اٹلی میں ماضی کا بہترین ساحلی قصبہ جو اب سیاحوں کے لیے ترستا ہے
انیسویں صدی میں اٹلی کے بہترین ساحلی ریزارٹس میں لیورنو کا شمار ہوتا تھا اور اسے اپنے یہاں آنے والے مشاہیر مہمانوں پر فخر تھا لیکن آج کل اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے سیاح حیرت و استعجاب سے پُر اس شہر سے دور ہیں۔
سال میں کم از کم دو بار میں اپنے بچپن کے شہر لیورنو جاتا ہوں۔ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے میں اس گندی، پرشور اور رنگارنگ مرکزی فوڈ مارکیٹ کا رخ کرتا ہوں جہاں میں فریٹ (شکر میں شرابور نارنجی خوشبو والا ڈونٹ) کھاتا ہوں اور پھر بندرگاہ کی طرف یہ دیکھنے کے لیے نکل آتا ہوں کہ آیا شرارتی بچوں کا سٹینڈ اب بھی وہاں موجود ہے جہاں لیموں کے رس کے ساتھ سمندری مخلوق سپائیکی کو آدھے حصے میں کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔
پیسا سے صرف 20 کلومیٹر جنوب میں موجود لیورنو میں عام یورپی بندرگاہ والے شہر کی تمام خصوصیات موجود ہیں، یہ جیتا جاگتا اور ہنگامہ خیز ہے۔ یہ کثیر الثقافتی ہے اور یہ ثقافت اور کھانے دونوں لحاظ سے سمندر سے مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ٹسکینی کے وسط میں ہے جس کی وجہ سے اسے خود ہی مقبول ہونا چاہیے۔
پھر بھی یہ فلورنس کے سیاحوں کی تعداد کا صرف 10 فیصد اور پیسا کے ایک تہائی لوگوں کو اپنی جانب راغب کر پاتا ہے اور جو چند سیاح لیورنو میں نظر آتے ہیں انھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ بھولے بھٹکےاتفاقیہ وہاں آ گئے ہیں۔
اگر آپ کو کوئی سڑک پر مل جائے تو اسے روک کر پوچھیں کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں تو وہ ممکنہ طور پر کہیں گے کہ وہ کورسیکا یا سارڈینیا کی کشتی کا انتظار کر رہے ہیں یا بس گاڑی پر ادھر سے گزر رہے ہیں اور کھانے کی کوئی معقول جگہ تلاش کر رہے ہیں۔
لیکن ایسا کیوں ہے؟ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ لیوورنو دنیا کے مشہور ٹسکن قصبوں سے گھرا ہوا ہے، جس کے بارے میں بہت سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس کی چمک ماند کر دیتے ہیں۔ جبکہ بہت سے دوسروں کا خیال ہے کہ ان برسوں میں شہر کے تیل صاف کرنے کے کارخانے، اس کے بندرگاہ والے علاقے اور امریکی فوجی اڈے کیمپ ڈاربی نے لیورنو کو ایک صنعتی اور آلودہ شہر کے طور پر اس مشہور کر دیا ہے۔
لیکن تیز رفتاری سے گزرنے والے مسافروں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ ثقافتی طور پر جیتے جاگتے شہر سے محروم ہو رہے ہیں جہاں ایک دلکش ساحلی پٹی کے ساتھ ان کا ایک منفرد لبرل رویہ ہے جس کی جڑیں اس کے قیام سے جڑی ہوئی ہیں۔ جب اٹلی کے معروف خاندان میڈیس نے سنہ 1500 کی دہائی میں اس شہر کی بنیاد رکھی تھی تو انھوں نے ایسے قوانین بنائے جو تمام نئے آنے والوں، ڈرائنگ کے کاروبار، ہنرمند اور متنوع آبادی کے لیے بے مثال آزادی کی ضمانت دی گئی اور جس نے شہر کو ترقی کی منازل طے کرنے مدد فراہم کی۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی تک لیورنو گرینڈ ٹور (یورپ کی وسیع سیاحت) کا ایک اہم پڑاؤ بن گیا تھا۔ مقامی تاریخ دان جورجیو منڈیلس نے کا کہنا ہے کہ ’اس وقت، لیوورنو اطالوی اعلیٰ معاشرے کے لوگوں کے لیے موسم گرما میں ایک مقبول سیاحتی مقام تھا۔‘ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 1800 کی دہائی سے لے کر دوسری جنگ عظیم تک یہ شہر اٹلی کے ان پہلے سمندری کناروں میں سے ایک تھا جہاں ریزارٹس تھے اور جہاں اطالوی شاہی افراد باقاعدگی سے آتے تھے، اور یہاں ہوٹلوں اور سپاز سمیت سیاحت کی سہولیات موجود تھیں۔ یہاں تک کہ رولر کوسٹرز کے ساتھ تفریحی میلہ بھی منعقد ہوتا تھا جسے سنیما کا ابتدائی ورژن کہا جا سکتا ہے۔ اسے موشن پکچر کے علمبردار لومیئر برادرز کے ایجنٹ چلایا کرتے تھے۔
مونٹینیرو کے پڑوس میں ولا ڈوپوئے کی دیوار پر ایک تختی لگی ہے جو کہ انگریزی کے معروف شاعر لارڈ بائرن کی سنہ 1822 میں چھ ہفتے کے لیے لیوورنو میں چھٹی گزارنے کے قیام کی یاد میں لگائی گئی ہے۔
تاہم شان و شوکت کے دن ہمیشہ کے لیے نہیں رہنے والے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی فضائی حملوں نے عسکری لحاظ سے اہم بندرگاہ کے حامل اس شہر کو اور اس سیٹی سینٹر کو تباہ کر دیا جس کی وجہ سے لیورنو سب سے زیادہ بمباری سے متاثرہ اٹلی کے شہروں میں سے ایک بن گیا۔ بہت سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جنگ کے بعد لاپرواہی اور عجلت میں محلوں کی دوبارہ ترقی کے منصوبوں سے حالات اور بھی خراب ہو گئے۔
مینڈالس کا کہنا ہے کہ ‘لیورنو کی عوام میں شبیہہ جو پہلے ہی جنگ کی وجہ سے خراب ہو چکی تھی وہ نئی معقولیت پسند عمارتوں کی وجہ سے مزید تباہ ہو گئی کیونکہ بموں سے بچ جانے والی 17ویں صدی کے فن تعمیرات کے ساتھ ساتھ کھڑی ہونے والی یہ عمارتیں بے ہنگم اور غیر متوازن نظر آتی تھیں۔’
رہائشی ان آنکھوں کو چبھنے والی عمارتوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے متعلق ایک فیس بک گروپ بھی ہے جس کا نام Se potessi demolire(اگر میں گرا سکتا۔۔۔)۔ یہ گروپ اپنے ڈسکرپشن میں رہائشیوں سے ایسی عمارتوں کی تصاویر پوسٹ کرنے کی ترغیب دیتا ہے جو ’ان کے منظر کو ٹھیس پہنچاتی ہیں‘ یعنی جو ان کی آنکھوں کو بھلی معلوم نہیں ہوتیں۔ فن کی مؤرخ فیڈریکا فالچینی کا کہنا ہے کہ ’لیورنو کے باشندے ابھی تک نام نہاد ’نوبل انٹررومپیمینٹو‘ یا ’مقدس مداخلت‘ یعنی شہر کے سابقہ پیازا گرانڈے کے عین وسط میں جنگ کے بعد ایک بڑی عقلیت پسند عمارت کے تعمیر کیے جانے کو برداشت نہیں کر سکے ہیں۔ خیال رہے کہ پیازا کبھی یورپ کے سب سے بڑے چوک میں سے ایک ہوا کرتا تھا لیکن اب وہ عمارت کے ایک طرف پارکنگ اور دوسری طرف بس سٹاپ سے زیادہ نہیں رہا ہے۔‘
مقدس مداخلت سے قطع نظر لیورنو کے پاس مثبت چیزیں بھی ہیں۔ مینڈالس نے کہا ’ہمارے پاس ایسی چیزیں ہیں جو دوسرے ‘خصوصی طور پر خوبصورت’ ٹسکن شہروں (جیسے فلورنس، لوکا، پیسا اور سیانا) کے پاس نہیں ہیں۔ شہر کی کشادگی اور چمک دمک نے صدیوں سے مصوروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے، اور لیورنو تاریخ اور فن کے نمونوں سے بھرا ہوا ہے، جیسے کہ قدیم سمندری ریزورٹس، 14ویں صدی کا لائٹ ہاؤس یا نیول اکیڈمی کے سامنے موجود انتخابی ولاز ہیں۔
دیگر ٹسکن شہروں کے برعکس لیوورنو کی اپنی ایک تاریخ بھی ہے۔ مقامی طنزیہ میگزین The Vernacoliere کے بانی اور چیف ایڈیٹر ماریو کارڈینالی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ لیورنو کا قیام 1500 کی دہائی میں فلورنس کے مصنوعی باشندوں کے آباد ہونے سے عمل میں آیا۔ اسے انتہائی آزاد خیال قوانین جسے Livornine کہا گیا کے اصولوں پر آباد کیا گیا جس کے تحت یہاں غیر ملکی تاجروں اور کسی بھی قوم اور نسل سے تعلق رکھنے والے جلاوطنوں کو آباد ہونے کی اجازت تھی، یہاں تک کہ وہ لوگ بھی یہاں آباد ہو سکتے تھے جنھوں نے سوائے قتل کے کسی جرم کے مرتکب رہے ہوں تاکہ شہر میں تجارت اور ترقی کو فروغ حاصل ہو۔
کارڈینالی نے کہا ’لیورنو اپنی مزاحیہ بے غیرتی اور سیاسی اتھارٹی اور چرچ کے تیئں احترام کی کمی کے معاملے میں بہت ‘غیر ٹسکن’ ہے، اور اس کی تاریخی وجوہات بھی ہیں۔’ثقافتوں کا اختلاط، جس میں سیفرڈک یہودی، یونانی، آرمینیائی اور ڈچ شامل تھے، نے ہی اس شہر کو ابتدائی طور پر ترقی دی، لیکن اس کے ساتھ ہی آج جو لیورنو کے باشندے ہیں وہ بھی اسی وجہ سے ایسے ہیں۔ وہ ایسے لوگ ہیں جو دوسرے ٹسکن کے برخلاف قرون وسطیٰ میں رائج عام طور پر نظام کے احترام کو فروغ دینے میں ناکام رہے اور مزاح کے ذریعے وہ اس کا اظہار کرتے ہیں۔
شہر کی مقامی زبان میں لکھی جانے والی میگزن Vernacoliere اس جذبے کو پوری طرح سے مجسم کرتی ہے۔ جہاں یہ شہر اپنی سیاسی تنقید اور کیتھولک چرچ کے بارے میں گستاخ مزاحیہ فقرے کے ساتھ ساتھ عریانیت اور بے حرمتی کے مختلف درجات کے لیے پورے اٹلی میں جانا جاتا ہے وہیں اس میگزین کی بنیاد سنہ 1982 میں اس وقت رکھی گئی جب پوپ لیورنو کا دورہ کرنے والے تھے۔
مینڈالس نے مزید کہا ‘اور شہر کے کاسموپولیٹن اور کثیر الثقافتی تاریخ سے کچھ اور بھی وراثت میں ملا ہے اور جو دوسرے ٹسکن شہروں کو نہیں مل سکا ہے۔ اور یہ مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لیے اس کی گہری رواداری ہے۔’
مقامی کھانوں پر یوٹیوب چینل چلانے والے شیف سیمون ڈی وینی کے مطابق یہاں کا کھانا بھی لیورنو والوں کے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ‘[لیورنو کا مخصوص کھانا] بہت سی قوموں کے اثرات کا نتیجہ ہے جنھوں نے 16ویں صدی میں اس شہر کو آباد کیا۔ دوسرے زیادہ قدیم ٹسکن قصبوں کے برعکس، جو پہلے سے ہی اپنی اچھی طرح سے متعین کھانے کی روایات کے حامل تھے، نوجوان اور کاسموپولیٹن لیورنو والے نئے اور پرانے کھانے کو ملا کر اپنا ایک کھانا بنانے کے قابل تھے۔’
ڈی وینی نے کہا کہ کوسوشو الا لیورنیسے cuscussù alla livornese جیسے پکوان شمالی افریقہ اور یہودی اسپین کے ساتھ تاریخی سمندری تعلقات کو ظاہر کرتے ہیں۔ جبکہ لیورنو کا خاص پکوان cacciucco یہاں کا سگنیچر یا مخصوص پکوان ہے۔ اس میں مختلف قسم کی مچھلیوں کو ایک ساتھ پکایا جاتا ہے، اور اس سے ایسی چیز بنائی جاتی ہے جو نہ تو مچھلی کا سوپ ہے اور نہ ہی مچھلی کا شوربہ، بلکہ کچھ منفرد، تھوڑا سا لیورنو جیسا۔’
یہ یکسانیت بھی ایک کشش ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ لیورنو ٹورزم آفس کی سربراہ پاولا راموینو نے وضاحت کی کہ گذشتہ دہائیوں میں شہر کو اپنے ترقی پزیر بندرگاہی کاروبار کی بدولت سیاحت پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن اب اس سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘لیورنو کے پاس سمندر اور ثقافت سے لے کر کھانے اور شراب تک بہت کچھ ہے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہماری سیاحت پائیدار، ‘عمدہ و منفرد’ ہو۔ ہم مستند، غیر دقیانوسی تجربات پیش کرنا چاہتے ہیں۔’
ثقافتی نقطہ نظر سے بھی چیزیں بدل رہی ہیں۔ لیورنو میں پیدا ہونے والی موسیقار الیسندرا فالکا کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ برسوں میں فنکارانہ منظرنامہ موسیقی کے تہواروں، تھیٹروں، آرٹ گیلریوں اور نمائشوں کے ساتھ، خاص طور پر گرمیوں میں زیادہ پرجوش ہو گیا ہے۔‘
دوسرے لفظوں میں یہ ٹسکن شہر ان زائرین کے لیے بنا ہے جو مقامی تاریخ میں تھوڑا گہرائی میں جانے اور اس کے آسان رویہ اور غیر معمولی کردار کو اپنانے کے لیے تیار ہیں۔ فالکا کے مطابق لیورنو والوں کے خیال میں دنیا میں اس سے بہتر کوئی شہر نہیں ہے۔ لیکن لیورنو آنے والے سیاحوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ وہ صرف اپنے آپ سے یہ کہہ رہے ہیں۔‘
شاید اس میں ابھی وقت ہے کہ سیاح اس ٹسکن شہر کو ایک اور موقع دیں۔