جب انگریز راج میں خواتین نے نمک پر ٹیکس

جب انگریز راج میں خواتین نے نمک پر ٹیکس

جب انگریز راج میں خواتین نے نمک پر ٹیکس کے خلاف تحریک چلائی

31 دسمبر 1929 کی ٹھٹھرتی رات، لاہور میں راوی دریا کے مشرقی کنارے جواہر لال نہرو کا ترنگا لہرانا ان کی جماعت کانگریس کے ’پورنا سوراج‘ یا مکمل خود حکمرانی کے مطالبے کا علامتی اعلان تھا۔

قرارداد کے مطابق برطانوی ’غیر انسانی حکمرانی کا خاتمہ یقینی‘ بنانے میں اہم عمل ’تشدد اور اشتعال انگیزی کے بغیر ٹیکس کی ادائیگی روکنا‘ تھا۔

ٹیکسوں میں ایک بڑا ٹیکس نمک پر لیا جاتا تھا جو رویے موکسھیم کے مطابق موریا حکمرانوں کے زمانے سے چلا آ رہا تھا اور مغلیہ دور میں بھی جاری رہا لیکن برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے روزمرہ ضرورت کی اس چیز کی پیداوار اور تقسیم پر اجارہ داری قائم کر لی تھی۔

مہندر سنگھ اپنی کتاب ’دی سٹوری آف سالٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’پچھلے پانچ ہزار سال سے ہندوستان کے مغربی ساحل پر رن آف کچھ کے ساتھ ساتھ نمک پیدا ہوتا رہا ہے۔ یہ وسیع دلدلی علاقہ مون سون کے دوران بقیہ برصغیر پاک و ہند سے کٹ جاتا ہے۔‘

جب موسم گرما میں سمندری پانی بخارات بن جاتا ہے تو نمک کی ایک پرت چھوڑ دیتا ہے جو ’ملنگا‘ کہلانے والے مزدور جمع کرتے ہیں۔ مشرقی ساحل پر، اڑیسہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر نمک حاصل کیا جاتا ہے۔ بنگال میں ’اڑیسہ نمک‘ کی مانگ ہمیشہ سے رہی ہے۔‘

نمک کی پیداوار اور فروخت جب ہندوستانیوں کے لیے جرم ٹھہری

مغربی ساحل پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی اجارہ داری کو برطانوی حکام کی ناراضی پر سنہ 1768 میں ختم کیا گیا مگر سنہ 1772 میں گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز نمک کی تجارت کو پھر سے کمپنی کے کنٹرول میں لے آئے۔

سنہ 1788 کے بعد کمپنی نے تھوک فروشوں کو نیلامی میں نمک بیچتے ہوئے ٹیکس بڑھا کر 3.25 روپے من کر دیا، یوں نمک کی تھوک قیمت 1.25 سے بڑھ کر تقریباً چار روپے من ہو گئی۔

سنہ 1804میں، انگریزوں نے ریاست اڑیسہ میں نمک پر اجارہ داری قائم کی اور نمک کی پیداوار کے لیے ملنگاؤں کو پیشگی رقم دی جس سے وہ مقروض اور عملی طور پر معاشی غلام بن گئے۔

کمپنی نے کسٹم چوکیاں قائم کیں جن کے پار نمک کی نقل و حمل پر بہت زیادہ کسٹم ڈیوٹی ادا کرنا پڑتی۔ سنہ 1840 کی دہائی میں صوبہ بنگال کی مغربی سرحدوں پر نمک کی سمگلنگ روکنے کے لیے باڑ لگائی گئی جو 1857 کے بعد 2500 میل لمبی ہو گئی۔

ایک کسٹم لائن سنہ 1869 میں سندھ سے لے کر مدراس تک 2,300 میل پر پھیلی ہوئی تھی۔ کانٹے دار درختوں اور جھاڑیوں کی اس ناقابل تسخیر باڑ کے ساتھ پتھر کی دیوار اور گڑھے بھی بنے ہوئے تھے۔ اس کی حفاظت تقریباً 12,000 جوان اور افسر کرتے۔

کمپنی نے ہندوستانی عوام کے آزادانہ طور پر نمک کی پیداوار یا فروخت کرنے کو جرم قرار دے دیا جس کی سزا چھ ماہ قید تھی۔

انگریز

دو مہینوں کی مزدوری سے ایک من نمک آتا

عوام کو مہنگا، بھاری ٹیکس والا نمک خریدنا پڑتا جو اکثر درآمد کیا جاتا تھا۔ اس سے ہندوستانیوں کی اکثریت متاثر ہوئی، جو غریب تھے اور وہ اسے خرید نہیں سکتے تھے۔

بی کولپن لکھتے ہیں کہ ’ہندوستان میں دو روپے مہینہ کماتے ایک دیہی مزدور کو چار روپے من نمک پر دو ماہ کی تنخواہ خرچ کرنا پڑتی۔ سنہ 1858 تک، کمپنی نے اپنی آمدن کا 10 فیصد نمک کی اجارہ داری سے حاصل کیا۔‘

سنہ 1878 میں اس اجارہ داری کے ساتھ پورے ہندوستان کے لیے یکساں ٹیکس پالیسی اپنائی گئی۔ نمک پر ٹیکس جو بمبئی (اب ممبئی)، مدراس، وسطی صوبوں اور جنوبی ہندوستان کی شاہی ریاستوں میں ایک روپیہ 13 آنے من تھا، بڑھا کر دو روپے آٹھ آنے اور بنگال اور آسام میں تین روپے چار آنے سے کم کر کے دو روپے 14 آنے، اور شمالی ہندوستان میں تین روپے سے دو روپے آٹھ آنے کر دیا گیا۔

ہرمن کولکے اور ڈائٹمار ردرمنڈ کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی کے ٹیکس قوانین برطانوی راج کے 90 سالوں میں بھی رائج رہے۔ سنہ 1880 میں نمک سے آمدن 70 لاکھ پاؤنڈ تھی۔

خواتین

کراچی میں نمک سازی

شاہ ولی اللہ جنیدی کے مطابق برطانوی دور میں کیپٹن ماری کراچی میں چیف سالٹ ریونیو آفیسر کے طور پر تعینات تھے۔ گمان غالب ہے کہ ماری پور روڈ کا نام کیپٹن ماری کے نام سے موسوم ہے۔

سنہ 1890 میں بلوچستان سے آنے والے بلوچ باشندوں نے کراچی میں ماری پور اور ہاکس بے کے ساحل پر نمک سازی کا آغاز کیا تھا۔

’کراچی تاریخ کے آئینہ میں‘ کے مصنف عثمان دموہی لکھتے ہیں کہ ’آہستہ آہستہ ہاکس بے، سینڈسپٹ پر سمندری نمک تیار کرنے کے کئی کارخانے قائم ہو گئے جن میں زیادہ تر یورپی باشندوں اور پارسیوں کی ملکیت تھے۔‘

’سنہ 1930میں ایک جرمن نژاد یہودی کو کمپنی قائم کرنے کی اجازت دی گئی۔ پارسی بزنس مین رستم جی مہتا نے بھی کراچی سالٹ ورکس کے نام سے ماری پور کے علاقے میں کارخانہ لگایا۔‘

برطانوی راج میں سمندری نمک مائی کلاچی روڈ، موجودہ مولوی تمیز الدین خان روڈ، پر بھی خشک کیا جاتا تھا۔ یہ سمندری نمک بنگال اور وسطی ایشیائی ممالک میں جاتا تھا۔

سنہ 1923 میں، وائسرائے لارڈ ریڈنگ کے دور میں نمک ٹیکس کو دوگنا کرنے کا بل منظور کیا گیا۔

نمک ٹیکس کے خلاف ابتدائی احتجاج

گو کہ نمک ٹیکس کے خلاف احتجاج 19ویں صدی ہی سے ہوتا آ رہا تھا، شری رام بخشی، بپن چندر اور ایس آر بخشی کے مطابق سنہ 1923 کے اضافے پر ہندوستانی قوم پرستوں کی طرف سے بھی شدید ردعمل سامنے آیا۔

موہن داس (مہاتما) گاندھی نے نمک ٹیکس پر اپنے ایک مضمون میں اسے ہندوستان میں جذام کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ قرار دیا تھا۔ کانگریس کے سنہ 1929 کی ٹیکس نہ دینے کی قرارداد پر عمل درآمد کے لیے بھی، انھوں نے پہلے نمک ٹیکس کی خلاف ورزی ہی کو چنا۔

خواتین

نمک ٹیکس کے خلاف میلوں طویل مارچ

سنہ 1930کے اوائل میں گاندھی احمد آبادکے سابرمتی آشرم سے اپنے پیروکاروں کے ساتھ پانچ اپریل کو تقریباً 240 میل (385 کلومیٹر) کا پیدل سفر طے کر کے گجرات کے ساحل پر ڈانڈی پہنچ گئے۔

گوپال کرشن گاندھی کے مطابق جب موہن داس گاندھی نے ہندوستان کے مغربی ساحل کے ساتھ مارچ کیا، ان کے قریبی ساتھی سی راج گوپال اچاری، جو بعد میں انڈیا کے پہلے ہندوستانی گورنر جنرل بنے، نے مشرقی ساحل پر ویدارانیم سالٹ مارچ کا اہتمام کیا۔ ساحلی گاؤں ویدارانیم میں غیر قانونی نمک بنانے پر انھیں گرفتار کر لیا گیا۔

سید عارف شاہ گیلانی علیگ اپنی کتاب ’عروس البلاد‘ میں لکھتے ہیں کہ کراچی کے شہریوں نے بھی سول نافرمانی کرتے ہوئے موجودہ کوئنز روڈ پر ہزاروں من نمک بنایا تھا۔

چھ اپریل کی صبح، گاندھی اور ان کے پیروکاروں نے مٹھی بھر نمک بھری مٹی اٹھا کر تکنیکی طور پر نمک ’پیدا‘ کیا اور قانون کی خلاف ورزی کی۔ ڈانڈی میں اس دن کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔

خواتین میدان عمل میں

مالویکا کارلیکر کی تحقیق ہے کہ گاندھی کے ساتھ موجود زیادہ تر مردوں کے ہجوم نے بھرپور خوشی کا اظہار کیا۔ خواتین کو تین ہفتے طویل اس مارچ سے باہر رکھا گیا تھا۔

‘گاندھی نے خواتین کی شرکت کے بارے میں کہا تھا کہ جس طرح ’ہندوؤں کے لیے جنگ میں جاتے وقت اپنے سامنے گائے رکھنا بزدلی ہو گی، اسی طرح خواتین کو مارچ میں اپنے ساتھ رکھنا بزدلانہ سمجھا جائے گا۔‘

گاندھی نے محسوس کیا کہ اگرچہ خواتین سول نافرمانی کی تحریک میں شامل ہونے کی بہت خواہش مند ہیں، لیکن وہ شراب کی دکانوں کے محاصرے اور چرخہ چلانے کے لیے موزوں ہیں۔

10 اپریل 1930 کو ینگ انڈیا میں شائع ہونے والی ’ٹو دی ویمن آف انڈیا‘ کے عنوان سے تحریر میں انھوں نے لکھا ’مجھے لگتا ہے کہ اب مجھے وہ کام مل گیا ہے۔۔۔ ہندوستان کی خواتین کو ان دونوں کاموں میں مہارت حاصل کرنے دیں۔ وہ قومی آزادی میں مردوں سے زیادہ حصہ ڈالیں گی۔ انھیں طاقت اور خود اعتمادی حاصل ہو گی جو ان کے لیے اجنبی رہی ہے۔‘

لیکن چند ایک کو باز نہیں آنا تھا۔ سروجنی نائیڈو کار سے آئی تھیں، اور مٹھو بین کے ساتھ، پہلی مٹھی بھرے جانے کے وقت وہاں موجود تھیں۔

خواتین

کارلیکر کے مطابق کملا دیوی چٹوپادھیائے نے ’ہندوستانی خواتین کی آزادی کے لیے جنگ‘ میں لکھا ہے: ’نمک ستیہ گرہ (سچ کے لیے اور برائی کے خلاف غیر متشدد احتجاج) نہ صرف منفرد بلکہ انسانی تاریخ میں انقلاب کی ایک ناقابل یقین شکل ہے۔

’یہ گویا خواتین ہی کے لیے تھا۔ چونکہ خواتین قدرتی طور پر کھانا پکانے کے کاموں کی نگرانی کرتی ہیں، نمک ان کے لیے سب سے زیادہ قریب اور ناگزیر جزو ہے۔‘

خواتین نہ خوفزدہ تھیں اور نہ ہی انھیں پولیس کی لاٹھیوں کا ڈر تھا۔ چٹوپادھیائے نے رضاکاروں کو پربھات پھیری (صبح سویرے جلوس) اور چوپاٹی اور جوہو کے ساحلوں پر نمک اور نمکین پانی جمع کرنے کے لیے منظم کیا۔ بمبئی میں جلد ہی ہر طرف ’نمک قاعدہ (قانون) توڑا ہے‘ اور ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے گونج رہے تھے۔

جیسے ہی چٹوپادھیائے اور دیگر خواتین نے سمندری پانی کے لیے چوپاٹی کی طرف مارچ کیا تاکہ اسے عارضی چولہوں پر بخارات میں اٹھایا جا سکے، پولیس وہاں پہنچ گئی۔

چٹوپادھیائے نے لکھا ’ایک کھردرے بوٹ نے مجھے ایک طرف دھکیل دیا اور میں بازو کے بل جلتے ہوئے کھمبے پر آن گری۔‘ انھوں نے احتجاج ختم کرنے یا طبی امداد لینے سے انکار کر دیا۔ جلد ہی، پولیس کی کوششوں کے باوجود، ہجوم بڑھتا گیا اور کئی خواتین رہنما اور گھریلو خواتین برتن اٹھائے اس تحریک میں شامل ہو گئیں۔

گاندھی

16 اپریل 1930 کو چٹوپادھیائے کی قیادت میں 500 سے زیادہ لوگوں نے بمبئی کے قریب وڈالا سالٹ ڈپو کی طرف مارچ کیا۔ ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ایک خاتون ’خاردار تاروں سے چڑھ کر نمک کے ٹیلے کے قریب پہنچی جیسے یہ کوئی قربان گاہ ہو، اور کسی نامعلوم رسم کے تحت اپنی ساڑھی کو نمک سے بھر لیا۔‘

گاندھی نے اگلے دو مہینوں تک نمک ٹیکس کے خلاف اپنا ستیہ گرہ جاری رکھا، دوسرے ہندوستانیوں کو سول نافرمانی کی کارروائیوں کے ذریعے نمک کے قوانین توڑنے کی تلقین کی۔

ہزاروں کو گرفتار اور قید کیا گیا، جن میں اپریل میں جواہر لعل نہرو اور مئی کے شروع میں خود گاندھی بھی شامل تھے۔

گاندھی نے مارچ کے بعد مزید فعال شمولیت سے گریز کیا تھا۔ انھوں نے ڈانڈی کے قریب ایک عارضی آشرم بنایا۔ وہاں سے، بمبئی (اب ممبئی) میں خواتین پیروکاروں پر زور دیا کہ وہ شراب اور غیر ملکی کپڑوں کی دکانوں کا محاصرہ کریں۔ سٹینلے والپرٹ کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’الاؤ غیر ملکی کپڑے سے بنایا جانا چاہیے، سکول اور کالج خالی ہو جانا چاہییں۔‘

اپنی اگلی بڑی کارروائی کے لیے، گاندھی نے ڈانڈی سے 40 کلومیٹر جنوب میں، گجرات میں دھرسنا سالٹ ورکس پر چھاپے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ارون کو اپنے منصوبوں کے بارے میں بتایا۔

خواتین

چار مئی کی رات جب گاندھی آم کے باغ میں ایک چارپائی پر سو رہے تھے، سورت کے ضلع مجسٹریٹ نے دو ہندوستانی افسران اور 30 بھاری ہتھیاروں سے لیس کانسٹیبلوں کے ساتھ انھیں سنہ 1827 کے ایک ضابطے کے تحت گرفتار کر لیا اور پونا کے قریب بغیر مقدمہ چلائے رکھا۔

گاندھی کی نظربندی کی خبر نے مزید لوگوں کو ستیہ گرہ میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔

پانچ مئی کو دھرسنا ستیہ گرہ منصوبہ بندی کے مطابق آگے بڑھا، 76 سالہ ریٹائرڈ جج اور مورخ عرفان حبیب کے دادا، عباس طیب جی، گاندھی کی اہلیہ کستوربا کے ساتھ مارچ کی قیادت کر رہے تھے۔ دونوں کو دھرسنا پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا اور تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔

خواتین کی زیادہ فعال اور آزادانہ شرکت کا لمحہ قریب تھا۔ ان گرفتاریوں کے بعد، شاعرہ اور آزادی پسند سروجنی نائیڈو کی قیادت میں مارچ جاری رہا۔

انھوں نے ستیہ گرہیوں کو خبردار کیا ’آپ کو کسی بھی حالت میں تشدد کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کو مارا پیٹا جائے گا، لیکن آپ کو مزاحمت نہیں کرنی، آپ کو مزاحمت نہیں کرنی، ہنگامہ آرائی سے بچنے کے لیے ہاتھ بھی نہیں اٹھانے۔‘

نائیڈو نے دھرسنا میں نمک کی کارگاہ پر چھاپے کی قیادت کی۔ تقریباً 2500 پرامن مارچ کرنے والوں پر پولیس نے دھاوا بولا۔ ستیہ گرہیوں کو فولادی نوک دار لاٹھیوں سے بے دردی سے مارا گیا۔ امریکی صحافی ویب ملر کی رپورٹ کے ذریعے دنیا بھر میں اس واقعے کو تشہیر ملی۔

یونائیٹڈ پریس کے نمائندے ویب ملر کی خبر تھی کہ ’مارچ کرنے والوں میں سے کسی نے بھی دھاوے سے بچنے کے لیے بازو نہیں اٹھایا۔ وہ (بولنگ کے کھیل کی) ٹین پنز کی طرح نیچے گرتے چلے گئے۔ جہاں میں کھڑا تھا وہاں سے میں نے کھوپڑیوں پر لاٹھیوں کی ضربوں کی آوازیں سنیں۔ دیکھنے والوں کا ہجوم ہر دھچکے پر ہمدردانہ درد سے سسکیاں بھرتا۔‘

لوگ زمین پر بکھرے ہوئے، بے ہوش یا ٹوٹی کھوپڑیوں یا ٹوٹے کندھوں کے ساتھ درد سے کراہ رہے تھے۔ دو تین منٹ میں زمین لاشوں سے اٹ گئی۔ ان کے سفید کپڑوں پر خون کے بڑے بڑے دھبے پھیل گئے۔

خواتین

زندہ بچ جانے والے بغیر کسی صف کو توڑے خاموشی اورعزم کے ساتھ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ چوٹوں سے گر پڑے۔ بالآخر پولیس عدم مزاحمت پر مشتعل ہو گئی۔ انھوں نے بیٹھے ہوئے مردوں کے پیٹ اور خصیوں میں وحشیانہ لاتیں مارنا شروع کر دیں۔

زخمی تڑپ رہے تھے، جس سے ایسا لگتا تھا کہ پولیس کا غصہ بھڑک رہا ہے۔ پولیس نے پھر بیٹھے ہوئے مردوں کو بازوؤں یا پیروں سے گھسیٹنا شروع کر دیا، کبھی کبھی سو گز تک اور گڑھوں میں پھینکنا شروع کر دیا۔

ہندوستان میں برطانوی ٹیلی گراف آپریٹرزنے ملرکی رپورٹ کو پہلے تو سنسر کیا اور پھر برطانوی سنسرشپ کو بے نقاب کرنے کی دھمکی کے بعد ہی اسے بھیجا۔ یہ رپورٹ پوری دنیا کے 1,350 اخبارات میں شائع ہوئی اور امریکی سینیٹ کے سرکاری ریکارڈ کا حصہ بنی۔

بعد کے مہینوں میں، جیسے جیسے یہ تحریک پھیلتی گئی، خواتین نمکین مٹی اور نمکین پانی جمع کرنے کے لیے قریبی سمندری ساحل پر جاتی رہیں۔ 26 اکتوبر کو اونتیکا بائی گوکھلے نے بمبئی کے آزاد میدان میں کانگریس کا پرچم لہرانے کا اہتمام کیا۔ چونکہ یہ اس طرح کی سرگرمیوں پر پابندی کی خلاف ورزی تھی، اس لیے انھیں گرفتار کرکے چھ ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔

ڈانڈی اور اس سے متعلق واقعات کی تصویریں مقامی پریس اور قوم پرست اخبارات جیسے ممبئی سماچار، دی فری پریس جرنل اور دی بامبے کرونیکل میں چھپتی رہیں۔

گاندھی

خواتین کی شمولیت کے بارے میں ایک حکومتی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ان میں سے ہزاروں۔۔ اپنے گھروں کی تنہائی سے نکلیں… کانگریس کے مظاہروں میں شامل ہونے اور دھرنا دینے میں مدد کرنے کے لیے۔‘

مانینی چیڑجی کے مطابق سول نافرمانی کے نتیجے میں پہلی بار بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے دیہات تک ہزاروں خواتین نے آزادی کی جدوجہد میں بڑے پیمانے پر حصہ لیا۔

ڈیوڈ ہارڈیمین کے مطابق ایک ابتدائی گاندھیائی کارکن اوشا مہتا نے تبصرہ کیا کہ ’یہاں تک کہ ہماری بڑی بوڑھیاں بھی اپنے گھروں میں کھارے پانی کے گھڑے لاتی تھیں اور غیر قانونی نمک تیار کرتی تھیں۔ اور پھر وہ شور مچاتی تھیں: ’ہم نے نمک کا قانون توڑ دیا ہے!‘

نمک ستیہ گرہ دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب رہا۔ سال کے آخر تک تقریباً 60 ہزار لوگ جیل میں تھے۔ ڈاکٹر دانش معین کے مطابق اس تحریک میں 110 لوگ جان سے گئے اور 300 سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔

سول نافرمانی 1931 کے اوائل تک جاری رہی، جب گاندھی کو بالآخر جیل سے رہا کر دیا گیا تاکہ لارڈ ارون کے ساتھ بات چیت کی جا سکے۔ یہ پہلا موقع تھا جب دونوں نے مساوی شرائط پر بات چیت کی۔

اس کے نتیجے میں گاندھی-ارون معاہدہ ہوا اور گاندھی کی لندن میں گول میز کانفرنس کے دوسرے اجلاس (ستمبر تا دسمبر 1931) میں شرکت کی راہ ہموار ہوئی۔

کانگریس کی لاہور کی قرارداد میں جنوری 1930 کے آخری اتوار – جو 26 جنوری کا دن تھا، کو ’مکمل آزادی کا دن‘ قرار دیا گیا تھا۔ یہی 26 جنوری بعد میں انڈیا کا یوم جمہوریہ بنا کیونکہ تقسیمِ ہند اور آزادی کے بعد نہرو نے یقینی بنایا کہ انڈیا کا نیا آئین 26 جنوری 1950 ہی کو نافذ العمل ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *