اکتوبر 1999: کیا کراچی پولیس نے جنرل مشرف کو گرفتار

اکتوبر 1999: کیا کراچی پولیس نے جنرل مشرف کو گرفتار

12 اکتوبر 1999: کیا کراچی پولیس نے جنرل مشرف کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی؟

کبھی سُنا ہے کہ کسی ملک کی پولیس نے اپنی ہی فوج کے سربراہ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی ہو؟

کیا عملاً اُس وقت نواز شریف وزیراعظم تھے یا جنرل مشرّف آرمی چیف تھے؟

سابق اعلیٰ فوجی افسر کے سوالات نے مجھے 22 برس پیچھے دھکیل دیا جب 12 اکتوبر 1999 کو پاکستان میں فوج نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر چوتھی اور (اب تک) آخری دفعہ اقتدار پر ’براہ راست‘ قبضہ کر لیا تھا۔

لیکن کیا واقعی نواز شریف نے جنرل مشرف کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا اور کیا واقعی سندھ پولیس نے جنرل مشرف کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی؟

یہ حقائق ازسر نو تلاش کرنے کے لیے مجھے ایک بار پھر پولیس اور فوج کے بہت سے افسران سے گذشتہ 22 برسوں میں کئی بار کیے جانے والے سوالات ایک مرتبہ پھر پوچھنے پڑے۔

منگل 12 اکتوبر 1999 کا وہ دن کراچی کی خاصی چلچلاتی ہوئی دھوپ سے پہلے ہی کافی گرم تھا کہ سیاسی درجۂ حرارت کی شدید تپش نے اُس دن کو ملک کی تاریخ کا شاید سب سے گرما گرم دن بنا دیا تھا۔

اس وقت کراچی انتظامی طور پر پانچ اضلاع میں تقسیم تھا۔

موجودہ ڈائریکٹر جنرل فیڈرل انویسٹگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) ثنا اللّہ عباسی (اس وقت) ایس ایس پی ملیر، رواں ہفتے قومی احتساب بیورو (نیب) سے حال ہی میں مستعفی ہونے والے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر ایس ایس پی سینٹرل (وسطی)، سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ ایس ایس پی ساؤتھ (جنوبی)، معظم جاہ انصاری ایس ایس پی ویسٹ (غربی) اور سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن اس وقت ایس ایس پی ایسٹ (شرقی) تعینات تھے۔

جبکہ نرم خُو افسر، اکبر آرائیں، کراچی پولیس کے سربراہ یعنی ڈی آئی جی تھے۔

تب سیاسی، فرقہ وارانہ، مذہبی، مسلکی اور ہر نوعیت کے شدید ترین تشدد کا شکار کراچی دنیا بھر کی توجہ کا مرکز رہتا تھا اور میں پاکستان کے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کا کرائم رپورٹر تھا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں فوج اور پولیس کے حکام اور کرائم رپورٹرز کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے لہٰذا کئی برس ساتھ کام کرنے کی وجہ سے دیگر پولیس افسران کی طرح بشیر میمن سے بھی میرا تعلق ایسی ذاتی دوستی میں ڈھل چکا تھا کہ بےتکلفانہ انداز میں غیررسمی ملاقاتیں کسی بھی وقت ہو سکتی تھیں۔

اُس روز بھی میں یونہی کسی طے شدہ ملاقات کے بغیر ہی ایس ایس پی ایسٹ یعنی بشیر میمن کے دفتر جا پہنچا جو صبغت اللّہ شاہ پیر پگاڑا روڈ اور یونیورسٹی روڈ کے سنگم پر واقع تھا۔

بشیر میمن
بشیر میمن

یہ وہی بشیر میمن ہیں جو حال ہی وزیر اعظم عمران خان کی انتظامیہ سے ایک تنازع کے بعد ڈی جی ایف آئی اے کے عہدے سے مستعفی ہوئے اور پھر اپنے حکومت مخالف بیانات اور انکشافات کے بعد پاکستان کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے کئی دنوں تک خبروں اور ٹاک شوز کا محور و مرکز بنے رہے۔

بشیر میمن حسب معمول بڑے تپاک سے ملے اور ابھی چائے لائی ہی گئی تھی کہ میز کے نیچے رکھے خفیہ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ میرے اندر کا کرائم رپورٹر بظاہر تو یہ یہی تاثر دیتا رہا کہ وہ لاتعلق ہے مگر دھیان لگا کر فون پر ہونے والی گفتگو سے خبر یا خبر کا سرا ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا۔

مگر گفتگو اتنی محتاط تھی کہ ’ہاں‘ اور ’ہوں‘ کے علاوہ بشیر میمن نے کوئی لفظ ادا نہیں کیا۔

کال بند کرتے ہی بشیر میمن نے تولتی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھا اور پوچھا ’کوئی بڑی ڈیویلپمنٹ (پیشرفت) ہوئی ہے کیا؟‘

میں نے لاعلمی کے اظہار کے طور پر کندھے اچکائے تو بشیر میمن نے بتایا کہ کیڈٹ کالج پٹارو میں ان کے زمانۂ طالبعلمی کے کسی دوست کی کال آئی تھی جو اب فوج میں (کرنل) ہیں اور لاہور میں تعینات ہیں۔ انھوں نے پوچھا ہے کہ کراچی میں کیا ہو رہا ہے؟ حالات کیسے ہیں؟

ابھی یہ سب جاری تھا کہ سٹاف رنر (سپاہی ہارون صاحب، جو بشیر میمن کے دفتر کے دروازے پر مہمانوں کا استقبال کرتے تھے) اجازت لے کر اندر آئے تو بشیر نے اُنھیں دفتر میں رکھا ہوا ٹی وی کھولنے کی ہدایت کی۔

اس وقت لائیو نیوز چینلز کا زمانہ نہیں آیا تھا اور ملک میں تھے تو دو تین چینلز مگر صرف انٹرنیٹمنٹ پروگرام دکھا سکتے تھے اور خبر دینے کی اجازت صرف سرکاری ٹیلی ویژن یعنی پی ٹی وی کو ہی تھی۔

موبائل فون ضرور موجود تھے مگر اس قدر مہنگے تھے کہ موبائل فون رکھنا میرے جیسے صحافیوں کے بس کی بات نہیں تھی۔ ہاں دفتر نے رابطے کے لیے موبائل فون عام ہونے سے پہلے برقی پیغام رسانی کا ایک آلہ ’پیجر‘ ضرور دے رکھا تھا۔

سرکاری ٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرّف کو برطرف کر دیا ہے اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ضیا الدین بٹ کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر فوری طور پر چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا گیا ہے۔

مشرف

’برطرف‘ کیے جانے والے آرمی چیف جنرل مشرف اس وقت سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کے سرکاری دورے پر تھے اور اُسی شام وطن واپس آنے والے تھے کہ یہاں ڈرامائی پیشرفت میں ان کی سبکدوشی کے احکامات جاری ہو گئے۔

پاکستان کے مخصوص سیاسی منظر نامے اور نواز شریف اور فوج کے درمیان تعلقات کار کی روشنی میں یہ خبر ملک بھر میں تہلکہ مچا دینے کے لیے کافی تھی۔

جنرل مشرّف وہ ’دوسرے‘ آرمی چیف تھے جنھیں نواز شریف ’فارغ‘ کرنا چاہتے تھے۔ اس سے قبل وہ جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ بھی ایسا ہی کر چکے تھے۔

اگرچہ یہ سب کچھ لاہور اور اسلام آباد میں ہو رہا تھا اور کراچی کے کرائم رپورٹر کے طور پر میرے دائرہ کار میں نہیں تھا لیکن عین اُسی وقت مجھے میری ایڈیٹر قطرینہ حسین کا پیج موصول ہوا کہ میں فوراً دفتر سے رابطہ کروں۔

میں ابھی دفتر رابطہ کرنے کے لیے بشیر میمن سے اُن کی سرکاری لینڈ لائن استعمال کرنے کی اجازت لینا چاہ ہی رہا تھا کہ سٹاف رنر ہارون صاحب پھر اندر آئے اور گھبرائے ہوئے لہجے میں بشیر میمن سے کہا ’سر، آئی جی صاحب سندھ نے وائرلیس روم میں یاد فرمایا ہے۔‘

اس وقت نواز شریف کے قریب سمجھے جانے والے افسر رانا مقبول سندھ پولیس کی سربراہ یعنی آئی جی سندھ تھے۔ یہ وہی رانا مقبول ہیں جو پولیس کی ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد اب نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے سینیٹر ہیں۔

آئی جی سندھ کے حکم پر وائرلیس پیغام سننے کے بعد کمرے میں واپس آتے ہی بشیر میمن نے مجھے یہ بتایا کہ آئی جی صاحب (رانا مقبول) نے ہدایت کی ہے کہ ایک بکتر بند گاڑی لے کر کراچی کے ہوائی اڈّے پر پہنچ جائیں۔

میرے پوچھنے پر بشیر میمن نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی پروٹوکول ڈیوٹی ہو لہٰذا میں بھی اُن کے ساتھ سرکاری گاڑی میں ہوائی اڈّے چل سکتا ہوں اور ممکنہ پروٹوکول ڈیوٹی کے بعد اس ناتمام چائے کا ازالہ کسی اچھی جگہ سکون سے چائے پی کر کیا جا سکے گا۔

میں نے بدلتی صورتحال کے پیش نظر بشیر میمن کی پیشکش پر معذرت کرتے ہوئے اُن سے یہ کہہ کر اجازت لینا چاہی کہ دفتر پہنچنے کی ہدایت مجھے بھی ملی ہے تو انھوں نے کہا کہ یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں کہ ایئرپورٹ کے بعد میں تمہیں تمہارے دفتر بھی ڈراپ کر دوں گا اور چائے بھی وہیں پی لیں گے۔

میرے انکار پر بشیر میمن نے اصرار کیا کہ میں اُن کی سرکاری گاڑی میں بیٹھ جاؤں تو وہ راستے میں مجھے دفتر یا اس کے قریب چھوڑتے ہوئے جا سکتے ہیں۔ میں ابھی شش و پنج میں ہی تھا کہ بشیر میمن نے ایک اور پیشکش کر دی کہ میں اُن کی ذاتی گاڑی میں گھر کے ڈرائیور کے ساتھ دفتر چلا جاؤں۔ یہ کافی پرکشش پیشکش تھی اور میں نے دفتر پہنچنے کی جلدی میں قبول بھی کر لی۔

ایس ایس پی ایسٹ بشیر میمن کے گھریلو ڈرائیور نے جب مجھے دفتر اتارا تو کام کا آغاز کرنے سے پہلے میں نے اس مہمان نوازی اور خوش اخلاقی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے بشیر میمن کو موبائل فون پر کال کی اور یہیں سے اس کہانی کا آغاز ہوا جو آج آپ سُنیں گے۔

نواز شریف

کئی بار اور بہت دیر تک گھنٹی بجنے کے بعد بالآخر بشیر میمن کے موبائل فون سے کال اٹینڈ کی گئی تو میں دوسری جانب ایک اجنبی آواز سُن کر یہ سمجھا کہ بشیر میمن ابھی تک آئی جی سندھ کی پروٹوکول ڈیوٹی میں مصروف ہیں لہٰذا فون اُن کے ساتھ عملے کے کسی رکن یا حفاظت پر مامور کسی پولیس اہلکار نے اٹھایا ہے۔

میں نے درخواست کی کیا بشیر میمن صاحب سے بات ہو سکتی ہے؟ جواب میں کسی نے تحکمانہ سے انداز اور افسرانہ لہجے میں مجھ سے کہا کہ پہلے میں اپنا نام بتاؤں۔

نام بتانے پر دوسری جانب سے مجھے بتایا گیا کہ یہ فون اور بشیر میمن دونوں اب فوجی علاقے (ملیر کینٹ) میں ہیں اور بشیر میمن ہی نہیں کئی اور (کراچی پولیس کی قریباً تمام قیادت یعنی) افسران بھی ملیر گیریژن میں ہی ہیں۔

یہ سب کچھ بہت چونکا دینے والا تھا۔ نہ تو عموماً ایسی پیشرفت روز ہوتی ہے اور ہو بھی جائے تو یوں کسی بھی کال کرنے والے کو تفصیل سے تمسخرانہ انداز سے ہرگز نہیں بتائی جاتی۔

تو پھر مجھے یہ سب کچھ کیوں بتایا گیا اور یہ کہ بشیر میمن اور باقی پولیس افسران ملیر کینٹ یا گیریژن کے علاقے میں کیوں طلب کیے گئے یا کیوں لے جائے گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے؟

اب 22 برس بعد تمام کڑیاں ملانے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت بشیر میمن کو کی جانے والی میری فون کال جس نے بھی ریسیو کی تھی وہ اخبار کا حوالہ جان کر یہ چاہ رہے ہوں گے کہ یہ خبر پورے پریس تک پہنچ جائے کہ پولیس افسران پر اس روز کیا گزری۔

اس پورے عرصے میں پولیس، فوج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے درجنوں افسران سے سینکڑوں بار رابطے یہ جان لینے میں مددگار ثابت ہوئے کہ دراصل اس روز یعنی 12 اکتوبر کو کراچی پولیس کو کیا احکامات مل رہے تھے اور کیوں پولیس افسران ان احکامات پر عملدرآمد یا تو کر نہیں پا رہے یا پھر کرنے سے قصداً ہچکچا رہے تھے۔

اب ریٹائرڈ ہوجانے والے اور کراچی میں بہت اہم عہدے پر طویل عرصے تک تعینات رہنے والے ایک اعلیٰ فوجی افسر کے مطابق جب وزیراعظم نواز شریف نے جنرل مشرف کو برطرف کرنے کا فیصلہ اور احکامات جاری کیے ’اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ جنرل مشرّف اور اُن کے قریبی ساتھی صورتحال کو دیکھ کر ہوم ورک مکمل کر چکے تھے اور فوج میں نچلی سطح تک یہی موڈ تھا کہ اگر سیاسی قیادت نے آرمی چیف کو برطرف کرنے کی کوشش کی تو اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔‘

’دیکھیں ناں جی، تاریخ اٹھا لیں۔ ایک وزیراعظم ایک ہی جنرل کو برطرف کر سکتا ہے اس ملک میں اور ایک جنرل ایک ہی وزیراعظم کے خلاف اقدام اٹھا سکتا ہے۔ جنرل ضیا نے ذوالفقار علی بھٹو کو برطرف کیا، سب ٹھیک تھا مگر جب محمد خان جونیجو کو برطرف کیا معاملہ الٹ گیا،‘ فوجی افسر نے کہا۔

12 اکتوبر
جنرل مشرف وہ ‘دوسرے‘ آرمی چیف تھے جنہیں نواز شریف ‘فارغ’ کرنا چاہتے تھے۔ اس سے قبل وہ جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ بھی ایسا ہی کرچکے تھے۔

سابق اعلیٰ فوجی افسر نے دعویٰ کیا کہ ’بہرحال آپ 12 اکتوبر کی بات کریں تو میں یہی یقین سے بتا سکتا ہوں کہ اس وقت پوری فوج کا نچلے رینکس تک موڈ ہی کچھ اور تھا۔ بٹ صاحب (جنرل ضیا الدین بٹ) تھے تو آئی ایس آئی کے سربراہ مگر انھیں اندازہ ہی نہیں ہو سکا اس موڈ کا۔ وہ وزیراعظم کے ساتھ بیٹھے تھے اور میرے خیال میں اصل صورتحال اور زمینی حقائق سے قریباً لاعلم تھے۔ لیکن آپ کراچی پولیس کا پوچھ رہے ہیں تو جب جنرل مشرف کی برطرفی کے احکامات جاری ہوئے تو ساتھ ہی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے لیے ہدایات بھی جاری ہوئیں۔‘

گذشتہ برسوں کی کئی مختلف اور علیحدہ علیحدہ نشستوں میں فوج اور پولیس کے تب (اور اب بھی) کئی دیگر اعلیٰ افسران دعوے کرتے رہے ہیں کہ آئی جی سندھ رانا مقبول نے صرف بشیر میمن کو ہی نہیں بلکہ ڈی آئی جی کراچی اکبر آرائیں سمیت شہر کے تمام (یعنی پانچوں) ایس ایس پیز کو بھی وہی ہدایات دی تھیں کہ ایک اے پی سی لے کر ایئرپورٹ پہنچیں۔

مگر تمام افسران اس بات پر متفق ہیں کہ یہ صرف رانا مقبول ہی جانتے ہوں گے کہ ایئرپورٹ بلوا کر وہ پولیس افسران سے کیا کام لینا چاہتے تھے کیوں کہ ان کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ پولیس افسران کو کیوں طلب کیا گیا ہے۔

ایک اعلیٰ سابق فوجی افسر کے دعوے کے مطابق ’وہ (رانا مقبول) شاید ان ہدایات پر عمل کرنا چاہتے ہوں گے کہ اگر جنرل مشرُف کراچی کے ہوائی اڈے پر اتریں تو انھیں حفاظتی تحویل یا حراست میں لے لیا جائے۔‘

ان افسر کا کہنا تھا ’کبھی سنا ہے کہ کسی ملک کی پولیس نے اپنی ہی فوج کے سربراہ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی ہو؟‘

سابق فوجی افسر نے دعویٰ کیا کہ اس وقت تو صورتحال یہ تھی کہ منتخب وزیراعظم آئین میں دیے گئے اختیار کے تحت ایک آرمی چیف کر برطرف کر چکے تھے اور آرمی چیف اور فوجی قیادت متوازی اقدامات کرتے ہوئے ان احکامات کو تسلیم اور ان پر عملدرآمدسے انکار کرتے ہوئے آئین ہی کو ’معطل‘ کر چکے تھے۔

ملک کی آئینی و قانونی تاریخ کے ان چند گھنٹوں کو کیا کہیں گے آپ؟

اس وقت تو آئینی اور قانونی طور پر ’خلا‘ تھا ، عملاً تو اُس وقت نہ نواز شریف وزیراعظم تھے نہ جنرل مشرف آرمی چیف ! دونوں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما تھے۔

فوجی بغاوت

لیکن میں آپ کی کہانی کی طرف واپس آتا ہوں۔ رانا مقبول چاہتے تھے کہ اگر جنرل مشرف کا جہاز کراچی ایئر پورٹ پر اترے تو انھیں گرفتار کر لیا جائے۔‘

سابق فوجی افسر کے اس دعوے کی تصدیق سابق ڈی آئی جی کراچی اکبر آرائیں نے بھی کی۔

اکبر آرائیں نے کہا ’یہ بالکل ٹھیک ہے! وہ تو (عدالتی کارروائی میں) بشیر میمن کے بیان میں ساری چیزیں آئی ہوئی ہیں کہ اس نے کیا کہا ہے۔ وہ (رانا مقبول) چاہتے تھے کہ انھیں (جنرل مشرف) کو گرفتار کرنا ہے۔ میں نے جو جواب دیے تھے وہ یہ ہیں کہ نہ ہمارے پاس وارنٹ ہے نہ ہمارا یہ علاقہ ہے ایئرپورٹ کا۔ نہ ہماری حدود ہے۔ میں نے انکار کر دیا تھا (گرفتار کرنے سے)۔ یہ بات تمام عدالتی ریکارڈ میں ہیں، اس میں آپ تصدیق کر لیں۔‘

میرے سوال کے جواب میں اکبر آرائیں نے کہا کہ ’ان (رانا مقبول) کو یہی احکامات آئے تھے کہ انھوں نے یہی آرڈرز آگے کیے تھے تو میں نے اس کو فالو (تسلیم) نہیں کیا۔ ہماری جورسڈکشن نہیں تھی۔ ان (رانا مقبول) کو بتا دیا گیا تھا کہ یہ آپ کے جو احکامات ہیں وہ ریٹین ایبل (برقرار رکھنے کے قابل) نہیں ہیں، لیگل (قانونی یا قانون کی حدود میں) نہیں ہیں۔ نہ ہی ہمارے پاس وارنٹ ہے اور نہ ہی ہمارا علاقہ ہے ائیر پورٹ پر اے ایس ایف (ائیر پورٹ سکیورٹی فورس) کا ایریا ہے اُن (اے ایس ایف) کو وارنٹ دیں وہ گرفتار کریں گے۔‘

ایک اور سوال کے جواب میں اکبر آرائیں نے یہ تصدیق بھی کی کہ ائیر پورٹ آنے سے قبل انھیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ آخر انھیں وہاں کیوں بلوایا گیا ہے۔ ’مجھے بالکل نہیں پتہ تھا مگر جب پتہ چلا تو میں نے ایسے غیر قانونی احکامات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ایئرپورٹ کے اندر کا علاقہ اے ایس ایف کی حدود میں آتا ہے وہاں پر کچھ بھی کرنا ہو تو وہ اے ایس ایف کا کام ہے۔ ادھر ہم کسی کو گرفتار کرنا ہو تو اے ایس ایف کو لکھتے ہیں۔‘

اکبر آرائیں نے یہ بھی بتایا کہ اس دن انھوں نے اپنے کسی ماتحت افسر کو ایئرپورٹ جانے کا کوئی حکم نہیں دیا تھا بلکہ یہ ہدایات براہِ راست رانا مقبول نے دی تھیں۔

’بشیر میمن سے میری بات ہوئی تو انھوں نے مجھے بتایا کہ مجھے بلوایا ہے تو میں نے کہا کہ میں بھی جا رہا ہوں پھر ہم ساتھ ساتھ ہی چلے گئے تھے۔ رانا مقبول نے پہلے ہی سب کو ہدایات دے رکھی تھیں۔ بشیر میمن کو بھی نہیں پتہ تھا کہ اصل بات کیا ہے۔‘

مگر اکبر آرائیں کے اس موقف کے جواب میں رابطہ کرنے پر سابق آئی جی سندھ اور نواز شریف کی مسلم لیگ نون کے سینیٹر رانا مقبول نے یکسر انکار کیا کہ وہ جنرل مشرف کو گرفتار کرنا چاہتے تھے۔

رانا مقبوال احمد
رانا مقبول احمد

رانا مقبول نے کہا ’نہیں۔۔۔ بالکل نہیں۔ یہ بات عدالت میں بھی آئی۔ اب میں وضاحت کر دوں۔ انھوں (جنرل مشرف یا فوج کی جانب سے) نے ویڈیو پیش کی عدالت میں۔ میرے وکیل نے کہا کہ اگر آپ ایک بھی سپاہی ایئرپورٹ کے اندر جاتا دکھا دیں اس ویڈیو میں تو رانا مقبول ذمہ دار ہیں۔ ویڈیو دکھائی گئی اس میں تھا ہی کوئی نہیں۔‘

جب رانا مقبول سے پوچھا گیا کہ پھر پولیس کے تمام افسران کو کیوں حکم دیا گیا تھا کہ ایئرپورٹ پہنچیں تو رانا مقبول نے کہا کہ ’اس طرح کی صورتحال میں جلوس نکل آتے ہیں، عوام باہر آ جاتے ہیں۔ اتنی بڑی ہنگامی صورتحال جو ہو گئی تھی تو اسے سنبھالنے کے لیے پولیس بلوائی گئی تھی۔ وہ تو ایک پیشہ ورانہ زاویہ تھا۔‘

رانا مقبول نے وضاحت کی کوشش کی مگر یہ وضاحت نہیں کی کہ صرف ایئرپورٹ پر ہی صورتحال سنبھالنے کی کیا ضرورت محسوس کی گئی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں رانا مقبول کا کہنا تھا کہ نہ انھوں نے اکبر آرائیں کو گرفتار کرنے کا کہا اور نہ یہ ایسی ہدایات تھیں۔ ’نہ یہ ہو سکتا تھا اور نہ یہ کرنا چاہیے تھا۔ پولیس کے پاس کوئی احکامات نہیں تھے گرفتاری کے۔‘

’ہم کوئی بیوقوف ہیں جو فوج کے کسی افسر کو حراست یا تحویل میں لینے کی کوشش کریں گے۔ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا اور نہ کرنا چاہیے تھا اور نہ ایسی کوئی ہدایات تھیں اور اگر یہ فوج کے سربراہ کے خلاف ایک براہ راست جرم تھا تو پھر یہ عدالت میں ثابت کیوں نہیں ہوا؟ انھوں نے سارے بندے اپنی حراست میں رکھے تو پھر ثابت کیوں نہیں ہوا ؟‘ رانا مقبول نے سوال کیا۔

’عدالت ہمارے ساتھ تھوڑی تھی۔ جہاں فوج کا سربراہ مدعی ہو وہاں کوئی کسی کی بات سُنتا ہے۔ اس کے باوجود یہ عدالت میں ثابت نہیں ہوا اور نہ تھا۔ اگر ایسا تھا تو پھر ہم چھوٹ کیسے گئے؟‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اُس دن تو کیا اس سے مہینہ بھر پہلے تک میری وزیراعظم سے بات ہی نہیں ہوئی۔ بالکل نہیں ہوئی۔ کہانیاں بنا لینا الگ بات ہے۔ یہ بات عدالت میں آئی یہ الزام لگا کہ وزیراعظم نے اپنے سٹاف افسر کو کہا کہ آپ آئی جی سندھ سے بات کریں۔ وہ افسر استغاثہ نے عدالت میں پیش کیا تو اس نے کہا کہ مجھے یہ نہیں کہا گیا تھا کہ آپ آئی جی سندھ سے بات کریں بلکہ شہباز شریف نے انھیں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے آئی جی پنجاب سے رابطہ کرنے کی ہدایات دیں۔ اس افسر نے کہا کہ اس سے کسی نے آئی جی سندھ سے رابطہ کرنے کے لیے نہیں کہا۔‘

اے ڈی خواجہ
اے ڈی خواجہ

مگر رانا مقبول کے دعوے کی تردید اور اکبر آرائیں کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے اس وقت کراچی کے پانچ ایس ایس پی پولیس میں سے کم از کم دو نے الگ تفصیلات بتائیں۔

ان اعلیٰ افسران میں سے ایک نے جو اب بھی ایک بہت اہم عہدے پر فائز ہیں بتایا کہ اس سے کئی دن پہلے سے وہ طبیعت میں خرابی محسوس کر رہے تھے اور گھر سے کام کر رہے تھے۔ جب رانا مقبول کی جانب سے اے پی سی لے کر ایئرپورٹ پہنچنے کے احکامات ملے تو انھوں نے اپنے ماتحت افسر کو ہدایت کی کہ ’اے پی سی لے کر تم جاؤ ایئرپورٹ پر مگر کچھ ایسا مت کرنا جو (قانونی طور پر) درست نہ ہو۔ میں نے اسے کہا کہ آنکھیں کھلی رکھنا اور یہی ہوا وہ گیا اور اس نے وہی کیا جو کرنا چاہیے تھا۔ کسی پولیس افسر نے کوئی غیر قانونی قدم نہیں اٹھایا اس روز۔‘

ایک اور افسر (جو اس وقت کراچی کے پانچ میں سے ایک ایس ایس پی تھے) نے بتایا کہ ’میں تو اے پی سی لے کر ایئرپورٹ پہنچنے کی آئی جی رانا مقبول کی ہدایت ملنے کے وقت بہت دور تھا ایئرپورٹ سے۔ تو میں نے ڈرائیو کرنا شروع تو کیا مگر ظاہر ہے کہ مجھے وقت لگا۔ یہ تو اکبر آرائیں صاحب سمیت کسی کو بھی نہیں پتا تھا کہ وہاں پہنچنے پر کرنا کیا ہے یا رانا مقبول کیا چاہتے ہیں، مگر جب میں ایئرپورٹ پر پہنچا تو پتہ چلا کہ رانا صاحب یہ چاہتے ہیں کہ ہم (جنرل مشرف کے) جہاز کو اترنے ہی نہ دیں۔ ہم سب باہر کھڑے تھے۔ اندر تو گئے ہی نہیں۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ لینڈ نہیں کرنے دینا۔ تو ہماری تو بات ہی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے اور اس سے ہمارا (پولیس کا) کیا تعلق ہے کہ جہاز کو لینڈ نہیں کرنے دیں، یہ تو ہمارا کام ہی نہیں تھا۔‘

سابق افسر نے دعویٰ کیا کہ ’یہ بات کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ جہاز لینڈ نہیں کرے گا۔ رانا صاحب ایئر سٹرپ پر جانا چاہتے تھے تاکہ جہاز کو لینڈ ہونے سے روک سکیں۔ ایسا کیسے ہو سکتا تھا۔ رن وے پر آپ کیسے جا سکتے ہیں، کسی کو اجازت ہوتی ہی نہیں۔ وہ ہماری حدود ہی نہیں۔ اب اگر ہم افسران چلے بھی جاتے تو کیا کر لیتے؟ اگر جانے کی کوشش کرتے تو فائرنگ ہو جاتی دو چار بندے مر جاتے تو ایسی بیوقوفی ہم کیسے کرتے؟‘

ان کے مطابق ’سب سمجھداری کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ سب کو پتہ تھا کہ ہمیں یہ سب نہیں کرنا اور نہ ہم کر سکتے ہیں اور نہ کسی نے کیا۔صرف رانا مقبول ہی تھے وہاں باقی سب کو عقل آ گئی تھی۔ آج بھی کوئی نہیں کرے گا۔ ہاں اگر کوئی یہ حکم دے کہ گورنر ہاؤس یا چیف منسٹر ہاؤس ٹیک اوور کر لو تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ہماری حدود ہوتی ہیں مگر ایئرپورٹ تو فوج کا علاقہ ہوتا ہے، اے ایس ایف کی ذمہ داری ہوتی ہے سکیورٹی۔ تو کیا ہم ان سے لڑتے یا گولی چلاتے کہ نہیں آج پولیس سنبھالے گی ایئرپورٹ کو۔ کون مانے گا ایسی بات؟ تو کسی نے نہیں مانی۔‘

ثنا اللّہ عباسی
ثنا اللّہ عباسی

دیگر فوجی و پولیس افسران اس دن کے بارے میں برسوں تک جو تفصیلات بتاتے رہے اور آج بھی بتاتے ہیں ان کے مطابق ڈی آئی جی اکبر آرائیں اور آئی جی رانا مقبول کے درمیان ایئر پورٹ کے اندر جا کر جنرل مشرّف کو گرفتار کرنے یا جہاز کو اترنے کی اجازت نہ دینے کے معاملے پر بحث تلخ کلامی تک بھی پہنچی تھی۔

سابق فوجی اور پولیس حکام کے مطابق رانا مقبول کی جانب سے جنرل مشرف کے خلاف کارروائی کی یہ کوشش صرف کراچی تک ہی محدود نہیں تھی۔ ’ایس پی نوابشاہ کو بھی ہدایت کی گئی تھی کہ اگر جنرل مشرّف کا طیارہ وہاں اترے تو بھی جنرل مشرف کو گرفتار کر لیا جائے۔‘

رانا مقبول اس سے بھی انکار کرتے ہیں۔ ایس پی نوابشاہ کو ہدایت دینے کے بارے میں انھوں نے کہا ’بعد میں کہانیاں بنانا اور ہے، حقائق کچھ اور ہیں۔‘

ایک فوجی افسر نے کئی برس پہلے مجھ سے گفتگو میں بڑے طنز بھرے لہجے میں کہا تھا کہ ’ہمارے چیف کے دفتری عملے کا سربراہ یعنی آرمی چیف کا چیف آف سٹاف بھی رینک میں آئی جی سے بڑا ہوتا ہے۔ وہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ ایک ایس پی کی سطح کا افسر کسی فوجی افسر وہ بھی آرمی چیف کے خلاف کوئی کارروائی کر سکتا ہے؟‘

رانا مقبول یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ فوج نے تو پہلے ہی (اقتدار پر قبضے کی) منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔

رانا مقبول نے دعویٰ کیا ’جہاز کی لینڈنگ کا وقت تو تھا سات بج کر پانچ منٹ پر، مگر جی او سی کراچی جنرل افتخار پہلے ہی یعنی پانچ کر بیس منٹ پر ہی ایئرپورٹ کو ٹیک اوور کر چکے تھے۔‘

لیکن دیگر پولیس اور فوجی افسران کے مطابق جب رانا مقبول اور ڈی آئی جی اکبر آرائیں کے درمیان احکامات ’غیر قانونی‘ ہونے کے معاملے پر تلخ کلامی ہوئی اور باقی ایس ایس پی افسران بھی رانا مقبول کو اپنی بات مانتے نظر نہیں آئے تو انھوں نے حکمت عملی تبدیل کرنی چاہی۔

ایک افسر نے بتایا کہ ’تب تک فوج ہوائی اڈے کا کنٹرول سنبھال چکی تھی اور وہاں موجود تمام اداروں کو غیر فعال کیا جا چکا تھا۔ اور جب جنرل مشرف کا طیارہ اتروایا گیا تب تک رانا مقبول وہاں سے جا چکے تھے اور فوجی حکام نے وہاں موجود تمام پولیس افسران کو ملیر کینٹ چلنے کی ہدایت کی جو دراصل ایک طرح کی تحویل ہی سمجھ لیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے بشیر میمن کو شکریہ کہنے کے لیے فون کیا ہو گا تو وہ کسی فوجی افسر نے ہی اٹھایا ہو گا۔‘

اعلیٰ حُکام کے مطابق 12 اکتوبر کی رات بھر تمام پولیس افسران کو ملیر گیریژن میں روک کر رکھا گیا۔

’سوائے میرے،‘ ایک سابق ایس ایس پی نے کہا۔ ’کیوں کہ میں تو وہاں پہنچا ہی نہیں تھا۔ میں تو صحت کی خرابی کی وجہ سے گھر پر تھا میرا ماتحت وہاں تھا۔ تو پھر میری تلاش بھی شروع ہوئی کہ میں کہاں ہوں اور میرے موبائل فون پر کسی نامعلوم نمبر سے کال آئی میں نے فون ریسیو کیا تو مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ کہاں ہیں؟ میں نے کہا کہ گھر پر ہوں تو تصدیق کے لیے کہ میں واقعی گھر پر ہوں انھوں نے کہا کہ اچھا تو ہم آپ کے گھر کی لینڈ لائن پر کال کر رہے ہیں آپ اٹھائیے۔ جب گھر کے فون پر بھی کال میں نے ہی ریسیو کی تب جا کر انھیں یقین آیا کہ میں تو واقعی گھر پر ہوں،‘ سابق ایس ایس پی نے دعویٰ کیا۔

بکتربند گاڑی

بہرحال سب پولیس افسران سوائے رانا مقبول کے رات دیر گئے تک ملیر کینٹ میں تھے اور صبح پانچ بجے کے قریب تمام چھان بین کے بعد کہ کوئی بھی پولیس افسر جنرل مشرّف کے خلاف یا نواز شریف کی ہدایت پر کوئی قدم نہ اٹھا سکے، سب کو اپنے اپنے دفاتر جانے کی اجازت دی گئی،‘ سابق ایس ایس پی نے بتایا۔

اب فوجی حُکام کو آئی جی رانا مقبول کی تلاش تھی جو پولیس اور فوج کے حُکام کے دعوؤں کے مطابق نواز شریف کی ہدایت پر ایئرپورٹ پر کوئی کارروائی کرنا چاہتے تھے۔

بعض افسران نے دعویٰ کیا کہ رانا مقبول ایئرپورٹ سے نکل کر اپنے دیرینہ دوست چوہدری شریف (سابق افسر ایف آئی اے) کی رہائش گاہ پہنچے تھے مگر جلد ہی ان کو تلاش کر لیا گیا اور بالآخر فوجی حُکام نے رانا مقبول کو گرفتار کر لیا۔

رانا مقبول نے یہ تفصیلات سُن کر گرفتار ہونے کی تصدیق تو کی لیکن اس بات سے انکار کیا کہ وہ کہیں روپوش ہونا چاہتے تھے یا جنرل مشرِف کے خلاف نواز شریف کی ہدایت کے مطابق کوئی کارروائی کرنا چاہتے تھے۔

رانا مقبول نے کہا ’اس بات کا کیا تعلق ہے کہ میں کہاں چلا گیا تھا۔ اس طرح کے پاگل پن میں لوگ مر بھی جاتے ہیں۔ تو میں نے تو پہلے یہ دیکھا کہ کیا ہو رہا ہے پھر میں سیدھا آئی جی ہاؤس آ گیا۔ پھر میں نے اسد اشرف ملک (پولیس افسر جنھیں اس رات ہی رانا مقبول کی جگہ فوجی حُکّام کی جانب سے آئی جی سندھ کا چارج دیا گیا تھا) کو بلوایا اور ساتھ ہی رینجرز کے کرنل بٹ بھی تھے اور جاوید اقبال (سینیئر پولیس افسر جنھیں فوجی افسران نے ڈی آئی جی کراچی کا چارج دیا تھا) بھی تھے۔

’پھر ہم آئی جی سندھ کی سرکاری گاڑی میں بیٹھے اور ملیر کینٹ کے میس چلے گئے۔ پھر پورا مہینہ کسی کو بھی نہیں پتا چلا کہ میں کہاں ہوں سوائے میرے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن ظفر علی شاہ نے کی حبس بے جا کی۔ اس کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی اور پھر مجھے ریمانڈ کے لیے عدالت لایا گیا تو ایک ماہ بعد ہم نے دن کی روشنی دیکھی۔‘

’ریمانڈ کے بعد دوسرے دن رات کو تین بجے ایم پی ایز ہوسٹل لے جایا گیا۔ ایک رات وہاں رکھا اور دوسری رات پھر تین بجے ہمیں انھوں نے رات کو نکالا اور پھر ہمیں رینجرز کی بیرک میں لے جایا گیا جو 1945 کے بعد پہلی دفعہ کھلی تھی۔ وہاں ہمارا ریمانڈ پورا ہوا اور پھر عدالت نے ہمارا جوڈیشل ریمانڈ دیا تو ہم لانڈھی جیل چلے گئے اور وہاں چھ ماہ رہے،‘ رانا مقبول نے بتایا۔

مشرف

دراصل رانا مقبول اکیلے افسر نہیں تھے جو جنرل مشرف کے خلاف نواز شریف کی ہدایت پر ’سازش‘ کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن امین اللّہ چوہدری بھی زیر حراست رہے اور جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضے کے بعد جب کراچی میں قائم کی جانے والی جسٹس رحمت حسین جعفری کی انسداد دہشت گردی عدالت میں مقدمہ چلا تو امین اللّہ چوہدری نواز شریف کے خلاف وعدہ معاف یعنی سرکاری گواہ بن گئے اور مقدمے میں نواز شریف کا موقف کمزور ہوتا گیا۔

جنرل مشرف کے خلاف سازش کے الزام میں نواز شریف کو دو بار عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ شریک ملزمان میں نواز شریف کے بھائی اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، رانا مقبول اور کئی دیگر بھی شامل رہے۔

رانا مقبول کا موقف ہے کہ فوج نواز شریف کو معزول کرنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا ارادہ پہلے سے رکھتی تھی۔ ’ہم تو شہر کا امن و امان قائم رکھنا چاہتے تھے۔ مقدمہ تو انھوں نے بنا لیا اور جب آرمی چیف جیسا مدعی ہو اور پھر مقدمہ کامیاب نہ ہو تو آپ دیکھ لیں پھر اس میں کیا ہو گا۔‘

بعد کے واقعات کے مطابق میاں نواز شریف کو سُنائی جانے والی اس سزا کے بعد سعودی عرب کے ولی عہد کا ایک طیارہ پاکستان پہنچا جس میں نواز شریف کے خاندان کے تمام افراد سمیت سعودی دارالحکومت جدہ پہنچا دیا گیا جہاں وہ آنے والے کئی برس تک شاہی مہمان کے طور پر سرور پیلس میں قیام پذیر رہے اور یہاں پاکستان میں رانا مقبول سمیت تمام افراد عدالتی کارروائی کے بعد رہا کر دیے گئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *