روس، یوکرین جنگ: صدر پوتن کیا

روس، یوکرین جنگ: صدر پوتن کیا

روس، یوکرین جنگ: صدر پوتن کیا ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کر سکتے ہیں؟

صدر پوتن نے تو یوکرین میں افواج بھیجتے ہوئے اسے جنگ تک قرار نہیں دیا تھا اور صرف ’سپیشل ملٹری آپریشن‘ کا نام دیا تھا۔

تاہم یوکرینی فوج اور عوام کی مزاحمت اور امریکہ سمیت مغربی ممالک کی جانب سے یوکرین کی اخلاقی، مالی اور فوجی امداد کی وجہ سے سات ماہ بعد بھی یوکرین میں جنگ جاری ہے اور روس کی فوج کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔

روس نے یوکرین کے ان چار علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد اسے روس میں شامل کر لیا ہے جو اُس کی سرحد سے متصل تھے۔

روس کا دعویٰ ہے کہ ان علاقوں میں ریفرینڈم کروایا گیا اور عوام کی اکثریت نے روس کے ساتھ شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

مغربی ممالک نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے اور اس ریفرینڈم کو ’شرمناک اور زور زبردستی کی بنیاد پر کروایا‘ جانے والا ریفرینڈم قرار دیا ہے۔

اس جنگ کا باقی دنیا کے لیے جو خطرناک ترین پہلو سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ صدر پوتن نے متعدد بار کبھی صاف الفاظ میں کبھی ڈھکے چھپے انداز سے خبردار کیا ہے کہ اگر اس کی سلامتی کو خطرہ ہوا یا کسی نے اس کے معاملات میں مداخلت کی تو وہ جوہری ہتھیار استعمال کریں گے۔

صدر پوتن کے ان بیانات نے واشنگٹن اور لندن سمیت کئی مغربی ممالک کے دارالحکومتوں میں پالیسی سازوں کو پریشان کر دیا ہے۔

ان ممالک کے اعلیٰ اہلکاروں اور خفیہ ایجنسیوں کے حالیہ اجلاسوں میں اس بات پر غور ہوا ہے کہ پوتن کی دھمکیوں کو کتنی سنجیدگی سے لیا جائے اور اگر وہ اپنی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہیں تو اس کا جواب کیسے دیا جائے؟

امریکہ کے محکمہ دفاع، پینٹاگون کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ ان کے خیال میں لگتا نہیں ہے کہ پوتن بڑے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی غلطی کریں گے تاہم انھوں نے اس بات کو مسترد نہیں کیا کو پوتن چھوٹے جوہری ہتھیار، جن کو ’ٹیکٹیکل ویپنز‘ کہا جاتا ہے، استعمال کر سکتے ہیں۔

جوہری ہتھیار

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’امریکہ اور اس کے اتحادی ہر ممکن کوشش کریں گے کہ وہ ایٹمی تنازع کا حصہ نہ بنیں اور تیسری عالمی جنگ شروع کر نے کی وجہ نہ بنیں۔ تاہم اگر امریکہ یا نیٹو ممالک پر براہ راست حملہ ہوا تو بڑی جنگ شروع نہ ہونے کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔‘

سات مہینوں سے جاری اس جنگ میں نیٹو کے اندازے کے مطابق روس کے سات ہزار سے پندرہ ہزار فوجی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں دس سے زیادہ جنرل بھی شامل ہیں۔ جبکہ روس کے مطابق یہ تعداد پانچ ہزار سے کم ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق روس کے 1300 سے زیادہ ٹینک تباہ ہوئے ہیں۔

روس اس جنگ کی ایک بڑی معاشی قیمت بھی برداشت کر رہا ہے جسے مزید کئی مہینوں تک جاری رکھنا آسان نہیں ہے۔

شاید اسی صورتحال کی وجہ سے صدر پوتن دنیا کی توجہ بار بار اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی طرف کرواتے رہتے ہیں۔

تاہم ماضی میں صرف ایک ہی مرتبہ ایٹمی ہتھیار استعمال ہوئے ہیں اور وہ امریکہ نے کیے تھے۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے چھ اگست کو جاپان کے شہر ہیروشیما اور نو اگست کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے۔

جن مقامات پر یہ بم گرائے گئے ان کے اردگرد کئی کلومیٹر کے علاقے میں عمارتیں، پیڑ پودے، انسان اور جانور، سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔

بعد میں اندازہ لگایا گیا کہ اِن جوہری حملوں میں تقریباً سوا دو لاکھ افراد ہلاک ہوئے اور زندہ بچ جانے والے بیشتر لوگ ہولناک زخموں کا شکار ہوئے۔

حملے کے کئی مہینوں بعد تک ان مقامات پر زہریلی ایٹمی تابکاری موجود رہی۔

اس وقت دنیا میں 12400 جوہری ہتھیار میں سے 9440 نیوکلیئر ہتھیار فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔

روس کے پاس ایسے 4477 جوہری ہتھیار ہیں۔ امریکہ اور اِس کے نیٹو اتحادیوں کے پاس کُل 4178 جوہری ہتھیار ہیں۔ کُل ملا کر فوری طور پر میزائلوں یا جوہری آبدوزوں سے فائر کیے جانے والے دو ہزار جوہری ہتھیار تیار ہیں۔

جوہری ہتھیاروں کی یہ تعداد بھی اتنی ہے کہ اِن کے استعمال سے دنیا کی سات ارب آبادی میں سے پانچ ارب سے زیادہ ہلاک ہو سکتی ہے۔

تو ایسی صورتحال کے پیدا ہونے کے خدشے کے باوجود صدر پوتن کیوں دھمکیاں دے رہے ہیں؟

اس پر روسی اُمور کے تجزیہ کار پروفیسر نجم عباس کا کہنا ہے کہ ’صدر پوتن یوکرین کی جنگ میں بڑے نقصانات اٹھانے کے بعد اب اپنی خفگی مٹانے اور باقی دنیا کو اپنی شرائط منوانے کے لیے اس دھمکی کا سہارہ لے رہے ہیں۔‘

بقول نجم عباس لگتا نہیں ہے کہ پوتن ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کریں گے۔

تاہم اگر روس جوہری ہتھیار استعمال کرتا ہے اور تیسری عالمی جنگ شروع ہو جاتی ہے تو خطرہ صرف کچھ ممالک، کچھ علاقوں، جنگ کے میدانوں تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ صحیح معنوں میں پوری دنیا کے لیے ایک بقا کا مسئلہ ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *