پاکستان بمقابلہ سری لنکا عبداللہ شفیق کی آنکھوں

پاکستان بمقابلہ سری لنکا عبداللہ شفیق کی آنکھوں

پاکستان بمقابلہ سری لنکا عبداللہ شفیق کی آنکھوں میں جھانکیے، سمیع چوہدری کا کالم

آنجہانی شین وارن نے راہول ڈریوڈ بارے کہا تھا کہ اگرچہ ڈریوڈ کو ‘دیوار’ کہنا بھی درست ہے مگر دیوار سے کہیں زیادہ وہ ایک قلعے کی مانند ہیں، جو ایک بار کریز پہ جم جائیں تو پھر انہیں ہٹانے کے لئے بیک وقت درجن بھر توپوں کی گولہ باری جیسی بولنگ بھی کم پڑ جاتی ہے۔

اور پھر عظیم آسٹریلوی کرکٹر میتھیو ہیڈن کا یہ جملہ تو سر دُھننے کے لائق ہے کہ یہ جو کرکٹ میں مارا ماری سی چل رہی ہے، یہ جارحیت نہیں ہے، اگر جارحیت کا مفہوم جاننا مقصود ہو تو راہول ڈریوڈ کی آنکھوں میں جھانکیے۔

اسی تناظر میں اگر عبداللہ شفیق کی آنکھوں میں بھی جھانک کر دیکھا جائے تو یہ جاننا کچھ دشوار نہیں رہتا کہ ہیڈن دراصل کیا کہنا چاہ رہے تھے۔ کیونکہ کچھ ہی ہفتے پہلے بابر اعظم اس 22 سالہ ہونہار نوجوان کا موازنہ راہول ڈریوڈ سے کر رہے تھے۔

عبداللہ شفیق اگرچہ اس موازنے کو اپنے لیے باعثِ فخر ٹھہراتے ہیں مگر وہ ساتھ ہی واضح کرتے ہیں کہ ان کے فیورٹ بلے باز رکی پونٹنگ اور محمد یوسف رہے ہیں مگر عبداللہ کے بیٹنگ سٹائل میں ایسا حسن پنہاں ہے کہ کبھی کبھی بابر اعظم کو انھیں دیکھ کر کین ولیمسن بھی یاد آ جاتے ہیں۔

لیجنڈری کرکٹ مبصر سی ایل آر جیمز نے کہا تھا کہ کرکٹ، پہلے پہل، ایک ڈرامائی منظر کی سی عکاسی ہے، یہ تھیٹر، بیلے، اوپرا اور رقص کے قبیل کی شے ہے۔ اور اگر اس قول کی تائید میں ہم عبداللہ شفیق کی بیٹنگ کو پیش کریں تو تصویر مکمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

کرکٹ ہی کی طرح موسیقی سے بھی برابر کا شغف رکھنے والے عبداللہ کی انگلیاں صرف گٹار پہ ہی نفاست سے نہیں چلتیں بلکہ کریز پہ ان کے بلے کی حرکت سے بھی انگ انگ ایک نغمگی سی جھلکتی ہے۔ ان کی بلے بازی کی یہ موسیقیت گال جیسی صبر آزما وکٹ پہ ایسی ثابت قدم ٹھہری کہ وہ چوتھی اننگز میں اس ‘سپنرز کی جنت’ پہ اکیلے 68 اوورز کھیل گئے۔

گال قلعے کے نواح میں واقع، اطراف سے بحرِ ہند میں گِھرا، گال انٹرنیشنل سٹیڈیم سری لنکن ٹیم کا قلعہ کہلاتا ہے کہ یہاں اس کی فتوحات کا تناسب دیگر تمام وینیوز پہ حاوی ہے اور اس گراؤنڈ پہ ٹیسٹ کرکٹ کے پچھلے 24 سال میں آج تک ایسا بڑا ہدف کبھی قابلِ تسخیر ثابت نہیں ہوا۔

ویسے بھی جس طرح سے پاکستانی بیٹنگ پہلی اننگز میں جے سوریا کے سامنے ریت کا ڈھیر ہوئی تھی، یہاں کوئی دلِ خوش فہم ہی جیت کا خواب دیکھ سکتا تھا۔ مگر عبداللہ شفیق نے نہ صرف یہ خواب دیکھا بلکہ ان تمام ناقدین کو بھی تشفی بخش جواب دے دیا جو شروع سے ہی ان کے انتخاب پر چہ مگوئیاں کرتے رہے ہیں۔

پاکستانی کرکٹ کلچر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جب کسی کوچ، کپتان یا سلیکٹر کی صورت ہی اکثریتی میڈیا کو ناگوار گزرتی ہو تو اس کے لیے گئے سبھی فیصلے بھی بےجا تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب مصباح الحق نے محض ایک فرسٹ کلاس میچ کا تجربہ رکھنے والے عبداللہ شفیق کو قومی ٹیم کے لیے چُنا تو میڈیا کے ایک طبقے میں ہاہاکار مچ گئی اور سوال اٹھائے جانے لگے کہ یہ ‘پرچی’ کہاں سے آئی اور کیونکر لائی گئی۔

اگرچہ عبداللہ شفیق نے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں ان سارے سوالوں کا جواب دے ڈالا تھا۔ مگر پھر بھی تنقید نہ تھمی تو آسٹریلیا کے خلاف کراچی میں بابر اعظم کے ہمراہ ایک نجات دہندہ اننگز کھیل کر انہوں نے اکثر زبانوں پر قفل ڈال دیے۔ لیکن اگر پھر بھی کہیں کسی نہاں خانے میں کوئی تشکیک باقی رہ گئی تھی تو گال کی اس اننگز نے ان تمام تر سوالات پہ ایک حتمی مہر ثبت کر دی ہے۔

عبدا اللہ شفیق، بابر اعظم
بابر اعظم کبھی ان کا موازنہ راہول ڈریوڈ سے کرتے ہیں تو کبھی نیوزی لینڈ کے کین ولیمسن سے

کیونکہ پربھات جے سوریا ان گنے چنے خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھیں اپنے کرئیر کی ابتدائی تین اننگز میں ہی فی اننگز پانچ وکٹیں اڑانے کا اعزاز حاصل ہو چکا ہے اور جس طرح سے وہ پچھلی اننگز میں پاکستانی بیٹنگ کے تکنیکی جھول آشکار کر رہے تھے، ایسی کسی شاہکار اننگز کا خیال بھی محال نظر آتا تھا۔

اگرچہ کسی حد تک ان کی بدقسمتی بھی رہی کہ پہلی اننگز میں دوسرے کنارے سے مدد فراہم کرنے والے مہیش تیکشنا زخمی انگلی کے سبب پوری قوت سے نہ کھیل پائے مگر کریڈٹ سارا عبداللہ شفیق کا ہے کہ اپنے خوبصورت انداز میں کمال تکنیک کے ساتھ جے سوریا کو یوں غیر موثر کیا کہ دیگر سری لنکن بولرز کے بھی حوصلے پست کر چھوڑے۔

سات سال قبل جب سری لنکا کے خلاف ہی پاکستان نے اپنی ٹیسٹ تاریخ کا سب سے بڑا ہدف حاصل کیا تھا تو اس فتح کے مرکزی کردار، یونس خان کے ہمراہ، شان مسعود تھے جن کی سنچری نے اس تاریخی جیت کی امید جگائی تھی۔ شان مسعود یاد کرتے ہیں کہ اس اننگز میں بنیادی کردار دوسرے کنارے پہ موجود جہاندیدہ بلے باز یونس خان کی نفسیاتی تائید کا تھا جنہوں نے ان کے مزاج کو سنبھالا دیے رکھا۔

مگر یہاں عبداللہ شفیق کو نہ تو دوسرے کنارے سے کوئی ایسی تائید میسر تھی اور نہ ہی فرسٹ کلاس کرکٹ کا کوئی وسیع و عریض تجربہ بہم تھا، مگر جس تسلسل اور ارتکاز سے وہ پاکستان کو ہدف کے پار لے گئے، یہ بخوبی عیاں ہو گیا کہ بابر اعظم کی جانب سے ان کا راہول ڈریوڈ سے موازنہ یونہی بے سبب نہیں ہے۔

سو یہاں راہول ڈریوڈ کے بارے میتھیو ہیڈن کا جملہ مستعار لے کر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جارحیت کا مفہوم جاننا ہو تو عبداللہ شفیق کی آنکھوں میں جھانکیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *