سمیع چوہدری کا کالم: ابرار احمد نے انگلش جنون کی قیمت وصول کر لی
جنون سدا بار آور نہیں ہو سکتا۔ کبھی کبھار حالات کا رخ یوں بھی بدلتا ہے کہ کامیابی کے مصدقہ نسخے الٹے پڑ جاتے ہیں اور بے طرح جنون کی بھاری قیمت چکانا پڑ جاتی ہے۔
ملتان میں بین سٹوکس کی ٹیم نے بھی ابرار احمد کے ہاتھوں اپنے جنون کی قیمت چکائی۔ برینڈن میکلم اور بین سٹوکس کی سربراہی میں اس انگلش ٹیم نے ٹیسٹ کرکٹ کو جس انقلاب سے روشناس کروانے کی ٹھان رکھی ہے، اس میں ابھی کئی اتار چڑھاؤ آئیں گے۔
اگرچہ ابھی تک انھیں ایسے کسی بڑے ‘اتار’ کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو اس جارحانہ اپروچ پہ سنجیدہ سوالات اٹھا سکے مگر ملتان میں لگ بھگ ایسا ہو ہی گیا۔
اب یہ تو ممکن نہیں کہ راتوں رات دیگر اقوام بھی بین سٹوکس کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے یہ ٹی ٹونٹی نما ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے لگ پڑیں مگر یہ تو بہرحال ممکن ہے کہ بولنگ سائیڈز سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس یلغار سے نمٹنے کا کوئی ایسا راہ نکالیں جو کم از کم اس جنون کی قیمت تو وصول کر پائے۔
راولپنڈی میں پاکستانی بولنگ انگلش جنون کی قیمت وصول کرنے سے عاری رہی۔ پنڈی کی پچ اگرچہ ڈومیسٹک کرکٹ میں ابرار احمد کے لئے کامیاب ترین وینیو رہی ہے مگر پاکستانی تھنک ٹینک نے قدرت کے نظام سے انصاف کرتے ہوئے ان کی بجائے زاہد محمود کو ٹیسٹ ڈیبیو کا موقع دیا جس کا فائدہ پاکستان سے زیادہ انگلینڈ کو ہوا۔
مگر ملتان میں جب ابرار احمد کی گگلی نے انگلش بلے بازوں کو چکرانا شروع کیا تو پل بھر کو بین سٹوکس اور برینڈن میکلم بھی ضرور سوچ میں ڈوبے ہوں گے کہ اگر ایسی چنگاری پاکستان کے خاکستر میں تھی تو انہوں نے پہلا ٹیسٹ ہارنے کا انتظار کیوں کیا۔
سپن کے خلاف جم کر کھیلنا ایک دقیق آرٹ ہے جو سیکھتے سیکھتے آتا ہے۔ اور اگر سپنر بھی ابرار احمد کے جیسا پراسرار ہو تو گگلی کی پہچان اور دشوار ہو جاتی ہے۔ ابرار احمد کے معاملے میں یہ تفہیم کس قدر دشوار تھی، اس کی عکاسی صرف کلین بولڈ ہونے پہ بین سٹوکس کے چہرے کے تاثرات ہی کر سکتے تھے۔
مگر یہ انگلش ٹیم جس طرح کی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے لئے پرعزم ہے، اس نے اپنی واضح ناکامی کے باوجود ابرار احمد کو خاطر خواہ عزت دینے سے گریز کیا اور جوابی جارحیت جاری رکھی۔ اس اپروچ کا کچھ فائدہ بہرطور یہ ہوا کہ اننگز کے بیچ انگلش بیٹنگ بحران میں گھر کر بھی اس پچ کے لئے ایک قابلِ قدر مجموعے تک پہنچ گئی۔
ملتان کی یہ پچ پاکستانی کپتان کی خواہشات کے عین مطابق تھی جو یہاں سپنرز کے لئے مدد چاہتے تھے۔ اگرچہ کل شام تک پاکستانی کیمپ میں یہ بحث بھی رہی کہ وکٹ پہ کچھ گھاس چھوڑ دی جائے، مگر نسیم شاہ کی انجری کی تصدیق ہوتے ہی ساری گھاس اڑا دی گئی اور یہ وکٹ سپنرز کی جنت میں بدل گئی۔
مگر انگلش کیمپ نے اپنی ٹیم سلیکشن میں تازہ ترین زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھنے سے گریز کیا اور تین فاسٹ بولرز کے ساتھ ہی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔
اگرچہ ملتان میں روایتی طور پہ چوتھے اور پانچویں دن ریورس سوئنگ دیکھنے کو ملتی ہے مگر یہاں میچ جس رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے، یہ کہنا مشکل ہے کہ کھیل پانچویں دن تک جائے گا۔
اگرچہ انگلش اننگز نے دسویں وکٹ کی پارٹنرشپ میں پاکستانی برتری کا کچھ مزہ کرکرا ضرور کیا لیکن بحیثیتِ مجموعی یہ ایک مستحکم پرفارمنس تھی۔
اب پاکستان کو یہاں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ وہ پہلی اننگز میں ہی بھاری برتری حاصل کریں کیونکہ چوتھی اننگز میں یہاں بیٹنگ بالکل بھی آسان نہیں ہو گی۔
راولپنڈی میں پاکستانی بولنگ انگلش جارحیت کے آگے بند باندھنے میں ناکام رہی تھی مگر ملتان میں ابرار احمد نے انگلش جارحیت کا راستہ روک کر انھیں قیمت چکانے پہ مجبور کر دیا۔