آئی ایم ایف آخر پاکستان سے چاہتا کیا ہے اور قرض پروگرام میں تعطل ملکی معیشت کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟
پاکستان میں رواں برس 11 اپریل سے لے کر جون کی 21 تاریخ تک روپے کے مقابلے میں ایک ڈالر کی قیمت میں ساڑھے 28 روپے تک کا اضافہ ہو چکا ہے۔ صرف 40 دن میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اس اس بے تحاشا اضافے نے جہاں ملک کے ذمے واجب الادہ قرضوں میں 3600 ارب کا اضافہ کیا وہیں مقامی صارفین کے لیے تیل، گیس اور کھانے پینے کی اشیا کو مہنگا کر دیا ہے۔
اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ان چیزوں کی مقامی سطح پر ضرورت پورا کرنے کےلیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔
ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے کی سب سے بڑی وجہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) سے قرض حاصل کرنے کا معاہدہ ہونے میں تاخیر کو قرار دیا جاتا ہے جس نے پاکستان کے لیے بیرونی فنڈنگ کو روک رکھا ہے۔
پاکستان اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے مسائل کا شکار ہے کیونکہ درآمدات کے لیے بیرون ملک جانے والے ڈالروں کی تعداد برآمدات اور ترسیلات زر کے ذریعے اندرون ملک آنے والے ڈالروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے 2019 میں طے پانے والے قرض پروگرام کی بحالی نہ ہونے سے بیرونی فنانسنگ مکمل طور پر رک چکی ہے۔
پاکستان میں اپریل کے آغاز پر نئی حکومت کے قیام کو اب تک ڈھائی مہینے ہو چکے ہیں تاہم یہ حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ پروگرام بحال کرانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی۔
تاہم وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے تازہ ترین بیان میں آئی ایم ایف سے پروگرام بحال ہونے کی پیش رفت کا عندیہ دیا گیا ہے اور ان کے مطابق ایک دو روز میں یہ پروگرام بحال ہو جائے گا۔
آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں کیا رکاوٹ ہے؟
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام ک بحالی میں کچھ رکاوٹیں تھیں اور ان میں سے کچھ ابھی تک موجود ہیں جن کی وجہ سے آئی ایم ایف نے یہ پروگرام بحال نہیں کیا۔
پاکستان کی وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف مثبت سمت میں بڑھ رہے ہیں اور مفتاح اسماعیل کے بیان کے مطابق اس پروگرام کی بحالی کے سلسلے میں جلد پیش رفت ہونے والی ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں معیشت اور آئی ایم ایف پروگرام سے جڑے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی بہت ضروری ہے ورنہ پاکستان کے نئے مالی سال کے لیے پیش کردہ بجٹ میں پیش کیے جانے والے آمدنی اور اخراجات کے سارے تخمینے بےکار ثابت ہوں گے۔
ان کے مطابق ابھی تک تاخیر کی وجہ سے پاکستان معاشی طور پر بے پناہ نقصان اٹھا چکا ہے اور اگر اس میں مزید تاخیر ہوئی تو پاکستان کے لیے اگلے مالی سال میں معیشت کو چلانا مشکل تر ہو جائے گا۔
آئی ایم ایف پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟
پاکستان نے آئی ایم ایف سے جولائی 2019 میں قرضہ پروگرام پر معاہدہ کیا تھا جس کے تحت چھ ارب ڈالر ملنے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں تین ارب ڈالر وصول ہوئے تاہم اس سال کے شروع کے مہینوں میں پروگرام تعطل کا شکار ہوا اور پھر پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد مسلم لیگ ن کی سربراہی میں ایک مخلوط حکومت قائم ہوئی۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان سے تیل و بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا جو ڈیڑھ مہینے تک تعطل کا شکار رہنے کے بعد حکومت کی جانب سے تین بار ڈیزل و پیٹرول پر دی جانے والی سبسڈی کے ساتھ بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کی صورت میں ختم کی۔
سبسڈی کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف پروگرام کے بحال نہ ہونے کے سلسلے میں پاکسان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات پر رپورٹنگ کرنے والے انگریزی اخبار سے منسلک سینیئر صحافی خلیق کیانی نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ‘ہم آمدنی بڑھائیں اور اخراجات کو کم کریں اور ہم یہ دونوں کام نہیں کر رہے جس کی وجہ سے پروگرام کی بحالی تعطل کا شکار رہی۔’
انھوں نے کہا کہ تیل و پیٹرول پر سبسڈی کے خاتمے کے بعد اب آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ہم اگلے سال کے بجٹ میں پرائمری بیلنس 150 ارب روپے رکھیں یعنی ہم اپنی بنیادی خرچے اور سود کی ادائیگی کے بعد ہمارے پاس 150 ارب کا سرپلس ہے۔
خلیق کیانی کا کہنا ہے کہ ‘موجودہ مالی سال کے بجٹ میں یہ 25 ارب کہا گیا تھا لیکن الٹا ہمارا پرائمری بجٹ کا خسارہ 650 ارب ہو گیا۔’
انھوں نے کہا کہ ‘آئی ایم ایف کا سب سے بڑا مطالبہ تو یہ ہے۔ دوسرا ان کی جانب سے پرسنل انکم ٹیکس کے ذریعے 125 ارب روپے زیادہ اکٹھے کرنے کا کہا گیا ہے جب کہ اگلے سال کے بجٹ میں جو سلیب بنائے گئے ہیں اس کے تحت تو یہ منفی 47 ارب روپے ہو جائے گا۔’
خلیق کیانی کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے یہ کہا گیا کہ جس شخص کی سالانہ آمدن 36 لاکھ ہے اس پر اسے ٹیکس فائدہ بہت زیادہ مل رہا ہے۔
اسی طرح پرسنل انکم ٹیکس پر چھوٹ کی سطح پر بھی مسئلہ ہے تاہم حکومت 12 لاکھ تک سالانہ آمدنی والے افراد کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے اور وہ ان کا تحفظ کرے گی جس کے لیے وہ آئی ایم ایف سے دوسرے ذرائع سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کا کہے گی۔
خلیق کیانی نے بتایا کہ تیل مصنوعات پر پٹرولیم لیوی اکٹھا کرنے کے لیے حکومت نے بجٹ میں 750 ارب کا ہدف رکھا ہے اور یہ شرط تو تسلیم کر لی گئی ہے جس کے لیے اسے یکم جولائی سے تیل مصنوعات کی قیمتوں پر یہ لیوی لگانا پڑے گی۔
آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا اب امکان کیوں بڑھ گیا ہے؟
پاکستان کے وزیر خزانہ کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام کی جلد بحالی کے اعلان کے بارے میں خلیق کیانی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پروگرام کو بجٹ منظوری سے پہلے بحال کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ جو بجٹ اگلے مالی سال کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
’اس میں آمدنی اور اخراجات کے سارے تخمینے ہی آئی ایم ایف کی جانب سے پروگرام بحالی اور اس کے نتیجے میں اس کا اپنی فنانسنگ اور دوسرے عالمی اداروں اور ملکوں کی جانب سے آنے والی فنڈنگ پر منحصر ہے۔‘
خلیق کیانی کہتے ہیں کہ بجٹ کے 26 یا 27 جون کو منظور ہونے کا امکان ہے اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو اس سے پہلے پروگرام بحال کرانا ہے اور بجٹ کو تخمینوں کے مطابق اگلے مالی سال کا آغاز کرنا ہے۔
پاکستان کی وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا جو حکومت کی آئی ایم ایف سے مذاکراتی ٹیم کا حصہ بھی ہیں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے پروگرام کے جلد بحالی کے اعلان کی وجہ پاکستان کے آئی ایم ایف سے مذاکرات کی صحیح سمت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘آئی ایم ایف پروگرام بحالی میں جلد پیش رفت ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بجٹ میں جو خلا تھے انھیں پرُ کر دیا ہے جس کی وجہ سے پروگرام بحالی کا جلد امکان ہے۔’
خلیق کیانی کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف شرائط پوری ہونے پر سٹاف لیول معاہدہ کرتا ہے جس کے بعد ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر سے معیشت کیسے متاثر ہوئی؟
پاکستان میں اس سال کے شروع میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی تعطل کا شکار ہوئی جو موجودہ حکومت کے دور میں بھی التوا کا شکار ہے۔
نئی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے میں تاخیر سے معاشی اشاریے شدید متاثر ہوئے۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہوا جس کی وجہ سے درآمدی مصنوعات مہنگی ہوئیں جن میں پیٹرول، ڈیزل، گیس، خوردنی تیل، دالیں وغیرہ شامل ہیں جو پاکستان ملکی ضرورت کے لیے بیرون ممالک سے درآمد کرتا ہے۔
ماہر معیشت خرم شہزاد اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس پروگرام کی بحالی میں تاخیر کا سب سے منفی اثر روپے کی قدر پر پڑا جو اس وقت ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 212 کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ روپے کی قدر میں گراوٹ کا معیشت اور تجارت دونوں پر شدید منفی اثر ہوا۔
خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی فنڈنگ اپنے ساتھ دوسرے بین الاقوامی اداروں اور ملکوں سے بھی فنڈنگ لاتی ہے اور اس پروگرام میں تعطل کی وجہ سے گزشتہ دو تین مہینوں سے پاکستان میں کوئی فنڈنگ نہیں آئی جس کا منفی اثر زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑا جو اس وقت نچلی سطح پر موجود ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان ایسی صورت میں بین الاقوامی مارکیٹ میں بانڈز جاری کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہا کیونکہ ان بانڈز پر پاکستان کو 20 سے 25 فیصد سود ادا کرنا پڑتا جو بہت زیادہ ہے۔
خرم شہزاد کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کی کریڈیبلٹی کا بن گیا کیونکہ کہیں سے بھی آئی ایم ایف کے پروگرام نہ بحال ہونے کی وجہ سے فنڈنگ نہیں مل رہی کیونکہ یہ ساری فنڈنگ آئی ایم ایف پروگرام سے مشروط ہوتی ہے۔
خلیق کیانی کہتے ہیں کہ پاکستان کو اگلے مالی سال میں 36 سے 37 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسگ چاہیے اور اگر یہ پروگرام بحال نہیں ہوتا تو اس بیرونی فنڈنگ کا حصول ناممکن ہو گا جو ملک کے بجٹ اور معاشی اشاریوں کو منفی طور پر متاثر کرے گا۔