پنجاب کے ضمنی انتخابات کیا ’نیوٹرل‘ اسٹیبلشمنٹ آئندہ الیکشن میں بھی مداخلت نہیں کرے گی؟
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کی 15 نشستوں پر کامیابی ایک معرکہ سمجھی جا رہی ہے لیکن حیران کن طور پر کچھ مبارکباد پاکستان کی فوج یا ’اسٹیبلشمنٹ‘ کے حصے میں بھی آئی کیونکہ زیادہ تر عوام کے خیال میں ماضی کے برعکس اس بار فوج نے ’انتخابات میں مداخلت نہیں کی۔‘
اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے فوج یا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو بھی سراہا گیا اور اسی بیانیے کو پی ٹی آئی کی کامیابی کا نتیجہ بھی بتایا جا رہا ہے۔
اس الیکشن کے نتائج میں جن تین باتوں کا بڑا عمل دخل بتایا جاتا ہے ان میں مسلم لیگ نون کی جماعت کے اندر آپسی لڑائی، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی اصلاحات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے مہنگائی اور پھر عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ ہی ہیں۔
فوج کی سیاست میں مداخلت اور عمران خان کا بیانیہ
پی ٹی آئی کے اتحادی اور سابق وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد بھی ماضی میں پاکستان کی سیاست میں فوج یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بات کرتے رہے ہیں تاہم پنجاب کے ضمنی انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے ’نیوٹرل‘ رویے کے حوالے سے ان کا مؤقف مختلف رہا۔
پی ٹی آئی رکن اور سابق وزیر عندلیب عباس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شیخ رشید احمد اپنی جماعت کی بات کرتے ہیں اور اپنا مؤقف بیان کرتے ہیں لیکن ہماری اپنی پارٹی کا مؤقف یہ ہے کہ اسٹیبشلمنٹ نے مسلم لیگ نواز کی پشت پناہی کرنے کی بہت کوشش کی۔‘
تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی عاصم نصیر نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کو یہ کریڈٹ دینا ہو گا کہ اس بار الیکشن میں ان کا کردار نظر نہیں آیا۔ 20 حلقوں میں آپ کو فوج کہیں بھی پولنگ سٹیشن کے اندر نظر نہیں آئی۔ آپ کو سادہ لباس میں افسر نظر نہیں آئے۔ سپیشل برانچ یا پولیس کی طرف سے بھی کوئی مداخلت کہیں نظر نہیں آئی۔‘
’یہ صاف طور پر عوام کا فیصلہ تھا اور اسی لیے مسلم لیگ نون نے بھی اس کو تسلیم کیا۔ مریم نواز نے بھی کہا کہ وہ کھلے دل سے اس فیصلے کو تسلیم کرتی ہیں، جو بڑی بات ہے۔‘
لیکن کیا آئندہ آنے والے انتخابات میں بھی یہی روایت قائم کی جائے گی؟ اگر آسان الفاظ میں کہا جائے تو کیا آئندہ بھی اسٹیبلشمنٹ انتخابات یا سیاست میں مداخلت کرنے سے پیچھے ہٹے گی؟
’ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا پیچھے ہٹنا وقتی ہے‘
اس بارے میں سیاسی تجزیہ کار ضیغم عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ بڑھتے سیاسی و سماجی تناؤ کے نتیجے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ اب پیچھے ہٹ رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت وہ یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ نیوٹرل ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہم نے ماضی میں بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اس قسم کی سٹریٹیجک ریٹریٹ یعنی مصلحتاً پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا ہے۔‘
لیکن ضیغم عباس کا ماننا ہے کہ اس بار بھی یہی ہو رہا ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا پیچھے ہٹنا وقتی ہے اور جونہی نئی حکومت آ جائے گی، فوج ایک بار پھر حرکت میں آ جائے گی اور وہ ہی سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں بنیادی مسئلے کا حل نکالنا ہو گا۔ قانون کی بالادستی اور ریاست کے اندر ریاست کے بیانیے کو واضح طور پر چیلنج کیے بغیر اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت کرتی رہے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہاں مسئلہ نیوٹرل ہونے کا نہیں بلکہ پاکستان کی فوج کا ملک کی سیاسی ساکھ پر مکمل کنٹرول ہے اور اس سیاسی اثر و رسوخ کو وہ چاہتے ہوئے بھی نہیں چھوڑ سکتے۔‘
’سیاسی مہم چلانا فوج کا کام نہیں‘
ہم نے اس حوالے سے عام عوام کی رائے بھی جاننے کی کوشش کی جو کافی منقسم نظر آتی ہے۔
لاہور کے بھاٹی اور دہلی گیٹ میں ہر بار کڑا مقابلہ رہتا ہے اور زیادہ تر مسلم لیگ نون کامیاب ہوتی ہے لیکن جہاں بھاٹی گیٹ شروع سے ہی مسلم لیگ نون کا حلقہ رہا ہے، وہیں دہلی گیٹ کے علاقے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اب یہاں 50/50 ووٹ ہیں یعنی آدھے حمایتی نواز گروپ کے جبکہ آدھے پی ٹی آئی سے جڑے ہیں۔
جب یہاں فوج کی انتخابات میں ’مداخلت‘ کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو ایک خاتون نے کہا کہ ’آرمی جو چاہے گی وہ ہی ہو گا۔ ہم نے جیسے پہلے بھی دیکھا کہ فوج نے جس کو چاہا وہ ہی وزیرِاعظم بنا لیکن ہم تو یہی چاہیں گے کہ جو بھی وزیرِاعظم بن کر آئے، چاہے وہ فوج کی مرضی سے بنے لیکن وہ عوام کے لیے بہتر ہونا چاہیے۔‘
ایک طالبعلم نے کہا کہ ’نہیں وہ (فوج) دور نہیں رہتے بلکہ شامل رہتے ہیں۔ وہ بس ہم عوام کو لگتا ہے کہ وہ شامل نہیں لیکن وہ ضرور شامل ہوتے ہیں۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ (یعنی فوج) دوبارہ آئیں۔‘
بھاٹی گیٹ میں ایک دکاندار نے کہا کہ ’امید ہے کہ عمران خان نے جو بات کی ہے اس کے بعد اب فوج (انتخابات میں) مداخلت نہیں کرے گی اور ہمیں بھی یقین ہے کہ وہ نہیں کرے گی کیونکہ عمران خان نے اب سیاستدانوں کو آزاد کر دیا ہے۔‘
وہیں پر موجود ایک رہائشی نے کہا کہ ’اگر فوج نہ ہوتی تو انڈیا اور امریکہ پاکستان پر قابض ہو جاتے تو ہم فوج کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور آئندہ بھی امید کرتے ہیں کہ وہ سیاست سے دور رہیں گے اور اسی جذبے سے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے رہیں گے۔‘
دہلی گیٹ میں ایک اور دکاندار نے کہا کہ ’امید تو یہی ہے کہ فوج سیاست سے دور رہے گی اور اگر سیاست سے دور رہتی ہے تو عوام ان کی زیادہ عزت کرے گی۔ اب دیکھیں ان کی اتنی بدنامی ہوئی کہ یہ شہباز شریف کو لے کر آئے اور مہنگائی بھی بڑھ گئی۔ قوم اب جانتی ہے کہ جو بھی کرتی ہے وہ فوج کرتی ہے لیکن ضمنی انتخابات میں ان کا عمل دخل نظر نہیں آیا۔ تو اگر ایسا جاری رکھیں گے تو قوم ان سے محبت کرے گی۔‘
ادھر ہی موجود ایک طالبعلم نے کہا کہ ’(سیاسی) مہم چلانا فوج کا کام ہی نہیں۔ ان کا کام تو سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔‘
کیا فوج کے ’مداخلت‘ نہ کرنے سے عمران خان کا بیانیہ متاثر ہوا؟
مبصرین کے خیال میں فوج کی حالیہ انتخابات میں ’مداخلت‘ نہ ہونے کے نتیجے میں پی ٹی آئی کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اب ختم ہو گیا ہے لیکن عندلیب عباس اس بات سے متفق نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمارا بیانیہ شروع سے یہی رہا اور رہے گا ’کیونکہ دھاندلی اب بھی جاری ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اب 22 جولائی کے وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کے لیے باقی ادارے پہلے سے ہمارے ایم پی ایز کو خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے ایم پی ایز کو دھمکیاں دی جارہی ہیں، دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ ہمارے اوپر دہشتگردی کے مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ تو کون کر رہا ہے؟‘
’یہ صرف زرداری، مریم یا حمزہ تو بیٹھ کر نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کا سسٹم چاہیے اور وہ بالکل شامل ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سنہ 1970 کی دہائی سے لے کر آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، چاہے وہ عام ہوں یا ضمنی، ان پر دھبہ ضرور لگا کہ یہ کسی نہ کسی طرح سے انجینئیرڈ ہیں۔ حالیہ (ضمنی) انتخابات میں عوام اور پی ٹی آئی اکیلے تھے اور اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور حکومت کی جانب سے کوششوں کے باوجود یہ ظاہر ہوگیا کہ عوام پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔’
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں عام تاثر یہی رہا کہ اسٹیبلشمنٹ یا پاکستان کی فوج عمران خان کو اقتدار میں لانا چاہتی ہے لیکن مبصرین کی رائے میں اب کردار ایک بار پھر تبدیل ہو چکے ہیں اور جس پشت پناہی کی بات عمران خان کی جماعت کے بارے میں کی جاتی تھی، وہ ہی بات اب پی ٹی آئی مسلم لیگ نون کے بارے میں کر رہی ہے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے عندلیب عباس نے کہا کہ ’اسٹیبشلمنٹ اگر غلط کام کر رہی ہے تو وہ غلط ہے، چاہے وہ ہمارے ساتھ ہے یا ہمارے خلاف ہے۔ ہم ہر اس بندے کے خلاف ہیں جو صاف شفاف الیکشن کے راستے میں حائل ہوتا ہے۔‘