمیونزم کو سرخ رنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ میں نے اس کی وضاحت مان لی اور جنرل یعقوب کو مطلع کردیا۔ اس طرح یہ معاملہ ختم ہو گیا۔

’میرے بیان کے بعد کمیشن نے حکومت بنگلہ دیش سے اس بیان کی جانچ کروائی جہاں سے اصل ڈائری اُنھیں بھیج دی گئی۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’اس دستاویز کی جانچ پڑتال سے ہمارے ذہن میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ یہ رائٹنگ پیڈ یا ٹیبل ڈائری کی صورت تھی جس پر جنرل اپنے کام کے دوران متفرق نوٹس درج کرتے تھے۔ جنرل نے جو وضاحت کی وہ درست لگتی ہے۔‘

احمد سلیم کی محولہ بالا کتاب کے مطابق میجر جنرل راؤ فرمان علی نے آزادی سے چند روز قبل 200 دانش وروں کے قتل عام کے بارے میں بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔

راؤ فرمان علی نے لکھا ’10 دسمبر کو غروب آفتاب کے وقت مجھے ڈھاکہ کے کمانڈر جنرل جمشید نے دھان منڈی میں اپنے دفتر میں آنے کے لیے کہا، میں ان کی پوسٹ کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہاں کافی گاڑیاں کھڑی ہیں۔ میجر جنرل جمشید اپنے مورچے سے نکل رہے تھے، اُنھوں نے مجھ سے کہا کہ میں ان کی کار میں آجاؤں۔

’چند منٹ کے بعد میں نے دریافت کیا کہ اتنی گاڑیاں کیوں کھڑی ہیں؟ اُنھوں نے جواب دیا کہ اسی کے لیے بات کرنے ہم نیازی کے پاس جا رہے ہیں۔ ابھی ہم راستے میں تھے کہ اُنھوں نے مجھے بتایا کہ اُنھیں بڑی تعداد میں دانش وروں اور دوسری نمایاں شخصیات کو گرفتار کرنے کے احکامات ملے ہیں۔

’میں نے کہا یہ وقت مناسب نہیں، آپ نے جن افراد کو پہلے گرفتار کیا تھا آپ کو ان کا حساب دینا ہوگا، برائے نوازش اب مزید گرفتاریاں نہ کریں۔ وہ رضا مند ہو گئے۔ میرا شبہ یہ ہے کہ پہلے حکم کو منسوخ کرنے کا حکم جاری نہیں ہوا تھا اس لیے بعض لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ میں آج تک یہ نہیں جانتا کہ اُنھیں کہاں رکھا گیا تھا۔ شاید اُنھیں ایسے علاقے میں رکھا گیا تھا جس کی حفاظت مجاہد کر رہے تھے۔ کور یا ڈھاکہ گیریژن کمانڈر کے ہتھیار ڈالنے کے بعد ان پر کنٹرول نہ رہا اور وہ مکتی باہنی کے خوف سے بھاگ نکلے۔

ڈھاکہ، پاکستان، بنگلہ دیش، 1971
ادیب اور دانش ور شہید اللہ قیصر جو 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کی جنگ کے دوران قتل کیے گئے

’مکتی باہنی والے مجاہدوں کا بے دردی سے قتل عام کر رہے تھے، ہو سکتا ہے کہ زیر حراست لوگوں کو مکتی باہنی والوں نے قتل کر دیا ہو یا انڈین فوجیوں نے تاکہ پاکستانی فوج کو بدنام کیا جا سکے۔ انڈین فوج ڈھاکہ پر تو پہلے ہی قبضہ کرچکی تھی۔‘

راؤ فرمان علی نے مزید لکھا کہ ’(سقوط ڈھاکہ کے بعد) ابھی میں ڈھاکہ ہی میں تھا کہ مجھے انڈین فوج کے میجر جنرل ناگرا نے بلایا اور (میں نے) اس کے الزامات کا سامنا کیا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں اس میں کیسے ملوث ہوسکتا ہوں۔ میں اکیلا اتنے سارے لوگوں کو کیسے قتل کر سکتا تھا، میرے پاس کوئی کمان بھی نہیں تھی، نہ کسی سول عہدے کا اختیار تھا۔

’اس نے یہ بات مان لی۔ جب ہم جبل پور کے جنگی قیدی کیپ میں مقیم تھے تو یہ سوال دوبارہ پیدا ہوا اور انڈین فوج کے بریگیڈیئر لزلی پوچھ گچھ کرنے کے لیے میرے پاس آئے۔ ان کا پہلا سوال تھا کہ تم پر 16 اور 17 دسمبر کی درمیانی شب 200 دانش وروں کو قتل کرنے کا الزام ہے۔ تم اس سلسلے میں کیا کہتے ہو۔

’میں نے کہا کہ جنرل نیازی بھی اسی کیمپ میں موجود ہے۔ جاؤ اور اس سے پوچھو کہ میں نے 10 دسمبر کو ان لوگوں کی گرفتاری کی مخالفت کی تھی یا نہیں کی تھی۔ اگر میں ان کی گرفتاری کا بھی مخالف تھا میں اُنھیں قتل کرنے کا حکم کیسے دے سکتا تھا۔

’وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور نیازی سے ملنے چلا گیا۔ کچھ ہی منٹوں بعد وہ واپس آیا اور اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کہ اب وہ کوئی اور سوال نہیں کرے گا۔ نیازی نے اس بات کی تصدیق کر دی جو میں نے لزلی سے کہی تھی۔‘

میجر جنرل راؤ فرمان علی کے مطابق جی ایچ کیو کی آفتاب کمیٹی اور حمود الرحمٰن کمیشن دونوں نے اُنھیں اس الزام سے بری کر دیا اور اُنھیں جی ایچ کیو میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری ٹریننگ مقرر کر دیا، یہ فیصلے کا واضح اشارہ تھا۔

راؤ فرمان علی کو فوج سے سبکدوشی کے بعد فوجی فاؤنڈیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا جہاں اُنھوں نے فوجی فرٹیلائزر کمپنی قائم کی۔

وہ جنرل ضیا الحق کے مشیر قومی سلامتی بھی رہے اور محمد خان جونیجو کی کابینہ میں پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وزیر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ بیس جنوری 2004ء کو ان کی وفات ہو گئی۔ ان کی یادداشتیں سنہ 2017ء میں ‘How Pakistan Got Divided ‘ (پاکستان کیسے تقسیم ہوا) کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔

ڈھاکہ، پاکستان، بنگلہ دیش، 1971
قتل کیے گئے دانشوروں کی یادگار

سنہ 1991 میں بنگلہ دیش کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ان مقتول دانش وروں کی یاد میں ان کی تصاویر سے مزیّن ڈاک ٹکٹ جاری کیے جائیں۔ اس سلسلے کا پہلا سیٹ 26 مارچ 1991ء کو جاری ہوا جس میں 30 ڈاک ٹکٹ شامل تھے۔

یہ سلسلہ اگلے کئی سال تک جاری رہا اور مجموعی طور پر 152 ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے۔ سنہ 1993ء میں فیصلہ ہوا کہ ڈھاکہ میں ان مقتولین کے مدفن پر ایک یادگار تعمیر کی جائے۔

اس یادگار کی تعمیر کا آغاز سنہ 1996ء میں ہوا اور اس کی تعمیل سنہ 1999ء میں ہوئی۔ یہ بات حتمی طور پر معلوم نہیں ہو سکی کہ ان دانش وروں کو کس دن قتل کیا گیا تھا تاہم حکومت نے 14 دسمبر کو ان کے قتل کی یاد میں شہید بدھی جیبی دبوش منانا شروع کیا۔ اس دن کو انگریزی میںMartyred Intellectuals Day یا ’شہید کیے گئے دانش وروں کا دن‘ کہا جاتا ہے۔

سنہ 2010 کے لگ بھگ بنگلہ دیشی حکومت نے بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کا ایک ٹربیونل قائم کیا اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے بعض رہنماؤں کو گرفتار کیا جن کے بارے میں ٹربیونل کو شبہ تھا کہ وہ بنگلہ دیشی دانش وروں کے اغوا اور قتل میں ملوث تھے۔

ان میں ایک اہم نام عبدالقادر ملا کا تھا جن پر اس ٹربیونل میں مقدمہ چلایا گیا اور 12 دسمبر 2013ء کو اُنھیں ڈھاکہ میں پھانسی دے دی گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *