بھاسن چار بنگلہ دیش کا وہ جزیرہ جو روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے’جیل‘ سے کم نہیں
جب دلارا بنگلہ دیش کے ساحل پر اتریں تو انھوں نے ملائیشیا میں نئی زندگی کے خواب دیکھے تھے۔
وہ اس کشتی میں یہاں پہنچی تھیں جس پر سینکڑوں افراد بھیڑ بکریوں کی طرح سوار تھے۔ کئی دن کے سفر کے بعد جہاں ان لوگوں کو لے جایا گیا، وہ ایک مختلف دنیا تھی۔
ان لوگوں کو لانے والے افراد نے اس پورے گروپ کو ایک جزیرے پر چھوڑ دیا جو خلیج بنگال میں کہیں واقع ہے اور جہاں سے فرار ہونا نا ممکن ہے۔
دلارا ایک غیر شادی شدہ لڑکی، جو شام ہونے کے بعد اپنے کمرے سے باہر جانے سے ڈرتی ہیں، نے بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں کہا ’مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کتنا عرصہ یہاں رہنا پڑے گا۔ اب میرے پاس کوئی راستہ نہیں بچا۔ میں یہاں بوڑھی ہو جاؤں گی اور شاید اب یہاں ہی مر جاؤں گی۔‘
بھاسن چار زمین کا ایک ٹکڑا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ 40 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اور چار سمندروں کے درمیان واقع ہے۔ اب تک یہاں صرف ماہی گیر ہی تھوڑی دیر قیام اور آرام کرتے تھے۔
بنگلہ دیش کی انتظامیہ نے کاکس مارکیٹ میں زیادہ تعداد میں پناہ گزین کیمپوں کے مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔
کاکس بازار قریب 10 لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کا گھر ہے۔ ان افراد میں سے زیادہ تر لوگ میانمار (برما) میں ہونے والے نسلی حملوں سے اپنی جانیں بچانے کے بعد سنہ 2017 میں یہاں آئے تھے۔ اقوام متحدہ نے میانمار کی فوج کے ان حملوں کو ’نسل کشی کی ایک واضح مثال‘ قرار دیا۔
لیکن یہ مہاجر کیمپ جنھیں روہنگیا مسلمانوں نے کچھ سال پہلے اپنا گھر بنایا تھا، اب بنگلہ دیش کی انتظامیہ کے مطابق جرائم کا گڑھ بن چکے ہیں۔
بھاسن چار کو، جو بنگلہ دیش نے 350 ملین ڈالر خرچ کر کے مہاجرین کے لیے تیار کیا، ایک نئی شروعات کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ ایک جزیرہ ہے جو 15 برس پہلے سمندر سے باہر آیا۔
لیکن بی بی سی کے ساتھ فون پر گفتگو کرنے والے مہاجرین ایک الگ ہی کہانی سناتے ہیں۔
ایک مہاجر نے بتایا کہ یہ ایسی جگہ ہے جہاں کام نہیں ہوتا۔ یہاں بہت کم سہولیات ہیں اور اچھے مستقبل کی کوئی امید نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ اس جگہ سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں انھیں پکڑ کر مارا پیٹا جاتا ہے۔ یہاں رہنے والے مہاجرین نے بڑھتے ذہنی تناؤ کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑا بھی شروع کر دیا ہے۔
خوفناک بات یہ ہے کہ یہ جزیرہ سطحِ سمندر سے صرف چھ فٹ بلند ہے اور لوگوں کو خوف ہے کہ کوئی بڑا طوفان انھیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔
بی بی سی کو پچھلے سال اس جزیرے کا دورہ کرنے کا موقع ملا تھا تاہم اس وقت یہ بتانا مشکل ہے کہ اب وہاں کیسے حالات ہیں۔
بھاسن چار جزیرہ بنگلہ دیش کی سرزمین سے 60 کلومیٹر دور ہے اور یہاں کسی بھی صحافی، بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو آزادانہ طور پر جانے کی اجازت نہیں۔
اس رپورٹ میں رازداری کو برقرار رکھنے کے لیے لوگوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
’بہت ویران جگہ‘
جب دسمبر میں حلیمہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ بھاسن چار پہنچی تو ان کا حمل آخری مراحل میں تھا۔
وہ یہاں آنے والی رات کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں سوچ رہی تھی کہ ہم یہاں کیسے زندہ رہیں گے۔ یہ ایک ویران جگہ ہے جہاں ہمارے سوا کوئی نہیں۔‘
’اس تنہائی کا احساس اس وقت اور بڑھ گیا جب اگلے ہی دن مجھے زچگی کا درد شروع ہوا اور ڈاکٹر یا نرس ملنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ میں نے پہلے بھی بچوں کو جنم دیا تھا لیکن اس بار یہ بہت خوفناک تھا۔ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی کہ مجھے کتنی تکلیف ہوئی۔‘
ان کے شوہر عنایت نے اسی بلاک میں رہائش پذیر ایک روہنگیا خاتون سے مدد مانگی جن کو آیا کے کام کا تھوڑا تجربہ تھا۔
حلیمہ کہتی ہیں کہ ڈیلیوری میں اس خاتون نے میری مدد کی۔ ان کی ایک بیٹی ہوئی جس کا نام انھوں نے فاطمہ رکھا۔
عنایت کہتے ہیں کہ نئی زندگی کی امید میں وہ اپنے خاندان کو بتائے بغیر اس جزیرے پر آنے پر راضی ہو گئے تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بنگلہ دیشی حکام نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ ہر خاندان کو زمین کا ایک پلاٹ ملے گا۔ گائے اور بھینسیں ملیں گی اور کاروبار شروع کرنے کے لیے قرض بھی فراہم کیا جائے گا۔
تاہم حقیقت اس سے بہت مختلف تھی۔ پھر بھی حلیمہ خوش ہیں کہ انھیں بنیادی سہولیات جیسے صاف پانی، بستر، گیس کا چولہا اور بیت الخلا میسر ہیں۔
سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہاں رہنے والے کھانے کی بنیادی اشیا کے علاوہ کچھ نہیں خرید سکتے ہیں۔
چاول، دال اور تیل جیسی چیزیں بھاسن چار میں رہنے والے خاندانوں کو دی جاتی ہیں لیکن انھیں کھانے پینے کی دوسری چیزیں جیسے سبزیاں، مچھلی اور گوشت خریدنا پڑتا ہے۔
بھاسن چار میں مارکیٹ نہیں لیکن کچھ بنگلہ دیشیوں نے یہاں دکانیں کھول رکھی ہیں۔
یہاں فیری (کشتی تک رسائی) کی کوئی سہولت موجود نہیں اور بحریہ صرف مہاجرین کو لانے کی خدمات انجام دیتی ہے۔
حلیمہ کہتی ہیں کہ ہم غریب لوگ ہیں اور ہمارے پاس کھانے پینے یا دوسری چیزیں خریدنے کا کوئی راستہ نہیں۔
’یہاں احتجاج بھی ہوئے ہیں‘
فروری میں اس جزیرے پر ہونے والے پہلے احتجاج کی وجہ خوراک تھی۔
بی بی سی کو ملنے والی کچھ ویڈیوز میں روہنگیا خواتین اور مرد دوڑتے اور چیختے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں تاہم بنگلہ دیشی حکام نے واقعے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔
بنگلہ دیش میں پناہ گزین کیمپوں کے انتظام کی نگرانی کرنے والے کمیشن (آر آر آر سی) کے سربراہ شاہ رضوان حیات کا کہنا ہے کہ ’یہ مظاہرہ نہیں تھا۔‘
لیکن مہاجرین کے مطابق بھاسن چار میں رہنے والے لوگوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے اور کچھ لوگ یہاں سے فرار ہونے کے لیے اپنی زندگیوں کو بھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔
بھاسن چار میں رہنے والے مہاجر سلام کا کہنا تھا کہ ’بہت سے لوگوں نے جزیرے سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ میرے علم میں اب تک کم سے کم 30 افراد جزیرے سے چلے گئے ہیں۔ میں نے ایک واقعے کے بارے میں سنا ہے، جس میں پانچ افراد اس جزیرے سے فرار ہونے کی کوشش میں پکڑے گئے اور انھیں پولیس کیمپ لے جا کر مارا پیٹا گیا۔‘
بنگلہ دیشی پولیس پر مہاجرین کے خلاف تشدد کا یہ واحد الزام نہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ بھاسن چار میں بچوں کو ان کے مخصوص مقام سے باہر آنے پر سزا دی گئی تھی۔
12 اپریل کو بنگلہ دیشی نیوی کے ایک اہلکار نے دوسرے کمرے میں رہنے والے بچوں کے ساتھ کھیلنے جانے والے چار بچوں کی مبینہ طور پر پائپ سے پٹائی کی۔
سلام کہتے ہیں کہ ’تناؤ کی وجہ سے مہاجرین میں اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ مہاجر کیمپوں میں روزانہ لڑائی ہوتی ہے۔ اگر آپ مرغیوں کو گاڑیوں میں بند کر دیں اور انھیں کھانا نہ دیں تو کیا ہو گا۔۔۔ وہ آپس میں لڑنا شروع کر دیں گی۔‘
بنگلہ دیش کی بحریہ جو اس کیمپ میں پناہ گاہیں بنانے کی ذمہ دار ہے، کسی بھی طرح کے مظالم اور ہراس کی تردید کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ ان الزامات کی تصدیق نہیں کر سکے ہیں تاہم اقوام متحدہ چاہتا ہے کہ اس کیمپ کا انتظام بحریہ کے بجائے شہریوں کو دیا جائے تا کہ یہاں ہر چیز قابل فہم اور آسان ہو۔
دوسری طرف بنگلہ دیش کی حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ بھاسن چار میں مقیم 18400 مہاجرین اور جلد ہی یہاں آنے والے دوسرے مہاجرین کو کمانے کے ذرائع فراہم کیے جائیں گے۔
حکومت نے کہا ہے کہ وہ 40 سے زیادہ غیر سرکاری تنظیموں کی درخواستوں پر غور کر رہی ہے۔
’ایک بڑی جیل‘
حلیمہ کہتی ہیں کہ وہ چیزوں کے بہتر ہونے کے انتظار میں اب تھک چکی ہیں۔
وہ واپس برما، جہاں کئی دہائیوں سے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، نہیں جانا چاہتیں لیکن وہ بھاسن چار میں بھی نہیں رہنا چاہتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’میں کبھی بھی ایسی جگہ پر نہیں رہی تھی۔ یہاں آس پاس سمندر ہے اور ہم یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس جانے کی کوئی جگہ نہیں۔‘
نوجوان مہاجر خاتون دلارا، جو ملائشیا جانے کی کوشش کر رہی تھیں، کا کہنا ہے کہ وہ خوفزدہ اور تنہا ہیں لیکن وہ کاکس بازار کے پناہ گزین کیمپ میں مقیم اپنے والدین سے رابطہ نہیں کرنا چاہتیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے والدین پریشان ہوں۔
عنایت نے ایک جملے میں اپنی پریشانی کو کچھ یوں بیان کیا: ’اگر آپ اپنے خاندان کے ساتھ کسی بڑی جیل میں رہنا چاہتے ہیں تو یہ جزیرہ آپ کے لیے بنایا گیا ہے۔