عامر لیاقت سندھ ہائیکورٹ نے معروف ٹی وی شخصیت کا پوسٹ مارٹم روک دیا
سندھ ہائیکورٹ نے بدھ کے روز معروف ٹی وی شخصیت عامر لیاقت حسین کے پوسٹ مارٹم کا حکم معطل کرتے ہوئے اس پر درخواست پر مزید سماعت 29 جون تک ملتوی کر دی ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی وزیر حسین میمن نے رکن قومی اسمبلی کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم سے متعلق درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’عامر لیاقت کی موت کے حوالے سے شکوک و شبہات دور کرنے کے لیے پوسٹ مارٹم ناگزیر ہے۔‘
مگر اب سندھ ہائیکورٹ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے آرڈر پر حکم امتناع جاری کر دیا ہے۔ اس کیس میں عامر لیاقت کے خاندان کی نمائندگی کرنے والے وکیل ضیا اعوان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ عامر لیاقت کے بیٹے، بیٹی اور سابقہ اہلیہ کی موجودگی کے باوجود ’ایک اجنبی نے عدالت (جوڈیشل مجسٹریٹ) سے رجوع کیا اور پوسٹ مارٹم کا آرڈر حاصل کر لیا۔‘
عدالت میں ان کا مؤقف تھا کہ ’ہمیں لگتا ہے کہ (عامر لیاقت کی) ہلاکت ڈپریشن میں ہوئی۔ ڈپریشں دینے والوں کے خلاف ہم الگ سے کیس دائر کریں گے۔‘
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکم پر چھ رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا اور عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم 23 جون (کل) کو متوقع تھا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکمنامے میں کہا گیا تھا کہ ’ورثا کا مؤقف ہے کہ اُن (عامر لیاقت) کے پوسٹ مارٹم سے قبر کی بےحرمتی ہو گی تاہم جب موت مشکوک ہو اور جرم کا بھی خدشہ ہو تو انصاف کے نظام کو حرکت میں آنا چاہیے، پس پردہ حقائق کو سامنے آنا چاہیے۔
وکیل ضیا اعوان نے دعویٰ کیا کہ ورثا کے ساتھ پولیس سرجن کا رویہ اچھا نہیں رہا اور محکمۂ صحت سے میڈیکو لیگل آفیسر کے خلاف شکایت کی ہے۔ ’مجسٹریٹ نے دو دفعہ میت کا جائزہ لیا تھا۔ پولیس نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا تھا۔‘
’اجنبی درخواست گزار نے کہا تھا کہ جائیداد کا تنازع ہے (مگر) پولیس نے کہا کہ عامر لیاقت کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور لیاقت علی خان کا بھی پوسٹ مارٹم نہیں ہوا تھا۔
نو جون کو وفات پانے والے عامر لیاقت کو کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق عامر لیاقت اپنی رہائش گاہ پر موجودہ تھے جب ان کی طبیعت خراب ہوئی اور انھیں ہسپتال لے جایا گیا تھا جہاں ان کی موت کی تصدیق کی گئی۔
کیا ورثا کے مطالبے پر پوسٹ مارٹم روکا جا سکتا ہے؟
ورثا کے مطالبے پر عامر لیاقت کی تدفین پوسٹ مارٹم کے بغیر کی گئی جس نے کئی سوالات کھڑے کیے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق موت کی وجوہات جاننے کے لیے جناح ہسپتال کراچی میں ان کا پوسٹ مارٹم کروایا جانا تھا مگر خاندان کے کچھ افراد پوسٹ مارٹم کروائے بغیر اُن کی میت وہاں سے لے گئے۔
ادھر عامر لیاقت کی سابقہ اہلیہ سیدہ بشریٰ اقبال نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’مرحوم کے دونوں وارثین احمد عامر اور دعائے عامر نے ان کا پوسٹ مارٹم کروانے سے منع کر دیا ہے اور ان کی خواہش کے مطابق مرحوم کو عزت و احترام کے ساتھ ان کی آخری آرام گاہ تک لے جایا جائے گا۔‘
فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل عثمان وڑائچ کا کہنا ہے کہ اگر کسی متوف کے ورثا اپنے عزیز کی موت پر کریمنیل پراسیکیوشن کروانا ہی نہیں چاہتے تو پھر قانون کے مطابق پوسٹ مارٹم نہیں کیا جا سکتا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کسی بھی مبینہ قتل کے مقدمے میں پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور تفتیش کا آغاز بھی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے بعد ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کو متعلقہ عدالت میں بطور شہادت بھی پیش کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر ورثا کو شک ہو کہ ان کے عزیز کی موت مشوک حالات میں ہوئی ہے تو پہلے وہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت اس واقعے سے متعلق ایف آئی آر درج کروائے گا اور پھر اس کے بعد ہی پوسٹ مارٹم کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔
عثمان وڑائچ کا کہنا ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ اگر کسی قتل کے واقعے کا مقدمہ درج ہوا ہو اور مقتول کے ورثا ملزمان کے خلاف کارروائی کروانا چاہتے ہوں، تو پھر ہی پوسٹ مارٹم ہو سکتا ہے۔
سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں عثمان وڑائچ کا کہنا تھا کہ اگر آج مقتولہ کے شوہر آصف علی زرداری درخواست دیں تو ان کا پوسٹ مارٹم قبر کشائی کے بعد آج بھی کروایا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بےنظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ ان کے ورثا کی مدعیت میں نہیں بلکہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔
عثمنان وڑائچ کا کہنا تھا کہ عامر لیاقت کی موت کا مقدمہ کسی تھانے میں درج نہیں ہوا اور کراچی کی ایک مقامی عدالت نے عام شہری کی درخواست پر عامر لیاقت کی قبر کشائی کا حکم دیا جبکہ اس شہری کا عامر لیاقت سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ نے آئین اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے مقامی عدالت کے فیصلے کو معطل کیا ہے۔