سگیریا سری لنکا کا قدیم ’شیر نما‘ محل، اس کے خوبصورت باغات اور آبپاشی کا نظام
جب ایک اکیلی موٹر سائیکل وہاں سے گزری تو اس سے اُڑنے والی دھول میں نارنجی رنگ کی ریت کے ذرے ستاروں کی طرح ٹمٹما رہے تھے۔ یہ پیر کا دن تھا اور ابھی صبح کے ساڑھے نو ہی بجے تھے لیکن درجۂ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا تھا۔
بندروں کا ایک خاندان سرسبز درختوں کی شاخوں پر یہاں سے وہاں چھلانگیں لگا رہا تھا اور پھر ہمارے سامنے گرم ریت پر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔ لیکن ہم نے ان شرارتی بندروں کی جانب آنکھ بھر کے دیکھا بھی نہیں کیونکہ ہماری نظریں دُور پتھر کی دو سو میٹر بلند قدیم قلعہ نما عمارت پر جمی ہوئی تھی۔
اس قدیم قلعے کو سگیریا کہتے ہیں جو کبھی ایک شاہی محل ہوا کرتا تھا۔ یہ محل سری لنکا کے مشہور ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے اور اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کورونا کی عالمی وبا سے پہلے سنہ 2019 میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ اسے دیکھنے آئے تھے۔ لیکن مئی 2021 میں جس دن میں اپنے پارٹنر کے ساتھ وہاں گئی اس دن وہاں ہم دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔
سنہ 477 عیسوی میں تعمیر کیا جانے والا یہ محل نہ صرف جنوبی ایشیا کے اہم ترین آثارِ قدیمہ میں سے ایک ہے بلکہ اس کا شمار خطے کی ان قدیم تعمیرات میں ہوتا ہے جنھیں بڑی حد تک اپنی اصل حالت میں محفوظ رکھا گیا ہے۔
اس محل کے شاندار درودیوار، ایک اونچی چٹان پر اس کی تعمیر اور اس کی دیواروں پر بنے ہیجان انگیز آرٹ کو دیکھتے ہوئے سنہ 1982 میں اقوامِ متحدہ نے عالمی ورثہ گردانتے ہوئے فن تعمیر کے اس قدیم شاہکار کو یونیسکو ورلڈ ہیریٹج سائٹ قرار دے دیا تھا۔ لیکن جو چیز اس محل کو سری لنکا کا ایک قومی اثاثہ بناتی ہے وہ اس کے باغات اور اس میں لگا ہوا آب پاشی کا حیرت انگیز نظام ہے۔
سگیریا کے باغات نہ صرف جنوبی ایشیا کے ان باغات میں شامل ہیں جن میں آبپاشی کا قدیم نظام نصب ہے بلکہ یہ دنیا کے قدیم ترین باغات میں بھی شمار ہوتے ہیں۔
پانچویں صدی عیسوی میں جب یہ محل اپنے عروج پر تھا تو بادشاہ کے خاص مہمان جس راہداری سے محل میں داخل ہوتے ہوں گے اس کی دونوں جانب بڑی مہارت سے بنائے ہوئے شاندار باغ ہوا کرتے تھے جن کو عبور کرنے کے بعد وہ 1200 سیڑھیاں چڑھ کر اونچی چٹان پر واقع محل میں پہنچتے تھے۔
سگیریا کے ڈائریکٹر آف آرکیالوجی، سِناکے بندرانائیکے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ یہ تاریخی مقام قدرتی ناہمواری اور انسان کی بنائی ہوئی ہموار تعمیر کا شاندار امتزاج ہے۔ ‘سگیریا کے باغات اصل میں تین مختلف حصوں پر مشتمل ہیں لیکن یہ تینوں حصے آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔
’ایک حصے میں وہ باغات ہیں جنھیں جیومیٹری کے اصولوں کے تحت بڑی منصوبہ بندی سے بنایا گیا ہے، دوسرے حصے میں ایک قدرتی ٹیڑھی میڑھی غار اور بڑے بڑے پتھروں والا باغ ہے، جبکہ تیسرا حصہ وہ ہے جہاں چٹان کے ساتھ ساتھ اوپر جاتا ہوا وہ بڑا باغ ہے جس نے پوری چٹان کو گھیرا ہوا ہے اور اس حصے میں چھوٹے چھوٹے باغات کے علاوہ محل کے اندر واقع وہ باغات بھی شامل ہیں جو چوٹی پر واقع ہیں۔
ان باغات میں کسی زمانے میں خوبصورت حوض، چشمے، ندیاں اور چبوترے ہوا کرتے تھے جہاں پر مختلف تقریبات منعقد ہوتی تھیں اور فنکار اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ 24 برس سے سری لنکا میں ٹورسٹ گائیڈز کے لیکچرار، سمیدھا چندراداسا کے بقول آپ ‘اس کا موازنہ جدید دور کے کسی بھی پرتعیش سیاحتی مقام سے کر سکتے ہیں جہاں خوبصورت باغات اور سوئمنگ پُول ہوتے ہیں۔‘
حیرت کی بات یہ نہیں کہ سگیریا کے باغات کے نقشے میں کس طرح چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھا گیا ہے، بلکہ آپ کو زیادہ حیرت یہاں کے آب پاشی کے نظام کو دیکھ کر ہوتی ہے۔ اس نظام میں جس طرح ہائیڈرالِک پاور، زیر زمین سرنگوں اور کشش ثقل کے امتزاج سے تالابوں اور چشموں کا ایک ایسا شاندار سلسلہ ترتیب دیا گیا ہے جس دیکھ کر لطف آ جاتا ہے اور حیرت ہے کہ تقریباً 15 سو سال پہلے کا بنایا ہوا یہ نظام آج بھی کام کر رہا ہے۔
سری لنکا میں کچھ لوگ آج بھی اس لوک کہانی پر یقین کرتے ہیں کہ اس محل کے تمام باغات کو جو پانی سیراب کرتا ہے اس کا ماخذ وہ تالاب ہے جو اس چٹان کی چوٹی پر بنا ہوا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس محلاتی کامپلیکس میں بہنے والا تمام پانی ایک چھوٹے سے ذخیرے یا ڈیم سے آتا ہے جسے مقامی لوگ ‘ٹینک’ کہتے ہیں۔
آب پاشی کا یہ پیچیدہ نظام اصل میں زیرزمین مٹی کے بنے ہوئے نلوں یا پائپوں کا مجموعہ ہے جو کشش ثقل اور پانی کے دباؤ یا ہائیڈرالک پریشر کی مدد سے بلندی پر واقع بڑے ذخیرے سے آنے والے پانی کو مختلف تالابوں، چشموں اور ندیوں کی جانب لے جاتا ہے جہاں سے یہ تمام باغات کو سیراب کرتا ہے۔
تاہم ان واٹر گارڈنز کو آنے والے پانی کا کچھ حصہ سگیریا کی چوٹی سے بھی آتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ اس بڑی چٹان کی چوٹی پر واقع حوضوں میں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے جہاں سے یہ مختلف نالیوں سے ہوتا ہوا چٹان کے اندر سے اس پانی سے جا ملتا ہے جو مرکزی ذخیرے سے آتا ہے۔ بندرانائیکے کے مطابق ان باغات میں نصب آب پاشی کے نظام کا تمام دار و مدار اس نکتے پر ہے کہ یہاں بڑی مہارت کے ساتھ مختلف سائز کے پائپوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر آب پاشی کا ایک ایسا نظام ترتیب دیا گیا ہے جو انجنیئرنگ کی دنیا ایک شاہکار ہے۔
بندرانائیکے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ جب یہاں کھدائی کی گئی تھی تو زمین کے اندر مختلف گہرائی پر پانی کے ایسے راستے دریافت ہوئے تھے جنھیں دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ نظام بنانے والوں کو طبیعات اور انجنیئرنگ کے علوم پر عبور حاصل تھا۔
اگرچہ آب پاشی کا یہ نظام پانچویں صدی عیسوی کا بنا ہوا ہے لیکن اسے دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ جدید دور کی اختراع ہو۔ سگیریا کے دارالحکومت بننے سے پہلے سری لنکا کا شاہی دارالحکومت یہاں سے 70 کلومیٹر شمال مغرب میں انورادھاپورا کے مقام پر واقع تھا۔ اس کے بعد اس وقت کے بادشاہ دھاتے سینا کے شاہی خاندان سے باہر کی ایک خاتون سے پیدا ہونے والے بیٹے نے اپنے والد کے خلاف بغاوت کر دی تھی جس میں بادشاہ مارا گیا تھا اور شاہ کاسیاپا تخت نشین ہو گیا تھا۔
تخت نشین ہونے کے بعد شاہ کاسیاپا نے دارالحکومت کو سگیریا منتقل کر دیا اور ‘کوہِ شیر’ کی چوٹی پر اپنے لیے ایک نیا محل تعمیر کروایا۔ جب آپ محل کی جانب جانے والے طویل زینے سے اوپر آتے ہیں تو آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس بادشاہ نے ایسا کیوں کیا تھا۔ سری لنکا کی قدیم تاریخی دستاویزات کے مطابق بادشاہ نے اپنے لیے ایک ایسا محل تعمیر کروایا تھا جو دور سے ایسے دکھائی دیتا تھا جیسے کوئی بہت بڑا شیر زمین پر بیٹھا ہو۔
آثارِ قدیمہ کے ایک ماہر کے مطابق ‘اس کا مرکزی دروازہ شیر کے پنجوں کے درمیان سے گزرتا ہے جس سے ہوتے ہوئے آپ اس پہاڑی کی چوٹی پر واقع اصل محل تک پہنچتے ہیں۔’
شاہ کاسیاپا نے 495 عیسوی تک اس علاقے پر راج کیا جس کے بعد جب اس نے اس محل کو ترک کر دیا تو یہاں بدھ مت کی ایک خانقاہ بن گئی۔
کورونا کی وبا کے دوران یہاں آنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہم دونوں کئی گھنٹے اس محل کے تمام حصوں میں اکیلے گھومتے رہے۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے پانی کے باغات کے اردگرد کی دیواریں وغیرہ اپنی چمک کھو چکی ہیں، لیکن ہم پھر بھی یہاں کے تالابوں، حوضوں اور چشموں کی بنیادوں میں لگی ان اینٹوں کو دیکھ سکتے تھے جن کی مدد سے برسات کے موسم میں پانی ان باغات میں جمع ہو جاتا تھا اور اسے آب پاشی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
اس قدیم محل میں چھوٹے چھوٹے باغات کا ایک سلسہ بھی موجود ہے جسے ‘مِنی ایچر واٹر گارڈنز’ کہتے ہیں۔ اصل میں یہ باغات کوئی اتنے چھوٹے بھی نہیں کیونکہ یہ بھی 30 میٹر چوڑے اور 90 میٹر لمبے ہیں۔ یہ واٹر گارڈنز پانچ حصوں میں تقسیم ہیں اور ان کی خاص بات ان کے اندر بہنے والی سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی ایک ندی ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے اس کے بنانے والے اپنے عہد سے بہت آگے کی سوچ رکھتے تھے۔
بندرانائیکے کے مطابق اس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس ندی کے اندر موجود کنکروں اور اس کی تہہ میں لگے سنگ مرمر سے جب پانی آہستہ آہستہ گزرتا ہوگا تو نہ صرف دیکھنے میں بہت خوبصورت لگتا ہو گا بلکہ اس سے نکلنے والی آواز بھی کسی جلترنگ سے کم نہ ہوگی۔
ماہرِ آثارِ قدیمہ، مسٹر ویراسنگھے کہتے ہیں کہ ان چھوٹے باغات کا اصل لطف رات کی چاندنی میں آتا ہوگا۔ ‘ان باغات کا یہ پہلو بہت رومانی ہے۔ اگرچہ اب یہ چھوٹے چھوٹے باغات اتنے شاندار دکھائی نہیں دیتے جتنے کبھی پانچویں صدی میں ہوں گے، لیکن ان تالابوں میں پانی کی سطح کے اتار چڑہاؤ کا جو نظام بنایا گیا ہے اسے دیکھ کر ماہرینِ آثار قدیمہ کو یقین ہے کہ یہاں کبھی موسیقی کی محلفیں ہوتی ہوں گی جو کہ اپنے عہد کے اعتبار سے بہت بڑی بات تھی۔
سگیریا کے چشموں اور تالابوں، خاص طور پر چوٹی پر واقع بڑے حوض کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ شاہی خاندان اور کاسیاپا کی پسندیدہ لونڈیاں شدید گرمی کے دنوں میں یہاں تیراکی کیا کرتی تھیں۔ ان تالابوں کے اردگرد موجود پتھر کے زینوں سے لگتا ہے کہ ان میں سے کئی سوئمنگ پُولز کے طور پر استعمال کیے جاتے تھے۔
لیکن خوبصورتی اور استعمال کے علاوہ، سگیریا کے باغات کا ایک اور مقصد بھی تھا۔ ویرا سنگھے کے خیال میں شاہ کاسیاپا کی خواہش تھی کہ لوگ پانی کو ایک خاص انداز سے دیکھیں۔
یہاں کے پُولز سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ، بادشاہ اپنے جاہ و جلال اور فہم و فراست کے ذریعے یہ پیغام بھی دینا چاہتا تھا اگر کسی کو اس کی طاقت پر شک ہے تو وہ ان کا یہ شاندار محل اور اس میں نصب نظام کو دیکھ لے۔
‘جب آپ سگیریا کے شاہی محل کے اردگرد نصب پانی کے استعمال کے اس عجیب و غریب نظام کو دیکھتے ہیں، تو اس سے لگتا ہے کہ بادشاہ اپنی رعایا کو اپنی طاقت کے حوالے سے کوئی پیغام دے رہا ہے۔’
جب ہم شیر کے پنجوں کے درمیان سے گزرنے کے بعد 1200 سے زیادہ سیڑھیاں چڑھ کر محل تک پہنچے تو ہمارے کپڑے پسینے میں شرابور ہو چکے تھے اور میری تو سانس پھول چکی تھی۔
محل کے مرکزی حصے سے نکلے تو ہماری نظر اس پہاڑ کی چوٹی پر واقع سب سے بڑے حوض پر پڑی۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ماضی کے شاہی خاندان کے افراد کی طرح ہم بھی اس میں ایک ڈبکی لگا لیں، لیکن کئی ہفتوں سے بارش نہیں ہوئی تھی اور وہاں کوئی شاہی خدمتگار بھی نہیں تھا جو ہمارے لیے پانی کی سطح پر جمے ہوئے جالوں کو صاف کرتا، اس لیے ہماری خواہش دل میں ہی رہی۔
جب آپ اوپر چوٹی پر پہنچ کر نیچے نظر دوڑاتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا کہ یہاں کے تمام باغات کس مہارت اور سلیقے سے ترتیب دیے گئے ہیں۔ آپ کو دور افق پر سرسبز جنگل اور نیلا آسمان آپس میں ملتے دکھائی دیتے ہیں۔ یقیناً باغات سے بھرپور اس محل کی تعمیر کے لیے اپنے دور کے طاقتور بادشاہ کے پاس اس سے اچھی شاید اور کوئی جگہ نہ ہوتی۔
ویرا سنگھے کے بقول ‘آپ یہاں کھڑے ہو کر تصور کریں کہ برسات کا موسم ہے اور بادل اس پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
’ایسے میں آپ اس باغ سے گزر رہے ہیں اور آپ کو اپنے سامنے صاف پانی کا ایک بہت بڑا حوض دکھائی دیتا ہے جس میں اوپر سے آتا ہوا پانی گر رہا ہے اور پھر ایک تیز پھوار کی شکل میں چشموں سے نکل رہا ہے۔
’تصور کریں آپ کس قدر لطف اندوز ہو رہے ہوتے۔’