نور مقدم قتل کیس ملزم ظاہر جعفر کی سٹریچر پر عدالت

نور مقدم قتل کیس ملزم ظاہر جعفر کی سٹریچر پر عدالت

نور مقدم قتل کیس ملزم ظاہر جعفر کی سٹریچر پر عدالت میں پیشی، طبی معائنے میں ’فِٹ‘ قرار

جمعرات کو نور مقدم کے قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران اڈیالہ جیل کے حکام نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی میڈیکل رپورٹ پیش کی ہے جس میں انھیں مکمل طور پر ’فِٹ‘ قرار دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ ملزم ظاہر جعفر کا میڈیکل کروانے کی درخواست ملزم کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے متعقلہ عدالت میں دائر کی تھی، جس پر اس مقدمے کی سماعت کرنے والے اسلام آباد کے ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی نے جیل حکام کو ملزم کا طبی معائنہ کروانے کا حکم دیا تھا۔

جمعرات کو ملزم ظاہر جعفر کو سٹریچر پر عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ 17 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران ملزم ظاہر جعفر کو پولیس اہلکار کرسی پر بٹھا کر اور پھر کرسی کو اٹھا کر کمرہ عدالت میں لے کر آئے تھے۔

اس سے قبل ہونے والی مقدمے کی سماعت کے دوران پولیس اہلکار ملزم ظاہر جعفر کو سہارا دے کر کمرہ عدالت میں لے کر آئے تھے۔

اڈیالہ جیل کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ملزم ظاہر جعفر کو جمعرات کو عدالت میں پیش کرنے سے پہلے بھی ان کا طبی معائنہ کروایا گیا تھا اس کے علاوہ ماہر نفسیات نے بھی ان کا معائنہ کر کے انھیں ’فٹ‘ قرار دیا تھا۔

ملزم کو سٹریچر کس قانون کے تحت فراہم کیا گیا، اس سے متعلق جواب کے لیے اسلام آباد پولیس کے ایس ایس پی آپریشنز سے متعدد بار رابطہ کیا گیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اسلام آباد پولیس کے ترجمان کے مطابق بخشی خانے میں سکیورٹی کے معاملات ایس ایس آپریشنز ہی دیکھتے ہیں۔

اسلام آباد کے بخشی خانے میں اس مقدمے کے تمام ملزمان کو دیگر ملزمان کے ہمراہ رکھا گیا اور جب دوپہر دو بجے کے قریب اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو سماعت سے قبل اس مقدمے کے شریک ملزم ذاکر جعفر سمیت دیگر شریک ملزمان کو کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا۔

بخشی خانے پر سکیورٹی پر موجود اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ملزم ظاہر جعفر کو جب عدالت میں لے کر جانے لگے تو انھوں نے جانے سے انکار کر دیا اور انھیں کہا گیا کہ پولیس اہلکار انھیں کرسی پر بٹھا کر کمرہ عدالت میں لے جاتے ہیں لیکن وہ اس پر بھی راضی نہ ہوئے۔

اہلکار کے مطابق ملزم کو کمرہ عدالت تک پہنچانے کے لیے ضلع کچہری کے قریب واقع ایک نجی ہسپتال سے سٹیریچر لایا گیا اور اس پر ملزم کو لٹا کر کمرہ عدالت میں لے جایا گیا۔

پولیس اہلکار سے جب یہ پوچھا گیا کہ نجی ہسپتال سے سٹریچر پولیس اہلکار لے کر آئے تھے یا اسے کوئی اور لے کر آیا تھا تو انھوں نے اس کا جواب نہیں دیا اور صرف یہی بتانے پر اکتفا کیا کہ ملزم کو کمرہ عدالت تک پہنچانا ان کی اولین ذمہ داری ہے۔

ایک عینی شاہد کے مطابق گذشتہ سماعت کے دوران ملزم ظاہر جعفر کو بخشی خانے کے دروازے سے نکال کر چند قدم کے فاصلے پر سیڑھیاں اتارنے کے بعد کرسی پر بٹھایا گیا لیکن جمعرات کے روز ملزم کو بخشی خانے کے دروازے سے نکلتے ہی سٹریچر پر ڈال دیا گیا۔

ظاہر جعفر
17 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران ملزم ظاہر جعفر کو پولیس اہلکار کرسی پر بٹھا کر اور پھر کرسی کو اٹھا کر کمرہ عدالت میں لے کر آئے تھے

کمرہ عدالت میں کیا ہوا؟

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو جب عدالت میں پیش کیا گیا تو ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی نے ریمارکس دیے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ملزم کو عدالت میں لایا جائے لیکن ملزمان کے وکلا کے اسرار پر ملزم کو کمرہ عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران ملزم ظاہر جعفر کو کراہتے ہوئے بھی سنا جا سکتا تھا۔

اس دوران ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی اور ان کے والد ذاکر جعفر بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ یہ دونوں بھی اس کیس کے ملزمان میں شامل ہیں۔

سماعت ختم ہونے کے بعد ظاہر جعفر کو اسی سٹریچر پر بخشی خانے لے جایا گیا، جہاں سے انھیں قیدیوں کی وین میں بٹھا کر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔

اس مقدمے کی سماعت 24 جنوری تک ملتوی کردی گئی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *