ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں قانونی و آئینی طریقہ اپنایا جائے گا: فواد چوہدری
پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کے معاملے پر ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت میں اختلاف کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سول و ملٹری قیادت ‘ایک پیج’ پر ہیں۔
منگل کو کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں قانونی طریقہ اپنایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجودہ کے درمیان بہت ہی قریبی اور خوشگوار تعلقات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر ‘دونوں کا اتفاق رائے ہے۔ اس میں اتھارٹی وزیر اعظم کی ہے۔’
پاکستان میں جنرل ندیم انجم کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی تقرری بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ گذشتہ ہفتے پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ نے کہا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو آئی ایس آئی کا نیا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے حکومت کی جانب سے تاحال کوئی نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے۔
ادھر دارالحکومت اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں یہ خبریں گرم ہیں کہ وزیراعظم عمران خان سبکدوش ہونے والے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ سہولت محسوس کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فیض حمید ہی اس عہدے پر کام جاری رکھیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فیض حمید کو اب پشاور کا کور کمانڈر مقرر کیا گیا ہے۔
فواد چوہدری نے بتایا کہ پیر کی شب وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ایک طویل نشست ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘سوشل میڈیا پر دیکھتا ہوں۔ بہت لوگوں کی خواہشیں ہیں۔ میں ان کو یہ بتا دوں کہ کبھی بھی وزیر اعظم آفس ایسا قدم نہیں اٹھائے گا کہ فوج کا وقار کم ہو (اور) سپہ سالار کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے کہ سول سیٹ اپ کی عزت میں کمی آئے۔’
تاہم فواد چوہدری کے مطابق ‘ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے لیے قانونی اور آئینی طریقہ اختیار کیا جائے گا۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘ڈی جی آئی ایس آئی کا تقرر ہمیشہ مشاورت اور قانونی تقاضے مکمل کرنے کے بعد کیا جائے گا۔’
انھوں نے مزید کہا کہ ’ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری وزیراعظم کا اختیار ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری وسیع البنیاد مشاورت کے بعد کی جائے گی۔‘
آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کے لیے فوج کی جانب سے منتخب کیے جانے والے لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اس عہدے پر تعیناتی سے قبل کراچی کے کور کمانڈر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔
اس عہدے پر تعیناتی سے وہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جگہ لیں گے جو تقریباً ڈھائی سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔
آئی ایس آئی کے سربراہ کو مقرر کرنے کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟
دفاعی تجزیہ کار عمر فاروق کے مطابق پاکستان کے سب سے اہم خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی وزیر اعظم کی صوابدید ہے کیونکہ آئی ایس آئی ایک وفاقی ادارہ ہے اور وزارت دفاع کے ماتحت کام کرتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ فوجی سربراہ کی جانب سے تین نام وزیر اعظم کو بھیجے جاتے ہیں جن میں سے ایک نام پر وہ فیصلہ کر کے منظوری دیتے ہیں۔
عمر فاروق نے آئی ایس پی آر کی جانب سے لیفٹننٹ ندیم انجم کی بطور آئی ایس آئی سربراہ تقرری کے اعلامیہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ فوج کی جانب سے اسے ‘معمول کی تقرری’ کہنے کا مطلب ہے کہ طریقہ کار میں تھوڑی تبدیلی آئی ہے۔
‘آئی ایس پی آر کے اعلامیے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے سربراہ کو تقرر کرنے والی اتھارٹی کس کی تھی۔ یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے اور اس بارے میں سوال اٹھانا چاہیے۔’
عمر فاروق نے بتایا کہ انگریزی جریدے ہیرالڈ کے لیے چند سال قبل انھوں نے ایک رپورٹ کی تھی جس میں ان کو یہ معلوم ہوا کہ پاکستانی قانون میں خفیہ ادارے بشمول آئی ایس آئی کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
‘ان اداروں کے اپنے اندرونی ٹی اور آر ہیں جن کے تحت وہ کام کرتے ہیں اور وہ خفیہ ہوتے ہیں۔’
ڈی جی آئی ایس آئی کتنا طاقتور عہدہ ہے؟
مبصرین کے مطابق آئی ایس آئی سیاسی اور عسکری دونوں سطح پر کام کرتی ہے اور اپنا اِن پُٹ دیتی ہے۔
آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی لیفٹننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی کے مطابق آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل اپنے ادارے کی حد تک بہت طاقتور ہوتا ہے۔
‘ڈی جی آئی ایس آئی اپنے ادارے کے اندر لوگوں کو رکھ سکتا ہے، نکال سکتا ہے، واپس فوج میں بھیج سکتا ہے، پوسٹ آؤٹ کر سکتا ہے۔ لیکن جہاں تک ادارے سے باہر کا تعلق ہے تو آئی ایس آئی کے سربراہ کی طاقت کا انحصار ان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف کے ساتھ تعلق پر ہے۔’
ان کے مطابق ‘وزیر اعظم انھیں عہدے سے ہٹا سکتے ہیں اور فوج کے اندر طاقتور تو فوج کا سربراہ ہی ہے’۔