شہزادہ چارلس کے خیراتی ادارے چارلس فاؤنڈیشن

شہزادہ چارلس کے خیراتی ادارے چارلس فاؤنڈیشن

شہزادہ چارلس کے خیراتی ادارے چارلس فاؤنڈیشن کے عرب دنیا میں تعلقات پر الزامات اور تحقیقات

برطانوی رائل پیلس کے ذرائع نے کہا ہے کہ اب سے پرنس چارلس کی خیراتی فاونڈیشن کسی سے بھی نقد خیرات قبول نہیں کرے گی۔

یہ بات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حال ہی سنڈے ٹائمز کی خبر میں دعوی کیا گیا کہ پرنس آف ویلز یعنی شہزادہ چارلس نے ایک سابق قطری وزیراعظم سے ایک ملین یورو کیش سے بھرا سوٹ کیس بطور تحفہ وصول کیا تھا۔

خبر کے مطابق یہ کیش رقم شیخ حمد بن جاسم کی طرف سے تین ملین یورو کے تین نقد عطیات میں سے تھی، جو شہزادے نے مختلف اوقات میں وصول کی ہے۔ یہ رقم تین مختلف اقساط میں 2011 سے 2015 تک کے درمیان ادا کی گئی جس میں سے کچھ پلاسٹک شاپنگ بیگز میں تھی۔

لیکن یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ پرنس چارلس کے خیراتے ادارے کو عطیات ملنے کا معاملہ متنازع ہوا ہو۔

گذشتہ سال فروری کے مہینے میں برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس نے ان دعوؤں پر تفتیش شروع کی تھی کہ برطانوی شہزادے کے ادارے نے ایک سعودی برنس مین محفوظ مبارک بن محفوظ سے برطانوی میڈل کے حصول میں مدد کے عوض خطیر رقم بطور خیرات لی تھی۔

اس معاملے کی تفتیش اب تک جاری ہے اور کراون پرنس چارلس فاونڈیشن کا کہنا ہے کہ پولیس سے تعاون کیا جا رہا ہے لیکن فی الحال اس پر رائے دینا مناسب نہیں ہو گا۔

برطانیہ کے شاہی خاندان کے افراد، سیاسی جماعتوں یا خیراتی اداروں کو عطیات دینا ایک ایسا سلسلہ ہے جو کئی امیر اور صاحب حیثیت لوگوں کے لیے برطانیہ کی سیاسی اور شاہی اشرافیہ کے دروازے کھولنے کی وجہ بن جاتا ہے۔

برطانوی قانون کے مطابق کوئی بھی غیر ملکی کسی مقامی سیاسی جماعت کو عطیہ نہیں دے سکتا لیکن خیراتی اداروں پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اب تک پولیس کی تفتیش کے دوران سعودی بزنس مین محفوظ مبارک بن محفوظ یا ان کی فاونڈیشن کو شامل نہیں کیا گیا۔

گذشتہ سال فروری میں ہی برطانوی اخبارات نے متعدد ایسی رپورٹس شائع کیں جن میں پرنس چارلس اور باون سالہ سعودی بزنس مین کے تعلقات پر روشنی ڈالی گئی۔ ان رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ کس طرح سعودی کاروباری شخصیت کے خیراتی ادارے نے برطانوی شہزادے سے جڑے کئی ایسے خیراتی اداروں کو خطیر رقم عطیہ کی جو قدیم محلات اور تاریخی مقامات کی بحالی کے کام میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ان رپورٹس میں ایسے بروکرز کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی گئیں جو رقم کے بدلے سعودی امرا اور برطانوی شہزادے کے درمیان رابطہ کروانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

تحقیقات سے پتا چلا کہ نومبر میں چیف ایگزیکٹو کے عہدے سے مستعفی ہونے والے مائیکل فاسٹ نے ارب پتی تاجر محفوظ ماری مبارک بن محفوظ کے لیے اعزازی سی بی ای پر ‘فکسرز’ کے ساتھ کوآرڈینیشن کی تھی۔ تاہم فکسر کسی بھی غلط کام یعنی کسی جرم کے ارتکاب سے انکاری ہیں۔ تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ شہزادہ چارلس کی فاؤنڈیشن ان دو افراد کے رابطے سے آگاہ تھی۔

شہزادہ چارلس اور ان کے سابق شاہی خدمت گار مائیکل فاسٹ
شہزادہ چارلس اور ان کے سابق شاہی خدمت گار مائیکل فاسٹ

میٹروپولیٹن پولیس نے اس سال کے شروع میں کہا تھا کہ وہ آنرز (پریویونشن آف ابیوزز) ایکٹ 1925 کے تحت اس الزام کی تحقیقات کر رہی ہے۔

محفوظ مبارک بن محفوظ ایک ایسے سعودی خاندان سے تعلق رکھنے والے کاروباری ہیں جو دہائیوں سے انڈسٹری اور ٹریڈ کے شعبے میں کام کر رہا ہے۔ وہ لندن کے کنگز کالج سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر چکے ہیں اور ہوٹلنگ، ریئل سٹیٹ سمیت متعدد خاندانی کمپنیز کو چلاتے ہیں۔

سنڈے ٹائمز کے مطابق محفوظ مبارک بن محفوظ کی جانب سے برطانوی اعزاز حاصل کرنے کی کوشش کا آغاز 2011 میں ہوا۔ سنہ 2012 میں انھوں نے ایک خیراتی ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ برطانوی شہریوں تک مشرق وسطیٰ کی ثقافت، تاریخ، زبان، ادب اور اداروں کے بارے میں آگاہی اور معلومات پہنچائی جائیں۔

میل آن سنڈے اخبار کے مطابق محفوظ مبارک بن محفوظ نے پرنس چارلس کے اداروں کو ڈیڑھ ملین پاؤنڈ عطیہ کیے جس میں سے زیادہ تر رقم پرنس چارلس کے سکاٹ لینڈ میں موجود دو محلات پر خرچ ہوئی۔ مئے کاسل اور ڈمفریس کاسل نامی یہ محلات عوام کے لیے بھی کھلے ہیں۔

ان خدمات کے بدلے ایک محل میں محفوظ مبارک بن محفوظ کے نام پر ایک فوارہ بھی لگایا گیا جب کہ محل کی کھڑکیوں کی پرانی حالت میں بحالی کا خرچہ اٹھانے پر محل کے گرد موجود جنگل کا نام محفوظ جنگل رکھ دیا گیا۔

سنہ 2016 میں شہزادہ چارلس کی سرکاری رہائش گاہ کلیرنس ہاوس میں محفوظ مبارک بن محفوظ کو برطانوی اعزاز سے نوازا گیا۔

نومبر 2021 میں سنڈے ٹائمز اخبار نے اس معاملے پر ایک مفصل تحقیقاتی رپورٹ شائع کی جس میں اخبار کے مطابق شہزادہ چارلس اور سعودی بزنس مین کے ساتھیوں کے درمیان ہونے والے مبینہ رابطوں کی سینکڑوں صفحات پر مشتمل دستاویزات بھی سامنے لائی گئیں۔

مسلسل سخاوت

گذشتہ برس ایک خط سامنے آیا جو اگست 2017 میں شہزادہ چارلس کے سابق شاہی خدمت گار مائیکل فاسٹ نے محفوظ مبارک کے معاون بوصف لاملم کو لکھا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ‘محترم شیخ محفوظ مری مبارک بن محفوظ کی مسلسل سخاوت کے پیش نظر، مجھے آپ کو اعتماد کے ساتھ یہ یقین دلاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہم شہریت کی درخواست میں تعاون اور مدد کے لیے تیار اور رضامند ہیں۔ میں مزید آپ کو اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ ہم ملکہ برطانیہ کی اعزازی کمیٹی میں آپ کے اعزاز کا درجہ بہتر کرنے کی درخواست بھی جمع کروا رہے ہیں۔’

گذشتہ برس ستمبر میں یہ خط منظر عام پر آنے اور برطانوی اخبار ڈیلی میل میں شائع ہونے کے بعد مائیکل فاسٹ نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔ محفوظ مبارک نے اس بات کی تصدیق کہ انھوں نے کوئی خلاف ورزی نہیں کی اور یہ کہ انھوں نے شہزادہ چارلس کے خیراتی ادارے کو عطیات دینے کے بدلے میں کسی تحائف یا فائدے کی توقع سے نہیں کی تھی۔

شہزادہ چارلس اور ان کے سابق شاہی خدمت گار مائیکل فاسٹ
سابق شاہی خدمت گار مائیکل فاسٹ نے چالیس برس تک شہزادہ چارلس کے ساتھ کام کیا

محفوظ مبارک بن محفوظ کے والد نے اپنے کاروباری گروپ کی ویب سائٹ پر اپنے گروپ کے بہت سے کاموں اور اقدامات کی تفصیلات فراہم کی ہوئی ہیں۔ اس کاروباری کمپنی کا قیام تقریباً پچاس برس قبل ہوا تھا۔ اس ویب سائٹ کے مطابق شیخ محفوظ سنہ 1944 میں یمن میں پیدا ہوئے اور وہ سعودی عرب اور یمن کے آل بن محفوظ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان کا کاروباری گروپ سعودی عرب کی بڑی نجی کمپنیوں کی فہرست میں اٹھارویں نمبر پر ہے اور وہ دنیا کے مختلف ممالک میں متعدد شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ کمپنی کے ویب سائٹ پر موجود تصاویر میں سے ایک میں شیخ محفوظ مبارک بن محفوظ کے والد برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم سے ہاتھ ملا رہے ہیں، جبکہ ایک اور تصویر میں شہزادہ چارلس پانچوں بچوں کے ہمراہ موجود ہیں۔ اس تصویر میں ان بچوں کے عہدوں اور ان کی تعلیم اور ڈگریوں کی مکمل تفصیل بھی دی گئی ہے۔

فاؤنڈیشن کے اہلکار کی معاونت

پرنس چارلس کے خیراتی ادارے کی جانب سے کی گئی اندرونی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فاؤنڈیشن کو ملنے والے عطیات کی نگرانی کرنے والی آڈٹ کمیٹی نے روسی تاجر دیمتری لیوس کی طرف سے عطیہ کردہ ایک لاکھ پاؤنڈ کی رقم ابتدائی طور پر قبول کرنے کے بعد واپس کر دی تھی۔

فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ اس عطیہ کو نئی معلومات کی روشی میں منع کیا گیا۔ فاؤنڈیشن کا مزید کہنا تھا کہ اس نے ایک لاکھ پاؤنڈ کی رقم وصول کی تھی، پانچ لاکھ پاؤنڈ نہیں جیسا کہ کچھ خبروں میں کہا گیا ہے۔

شہزادہ چارلس

فاؤنڈیشن نے یہ عندیہ بھی دیا کہ اس رقم کو اسی بینک اکاؤنٹ میں واپس منتقل کیا گیا جس اکاؤنٹ سے یہ بھجوائی گئی تھی۔ لیکن یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بینک اکاؤنٹ روسی کاروباری شخصیت دیمتری لیوس کا نہیں بلکہ محفوظ مبارک بن محفوظ کے خیراتی ادارے کا تھا۔

اور پریس رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سابق چیئرمین (مائیکل فاوسٹ)، جو برسوں تک شہزادے کے قریبی ساتھی اور شاہی خدمت گار تھے نے فاؤنڈیشن کے ایک اور ملازم کے تعاون سے روسی کاروباری شخصیت کی جانب سے عطیہ کی گئی رقم کو محفوظ مبارک کے خیراتی ادارے کے ذریعے سے شہزادہ چارلس کے ایک اور خیراتی ادارے آرٹ فاؤنڈیشن اینڈ چلڈرن کو منتقل کیا۔

یہ سب کچھ شہزادہ چارلس فاؤنڈیشن کے ٹریسٹیز کی مرضی اور علم میں لائے بغیر کیا گیا۔ اور اس بات کا علم روسی کاروباری شخصیت کو بھی نہیں ہوا۔

عطیات کی نگرانی کرنے والی کمیٹی اس وقت اس معاملے کے ساتھ ساتھ چلڈرن اینڈ آرٹس فاؤنڈیشن کے دیگر کاموں کی چھان بین کر رہی ہیں۔ جیسا کہ خبروں میں کہا گیا ہے کہ چارلس فاؤنڈیشن کے ایک ملازم نے آرٹس اینڈ چلڈرن فاؤنڈیشن کی جانب سے روسی کاروباری شخص لیوس کو عطیات پر لکھے گئے شکریہ کے خط میں رد و بدل کیا اور اس نے اس خط میں سے وہ تمام تفصیلات کو ہذف کر کردیا جو کسی بھی طرح محفوظ فاؤنڈیشن کے کردار کے متعلق تھا۔

شہزادہ چارلس کے خیراتی ادارہ چارلس فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ اس نے محفوظ فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹ میں (ایک لاکھ پاؤنڈ) کی رقم واپس کر دی ہے جو اسی اکاؤنٹ سے بھیجی گئی تھی۔

البتہ روسی کاروباری شخصیت دیمتری کے وکلا کا کہنا ہے کہ انھوں نے شہزادہ چارلس کے خیراتی ادارے کو نیک نیتی سے پانچ لاکھ پاؤنڈ عطیہ کیے تھے۔ اور یہ کہ اب سے کچھ عرصہ قبل تک انھیں عطیہ کی گئی رقم کے استعمال کے متعلق علم نہیں تھا۔

پیچیدہ نیٹ ورک

شاہی محل
میل آن سنڈے اخبار کے مطابق محفوظ مبارک بن محفوظ نے پرنس چارلس کے اداروں کو ڈیڑھ ملین پاونڈ عطیہ کیے جس میں سے زیادہ تر رقم پرنس چارلس کے سکاٹ لینڈ میں موجود دو محلات پر خرچ ہوئی۔ مئے کیسٹل اور ڈمفریس کیسٹل نامی یہ محلات عوام کے لیے بھی کھلے ہیں۔

روسی تاجر نے تعلقات عامہ کے مائیکل وین پارکر کے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ یہ عطیہ چارلس فاؤنڈیشن کو برک برگ فاؤنڈیشن کے ایک بینک اکاؤنٹ کے ذریعے دیا جائے گا جو برطانوی معاشرے میں طاقتور خاندانوں کے لیے رہنما اصول جاری کرتا ہے۔ برک برگ نے اس عطیہ کی گئی رقم میں کسی بھی طرح کے کردار سے انکار کیا ہے۔

لیوس کے وکلا کا کہنا ہے کہ جب ‘اعزازات کے لیے پیسے’ نامی سکینڈل گذشتہ ستمبر منظر عام پر آیا تب سے برک برگ فاؤنڈیشن نے ان کے موکل کو کوئی رقم واپس نہیں کی ہے اور اسے ان کی موکل کی جانب سے عطیہ کی گئی پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم کے استعمال کے متعلق معلومات فراہم کرنی چاہیے۔

اس کے کچھ دنوں بعد محفوظ فاؤنڈیشن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ فاؤنڈیشن کے پاس روسی کاروباری شخصیت کی جانب عطیہ کیے گئے تین لاکھ پاؤنڈ موجود ہیں جبکہ دو لاکھ پاؤنڈ وائن پارکر کی ملکیت میں ہیں، جو کہ محفوظ فاؤنڈیشن کے سابق ٹرسٹیز میں سے ایک ہیں۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ‘محفوظ فاؤنڈیشن نے تین لاکھ پاؤنڈ کت رقم لیوس کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے لیے رکھی ہے اور وہ اسے واپس کرنے کے احکامات کا انتظار کر رہے ہیں۔’

واضح رہے کہ وائن پارکر لیوس کے خیراتی ادارے کے بھی ٹرسٹی ہیں۔

ان نئی معلومات کے حالیہ انکشاف کے بعد، لیوس کے وکلا کا کہنا ہے کہ ان کے مؤکل نے محفوظ کے خیراتی ادارے کے بارے میں اس وقت تک نہیں سنا تھا جب تک کہ انھیں اس معاملے کے بارے میں برطانوی اخبار میل آن سنڈے کی جانب سے ای میل موصول نہیں ہوئی۔

واضح رہے کہ سنہ 2014 میں روس میں لیوس پر منی لانڈرنگ کے الزامات عائد ہوئے تھے اور ایک عدالتی کارروائی میں ان پر منی لانڈرنگ کے الزامات میں فیصلہ سنایا گیا تھا تھا تاہم بعدازاں اس فیصلے کو واپس لےلیا گیا۔ لیوس ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

سنہ 2014 میں برطانوی محکمہ داخلہ نے لیوس کو برطانیہ کی مستقل شہریت دینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ انھوں نے روس میں اپنی سزا کے متعلق حکام کو آگاہ نہیں کیا تھا۔ لیکن بعدازں انھیں یہ شہریت مل گئی تھی۔ لیوس ترکمانستان میں پیدا ہوئے اور وہ روسی اور اسرائیلی شہریت کے حامل ہیں اور برطانیہ میں وہ قبرص کے پاسپورٹ پر داخل ہوئے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *