یاسر عرفات فلسطینی رہنما جن کی خالی پستول بھی اُن کے دشمنوں کو خوفزدہ رکھتی تھی
اسرائیل کے معروف وکیل جوئل سنگر کا خیال ہے کہ انھوں نے یاسر عرفات سے بہتر کوئی بات کرنے والا نہیں دیکھا۔ وہ ہالی وڈ فلموں کے جواری کی طرح تھے جو بُرے کارڈ رکھنے کے باوجود ہمیشہ لوگوں کو دھوکہ دیتے اور ظاہر کرتے کے بالآخر جیت اُنھی کی ہو گی۔
جب سب سمجھتے کہ مذاکرات اپنے آخری مرحلے میں پہنچ چکے ہیں اور اب سمجھوتہ ہونے ہی والا ہے کہ یاسر عرفات اچانک اپنے مطالبات میں اضافہ کر دیتے۔
اگر دستخط کی تقریب کل ہے، تو عرفات آج اپنے لیے زیادہ سے زیادہ رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔
اقوام متحدہ میں خطاب
نیویارک میں 13 نومبر 1974 کو اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں اس دن سخت سکیورٹی تھی۔
فلسطین کی آزادی کے لیے سرگرم تنظیم فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
پہلی بار کسی ایسے شخص کو یہ اعزاز حاصل ہونے والا تھا جو کسی ملک کا قائد نہیں تھا۔
اس زمانے میں عرفات کے قریبی ساتھی اور بعد میں فلسطینی انتظامیہ کے پہلے وزیر خارجہ نبیل شاط کو وہ دن ابھی تک یاد ہے۔
وہ کہتے ہیں ’عرفات نے پہلی بار وہ چیز تسلیم کی تھی جو انھوں نے پہلے کبھی بھی قبول نہیں کی تھی۔ انھوں نے اپنی داڑھی مکمل طور پر صاف کروا دی تھی اور نیا سوٹ بھی پہنا تھا۔ خاکی سوٹ بہت سلیقے سے استری کیا گیا تھا اور وہ بالکل چمک رہے تھے۔‘
اس دن عرفات نیویارک ہوائی اڈے سے بذریعہ ہیلی کاپٹر براہ راست اقوام متحدہ کے صدر دفتر پہنچے تھے۔
ٹھیک اسی وقت کاروں کا ایک قافلہ ایسٹوريا ہوٹل کی طرف روانہ ہوا تھا تاکہ عرفات کے مخالفین کو یہ لگے کہ انھیں کار کے ذریعہ اپنے ہوٹل لے جایا جا رہا ہے۔
اس دن عرفات نے اپنی تقریر کا اختتام دو یادگار جملوں سے کیا۔ انھوں نے کہا ’میں یہاں زیتون کی شاخ (امن کا پیغام) اور مجاہد آزادی کی بندوق لے کر آیا ہوں۔ میرے ہاتھ سے زیتون کی اس شاخ کو گرنے مت دیجیے۔‘
اگلے دن یہ تقریر دنیا کے ہر بڑے اخبار کی سرخی بنی اور اس تقریر کے نو دن کے اندر اندر اقوام متحدہ نے اپنی قرارداد نمبر 3237 منظور کر کے پی ایل او کو اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ دے دیا۔
اپنی حفاظت کے لیے بہت محتاط
عرفات چھوٹے قد کے شخص تھے۔ صرف پانچ فٹ چار انچ یا شاید اس سے بھی کم۔ ان کی شکل ایسی نظر آتی تھی گویا انھیں فوری طور نہانے کی ضرورت ہے۔
عرفات کی سوانح عمری لکھنے والے ایلن ہارٹ نے لکھا: ’عرفات ایک چھوٹے قد کا آدمی تھا، جس کا قد تقریباً 5 فٹ 4 انچ یا شاید اس سے بھی کم تھا۔ وہ جہاں بھی ہوتے یا جو کچھ بھی کر رہے ہوتے، وہ ایک جگہ چین سے نہیں بیٹھ سکتے تھے۔‘
ان کے چیف سیاسی مشیر ہانی الحسن کہا کرتے تھے کہ ’عرفات کسی جگہ بیٹھنے سے پہلے ہر اس زاویے کا مطالعہ کرتے کہ جہاں سے ان پر گولی چلائی جا سکتی تھی۔ ہم گفتگو میں محو ہوتے تھے کہ عرفات اچانک ہمیں روک کر اپنی جگہ تبدیل کر لیتے۔ ہم نے ان سے کبھی اس کی وجہ نہیں پوچھی۔ ان کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا اتنا خفیہ رکھا جاتا تھا کہ ان کے قریبی لوگوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔‘
اُنھوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’اسرائیل نے فروری 1973 میں لیبیا کا ایک مسافر بردار طیارہ مار گرایا تھا جس میں سوار تمام 100 مسافر مارے گئے تھے۔ میرے پاس کوئی شواہد تو نہیں ہیں، لیکن مجھے حیرانی نہیں ہو گی اگر بعد میں یہ معلوم ہو کہ اسرائیل نے اس امید پر طیارے کو مار گرایا تھا کہ میں یا ہمارے دوسرے ساتھی اس پر سوار تھے۔‘
تاخیر سے شادی
انڈیا کے سابق سفارتکار اور اقوام متحدہ کے نائب سیکریٹری جنرل چنمے گریخان کو ان سے کئی بار ملنے کا موقع ملا تھا۔
وہ کہتے ہیں ’عرفات سے میری کئی بار ملاقات ہوئی۔۔۔ کہہ سکتے ہیں کہ سینکڑوں بار، کیونکہ میں اقوام متحدہ کی طرف سے غزہ میں تعینات تھا۔ وہ بہت مسحور کُن ہو سکتے تھے اگر وہ چاہتے۔ ان کی چھوٹی داڑھی ہوتی تھی اور وہ ہمیشہ فوجی لباس میں ہوتے تھے۔‘
’وہ سیدھے سادھے انسان تھے۔ لیکن جہاں تک فلسطینی تحریک یا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بات تھی اسے وہ بہت سنجیدگی سے لیتے تھے اور شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔‘
گریخان کہتے ہیں کہ ’انھوں نے بہت دیر سے شادی کی۔‘
پہلے تو کہا کرتے تھے کہ ان کی شادی تو فلسطین سے ہے۔ بعد میں انھوں نے صوحہ سے شادی کی۔ صوحہ مسیحی تھیں، جبکہ عرفات سُنی مسلمان۔ کہتے ہیں کہ صوحہ عرفات کو بہت چاہتی تھیں۔ ان کی ایک بچی بھی تھی جو اب بڑی ہو گئی ہو گی۔
وہ غزہ میں بہت معمولی اور چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے، جس میں دو منزلیں تھیں۔ عرفات پہلی منزل پر رہتے تھے اور گراؤنڈ فلور پر ان کی بیوی اپنی بچی کے ساتھ رہتی تھیں۔
عرفات کا فوجی لباس
عرفات ہمیشہ فوجی لباس میں نظر آتے تھے۔ ان کے جوتے ہمیشہ برطانوی فوجی افسروں کی طرح چمکتے تھے۔
یاسر عرفات کی سوانح عمری لکھنے والے بیری روبن اور جوڈتھ کولپ روبن کہتے ہیں: ’عرفات سوٹ اور ٹائی اس لیے نہیں پہنتے تھے کیونکہ یہ مغربی لباس تھا اور دیگر مہنگے لباس سے عیاشی کا تاثر ہوتا تھا جس کا مطلب بدعنوانی ہے۔ ان کی خصخصی داڑھی دیکھ کر کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک غریب فلسطینی کسان ہیں۔ ان کا لباس بھی انھیں میدان جنگ میں ایک سپاہی کے طور پر پیش کرتا تھا جس کے پاس ذاتی عیاشی کے لیے وقت نہیں تھا۔‘
’خامنہ ای، حافظ الاسد، صدام حسین اور اسامہ بن لادن سبھی اچھے نظر آتے تھے جنھیں ہالی وڈ کی کسی تھرلر میں سپر ولن کے طور پر کاسٹ کیا جا سکتا تھا جو پوری دنیا کو فتح کرنے پر تلے ہوئے ہوں۔ یاسر عرفات اپنے کپڑوں اور حرکات و سکنات سے ان کے بالکل برعکس دکھائی دیتے تھے اور دوسروں کو یہ غلط فہمی ہو جاتی کہ انھیں آسانی سے شکست دی جا سکتی ہے۔‘
رات کے 12 بجے ہائی الرٹ
’وہ دو شفٹ میں سویا کرتے تھے۔ صبح چار بجے سے سات بجے تک اور شام کو چار سے چھ بجے، اس لیے آدھی رات کے وقت عرفات اپنی بہترین فارم میں رہا کرتے تھے۔‘
گریخان کہتے ہیں ’جب بھی ان سے ملنے کو کہو، تو کبھی بھی منع نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ رات کو 12-11 بجے ہی ملتے تھے اور رات کو ہی وہ سب سے زیادہ الرٹ رہتے تھے۔‘
عرفات ہمیشہ اپنی کمر میں پستول لٹکا کر چلتے تھے۔ جب وہ پہلی بار اقوام متحدہ میں تقریر کرنے گئے تو ان سے کہا گیا کہ آڈیٹوریم میں ہتھیار لے جانے کی ممانعت ہے۔
سمجھوتہ اس بات پر ہوا کہ وہ اپنی خاكی وردی پر پستول کا ہولسٹر تو لگائے رہیں گے، لیکن اس میں پستول نہیں ہو گی۔
انڈیا کی مارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر سیتارام یچوری کو ان سے کئی بار ملنے کا موقع ملا تھا۔
یچوری بتاتے ہیں کہ ’عرفات کو بھی فڈیل كاسترو کی طرح زور سے گلے لگانے کی عادت تھی۔ ایک بار قاہرہ میں جب وہ مجھ سے گلے ملے تو میرے پاس ان کی کمر پر بندھی پستول کو نکال لینے کا بہت اچھا موقع تھا۔ میں نے ان سے کہا بھی کہ آپ ہوشیار کیوں نہیں رہتے۔ کوئی یہ کام کر سکتا ہے۔
‘اس پر انھوں نے کہا کہ ایک راز کی بات بتاؤں، اس پستول میں کوئی گولی نہیں ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ پھر آپ پستول کیوں رکھتے ہیں؟ اس پر عرفات نے کہا کہ کیونکہ میرے پاس پستول ہے کئی لوگ جو مجھ پر گولی چلانا چاہتے ہیں، وہ ایسا کرنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں۔‘
شہد سے محبت
مشہور صحافی شیام بھاٹیہ کو یاسر عرفات سے کئی بار ملنے کا موقع ملا۔ ایک بار انٹرویو کے دوران وہ ناراض ہو گئے۔
شیام بھاٹیہ کہتے ہیں کہ ’ان دنوں عرفات کا انٹرویو کرنا بہت مشکل تھا۔ میری ان کے سٹاف سے دوستی ہو گئی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ اگر تم عرفات کا انٹرویو کرنا چاہتے ہو تو ان کے لیے شہد کی ایک بوتل لے آؤ۔ ایک بار میں انٹرویو کے لیے تیونس گیا۔ کوئی 20-25 منٹ کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ کیا میں آپ کی بیوی کا انٹرویو کر سکتا ہوں؟
’یہ سن کر عرفات کو غصہ آ گیا۔ انھوں نے کہا، ’تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کے بارے میں بات کرنے کی، فوراً کمرے سے نکل جاؤ۔‘ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا، ’میں آپ کے لیے شہد کی بوتل لایا ہوں، جو باہر میز پر رکھی ہے۔‘ ہوٹل پہنچ کر میں نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا ہی تھا کہ دروازے پر زور دار دستک ہوئی۔‘
بھاٹیہ کہتے ہیں: ’عرفات کے دو محافظ باہر کھڑے تھے۔ وہ مجھے ایک گاڑی میں بٹھا کر عرفات کے اسی گھر لے گئے جہاں سے انھوں نے مجھے باہر نکالا تھا۔ دروازہ کھلا تو عرفات ایک بہت ہی خوبصورت عورت کے ساتھ کھڑے تھے۔ ’میری بیوی صوحہ سے ملو۔‘ میں نے کہا آپ تو مجھ سے ناراض تھے؟ وہ کہنے لگے کہ ’وہ نقلی غصہ تھا۔ آپ رکیے اور ہمارے ساتھ کھانا کھائیے اور شہد کے لیے بہت شکریہ۔‘
صحافی کو بچے کھلانے کی ذمہ داری
’عرفات اور ان کی اہلیہ نے مجھے پیار سے چاول، ہمس، مٹن سٹو، سلاد اور دو سبزیاں کھلائیں اور میں دو گھنٹے تک ان کے ساتھ رہا۔‘
بعد میں شیام بھاٹیہ اور عرفات کے اہل خانہ کی قربتیں اس قدر بڑھیں کہ ایک بار عرفات کی اہلیہ نے اپنی ڈیڑھ سالہ بیٹی ضحیٰ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کو سونپ دی۔
شیام کہتے ہیں: ’ایک بار میں عرفات کا انٹرویو کرنے کے لیے یروشلم سے غزہ گیا تھا۔ ان کی اہلیہ صوحہ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ میری بیٹی کا کچھ دیر کے لیے خیال رکھ سکتے ہیں۔ ہماری آیا نہیں آئی ہے اور ہمیں ایک اہم ملاقات کے لیے جلدی باہر جانا ہے۔‘
شیام مزید بتاتے ہیں: ’میں نے ان سے پوچھا کہ میں ان کی دیکھ بھال کیسے کروں۔ صوحہ نے کہا کہ ’تمہارے بھی بچے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ بچوں کی دیکھ بھال کس طرح کی جاتی ہے۔ اسے پرام میں رکھو اور سمندر کے کنارے سیر کے لیے جاؤ۔‘ تصور کریں کہ میں سوٹ بوٹ میں ہوں اور ٹائی سمندر کی ہوا میں اڑ رہی ہے اور میں عرفات کی بیٹی کو پرام میں لے جا رہا ہوں اور میرے پیچھے چھ مسلح فلسطینی فوجی چل رہے ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد عرفات اور ان کی اہلیہ واپس آئے۔ اُنھوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور مجھے ایک طویل انٹرویو دیا۔‘
اندرا گاندھی کے قریب
یاسر عرفات اپنے فضائی سفر کو بہت خفیہ رکھتے تھے اور میزبان ملک کو پہلے سے نہیں بتایا جاتا تھا کہ وہ وہاں آنے والے ہیں۔ ان کا اکثر انڈیا آنا ہوتا تھا۔
چنمے گریخان یاد کرتے ہیں: ’جب بھی عرفات یہاں آتے تھے، پہلے سے ہمیں بتاتے نہیں تھے۔ ایک دو گھنٹے پہلے ہی خبر آتی تھی کہ وہ آ رہے ہیں۔ اس کے باوجود اندرا گاندھی ہمیشہ اُن کا استقبال کرنے ہوائی اڈے پر جاتی تھیں۔ وہ ہمیشہ اندرا گاندھی کو ’مائی سسٹر‘ (میری بہن) کہہ کر پکارتے تھے۔‘
عرفات کی دریا دلی
انڈیا کے سابق سیکریٹری خارجہ رومیش بھنڈاری کو کئی بار یاسر عرفات سے ملنے کا موقع ملا۔
انھوں نے مجھے بتایا: ’ایک بار میں تیونس میں ان سے بات کر رہا تھا جب مجھے خبر ملی کہ میرا بیٹا شدید بیمار ہے۔ میں نے بات چیت ختم کی اور فوراً ہندوستان واپس چلا آیا۔
‘جب عرفات کو بعد میں معلوم ہوا کہ میرا بیٹا وفات پا گیا ہے تو انھوں نے فوری طور پر انڈیا میں اپنے سفیر کو بھیجا جو اس وقت تیونس میں مشاورت کے لیے تھے۔ انھیں ہدایت کی گئی کہ وہ ہوائی اڈے سے سیدھے میرے گھر جائیں اور ان کی طرف سے تعزیت کا اظہار کریں۔‘
عرفات کی تنک مزاجی
سنہ 1983 میں ہندوستان میں جب (سرد جنگ میں) غیر وابستہ ممالک کا سربراہی اجلاس ہوا تو وہ اس بات پر ناراض ہو گئے کہ ان سے پہلے اردن کے شاہ کو تقریر کرنے کا موقع کیوں دیا گیا۔
انڈیا کے سابق وزیر خارجہ نٹور سنگھ اس کانفرنس کے جنرل سیکریٹری تھے۔
نٹور سنگھ کہتے ہیں: ’اس کانفرنس میں صبح کے سیشن میں فڈیل كاسترو صدر تھے۔ اس کے بعد اندرا گاندھی صدر تھیں۔ صبح کے سیشن کے بعد میرے ڈپٹی ستتی لمبا میرے پاس دوڑے آئے اور کہنے لگے کہ بہت بڑی آفت آ گئی ہے۔ یاسر عرفات بہت ناراض ہیں اور فوری طور پر اپنے جہاز سے واپس جانا چاہتے ہیں۔ میں نے اندرا جی کو فون کیا اور کہا کہ آپ فوراً وگیان بھون آ جائیے اور اپنے ساتھ فڈیل كاسترو کو بھی لیتی آئيے۔
’كاسترو صاحب آئے اور انھوں نے فون کر کے یاسر عرفات کو بلا لیا۔ انھوں نے عرفات سے پوچھا کہ آپ اندرا گاندھی کو اپنا دوست مانتے ہیں کہ نہیں۔ عرفات نے کہا، دوست نہیں، وہ میری بڑی بہن ہیں۔ اس پر كاسترو نے تپاک سے کہا تو پھر چھوٹے بھائی کی طرح برتاؤ کرو اور کانفرنس میں حصہ لو۔‘
عرفات مان گئے اور شام کے سیشن میں حصہ لینے کے لیے پہنچ گئے۔
راجیو گاندھی کی انتخابی مہم چلانے کی خواہش
انڈیا کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی سے بھی ان کے بہت گہرے تعلقات تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار انھوں نے انڈیا میں راجیو گاندھی کے لیے انتخابی مہم چلانے کی پیشکش کی۔
چنمے گریخان کا کہنا ہے کہ ’راجیو گاندھی اندرا گاندھی سے زیادہ جذباتی شخص تھے۔ اندرا ایک حقیقت پسند تھیں اور زیادہ تجربہ رکھتی تھیں۔ راجیو گاندھی جب بھی عرفات سے ملتے تھے، تو وہ انھیں زور سے گلے لگاتے تھے۔ عرفات نے خود مجھے بتایا تھا کہ ’میں نے انھیں پیشکش کی تھی۔‘ میرے خیال میں راجیو گاندھی اس پیشکش سے ناخوش نہیں تھے۔
’بعد میں عرفات نے ان کے لیے انتخابی مہم نہیں چلائی اور یہ درست نہیں لگتا کہ کوئی غیر ملکی شخص انڈیا آ کر انتخابی مہم چلائے۔ لیکن اگر وہ اپنے حامیوں کو یہ پیغام بھی دیتے کہ وہ راجیو گاندھی کو جیتتا دیکھنا چاہتے ہیں تو راجیو گاندھی کافی خوش ہوتے۔‘
بے نظیر بھٹو سے مصافحہ
راجیو گاندھی کی طرح یاسر عرفات بے نظیر بھٹو کے بھی بہت قریب تھے۔ ایک بار دونوں کے درمیان ایک مضحکہ خیز واقعہ پیش آیا۔
جب بے نظیر وزیرِ اعظم بنیں تو انھوں نے اپنے چیف آف پروٹوکول ارشد سمیع خان سے کہا کہ خیال رکھیں کہ میں کسی مرد لیڈر سے ہاتھ نہیں ملاتی۔
اسی دوران عرفات کراچی پہنچے تو بے نظیر ان کا استقبال کرنے ایئرپورٹ گئیں۔
ارشد سمیع خان اپنی سوانح عمری ’تھری پریذیڈنٹ اینڈ این ایڈ‘ میں لکھتے ہیں: ’یہ چیف آف پروٹوکول کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاز کے اندر جائیں اور بیرون ملک سے آنے والے مہمان کو خوش آمدید کہیں۔ میں عرفات کے جہاز کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا کہ بے نظیر نے مجھے بلایا اور میرے کان میں سرگوشی کی ’عرفات کو یاد دلانا مت بھولنا کہ میں مردوں سے ہاتھ نہیں ملاتی۔‘ جیسے ہی عرفات سے ملاقات ہوئی، میں نے ان سے کہا، ’ایکسی لینس، بے نظیر بھٹو نیچے آپ کے استقبال کے لیے کھڑی ہیں۔ میں آپ کو صرف یہ یاد دلانے آیا ہوں کہ وہ مردوں سے مصافحہ نہیں کرتیں۔ عرفات نے کہا ’ہاں، ہاں۔۔۔ مجھے اس بارے میں کئی بار بتایا جا چکا ہے۔ تاہم یاد دلانے کا شکریہ۔‘
ارشد سمیع مزید لکھتے ہیں: ’عرفات کے اترتے ہی میں نے دیکھا کہ انھوں نے بے نظیر سے مصافحہ کرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بے نظیر نے مجھے گھورتے ہوئے ہچکچاتے ہوئے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ ابھی ہم لوگ چل ہی رہے تھے کہ انھوں نے مجھ سے اردو میں سرگوشی کی تاکہ عرفات نہ سمجھ سکیں، ’آپ نے انھیں نہیں بتایا کہ میں مردوں سے ہاتھ نہیں ملاتی۔‘
’اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا، عرفات نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ’شکر ادا کریں کہ میں نے آپ کو بوسہ نہیں دیا، یہ عربی رسم ہے کہ جو بھی میرے استقبال کے لیے آتا ہے میں اس کے گال چومتا ہوں، ایک بار نہیں، دو بار، دونوں گالوں پر۔ ہم تینوں ہنس پڑے اور سلامی والے سٹیج کی طرف بڑھ گئے۔‘