امریکی سفارتخانے کی ٹویٹس میں آزاد جموں کشمیر ’یہ جان کر اچھا لگا کہ امریکہ کہاں کھڑا ہے
پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے چار اکتوبر کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کا دورہ کیا جس کا مقصد کشمیر میں موجود ’پاکستان، یو ایس ایلومنائی‘ کے ارکان کے ساتھ ایک میٹنگ میں شرکت تھا۔
اس میٹنگ کے بعد اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے ٹوئٹر اور ویب سائٹ پر اپنی پریس ریلیز میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو ‘اے جے کے’ یعنی آزاد جموں و کشمیر لکھا ہے۔
شاید پاکستان میں تو اس ٹویٹ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی مگر انڈیا میں اس معاملے پر ہنگامہ برپا ہے اور سوشل میڈیا پر بیشتر لوگ یہ استفسار کرتے اور اپنی آرا کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ امریکہ، جو اب تک ’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر‘ کہتا تھا، نے اچانک ’آزاد جموں و کشمیر‘ کہہ دیا۔
امریکی سفارتخانے نے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’سفیر ڈونلڈ بلوم نے پاکستان، یو ایس ایلومنائی (طلبا) کے مظفر آباد چیپٹر کے ارکان سے ایک ملاقات کی۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا امریکی ایلومنائی پروگرام ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں پاکستان امریکہ ایلومنائی نیٹ ورک کے 950 ارکان ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ یہ پاکستان،امریکہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔‘
سفارتخانے کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ ’انھوں نے مختلف موضوعات پر 60 سرگرمیوں میں حصہ لیا، جیسا کہ ماحولیاتی تبدیلی، خواتین کو بااختیار بنانا اور کاروبار کو فروغ دینا۔‘
بعد ازاں اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے ان کا ایک بیان بھی ٹوئٹر پر شیئر کیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’کئی برسوں تک امریکہ اے جے کے کے رہائشیوں کے لیے تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔‘ امریکی سفارتخانے نے اپنی پریس ریلیز میں بھی اس خطے کو ’آزاد جموں و کشمیر‘ کہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سفارتخانے کی پریس ریلیز کا عنوان ‘امریکہ-پاکستان تجارت اور عوامی سطح پر تعلقات مضبوط کرنے کے لیے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کا اے جے کے کا دورہ’ ہے۔
انڈیا کی جانب سے اعتراض سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین امریکہ کی جانب سے پاکستان کے زیر انتظام کشمر کو ’اے جے کے (آزاد جموں کشمیر)‘ کہنے کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔
جبکہ انڈین عوام اس پر ناراضی ظاہر کر رہے ہیں۔ انڈیا کے دفتر خارجہ اور وزیر خارجہ نے تاحال اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
اس ٹویٹ کے کیا معنی ہو سکتے ہیں؟
عبدالباسط، جو ماضی میں نئی دہلی میں اسلام آباد کے سفیر رہ چکے ہیں، نے منگل کو اپنے وی لاگ میں کہا کہ یہ دلچسپ بات ہے کہ ڈونلڈ بلوم نے ’آزاد جموں کشمیر‘ کہا۔ اُن کے مطابق انڈین میڈیا ناراض ہے کہ اول تو ڈونلڈ بلوم نے اس خطے میں دورہ کیا اور پھر اسے ’اے جے کے‘ کہا۔
عبدالباسط کہتے ہیں کہ ’ہندوستان کے لوگ ناراض ہیں کہ ڈونلڈ بلوم نے اسے پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کیوں نہیں کہا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس پر ہندوستان کی وزارت خارجہ کا بیان بھی آئے گا۔ لیکن ہمارے لیے سوچنے کی بات ہے کہ امریکی سفیر نے آزاد جموں و کشمیر کی اصطلاح کیوں استعمال کی؟ عام طور پر امریکہ سرکاری طور پر اسے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کہتا ہے۔‘
اپنے وی لاگ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کو ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر بھی کہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کا جموں و کشمیر کو بلانا اس کی پالیسی میں ایک قسم کی تبدیلی ہے۔ میرے خیال میں امریکہ اس میں دلچسپی رکھتا ہے کہ اس وقت اس علاقے میں کیا ہو رہا ہے۔‘
عدالباسط کے مطابق ’عالمی صورتحال بدل رہی ہے۔ شاید امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات دوبارہ پٹڑی پر آ جائیں۔ یا امریکہ چین کے عروج کا مقابلہ کرنے میں پاکستان کو بھی ساتھ لے۔‘
’امریکہ کشمیر کے معاملے میں حل کے حق میں ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے بھی لائن آف کنٹرول کو عارضی بین الاقوامی سرحد بنانے کی تجویز دی تھی۔ پھر 10-15 سال بعد جائزہ لیں اور مستقل حل کی طرف بڑھیں۔ اس تجویز کے حوالے سے بھارت سے بات چیت بھی ہوئی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔‘
عبدالباسط کا کہنا تھا کہ ’یہ دیکھنا ہو گا کہ ڈونلڈ بلوم نے آزاد جموں و کشمیر کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، اس کے پیچھے کوئی بڑا کھیل ہے یا صرف اتنا ہی کہا ہے۔‘
کنول سبل، جو واجپائی کی حکومت میں سیکرٹری خارجہ تھے، نے امریکی سفارتخانے کے ٹویٹ اور اس میں ’اے جے کے‘ کے الفاظ استعمال کرنے پر سخت اعتراض کیا ہے۔
انھوں نے اس ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’انڈیا ہمیشہ سے کہتا رہا ہے کہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر ہندوستان کا علاقہ ہے۔ ہم نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کی مخالفت کی کیونکہ یہ ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔‘
’امریکہ کو اس کا علم ہے لیکن وہ اسے آزاد جموں و کشمیر کہہ رہا ہے۔ کیا امریکی سفیر اس معاملے سے پوری طرح آگاہ نہیں یا انھیں بتایا گیا ہے کہ امریکہ اب اسے متنازع علاقہ نہیں سمجھے گا۔‘
صحافی شبھنگی شرما نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’انڈیا کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا مگر یہ جاننا اچھا ہے کہ امریکہ کہاں کھڑا ہے۔‘
جبکہ این ہال نے تبصرہ کیا کہ ’ایک اور ٹویٹ جس میں ’آزاد جموں و کشمیر‘ (اے جے کے) کہا گیا۔ یہ انڈین سوشل اور روایتی میڈیا کو اشتعال دلائے گا۔ دفتر خارجہ کی اگلی بریفنگ میں یہی سوال کیا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ہلچل دکھائی دیتی ہے۔ تاہم حال ہی میں امریکہ نے پاکستان کو ایف 16 لڑاکا طیاروں کی اپ گریڈیشن کے لیے 450 ملین ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا جس پر انڈیا نے باضابطہ احتجاج کیا تھا۔
انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی پاکستان کے لیے ایف 16 طیاروں کی اپ گریڈیشن کے امریکی پیکج پر تشویش ظاہر کی تھی۔
پاکستان کے پاس کشمیر کا کتنا حصہ ہے؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر دراصل ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا۔ اس وقت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا رقبہ 5134 مربع میل یعنی تقریباً 13 ہزار 296 مربع کلومیٹر ہے۔
اس کی سرحدیں پاکستان، چین اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے ملتی ہیں۔ مظفرآباد اس کا دارالحکومت ہے اور اس کے 10 اضلاع ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کا رقبہ 28 ہزار 174 مربع میل یعنی تقریباً 72 ہزار 970 مربع کلومیٹر ہے۔
انڈیا اور پاکستان دونوں جموں و کشمیر کے مکمل رقبے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس پر دونوں کے درمیان باقاعدہ جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔
ڈونلڈ بلوم کون ہیں؟
ڈونلڈ بلوم کو اپریل 2022 کو پاکستان میں امریکہ کا سفیر تعینات کیا گیا تھا۔ وہ امریکی دفتر خارجہ کے سینیئر اور تجربہ کار اہلکاروں میں سے ایک ہیں اور انھیں مشرق وسطیٰ کا وسیع تجربہ ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ کے مطابق انھوں نے یونیورسٹی آف مشیگن سے تعلیم حاصل کی اور وہ عربی بھی بول سکتے ہیں۔
بلوم نے حالیہ عرصہ میں، 2019 سے 2022 تک، تیونس میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ انھوں نے تیونس میں قائم دفتر برائے امور لیبیا میں ناظم الامور کے طور پر اور امریکی قونصل خانہ یروشلم میں بطور قونصل جنرل خدمات سرانجام دیں۔
قبل ازیں وہ 2013 سے 2015 تک امریکی محکمہ خارجہ کے دفتر برائے امور جزیرہ نما عرب میں ڈائریکٹر تعینات رہے۔ جبکہ 2012 سے 2013 تک انھوں نے امریکی سفارتخانہ کابل، افغانستان، میں قونصلر برائے سیاسی امور کے طور پر کام کیا۔
وہ 2009 سے 2012 تک امریکی سفارتخانے قاہرہ، مصر، میں منسٹر قونصلر برائے معاشی اور سیاسی امور بھی متعین رہے۔ 2007 سے 2008 کے دوران انھوں نے بغداد، عراق، میں ملٹی نیشنل فورس سٹریٹیجک انگیجمنٹ سیل کے سویلین کو ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا اور 2006 سے 2007 تک امریکی سفارتخانہ کویت میں قونصلر برائے اُمور سیاست رہے۔