افغانستان پر خطے میں بیک وقت دو بڑے اجلاس انڈیا اور پاکستان افغان مسئلے پر ’ادھر ہم، اُدھر تم‘ کی پالیسی کیوں اپنائے ہوئے ہیں؟
بدھ کو انڈیا میں افغانستان کے معاملے پر سلامتی کے مشیروں کا اجلاس شروع ہو رہا ہے جس میں افغانستان یا پاکستان کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی، البتہ اسی روز طالبان حکومت کے وزیر خارجہ ایک اعلیٰ وفد کے ہمراہ اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔
افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایک بیان میں کہا کہ وزیر خارجہ امیر خان متقی اسلام آباد جانے والے وفد کی قیادت کریں گے۔ متقی کو جمعرات کو پاکستان کے دارالحکومت میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے جس میں روس، چین، امریکہ اور پاکستان کے نمائندے شامل ہوں گے۔
اِدھر انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سے قبل یہ اجلاس 2018 اور 2019 میں ایران میں منعقد ہوا تھا۔ اجلاس میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ملک کی بدلی ہوئی حالیہ صورتحال اور اس سے پیدا ہونے والی سکیورٹی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا اور بات چیت میں ان چیلنجز سے نمٹنے کے طریقوں پر بھی غور کیا جائے گا۔
روس اور ایران کے علاوہ افغانستان کی سرحد سے متصل وسطی ایشیا کے پانچ ممالک ازبکستان، ترکمانستان، قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان کے سکیورٹی مشیر بھی اس اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں تاہم چین اور پاکستان نے شرکت سے معذرت کر لی ہے جبکہ افغانستان کی حالیہ انتظامیہ میں سے کسی کو اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا۔
دہلی میں ہونے والے اجلاس کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی سربراہی میں ہونے والی اس ملاقات کو ’دہلی ریجنل سیکورٹی ڈائیلاگ آن افغانستان‘ کا نام دیا گیا ہے اور اجلاس میں ایران کے ریئر ایڈمرل علی شمخانی، روس کے نکولائی پی پیٹروشیف، قازقستان کے کریم ماسیموف، کرغزستان کے مارات مکانووچ، تاجکستان کے نصرلو رحمتزو محمود زودا، ترکمانستان کے سی کے اماووو اور ازبکستان کے وکٹر مخمودوف شرکت کریں گے۔
روس پہلے ہی انڈیا کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی دعوت دے چکا ہے اور اجلاس میں روس اور ایران کی شرکت کو افغانستان پر اتحادیوں کے درمیان ایک اہم حکمت عملی بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ انڈیا کی جانب سے منعقد ہونے والے اجلاس میں نہ صرف افغانستان کے پڑوسی بلکہ پاکستان اور چین کو نکال کر وسطی ایشیا کے تمام بڑے ممالک شرکت کر رہے ہیں، جو انڈیا کے لیے افغانستان کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
ذرائع کے مطابق اعلیٰ سطحی مذاکرات میں افغانستان میں حالیہ پیش رفت سے پیدا ہونے والی علاقائی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ امن، سلامتی اور استحکام کے فروغ کی حمایت کی جائے گی، ساتھ ہی انسانی امداد کے حوالے سے بھی بات چیت ہوگی۔ وہاں کے لوگوں کو انسانی امداد کیسے پہنچائی جائے اس پر بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینے کے ساتھ خطے میں دہشت گردی، منشیات کی پیداوار اور سمگلنگ جیسے مسائل پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
اس اجلاس میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ضائع شدہ ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال سے نمٹنے کے لیے علاقائی سلامتی پر بھی بات کی جائے گی اور مجموعی طور پر خطے کے لیے ایک مشترکہ سیکیورٹی پالیسی بنانے پر بات ہوگی۔
اگرچہ چین اور پاکستان کو بھی اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا لیکن پاکستان کے سکیورٹی مشیر معید یوسف نے یہ کہہ آنے سے انکار کر دیا تھا کہ ‘امن کو بگاڑنے والا امن کا سفیر نہیں بن سکتا۔‘ اس کے بعد چین نے بھی شیڈیول میں درپیش مشکلات کے سبب شرکت سے انکار کر دیا۔ تاہم چین نے کہا کہ وہ دو طرفہ سفارتی تعلقات کے ذریعے بات چیت کے لیے تیار ہے۔
افغان وفد کی پاکستان میں کیا مصروفیات ہوں گی؟
طالبان کے سرکاری ترجمان عبدالقہار بلخی کے مطابق اسلام آباد جانے والے وفد میں طالبان حکومت کی وزارت خزانہ اور تجارت کے حکام بھی شامل ہوں گے۔
بلخی کی ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے نمائندے باہمی تعلقات میں بہتری لانے، معیشت، لوگوں اور پناہ گزینوں کی نقل و حرکت کے لیے بہتر سہولیات کی فراہمی جیسے امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔
تاہم اس سے زیادہ اہم جمعرات کو ہونے والی ’ٹرائیکا پلس‘ ملاقات ہے جہاں تینوں بڑے ممالک کے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی، امریکہ کے ٹامس ویسٹ، روس کے ضمیر کابلآف اور چین کی یوئے ژاؤیونگ، پاکستانی اور افغان حکام سے ملاقات کریں گے۔
پاکستان کی جانب سے اس ملاقات میں افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی محمد صادق شرکت کریں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گذشتہ ماہ اپنے کابل دورے کے موقعے پر بتایا تھا کہ انھوں نے طالبان کے وزیر خارجہ کو پاکستان میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی جو متقی نے قبول کر لی۔
اگرچہ پاکستان نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے تاہم طالبان کے مقرر کردہ اہلکار اسلام آباد میں افغان سفارت خانے میں تعینات ہیں۔
یاد رہے کہ افغانستان کے وزیر خارجہ کا یہ دورہ عمران خان حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی خبر آنے کے بعد ہو رہا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ ان امن مذاکرات میں بھی افغان طالبان نے کردار ادا کیا ہے۔
’ٹرائیکا پلس‘ میں انڈیا کیوں نہیں شامل؟
چینی جریدے گلوگل ٹائمز کے مطابق یہ پلیٹ فارم ایسے ممالک کے درمیان مذاکرات کے لیے بنایا گیا تھا جن کا افغانستان میں براہ راست کردار ہے یا ان کا فریقین پر کوئی اثر رسوخ ہے۔ یاد رہے کہ روس کے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی ضمیر کابلآف نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ انڈیا کا طالبان پر کوئی اثر نہیں جس سے انڈیا کی اہمیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔