خشک سالی نے یورپ کو کیا کیا دکھا دیا نازی دور کے جنگی جہازوں سے گمشدہ دیہات تک
یورپ کئی ہفتوں سے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے جس کی وجہ کئی مقامات پر لوگوں کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا ہے اور کئی اموات بھی ہوئی ہے۔
دریاؤں اور ندیاں خشک ہو رہی ہیں جس سے بحری جہازوں کی آمد و رفت میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اس گرم موسم میں جب آبی ذخیروں میں پانی کی سطح گر رہی ہے اس کی وجہ سے ان میں ڈوبے کئی چھپے ہوئے خِزانے نمودار ہو رہے ہیں۔
مگر ان میں وہ ’بھوک کے پتھر‘ بھی ہیں جن کے اوپر پرانے قحطوں کے دوران لوگوں نے کنندہ کیا تھا کہ جب یہ پتھر پانی سے باہر آ جائیں تو سمجھ لیا جائے کہ مصبتوں کا دور شروع ہو گیا ہے۔
زیادہ تر ایسے پتھر جرمنی اور چیک ریپبلک میں بہنے والے دریائے ایلب کے کناروں پر سامنے آئے ہیں۔
ایک پھتر ایسا ہے جو پہلی بار 15ویں صدی میں نمودار ہوا تھا، اور پھر سنہ 1616 میں نمودار ہوا تو مقامی لوگوں نے اس پر کنندہ کیا۔ ’اگر آپ مجھے دیکھ سکتے ہیں تو رونا شروع کر دیں۔‘
سربیا کے دریائے ڈانیوب میں پانی کی سطح گرنے سے دوسری عالمی جنگ کے دوران ڈوبنے والے دو جہاز سامنے آ گئے ہیں۔ وہ اب بھی دھماکہ خیز مواد سے بھرے ہوئے ہیں۔
یہ دونوں جہاز نازی جرمنی کے بحری بیڑے کا حصہ تھے جو 1944 میں پراہوو گاؤں کے قریب ڈوب گیا تھا۔ اگر خشک موسم مزید کچھ عرصہ تک جاری رہتا ہے تو ایسے کئی اور جہاز نظر آ سکتے ہیں۔
ادھر اٹلی کے دریا پو میں ایسا اسلحہ بھی نمودار ہوا جو پھٹا نہیں ہے۔ رواں برس جولائی کے مہینے میں حکام نے مانتوا شہر کے قریب ایک دیہات سے تقرییاً تین ہزار لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال کر دوسری عالمی جنگ کے دور کے پانی میں چھپے ہوئے بم کو ناکارہ بنایا۔
جرمن فوجوں کے زیر استعمال جہاز جسے بھاری ساز و سامان کی نقل ہو حرکت کے استعمال کیا جاتا تھا اور 1943 میں ڈوب گیا تھا، وہ دریائے پو میں نمودار ہو گیا ہے۔
کئی ماہ پہلے جب دریائے پو میں پانی کی سطح گرنے لگی تو مقامی لوگوں نے زبیلو جہاز کو دیکھا لیکن جوں جوں پانی کی سطح اور کم ہو رہی ہیں یہ جہاز زیادہ نمایاں ہو گیا ہے۔
روم کے دریائے ٹِبر میں پچاس قبل از مسیح میں شہنشاہ نیرو کے دور میں بنائے گئے پل کے آثار سامنے آئے ہیں۔ اس پل کے کچھ آثار پہلے بھی دیکھے جا سکتے تھے لیکن پانی کی سطح میں کمی کے بعد اب اس پل کا ڈھانچہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
شہنشاہ نیرو کے دور میں تعمیر ہونے والا پل موجودہ جدید پل ، ویٹوریو ایمیونیول پل کے نیچے ہیں۔
سپین کے مرکزی صوبے کاساریس میں سپین کے سٹون ہینج کے نام سے جانے والے والدے کینیاس آبی ذخیرے میں سامنے آ گیا ہے۔
سرکاری طور پر اس کا نام ڈولمن آف گراپیرال ہے جو پتھروں کا ایک دائرہ ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پانچ ہزار قبل از مسیح انھیں اس طرح ترتیب دیا گیا تھا۔
ڈالمن آف گراپیرال کو 1926 میں ماہر آثار قدیمہ نے دریافت کیا تھا۔ 1963 میں آنے والے سیلاب کے بعد ڈولمن آف گراپیرال پانی میں ڈوب گئے اور تب سے ابتک صرف چار باہر پانی سے باہر نظر آئے ہیں۔
رواں سال کے ابتدا میں پرتگال کی سرحد کے قریب گیلیشیا میں پانی کے ذخیرے سے ’بھوت گاؤں‘ باہر آ گیا ہے۔
آسریڈو گاؤں کو آبی ذخیرہ بنانے کے لیے ختم کر دیا گیا تھا لیکن اب جب پانی کی سطح کم ہوئی ہے تو وہ ایک بار پھر نظر آ گیا ہے۔ اس کے سابق رہائشی اپنے گاؤں کو دیکھنے کے لیے وہاں جا رہے ہیں۔
خشک سالی نے برطانیہ میں بھی کئی پوشیدہ خزانوں عیاں کر دیا ہے۔ ڈربی شائر کے گاؤں ڈرنوینٹ کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں جسے 1940 میں لیڈی باور آبی ذخیرہ بنانے کے لیے اسے پانی سے بھر دیا گیا تھا۔
کارنول میں کولیفورڈ لیک آبی ذخیرے میں پرانے درخت ایک بار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ بوڈمن مور کے علاقے کو اسی کی دہائی میں پانی سے بھر دیا گیا تھا۔
گرم موسم کی وجہ سے گھاس کے سڑ جانے کے بعد انگلینڈ کے علاقے سونڈن میں لڈیارڈ پارک میں سترہویں صدی کے باغات کے نقوش سامنے آئے جو پہلے گھاس میں دبے ہوئے تھے۔ اسی طرح لینگلیٹ میں ایسے ہی ’بھوٹ گارڈن‘کے نقوش سامنے آئے ہیں۔