دنیا کی تاریخ کے ’گمشدہ‘ ایک ارب برس کی تلاش
تین جولائی سنہ 1869 کو شکاگو ٹریبیون کے صفحہ اول پر سرخی کچھ یوں تھی: ’دہلا دینے والی تباہی۔‘
یہ اخبار ایک ایسے واقعے کا حوالہ دے رہا تھا جس میں ایک بازو سے محروم اور خود سے تعلیم یافتہ ماہر ارضیات جان ویزلے پاؤل مختلف مہارتوں والے افراد پر مشتمل محققین کی ایک ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ ان کا مشن آسان تھا۔۔۔ امریکی ریاست وائیومنگ میں گرین ریور نامی دریا سے اس کے بہاؤ کی جانب ایک ہزار میل (1،609 کلومیٹر) کا سفر کرنا اور اس راستے میں ملنے والی معلومات کو جمع کرکے انھیں مرتب کرنا تھا۔
کافی ہفتے گزر جانے کے بعد جب اس ٹیم کی جانب سے کوئی خبر نہیں آئی تو عوام کی بے چینی بڑھنے لگی۔ پھر مبینہ طور اس ٹیم میں سے ایک شخص، جس کا دعویٰ تھا کہ وہ اس ٹیم میں زندہ بچ جانے والا آخری فرد ہے، پریس کے سامنے نمودار ہوا۔
اس شخص نے بتایا کہ آخری بار جب اس نے ٹیم کو دیکھا تھا تو ویزلے پاؤل اپنی کشتی پر کھڑے تھے اور اپنی زندگی کا آخری سلام کرتے ہوئے انداز میں اپنا ہیٹ ہلا رہے تھے جس کے کچھ ہی دیر بعد یہ پوری ٹیم دریا کے تیز دھار پانی میں بہہ گئی۔ کئی گھنٹوں بعد اس واقعے کو سنانے والے شخص کو پانی میں ایک بیگ تیرتا نظر آیا جس میں پاؤل کی نوٹ بکس موجود تھیں۔
ایک ہفتے بعد یہ افسوسناک خبر بڑے پیمانے پر گردش کر رہی تھی لیکن پاؤل کی اہلیہ یہ سب ماننے کو تیار نہ تھیں اور پھر ثابت ہوا کہ وہ ان کا خیال صحیح تھا۔ بہت جلد یہ واضح ہو گیا یہ شخص کبھی پاؤل سے ملا ہی نہیں تھا اور اس نے یہ ساری کہانی خود سے گھڑی تھی۔
ادھر دوسری جانب محققین کی اس ٹیم کا سفر جاری تھا اور وہ پیچھے پیدا ہونے والے اس سکینڈل سے مکمل طور پر ناواقف تھے۔ پھر بہت جلد جیتے جاگتے پاؤل نے ایک بہت ہی مختلف قسم کی گمشدہ بات کا انکشاف کیا۔ ایک ایسی چیز جو اگلی ڈیڑھ صدی تک ماہرین ارضیات کو حیران کر دینے والی تھی۔
لاپتہ ایک ارب برس
اس سے صرف دو مہینے پہلے مبینہ مفرور افراد، مقامی پرانے امریکی (ریڈ انڈینز) سکاؤٹس، ایک سابق ایڈیٹر اور سابق مجرموں پر مشتمل پاؤل کی ٹیم نے اس سفر کے لیے درکار تمام سامان کو لکڑی کی چار کشتیوں پر لاد کر سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس سامان میں اس وقت کے متعدد جدید ترین سائنسی آلات بھی شامل تھے۔
ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنے کے لیے ایک ہجوم ان کے گرد جمع ہو گیا تھا، انھوں نے اپنا چھوٹا سا امریکی پرچم بلند کیا اور انھیں پانی میں بہا دیا۔
یہ 10 ماہ کا سفر تھا اور اسے مکمل کرنے کے لیے بہت زیادہ جرات اور ہمت کی ضرورت تھی۔
اس سفر میں روزانہ تیز دھار پانی کے بھنور اور پانی میں چٹانوں کے پتھروں سے بچنا اور ان سے مقابلہ کرنا شامل تھا اور ایک مقام ایسا بھی آیا جب پاؤل کو سرخ مٹی کے 20 فٹ (6 میٹر) وسیع سیلابی ریلے سے بچنے کے لیے بہت جلدی سے پیچھے ہونا پڑا تھا۔
اس سفر کے آغاز کے کچھ ہی گھنٹوں بعد اس ٹیم نے ایک کشتی کا ایک چپو کھو دیا اور صرف دو ہی ہفتے بعد ایک کشتی بھی بہہ گئی۔ جس کی وجہ سے 10 افراد پر مشتمل اس ٹیم میں سے صرف چھ افراد واپس آئے۔
یہ ٹیم سب سے پہلے 13 اگست سنہ 1869 کو گرینڈ کینیون پہنچی اور اس وقت تک ان کے پاس صرف ایک ماہ کا راشن بچا تھا جبکہ ابھی بہت سے نامعلوم خطرات آگے موجود تھے۔ وہ لوگ حسب معمول مذاق کر رہے تھے لیکن پاؤل نے لکھا کہ ’یہ خوشی اور مذاق خوفناک ہیں۔‘
لیکن ان مایوس کن لمحات میں بھی یہ ٹیم کچھ عجوبوں اور اپنی دریافتوں پر حیران تھی۔ چاروں طرف عظیم الشان بلند اور مختلف زاویوں کی چوٹیاں، جو پورے منظر کو طلسماتی رنگ دے رہی تھیں۔
ان سب میں سے پاؤل خاص طور پر ان چٹانوں سے متاثر ہوئے، جسے انھوں نے بعد میں ’خداؤں کا کتب خانہ‘ قرار دیا۔۔۔ ایک ایسی جگہ جہاں پتھر کی رنگین تہوں نے ’ایک عظیم کتاب کے پتھریلے اوراق‘ بنائے ہوئے تھے، جنھیں وہ سطر بسطر پڑھ سکتے تھے کہ یہ کائنات کیسے بنی۔
کم از کم شروع میں تو ایساہی لگ رہا تھا لیکن پھر پاؤل نے گرینڈ کینین کی حیران کن طور پر اونچی اونچی دیواروں میں کچھ عجیب و غریب مشاہدہ کیا جو کہ ایک بڑی دریافت تھی۔
چٹانوں پر کھڑے ہو کر اور اوپر کی طرف دیکھتے ہوئے وہ صاف شفاف صفوان (کرسٹل) پتھروں کی پتلی پتلی تہوں کا ایک موٹا حصہ دیکھ سکتے تھے، جو زیادہ تر گرینائٹ پتھر سے بنا ہوا تھا، اور غیر معمولی عمودی ترتیب میں تھا۔
اس کے اوپر صاف افقی لکیروں میں جس کی آپ توقع کریں گے، سرخ مٹی کے پتھر کی ایک ہزار فٹ (305 میٹر) کی ایک تہہ تھی۔
عمودی کرسٹل چٹان کی تہوں کو گن کر پاؤل نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ حصہ دس ہزار فٹ (3،050 میٹر) موٹا ہونا چاہیے لیکن اصل میں اس کی چوڑائی صرف 500 فٹ تھی۔ ہزاروں فٹ پتھر غائب تھا، یہ بس غائب ہو گیا تھا۔ انھوں نے اس پہلو کو ایک ’عظیم عدم مطابقت‘ کا نام دیا اور خود سے سوال کیا کہ ’ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟‘
آج ماہرین ارضیات جانتے ہیں کہ سخت، کرسٹل لائن پتھروں کی سب سے کم عمر ایک ارب ستر کروڑ برس بنتی ہے جبکہ ریت کے پتھر کی سب سے قدیم پرت 55 کروڑ برس پہلے وجود میں آئی تھی۔
اس کا مطلب ہے کہ ارضیاتی ریکارڈ میں ایک ارب سے زائد برسوں کا فرق ہے اور آج تک کوئی نہیں جانتا کہ اس درمیان ان پتھروں کی تہوں کے ساتھ کیا ہوا۔
ایک عالمی بے قاعدگی
اگرچہ گرینڈ کینیون میں لاپتہ چٹانوں کا سلسلہ خاص طور پر واضح ہے لیکن یہ رجحان کئی اور جگہوں پر بھی دیکھا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف ایلینوئے میں ڈیپارٹمنٹ برائے ارضیات کے پروفیسر ایمیرائیٹس، سٹیفن مارشیک کہتے ہیں ’یہ ایک ایسا پہلو ہے جو اکثر بہت سے لوگوں کے پیروں کے نیچے رونما ہوتا ہے اور انھیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔‘
وہ وضاحت کرتے ہیں کہ کسی بھی براعظم کے مرکز میں، چاہے وہ امریکہ ہو، سائبیریا یا یورپ ہو، اگر آپ زمین میں بہت نیچے تک ڈرل کرتے ہیں تو آپ اس پراسرار ارضیاتی بے قاعدگی میں شامل چٹان کی دو تہوں تک پہنچ جائیں گے۔
مارشیک کہتے ہیں کہ ‘اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے نیچے ہر جگہ وہ حد موجود ہے – بعض اوقات یہ زمین کی سطح کے قریب ہوتی ہے اور آپ اسے دیکھ سکتے ہیں، بعض اوقات یہ زمین کی سطح سے ایک کلومیٹر نیچے ہوتی ہے، لیکن یہ ہمیشہ سے موجود ہے، سوائے پہاڑی سلسلوں کے جہاں یہ مکمل طور ننگی ہوچکی ہوتی ہے۔ اور اس طرح یہ بہت وسیع ہے، اور یہ ہمیں زمین کی تاریخ کے بارے میں ایک بہت ہی اہم کہانی بتا رہی ہے۔’
جیسا کہ مارشیک نے اشارہ کیا کہ یہ معلوم کرنا کہ اس دوران کیا ہوا، اور اس کی وجہ سے، ایک ارب برس کا لاپتہ ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ایسا کسی اور ناقابل بیان واقعہ سے فوراً پہلے ہوا ہے – یعنی 54 کروڑ برس پہلے زمین پر زندگی کے تنوع میں اچانک پھیلاؤ ہوا ہو (اس دور کو ’کیمبرین پیریڈ‘ کہا جاتا ہے)۔
کیمبرین پیریڈ سے مراد وہ دور ہے جب سمندر اچانک عجیب اور ناواقف مخلوق کی رکھنے کے قابل نہ رہا – جیسے شہ شگافہ (ٹریفڈ نما) پتوں کے سائز والے جانور اور بڑے گول گول جیسے انڈے جن کو آج کے آس پاس بہت ساری انواع یا جانوروں کی (ٹیکسونومک گروپس کے ساتھ) درجہ بندی کرنا کافی دشوار ہے۔ یہ سب صرف سوا کروڑ یا ڈھائی کروڑ برسوں کے درمیان ہوا ہے، جو کہ ایک ارتقائی و قت کے لحاظ سے ’پلک جھپکنے‘ جتنا وقت بنتا ہے۔
اس مسئلے کی سب سے پہلے سنہ 1840 کی دہائی میں نشاندہی کی گئی تھی، اور خاص طور پر چارلس ڈارون کے لیے یہ بات ایک چیلنجنگ ثابت ہوئی تھی۔ انھوں نے اسے ‘ناقابل بیان’ تصور یا واقعہ قرار دیا اور اپنی تحقیقی ‘آن دی اوریجن آف سپیشیز’ میں اس کم علمی پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ کیمبرین نظام کے تحت فوسلز سے مالا مال تہوں کے وسیع ڈھیروں کی عدم موجودگی کی کوئی اچھی وجہ بتانا کافی مشکل کام ہے۔
دوسرا یہ ہے کہ یہ سوچا گیا ہے کہ زمین ان گمشدہ برسوں کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بدل گئی ہے – ممکنہ طور پر برف کی ایک بڑی گیند میں تبدیل ہو گئی، جس کی سطح تقریباً مکمل طور پر منجمد ہوگئی۔ فی الحال یہ بہت کم معلوم ہے کہ اس ‘سنو بال ارتھ’ (گیند نما برف) کی تشکیل کیسے ہوئی، یا زندگی کا وجود کس طرح برقرار رہا۔
بہرحال اگر ہم جان لیں کہ اس ماقبل تاریخ کے تاریک دور میں کیا ہوا ہے تو شاید ہمیں ان پراسرار سائنسی پہیلیوں کے کچھ جواب مل جائیں گے۔
کولوراڈو یونیورسٹی، بولڈر میں جیولوجیکل سائنسز کے شعبے میں ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ریبیکا فلاورز کا کہنا ہے کہ ‘یہ زمین کی تاریخ کا ایک وقفہ ہے۔ اور یہ تمام واقعات واضح طور پر کسی نہ کسی شکل میں ایک دوسرے سے کوئی تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا زمین کی تاریخ کے اس اہم وقفے میں ان مختلف عملوں کے درمیان تعلقات کو الگ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں، میرے خیال میں یہ بہت بنیادی بات ہے۔’
نظریہ 1: سنو بال
اس بارے میں ایک خیال کہ گمشدہ دور کس وجہ سے وقوع پذیر ہوا اس کا جواب اس میں مضمر ہے کہ زمین کے گلیشیئرز پر آج کل کیا ہورہا ہے۔ کرہ ارض کا دوسرا سب سے بڑا برف کے ذخیرے، گرین لینڈ کی برف کی سطح (آئس شیٹ) کو لے لیں، جو ملک کی سطح کے رقبے کا تقریبا 80 فیصد حصہ بنتا ہے۔
دریاؤں کی طرح گلیشیئر بھی حرکت کر سکتے ہیں – لیکن بہت آہستہ۔ اور جیسا کہ وہ کرتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ اس سطح (کرسٹ) کا کٹاؤ کرتے ہیں جس کے اوپر وہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ اگر یہ عمل ہزاروں یا لاکھوں برسوں تک جاری رہا ہو تو بالآخر یہ کٹاؤ چٹانوں کی مختلف حصوں کو مخلتف انداز میں ختم کر سکتا ہے۔ اسی عمل کی وجہ سے گرین لینڈ اپنی برفانی تاریخ کے کٹاؤ کے عمل سے بھرا ہوا ہے جس کے نتیجے میں گہری وادیاں اور بڑی بڑی کھاڑیاں وجود میں آئیں۔
لیکن جب گرین لینڈ کے کچھ حصے بہتی ہوئی ہوئے برف کے کٹاؤ کی وجہ سے تراشے گئے ہیں، جبکہ دوسری جگہوں کو گلیشیروں نے محفوظ کیا ہے جو کہ بہت سخت اور ٹھنڈے تھے، تو وہ بالکل بھی حرکت نہیں کرتے تھے۔
اور زمین کو محفوظ طریقے سے خول کے نیچے رکھتے تھے، جس سے وہ حصہ کسی کٹاؤ سے محفوظ رہا۔ یہ علاقے بڑے پیمانے پر بدلے ہوئے ہیں، اور ان کی وجہ سے ملک بھر میں سطح مرتفع جیسے زمین تشکیل پاتی ہے۔
نیو ہیمپشائر کے ڈارٹ ماؤتھ کالج کے شعبہ ارتھ سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر سی برینن کیلر کا کہنا ہے کہ زمین کے سائنسدانوں کو ‘گیلے’ گلیشیر کہتے ہیں جبکہ دوسرے ٹھنڈے’ کہلاتے ہیں۔
’جب زمین ایک بڑا سنوبال تھی‘، کے اس نظریے کی جانب لوٹتے ہیں تو اس کے مطابق کٹاؤ کا یہی عمل سیارے کی پوری سطح پر لاگو ہوتا۔ تو صرف ایک سوال یہ ہے کہ یہ دور کتنا تلخ تھا – کیا گلیشیئرز ‘گیلے’ یا ‘سرد’ ہوتے ہیں – اور کیا برف کی کوئی مقدار ایک ارب سال کی چٹان کو ختم کر سکتی ہے؟
سنہ 2018 میں کئی ایک یونیورسٹیوں کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پروفیسر کیلر نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی۔ کئی سال پہلے کسی دوسرے گروپ کے تیار کردہ ماڈل کی بنیاد پر انہوں نے یہ سمجھا کہ سنوبال زمین کی سطح پر واقعی ‘گیلے’ گلیشیر ہوتے تھے، اور یہ حیرت انگیز طور پر حرکت کرتے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کرہِ ارض پر برف کی چادر اجتماعی طور پر اتنا پانی قید کر دیتی کہ زمین کی سطح سمندر میں ڈرامائی طور پر پانی کی کمی واقع ہو جاتی۔ اس کے نتیجے میں زمین سے سمندر تک ایک تیز تر ملاپ پیدا ہوتا جس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کی سطح پر گلیشیئر زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہوں گے – جس طرح دریاؤں کی رفتار تیز ہوتی ہے جب وہ نیچے کی طرف بہہ رہے ہوتے ہیں۔
یہ عمل مجموعی طور پر تقریباً 71 کروڑ ستر لاکھ برس پہلے شروع ہوا اور تقریبا 58 کروڑ برس پہلے ختم ہوا، اس ٹیم نے پیش گوئی کی کہ ٹھنڈے دور نے تقریبا تین سے پانچ کلو میٹر طویل عمودی چٹان کا کٹاؤ کردیا ہوگا – جو کہ اس ‘عظیم عدم مطابقت’ کے نظریے کو ثابت کرنے کے حساب سے کافی زیادہ کٹاؤ ہے .
کیلر کا کہنا ہے کہ ‘میرے خیال میں یہ یقین کرنے کی ہر وجہ ہے کہ یہ کافی حد تک کٹا ہوا تھا’ اگرچہ وہ بتاتے ہیں کہ گمشدہ چٹان کی مقدار ہر جگہ یکساں نہیں ہوتی ‘کیونکہ برف کے کٹاؤ کا عمل ہر جگہ ایک جیسا نہیں ہو تا ہے۔’ برف کے کٹاؤ کے عمل کے مختلف ہونے کی وجہ سے یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ دنیا کے کچھ حصوں میں دوسروں کے مقابلے میں چٹانیں زیادہ غائب کیوں ہوئیں۔
تاہم یہ پوری کہانی نہیں ہو سکتی ہے کیوں کہ ابھی مزید چار کروڑ برس باقی ہوں گے جب کہ بہت سی نئی چٹانیں بچھائی جائیں گی۔
کیلر کا کہنا ہے کہ ‘اور میں سمجھتا ہوں کہ اصل میں وہاں کیا ہو رہا ہے، آپ نے سرد ترین حصے کو کاٹ کر کرسٹ کو زیادہ گرم کر دیا ہے۔ اس نے زمین کو آگے بڑھایا اور مزید کٹاؤ کی راہ ہموار کی – یہ جتنا اونچا ہوگا، بارش اور ہوا جیسے عام موسم سے اتنی جلدی ختم ہوجائیں گی۔’
نظریہ 2: ایک عظیم براعظم کی موت
ایک اور امکان یہ ہے کہ ایک ارب برس لاپتہ ہوجانے کا اصل ذمہ دار سپر براعظم ’روڈینیا‘ تھا – یہ وہ براعظم ہے جسے ہم بھول چکے ہیں جو مشرقی انٹارکٹیکا، انڈیا، سائبیریا، چین، جنوبی امریکہ، شمالی امریکہ اور افریقہ کے مختلف حصوں کو ایک جگہ پر مرکوز رکھتا تھا۔ یہ سب سے پہلے تقریباً ایک ارب برس پہلے موجو د تھا، اور 75 کروڑ برس پہلے تک آہستہ آہستہ ٹوٹتا گیا۔
ایلینوئے یونیورسٹی کے جیولوجی ڈیپارٹمنٹ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم مائیکل ڈی لوشیا کا کہنا ہے کہ ‘اس نے بنیادی طور پر دنیا کی تمام پرتوں کو ایک بڑے براعظم میں ملا دیا ہے۔’ وہ بتاتے ہیں کہ زمین کے بیچ سے زیادہ تر گرمی عام طور پر سمندری فرش پر واقع پہاڑی سلسلوں کے ذریعے خارج ہوتی ہے۔ لیکن جب تمام براعظموں کو ایک ساتھ دھکیل دیا گیا تو روڈینیا کافی گرم ہو گیا۔
ڈی لوشیا کہتے ہیں کہ ‘اور یقیناً جب چیزیں گرم ہوتی ہیں تو وہ پھیل جاتی ہیں۔ تو یہ بنیادی طور پر براعظم کے نیچے کی توسیع تھی جو ہمارے خیال میں زمین پر اس ارتقائی ابھار کو فروغ دیتی ہے جس کی وجہ سے چھ سے آٹھ کلومیٹر عمودی بلندی وقوع پذیر ہوئی۔’
اس سے نہ صرف براعظم روڈینیا کے ٹوٹنے میں تیزی آئی بلکہ ہو سکتا ہے کہ پچھلے ایک ارب برسوں میں ہونے والی ہر چیز کا ریکارڈ مٹ گیا ہو – ایک بار پھر زمین اونچی تھی اور اس وجہ سے زیادہ آسانی سے مٹ گئی۔
اس نظریہ کے مطابق ، روڈینیا 20 کروڑ برسوں تک ایک دیوہیکل، پہاڑی سطح مرتفع کی طرح دکھائی دیتا تھا – جس پر زندگی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا، جو ابھی تک اس وسیع و عریض سمندر تک محدود تھا جس نے اسے گھیر رکھا تھا۔ یہ بالآخر کٹتے کٹتے ختم ہو گیا۔ ڈی لوشیا کہتے ہیں کہ ‘ہم یہ کٹاؤ کا ہونا موجودہ تمام براعظموں میں دیکھتے ہیں۔’
لیکن یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوجاتی ہے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو کٹاؤ کی اتنی مقدار نے ماحول اور سمندروں کی کیمسٹری کو تبدیل کر دیا ہوتا جس کی وجہ سے بہت بڑی موسمیاتی تبدیلی ہوچکی ہوتی۔ آج جو ہو رہا ہے تو سب کچھ اس کے برعکس ہوتا – جیسا کہ بارش کے پانی نے اس براعظم کی سطح کو کاٹ دیا ہوتا، اس سے کیلشیم آئن جاری ہوتے جو پھر سمندر میں کیلشیم کاربونیٹ (چاک کا بنیادی جزو) بہا کے لے جاتے۔
بنیادی طور پر کٹاؤ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو سمندر میں بند کردیتا ہے۔ اسے فضا سے باہر بند کرتا ہے اور زمین کو ٹھنڈا کرتا ہے۔
اس منظر نامے کے مطابق، بہت پہلے کے بجائے ایک ارب برسوں کے لاپتہ ہوجانے کے بعد کرہ ارض کو سنوبال میں بدل جانا چاہیے تھا۔
مارشیک جو تحقیق میں بھی شامل تھے، کہتے ہیں کہ ‘اس نے شاید مزید تلچھٹ کو بھی ختم کر دیا۔ جس نے ‘عظیم عدم مطابقت’ کو مزید بڑھایا’ آخر میں ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے والے روڈینیا کے نیچے چٹان کی پرانی تہیں بے نقاب ہوچکی ہوں گی جو نئی تلچھٹ چٹان کے ساتھ براہ راست شامل ہونے کے لیے تیار ہوں گی جو کہ آب و ہوا کے نظام کے دوبارہ مستحکم ہونے کے بعد تشکیل پائی ہوں گی۔
جس طرح سے جو بھی ہوا، چٹانوں کی ناقابل فہم مقداروں کا کٹاؤ اور سمندروں میں ان تلچھٹ کی منتقلی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ کیمبرین کے دوران زندگی کے پھیلاؤ کے فورا بعد میں یہ سب کچھ ہوا۔ یہ خاص طور پر حیران کن ہے کہ – ایک ایسے وقت میں جب سمندر میں پہلے سے کہیں زیادہ تحلیل شدہ معدنیات ہوں گی – بہت سی زندگیوں کی ایسی نئی نئی شکلیں وجود میں آرہی تھیں جن میں ہڈیاں ہوں یا ان کے شیلز تھے جن کے لیے کیلشیم کی ضرورت ہوتی تھی۔
تاہم مارشیک اس بات پر زور دینا چاہتا ہے کہ بحث جاری رہنی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘کچھ ایسے مسائل ہیں جو اب بھی میں متنازعہ ہیں اور اب بھی ان میں تحقیق کی ضرورت ہے۔’
نظریہ 3: وقفوں کا الجھاؤ
یہ نظریہ ہمیں تازہ ترین خیال کی طرف لاتا ہے۔
ایک ارب سال کے لاپتہ ہونے کی صرف دو ممکنہ وجوہات ہیں – یا تو کوئی چٹان نہیں بچھائی گئی یا یہ سب ہٹا دیا گیا (یا شاید دونوں باتیں ہوئی ہوں گی)۔
اگرچہ ‘عظیم غیر مطابقت’ گرینڈ کینیون میں سب سے زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ یہ کئی دیگر مقامات پر بھی دیکھی گئی ہیں، جن میں سے ایک کینیڈین شِیلڈ ہے، جو نظر آنے والی قدیم چٹان کا ایک وسیع علاقہ ہے جو ملک کے شمال مشرق میں ہڈسن بے کو گھیرے ہوئے ہے۔ اور یہاں حالیہ تحقیق کے دوران ایک نیا موڑ سامنے آیا۔
تحقیق سے وابستہ پروفیسر فلاورز کا کہنا ہے کہ ‘ایسا لگتا ہے کہ گرینڈ کینین میں بڑا کٹاؤ سنوبال گلیشیئرز کے دور سے پہلے ہوا تھا’ جبکہ کینیڈین شِیلڈ میں یہ سنوبال کرہ ارض پر گلیشیرز بننے کے عمل کے دوران یا بعد میں ہوا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ارضیاتی ریکارڈ میں کوئی ایک بڑی رکاوٹ یا مخصوص واقعہ نہیں تھا – بلکہ اصل میں کم از کم دو چھوٹے چھوٹے وقفے ہیں، جو کہ ایک بڑے وقفے کی طرح دکھائی دیتے ہیں کیونکہ یہ ایک ہی وقت میں ہوئے تھے۔
پھر اس سال کے شروع میں ایک اور حیرت انگیز بات بھی تھی۔ پاول کی بے مثال مہم کے صرف 150 سال بعد فلاورز اور ان کے ساتھیوں نے اپنی تحقیقات کرنے کے لیے گرینڈ کینیون کا پھر سے ایک تحقیقی دورہ کیا۔
جو کچھ انہوں نے اب دیکھا وہ حیران کن تھا، یہاں تک کہ گرینڈ کینیون میں گمشدہ ایک ارب برس بھی بیک وقت غائب نہیں ہوئے ہوں گے اور اس کے بجائے کئی کروڑوں سالوں کے دوران کئی الگ الگ واقعات میں غائب ہو سکتے ہیں۔
سانتا باربرا کیلیفورنیا یونیورسٹی میں ارضیات کے پروفیسر فرانسس میکڈونلڈ جو ان تحقیقات میں شامل تھے، کا کہنا ہے کہ قبل تاریخ کے ان ادوار کے میعار کے لحاظ سے صحیح طریقے سے لاپتہ ہو جانے والے ایک ارب برسوں کا تعین کرنے میں ماہرین بالکل ہی کامیاب نہیں ہوں گے۔
اور اسی طرح پچھلے نظریے نے تجویز کیا وہ ٹھیک ہے، یہ سب ایک بار گلیشیئشرز بننے کے عمل کے ساتھ بنے – لیکن ہم کہہ رہے ہیں کہ ‘نہیں یہ سینکڑوں لاکھوں سالوں میں تشکیل پائے ہے’ جبکہ آپ کے پاس ایسے اعداد و شمار موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ یہ عدم مطابقت تصور کا ہر جگہ ایک ہی طرح پیش آنا ایک ضروری بات نہیں ہے۔‘
اگر مٹائی گئی چٹان کے دو واقعات واقعی ایک دوسرے سے تعلق نہیں رکھتے ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی غیر معمولی واقعہ کی وجہ سے نہیں بنے تھے جیسے کہ سنوبال زمین کا واقعہ۔
اس معاملے میں پروفیسر فلاورز سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عدم مطابقت ٹیکٹونک عمل کے ذریعے تشکیل پائے ہوں گے جس نے زمین کی پرت کی ایک بڑی مقدار کو اوپر کی طرف دھکیل دیا ہو۔ شاید کوئی کٹاؤ سرے سے ہوا ہی نہ ہو – یہ ممکن ہے کہ اونچائی نے تلچھٹ جمع کرنا مشکل بنا دیا ہو اور اس وجہ سے اس دور کے آغاز میں چھوٹی سی چٹان بنائی گئی تھی۔
ایک حل نہ ہونے والا پراسرار معمہ
تاہم بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی ہے۔ بحث اب بھی جاری ہے – تمام ماہرین جن سے میں نے بات کی تھی ان سب نے مزید ڈیٹا کی ضرورت پر زور دیا۔ اور خوش قسمتی سے اس پر کام ہورہا ہے اور یہ آنے والا ہے۔
میکڈونلڈ کا کہنا ہے کہ ‘مجھے لگتا ہے کہ (اس ارضیاتی معمے میں) دوبارہ سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔’ ایک دہائی پہلے ‘عظیم عدم مطابقت’ اور اس کے ہونے کی وجہ کیا تھی، اس پر نسبتاً بہت کم تحقیق ہوئی تھی۔ لیکن نئے غیر معمولی نظریات کے سامنے آنے کی وجہ سے – اور ان کی تحقیق کرنے کے قابل نئی ٹیکنالوجیز کے ظہور نے اب اس مسئلے پر تحقیق کے میدان کو یکسر بدل دیا ہے۔
ایک بڑا گیم چینجر ’تھرمو کرونولوجی‘ کے نام سے جانی جانے والی ایک تکنیک تھی جس میں پتھروں کی تاریخ کو ماپنے کے ذریعے ان کا درجہ حرارت تبدیل ہونے کے بعد ان کی تبدیلی کو شامل کرنا ہے۔
مارشیک کہتے ہیں کہ ‘یعنی مثال کے طور پر (پرانے طریقوں کے استعمال کے ذریعے) اگر کوئی کہتا ہے کہ اس نے گرینائٹ کی تشکیل کی تاریخ نکال لی ہے اور یہ 10 کروڑ برس پرانا ہے، تو وہ عام طور پر اُس وقت کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں جب یہ میگما (پگھلا ہوا مادہ جو زمین کی اندرونی تہوں سے برآمد ہوتا ہے اس میں سے آتش فشانی چٹانیں قلمیں بنتی ہیں) سے ٹھنڈا ہوگیا تھا۔
’تھرمو کرونولوجی کے ذریعے آپ یہ نہیں دیکھ رہے کہ چٹان کب بنتی ہے، بلکہ آپ یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ جب اسے زمین کی سطح پر دھکیل دیا گیا تھا – اور اس طرح آپ ہمارے سیارے کے ماقبل تاریخ کے دور کو جان سکتے ہیں کہ اس وقت کیا ہو رہا تھا۔‘
میکڈونلڈ کا کہنا ہے کہ ‘اس تکنیک نے بنیادی طور پر ہمیں گمشدہ وقت کے ریکارڈ نکالنے کے لیے ایک موقعہ مہیا کیا ہے۔’ کون جانتا ہے کہ اس کی بدولت وہ (ماہرین) کون کون سے راز افشا کر دیں۔