پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیان منظرعام پر لانے والے انڈین صحافی محمد زبیر کی درخواست ضمانت مسترد، 14 روزہ عدالتی تحویل میں دینے کا حکم
انڈیا میں عدالت نے پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیان کو منظرعام پر لانے والے انڈین صحافی اور سرکردہ فیکٹ چیک نیوز ویب سائٹ ’آلٹ نیوز‘ کے شریک بانی محمد زبیر کی درخواست ضمانت مسترد کر کے انھیں 14 روزہ عدالتی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔
انھیں دہلی میں مجسٹریٹ سنگدھا سریواستو کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ دہلی پولیس کی جانب سے سینئر سرکاری وکیل اتل سریواستو نے عدالت سے زبیر کو 14 روزہ عدالتی تحویل میں دینے کا کہا تھا۔
اسی وقت محمد زبیر کی جانب پیش ہونے والے وکیل ویرندا گروور نے ان کی ضمانت کی درخواست دائر کی تھی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے انھیں 14 روزہ عدالتی تحویل پر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
یاد رہے کہ دلی پولیس نے انھیں گذشتہ ماہ مذہبی جذبات مجروح کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
محمد زبیر انڈیا کے ایک سرکردہ صحافی ہیں اور ان کا نام فیک نیوز چیک کرنے اور عوام کے درمیان اس بارے میں بیداری پھیلانے کے لیے مشہور ہے۔ محمد زبیر گذشتہ دنوں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سابق ترجمان نوپور شرما کی جانب سے ایک ٹی وی میں پیغمبر اسلام کے بارے میں نازیبا بیانات کو منظر عام پر لانے اور ٹوئٹر کے ذریعے اس خبر کو عام کرنے کے بعد خبروں میں رہے۔
ان بیانات کو منظر عام پر لانے کے بعد یہ مطالبات شد و مد سے سامنے آئے تھے کہ زبیر کو گرفتار کیا جائے اور اُن پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات کے تحت مقدمات درج کیے جائیں۔
یاد رہے کہ پیغمبر اسلام کے حوالے سے تبصرہ کرنے والی بے جے پی رہنما نوپور شرما نے دعویٰ کیا تھا کہ محمد زبیر کی جانب سے ٹویٹس کیے جانے کے بعد سے انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔
اس سے قبل بھی متعدد بار محمد زبیر نے ایسے فیک مواد اور خبروں کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے جو نفرت پر مبنی تھا اور ایک خاص طبقے اور بیشتر اوقعات مسلمان مخالف تھا۔
آج عدالت میں کیا ہوا؟
سرکاری وکیل سریواستو نے عدالت کو بتایا کہ محمد زبیر کے مقدمے میں کچھ نئے حقائق سامنے آئے ہیں۔ لہذا پولیس نے ملزم محمد زبیر پر مزید کچھ نئی دفعات لگائی ہیں۔
زبیر پر عائد کی جانے والی دفعات میں تعزیرات ہندوستان کے قانون کے مطابق آئی پی سی 120-بی (مجرمانہ سازش)، آئی پی سی 201 (ثبوت کو تباہ کرنا) اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ کی دفعہ 35 لگائی گئی ہیں۔
سرکاری وکیل سریواستو نے عدالت کو بتایا کہ حکام نے محمد زبیر کا لیپ ٹاپ اور موبائل ضبط کر لیا ہے جس سے پولیس کو کچھ نئے شواہد اور چیزیں ملی ہیں۔
محمد زبیر کے وکیل ویرندا گروور نے عدالت میں ان الزامات کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل کی یہ ٹویٹ سنہ 2018 کی ہیں جبکہ وہ جو فون استعمال کر رہے ہیں وہ مختلف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ محمد زبیر ان میں سے کسی ٹویٹ کی تردید نہیں کرتے اور عدالت اس کی تصدیق کے لیے ٹوئٹر سے رابطہ کر سکتی ہے۔
ویرندا گروور کا کہنا تھا کہ ‘دہلی پولیس نے ان کے مؤکل کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون ضرور ضبط کیا ہے لیکن انھیں وہاں سے زبیر کے خلاف کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔ پولیس اس مقدمے میں ان کا جرم ثابت کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ دہلی پولیس صرف اس مقدمے کو غیر ضروری طور پر لٹکانے کی کوشش کر رہی ہے۔’
محمد زبیر کے وکیل ویرندا گروور کا کہنا تھا کہ دہلی پولیس غیر قانونی طور پر ان کے مؤکل کے خلاف کارروائی کر رہی ہے تاکہ اس من گھڑت الزامات کو طوالت دی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ان کے مؤکل کے خلاف ریکارڈ پر جرم ثابت کرنے کے لیے کوئی مواد یا شواہد موجود نہیں ہیں۔’
دہلی پولیس کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ ابھی زیر تفتیش ہے، محمد زبیر کو مبینہ طور پر پاکستان اور شام سمیت مختلف ممالک سے بیرونی رقوم موصول ہوئی ہیں اس لیے ان کے خلاف ایف سی آر اے کی دفعہ 35 لگائی گئی ہے۔
سرکاری وکیل سریواستو نے عدالت میں کہا کہ جب زبیر کو دہلی پولیس کے کہنے پر تفتیش کے لیے بلایا گیا تو انھوں نے بتایا تھا کہ وہ اس دن سے پہلے تک ایک دوسری موبائل سم اور فون استعمال کر رہے تھے۔ جو انھوں پولیس کو دکھائی اور نظروں میں آنے کے بعد انھوں نے وہ سم ایک اور فون میں ڈال دی، دیکھیں ذرا کتنا چالاک ہے یہ شخص۔’
اس پر محمد زبیر کے وکیل ویرندا گروور نے سوال کیا کہ ’کیا کسی شخص کا سم یا فون تبدیل کرنا جرم ہے؟ کیا موبائل فون کو فارمیٹ کرنا جرم ہے؟ کیا سمجھدار ہونا جرم ہے؟ یہ سب باتیں انڈین قانون کی کسی دفعہ کے تحت جرم نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی شخص کو پسند نہ کریں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن آپ (اس کے خلاف) کوئی الزام یا غلط بیان نہیں دے سکتے۔‘
ٹیلی فون کالز کا ریکارڈ
ویرندا گروور کا کہنا تھا کہ دہلی پولیس ان کے مؤکل کو اس طرح پھنسانا چاہتی ہے کہ باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہے۔ ’اس ملک میں آپ انھیں کسی جھوٹے مقدمے میں نہیں پھنسا سکتے۔ عدالت کو غیر جانبداری کا تحفظ کرنا ہوگا۔ وہ پہلے ہی پانچ دن سے پولیس کی حراست میں ہے۔‘
انھوں (زبیر) نے تمام نوٹسز کا جواب دے دیا ہے اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ (پولیس) خود انھیں (زبیر) کو عدالتی تحویل میں بھیجنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
دہلی پولیس کی جانب سے پیش سرکاری وکیل سریواستو کا عدالت میں کہنا تھا کہ ملزم کی ٹیلی فون کالز ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ انھوں نے مبینہ طور پر ایک بیرون ملک سے رقم بھجوانے والی سروس ریزر گیٹ وے کے ذریعے سے پاکستان اور شام سے مبینہ طور پر فنڈز موصول کیے تھے۔ بیرون ملک سے حاصل کرنے والی رقوم کے اس مقدمے میں ان کا جرم ثابت کرنے کے لیے تحقیقات کی ضرورت ہے۔
محمد زبیر کے وکیل ویرندا گروور نے ان کی ضمانت کی درخواست کرتے ہوئے عدالت سے کہا کہ ‘محمد زبیر ایک نوجوان صحافی اور فیکٹ چیکر ہیں۔ وہ ایسے شہری ہیں جن پر ہم سب کو فخر ہونا چاہیے اور انھیں ضمانت پر رہا کیا جانا چاہتے۔’
ویرندا گروور نے عدالت میں کہا کہ ان کے مؤکل نے ثبوتوں کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی اور اپنے مؤکل کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 201 کے نفاذ کو غلط قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ‘ان کے مؤکل محمد زبیر ایک بے قصور شخص ہیں۔ وہ ایک صحافی اور ایک ذمہ دار شخص ہیں لہذا براہ کرم انھیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔ سب کچھ دہلی پولیس کی نظروں کے سامنے ہے۔ وہ پانچ دن سے دہلی پولیس کی حراست میں ہیں۔‘
تحقیقاتی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے الزامات
سرکاری وکیل اتل سریواستو کا عدالت میں کہنا تھا کہ محمد زبیر کے وکیل ویرندا گروور بھی ان کی بات دہرا رہے ہیں۔ انھوں نہ کہا کہ ‘محمد زبیر اس مقدمے میں تحقیقاتی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے ہیں لہٰذا عدالت کو ان کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کر دینا چاہیے۔’
سریواستو کا کہنا تھا کہ انڈیا کے قانون سی آر پی سی کی دفعہ 41 کے تحت پولیس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی معاملے میں اپنے کردار کے بارے میں تفتیشی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتا تو اسے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کب اور کیوں پاکستان اور شام سے رقم وصول کی، اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
محمد زبیر کے وکیل ویرندا گروور کے دلائل پر سرکاری وکیل سریواستو نے کہا کہ ‘یہ کہنا کہ وہ ایک نوجوان صحافی ہیں اور ہمیں ان پر فخر ہونا چاہیے، تب مجھے عدالت کو بتانا ہوگا کہ زبیر کی مہم اور سرگرمیاں مشکوک ہیں۔ انھیں بیرون ملک سے فنڈز یا چندہ مل رہا ہے۔ اس کی تحقیقات ضروری ہے، اس لیے عدالت انھیں ضمانت نہ دے۔‘