ہلکے پھلکے مکھانوں کے بھاری بھرکم فوائد کیا ہیں

ہلکے پھلکے مکھانوں کے بھاری بھرکم فوائد کیا ہیں

ہلکے پھلکے مکھانوں کے بھاری بھرکم فوائد کیا ہیں

2011 میں ایک کتاب کی رونمائی کے دوران فلمی اداکارہ کرینہ کپور سے ان کی فٹنس یا صحت کا راز پوچھا گیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘تین سال پہلے تک میں ساگو دانہ گرل کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اس ٹیگ سے پریشان ہو کر میں نے اپنی ڈائٹیشن روجوتا دیویکر سے اسے تبدیل کرنے کو کہا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے اب میں بن گئی ہوں مکھانا گرل۔‘

گیارہ سال پہلے کرینہ کپور نے مکھانے کے فوائد اور اس کی تعریف اس طرح کی تھی۔

مکھانوں کو ناشتے کے طور پر کہاں اور کب شہرت ملی اس کی کوئی مقررہ تاریخ نہیں ہے لیکن آپ کو فلمی ستاروں سے لے کر عام لوگوں تک اس ناشتے کے بہت سے مداح ضرور ملیں گے۔

کرینہ کپور نے بتایا کہ ‘ہر شام فلم کے سیٹ پر میرا سپاٹ بوائے پرکاش میرے لیے مکھانوں کا پیالہ لایا کرتا تھا‘۔

کرینہ
بالی ووڈ میں کرینہ کو مکھانا گرل کہا جاتا ہے

‘اس پیالے کو دیکھ کر شاہ رخ خان اکثر حیرت سے پوچھتے تھے، یہ کیا ہے؟ میں نے ان سے کہا کہ چکھ کر دیکھیں شاہ رخ نے مکھانے چکھے اور وہ بھی مکھانوں کے دیوانے ہو گئے۔ فلم انڈسٹری میں ہر کوئی جانتا ہے کہ میں ‘مکھانا گرل’ ہوں۔‘

پچھلے کچھ سالوں میں، مکھانے انڈیا میں زیادہ تر ریاستوں میں لوگوں کے گھروں میں کھانے کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے۔

پان کی دکان میں لٹکائے ہوئے چپس جیسے مکھانہ سنیکس کے پیکٹ سے لے کر مکھانہ کھیر اور مکھانہ فلیکس تک اسے مختلف برانڈنگ کے تحت خریدا اور بیچا جا رہا ہے۔

دنیا کا 90 سے 85 فیصد مکھانے انڈیا میں اُگائے جاتے ہیں اور انڈیا کا 90 فیصد مکھانے بہار میں پیدا ہوتے ہیں۔

بہار کے مدھوبنی، دربھنگہ، سپول، سیتامڑھی، ارریہ، کٹیہار، پورنیہ، کشن گنج اضلاع مکھانوں کی کاشت کے لیے مشہور ہیں۔ نیپال کی سرحد سے لگنے والا علاقہ متھیلانچل دنیا میں بے شمار تالابوں، مچھلی اور مکھانوں کے لیے جانا جاتا ہے۔

جن ممالک میں انڈیا سے مکھانے برآمد ہوتے ہیں ان میں امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا سب سے آگے ہیں۔

انڈیا سے سالانہ صرف 100 ٹن مکھانے برآمد ہوتے ہیں۔ آپ کو سننے میں یہ مقدار بہت کم لگتی ہے کیونکہ مکھانے وزن میں بہت ہلکے ہوتے ہیں۔

مکھانہ
ضرورت سے زیادہ مکھانہ کھانے سے نقصان بھی ہو سکتا ہے

انڈیا میں ہر سال 50 سے 40 ہزار ٹن مکھانے کا بیج تیار ہوتا ہے، جس سے 20-25 ہزار ٹن مکھانے کا سلیگ نکلتا ہے۔

مکھانے کو ایک قدرتی، خالص کھانا سمجھا جاتا ہے، جو انڈیا میں گھروں میں ورت یا روزوں کے دوران اور صحت بخش ناشتے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

صحت کے لیے فائدہ مند ہونے کی وجہ سے دنیا میں اس کے کاروبار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

مکھانے میں غذائیت کی فراوانی پر کچھ باتوں کا خیال ضروری

100 گرام مکھانے سے 350 کلو کیلوری کی توانائی ملتی ہے۔ اس میں چربی یا فیٹ برایے نام ہوتا ہے 70 سے 80 گرام کاربوہائیڈریٹ، اس میں 9.7 گرام پروٹین ہوتا ہے جو جسم کے لیے بہت فائدہ مند ہے، 7.6 گرام فائبر، 60 ملی گرام کیلشیم اور 40-50 ملی گرام پوٹاشیم، 53 ملی گرام فاسفورس ہوتا ہے۔

مشہور ماہر غذائیت ڈاکٹر شکھا شرما بی بی سی سے بات چیت میں کہتی ہیں، ‘مکھانے جسم کے لیے ضروری معدنیات فراہم کرتے ہیں- کیلشیم، میگنیشیم اور فاسفورس ہیں۔لیکن ایسا نہیں کہ اگر زیادہ معدنیات کی ضرورت ہو تو زیادہ مکھانے کھائے جائیں اسے زیادہ کھانے سے قبض ہو سکتی ہے۔ مکھانہ میں موجود فائبر معدے کو صحت مند رکھنے میں زیادہ مددگار نہیں ہوتا’۔

اس وجہ سے ڈاکٹر شکھا کا کہنا ہے کہ ‘ایک دن میں 50 گرام سے زیادہ مکھانے نہیں کھانا چاہیں۔ اسے خشک نہیں کھانا چاہیے۔ یہ آنتوں کو خشک کرنے کا کام کرتا ہے۔ اس وجہ سے پھلوں کا رس، گھی کے ساتھ بھنا، ایلو ویرا جوس یا دودھ کے ساتھ بچوں کو پلائیں یا خود ہی استعمال کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں یا پولی سسٹک اووری کے مریض ہیں تو ان تمام صورتوں میں ڈاکٹر مریض کو مکھانہ کھانے کا مشورہ دیتے ہیں اور محدود مقدار میں، وہ صحت مند ثابت ہوتے ہیں۔

مکھانہ کی کاشت
مکھانہ تالاب کے پانی اور کیچڑ میں پیدا ہوتا ہے

مکھانے کی کاشت

انڈیا میں مکھانوں پر تحقیق کا واحد مرکز بہار کے شہر دربھنگہ میں ہے۔ وہاں کے چیف سائنسدان اور ہیڈ ڈاکٹر اندو شیکھر سنگھ نے بی بی سی کو اس کی کاشت کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔

ان کے مطابق، ‘مکھانوں کی کاشت زیادہ تر ان علاقوں میں کی جاتی ہے جہاں پانی کھڑا رہتا ہے۔ بشرطیکہ وہاں ریتلی مٹی نہ ہو۔ یہ ضروری ہے کہ پانی بھرنے والی جگہ پر کیچڑ ہو۔ یہ 3-4 فٹ گہرا ہو تو بہتر ہے۔

کاشت کا موسم زیادہ گرم یا زیادہ ٹھنڈا نہیں ہونا چاہیے

حالانکہ مکھانہ کھیتوں میں بھی اگایا جاتا ہے۔ اگر دھان کے کھیت کی چوٹی کی اونچائی 2 سے 2.5 فٹ تک بڑھا دی جائے اور اس میں 1.5 پانی بھر جائے تو کھیتوں میں بھی مکھانہ اگایا جا سکتا ہے۔

پیداوار کی بات کی جائے تو تالاب کے مقابلے میں کھیتوں میں زیادہ ہوتی ہے. تالاب میں فی ہیکٹر مکھانہ کی 20-25 کوئنٹل پیداوار ہوتی ہے جبکہ کھیتوں میں یہ 30-35 کوئنٹل ہوتی ہے۔ لیکن دونوں میں مختلف مسائل پیش آ سکتے ہیں۔

تالاب میں مکھانہ بہت نیچے دبا ہوا ہوتا ہے تو نکالتے وقت دو تہائی بیج اس کے اندر ہی رہ جاتے ہیں۔ اس طرح اگلے سیزن میں بیچ کا خرچہ بچ جاتا ہے۔ کھیتوں میں کم پانی میں مکھانہ اگانے میں گھاس کا بہت مسئلہ ہوتا ہے۔ کسانوں کو تالاب میں اس مسئلے سے کافی حد تک نجات مل جاتی ہے’۔

مکھانہ کی کاشت
مکھانہ کی کاشت کے لیے جدید مشینری دستیاب نہیں ہے

مکھانوں کا سیزن

ویسے تو مکھانوں کا سیزن جنوری اور فروری مانا جاتا ہے لیکن نومبر کے مہینے میں نرسری بنا کر بیجوں کا چھڑکاؤ کر لیا جاتا ہے ایک ہیکٹیئر میں اگر کھیتی کرنی ہے تو بیس کلو گرام بیج کی ضرورت پڑتی ہے۔اس کے بعد پودا فروری کے دوسرے ہفتے میں تیار ہو جاتا ہے اس کے بعد اسے کھیتوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے اور جہاں جولائی تک یہ پوری طرح تیار ہو جاتا ہے۔ جس کے بعد پروسیسِنگ کا کام شروع ہوتا ہے۔تاہم اس کی کھیتی میں کچھ مشکلات بھی ہیں۔

مکھانہ کی کھیتی کی مشکلیں

مکھانے کی کاشت میں آج بھی لوگوں کی محنت زیادہ لگتی ہے اور مشین کی کم ۔

مکھانے کی کاشت میں بانس کی لکڑی سے بنے اوزار استعمال کیے جاتے ہیں جنہیں گنج، کارا، کنچی، چھلنی، افرا اور ٹھپی کہا جاتا ہے۔

منی پور جیسی ریاست میں پھل پھٹنے کے بعد کیچڑ میں ہی مکھانے کے بیج نہ پھیل جائیں اس سے پہلے ہی انہیں کاٹ کر باہر نکال لیا جاتا ہے۔

مکھانہ
مکھانہ کے بیج نکال کر انہیں بھونا جاتا ہے

پھل سے بھٹ کر بیج مٹی کے نیچے 10-15 سینٹی میٹر بیٹھ جاتا ہے – پھر ماہی گیر انہیں نکالتے ہیں۔ صبح سے دوپہر دو ڈھائی بجے تک انہیں پانی میں رہنا پڑتا ہے اس کے بعد پانی گرم ہو جاتا ہے۔

انہیں بانس سے بنی ٹوکری کا استعمال کرتے ہوئے پانی سے نکالا جاتا ہے۔ اس ٹوکری کو گنج کہتے ہیں۔ یہ زمین سے بیجوں کو چھانٹنے میں مدد کرتی ہے۔

اس کے بعد انہیں ایلومینیم کے برتن میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد باقی گندگی کو پیروں میں مسل کر ہٹا دیا جاتا ہے۔ پھر انہیں پانی میں دھویا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے دو سے تین دن تک دھوپ میں خشک کیا جاتا ہے۔ پھر پروسیسنگ کا کام شروع ہوتا ہے۔

مکھانے کے کاشتکاروں کا سب سے بڑا مسئلہ ان تمام کاموں کے لیے جدید آلات کی عدم دستیابی ہے۔ آج بھی اس کی کاشت کا کوئی سائنسی طریقہ نہیں ہے۔

مٹی سے مکھانوں کے بیج نکالنے کے عمل کے لیے ماہی گیروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جن کی تعداد بہت کم ہے اور لوگ اس کی تکنیک کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔

دربھنگہ مکھانہ ریسرچ سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر اندو شیکھر کہتے ہیں، ‘پورنیا کے زرعی کالج میں اسے پانی سے نکالنے کے لیے ٹیکنالوجی تیار کرنے پر کام جاری ہے۔ لیکن اس میں کچھ اور وقت لگے گا’۔

مکھانوں کے پھل سے پکے ہوئے بیجوں کو نکال کر بھونا جاتا ہے، اس کے لیے مشینیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ یہ صرف لوہے کی کڑھائی میں کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد لاوا بنایا جاتا ہے۔

تاہم، پراسیسنگ کے لیے جدید مشینیں بنانے کا کام آئی سی اے آر انسٹی ٹیوٹ، لدھیانہ میں جاری ہے۔

مکھانہ کے بیج چونکہ مختلف سائز کے ہوتے ہیں اس لیے پہلے ان کو سائز کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے۔ اسے بانس کی چھلنی سے تقریباً 15 سائزوں میں ترتیب دیا جاتا ہے، جسے گریڈنگ کہتے ہیں۔

ہر گریڈ کے مکھانوں کو پھر بھون کر پاپ کیا جاتا ہے جسے عام زبان میں لاوا روسٹنگ بھی کہا جاتا ہے۔

جولائی میں کٹائی کے بعد گھروں تک پہنچنے میں مزید دو ماہ لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد مکھانوں کی مختلف طریقوں سے مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔مکھانے کی اس شہرت کے بعد اب حکومت بھی جاگ گئی ہے۔

نیپال کی سرحد کے نزدیک واقع علاقے متھیلانچل کے مکھانے کو جی آئی ٹیگ ملا ہے۔ ‘جیوگرافیکل انڈیکیشن ٹیگ’ مخصوص پروڈکٹ کی تاریخ اور اس کے میعار اور فوائد کی بنیاد پر دیایا جاتا ہے، جس کے لیے کوئی فرد، ادارہ یا حکومت درخواست دے سکتی ہے۔

اس فیصلے کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے وزیر تجارت اور صنعت پیوش گوئل نے ٹوئٹر پر لکھا، ‘جی آئی ٹیگ کے ساتھ، اب مکھانے کی کاشت کرنے والے کسانوں کو فائدہ ہو گا اور ان کی کمائی آسان ہو جائے گی۔ بہار کے باہر کے لوگ بھی تہوار کے موسم میں اس کا استعمال کر سکیں گے’۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *