امریکی پناہ گزیں کیمپوں کے بچے: گندگی کے ماحول

امریکی پناہ گزیں کیمپوں کے بچے: گندگی کے ماحول

امریکی پناہ گزیں کیمپوں کے بچے: گندگی کے ماحول، خوف اور ان سے برتی گئی غفلت کی کہانیاں

امریکہ میں حراستی کیمپوں کا ملک بھر میں ایک بہت ہی وسیع سطح پر پھیلا ہوا نظام ہے، جس میں بیس ہزار کے قریب تارکین وطن کے بچوں کو رکھا گیا ہے۔ بی بی سی کی ایک خصوصی رپورٹ میں ایسے حراستی کیمپوں کے عملے اور ان میں رکھے گئے بچوں نے انٹرویوز میں ان کیمپوں میں سردی، بیماریاں، غفلت، سروں میں جوئیں، ماحول میں گندگی کے الزامات بیان کیے ہیں۔

یہ ریو گرانڈے میں نصف شب کا وقت تھا۔۔۔ ہیبت ناک دریا جو امریکی ریاست ٹیکساس اور ہمسائیہ ملک میکسیکو کے درمیان ایک سرحد ہے۔۔۔ اُس وقت میکسیکو کی سرزمین پر روشنیاں جلنے بُھجنے لگیں۔ اندھیرے میں لوگوں کی آوازیں بھی سُنی جاسکتی تھیں۔ پھر چند سائے نمودار ہونا شروع ہوئے، انھوں نے لکڑیوں کے چھوٹے چھوٹے بیڑوں کی صورت اختیار کر لی، اور پھر انھوں نے دریا عبور کرنا شروع کردیا

جب یہ بیڑے دریا عبور کر کے امریکہ کی حد میں داخل ہوگئے، تو ان پر سوار تارکینِ وطن کے چہرے نظر آنا ہونا شروع ہو گئے۔ ان میں آدھے سے زیادہ بچے تھے۔ صرف مارچ اور اپریل کے مہینوں میں 36000 ہزار سے زیادہ بچوں نے اپنے کسی بڑے کے بغیر یہ سرحد عبور کی تھی۔ حالیہ برسوں میں اتنی زیادہ تعداد ایک ریکارڈ تھی۔

ان میں سے کئی بچے ایسے تھے جن کے والدین میں سے کوئی ایک پہلے ہی سے امریکہ میں موجود تھا اور یہ ان کے پاس پہنچنے کی امید رکھتے تھے۔ امریکی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، ان میں 80 فیصد بچے ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار امریکہ میں موجود ہوتا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے ایسے بچوں کے لیے سرحدیں کھولنے کا اعلان کیا ہے جو امریکہ میں پناہ کے لیے آنا چاہتے ہیں، یہ ایک لحاظ سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کی نسبت ایک نرم پالیسی ہے جس میں کوویڈ-19 کی وجہ سے ایسے پناہ گزینوں کو واپس بھیج دیا جاتا تھا۔

ان تھکے ماندے بچوں نے دریا عبور کرنے کے بعد کنارے تک پہنچنے کی کوشش کی۔ دو رشتہ کے بھائیوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ ایک اور نوجوان، جورڈی، نے کہا کہ وہ گوئیٹے مالا کے بدمعاشوں کہ گینگز کے تشدد کے خوف سے ڈر کر بھاگا تھا۔ لیکن اُس رات وہ اس بات سے خوف زدہ تھا کہ اُس رات امریکی حراستی کیمپ میں اُس کے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔ اس نے بتایا کہ اُس نے ان کیمپوں کے بارے میں کئی کہانیاں سن رکھی تھیں۔

اس نے کہا کہ ‘وہ ہمیں برف خانے میں رکھیں گے اور ہم سے تفتیش کریں گے۔’

یہ مبینہ ‘برف خانے’ جو تارکینِ وطن میں بہت بدنام تھے، اصل میں امریکی بارڈر پولیس کے یہ بہت ہی ٹھنڈے کمرے یا کیوبیکلز تارکین وطن کے معاملات کو نمٹانے کے لیے ہوتے ہیں۔

Jordy
جورڈی کا کہنا ہے کہ وہ بدمعاشوں کے گینگز سے بھاگنا چاہتا تھا۔

جورڈی کو بتایا گیا کہ وہ دوسرے بچوں کے ساتھ لائن میں شامل ہوجائے۔ امریکہ کے کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن (سی بی پی) کےگارڈز بچوں سے ان کے جوتے اور بیلٹیں لے رہے تھے، یہ عمل عام طور پر قیدیوں کے لیے مخصوص طریقہ تھا تاکہ وہ کیں اپنی جانیں نہ لے لیں۔

اس کے بعد رات کے وقت جورڈی اور دوسرے بچوں کو بس میں لے جایا گیا۔ اب وہ 20،000 سے زیادہ تارکین وطن بچوں کو امریکی حراست میں لے لیں گے۔ ملک بھر میں ایسے حراستی مرکز قائم ہیں اور ابھی حال ہی میں ان میں کم از کم 14 نئے حراستی کیمپوں کا اضافہ ہوا ہے۔

مارچ کے آخر میں، سی بی پی نے ٹیکساس کے شہر ‘ڈونا’ میں چلنے والے ایک حراستی کیمپ کے اندر بچوں کے ہجوم سے بھری ہوئی حالات کی پریشان کن تصاویر جاری کیں — اس چھوٹے سے شہر میں اونچے سفید خیموں کا ایک بڑا حصہ۔ اس کیمپ کو 250 افراد کو رکھنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا لیکن اس کی جگہ پر اب 4،000 سے زیادہ افراد رکھے ہوئے تھے۔

migrant kids in camps
مارچ کے اواخر میں دی ڈونا نامی عارضی حراستی کیمپ کی تصاویر۔

migrant kids in camps

Migrants at the US Customs and Border Protection temporary processing centre in Donna, Texas, 22 March 2021
عارضی طور پر قائم کیے گئے پلاسٹک کی شیٹوں سے بنائے گئے کیوبیکل جہاں لوگوں کو علحیدہ علحیدہ رکھا گیا تھا۔

صحافیوں کو اندر رکھے گئے بچوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بجائے ہم امریکی حراستی کیمپوں کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے، رہائی پانے والے بچوں کا سراغ لگا رہے ہیں۔

دس سالہ اریانی، جو اکیلے ہی امریکہ میں داخل ہوئی تھی، اس موسم بہار میں 22 دن ڈونا کے حراستی کیمپ میں رہیں۔ اسے پلاسٹک کیوبیکل میں بٹھایا گیا تھا۔ یہاں کم سن چھوٹے بچوں سے لے کر ذرا بڑی عمر کے بچے بھرے ہوئے تھے- انھیں چاندی کے رنگ کے ایمرجنسی کمبلوں میں لپیٹ کر رکھا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ‘ہم بہت سردی لگ رہی تھی۔ ہمارے پاس سونے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، لہذا ہم نے گدّوں میں ایک دوسرے سے جگہ شیئر کی۔ ہم دو گدوں پر پانچ لڑکیاں تھیں۔’

آخر میں مارچ کے آخر میں اریانی کا اپنی ماں سونیا سے ملاپ ہوگیا۔

اس نے اپنی والدہ سے رابطے کی تفصیلات امریکی عہدیداروں کے پاس بھیج دی تھیں جو انہیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ سونیا چھ سال قبل اجتماعی تشدد کی وجہ سے اپنی بیٹی کے ساتھ ہنڈوراس فرار ہوگئی تھی، اور اریانی – جو اس وقت سفر کرنے کے لیے بہت کم عمر کی تھیں، وہ اُسے اپنی بڑی بہن کے ساتھ وہیں چھوڑ آئی تھی۔

اس برس موسم بہار میں ڈونا میں 16 برس کی سِنڈی نے بھی کہا کہ اس کے کیوبیکل میں 80 لڑکیاں تھیں اور پائپ ٹپکنے کی وجہ سے وہ اور دیگر کئی بچے اپنے کمبلوں میں گیلے ہوجاتے تھے۔

اس نے بتایا کہ ‘ہم سب گیلے بیدار ہوتے۔ ہم ایک دوسرے کو گلے لگائے ہوئے اپنے پہلوؤں پر کروٹ لیے سوتے، لہذا ہم گرم رہتے۔’

Cindy
سِنڈی کو 80 بچیوں کے ہمراہ ایک کیوبکل (ٹھنڈے کمرے) میں رکھا گیا تھا۔

ڈونا سے رہا ہونے والی 16 سالہ اریانی اور پاؤلا سمیت متعدد بچوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں ایسا کھانا دیا جاتا تھا جو سڑ چکا ہوتا، یا بوسیدہ ہوا یا مناسب طریقے سے نہیں پکایا گیا ہوتا تھا۔

انھوں نے ہمیں بتایا کہ بہت سے بچے بیمار ہوگئے تھے۔

جینیفر، جو نظربندی کے وقت 17 سال کی تھیں، نے کہا کہ ‘کچھ لڑکیاں بے ہوش ہوگئیں تھیں۔’

ڈونا میں کچھ لڑکیاں ہفتے میں صرف ایک بار نہا سکتی تھیں، لیکن دوسروں کا کہنا تھا کہ وہ کئی کئی ہفتوں کے بعد نہا سکیں۔ پاؤلا کو تو غلاظت کے ماحول میں رہنا پڑا تھا۔

‘مجھے اپنے سر میں خارش محسوس ہونے لگی اور میں نے محسوس کیا کہ یہ معمول کی بات نہیں ہے۔ انہوں نے میرے سر کی جانچ کی اور مجھے بتایا کہ میرے سر میں جوئیں ہیں۔’

امریکی حراستی کیمپوں میں قید بچوں سے سنیے: ‘میں نے دن کی روشنی نہیں دیکھی۔’

ان بند جگہوں میں بچوں کے کھانے اور سونے سے کیوبیکلز بہت جلد ہی بدبو دار ہو گئے تھے۔ دس سالہ اریانی نے کہا کہ گارڈز نے بچوں کو دھمکی دی کہ اگر وہ اپنے تنگ کمروں کو صاف ستھرا نہ رکھیں گی تو انھیں سزا دی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ ‘بعض اوقات وہ ہمیں بتاتے کہ اگر ہم نے گڑبڑ کی تو وہ ہمیں مزید دن وہاں رکھ کر سزا دیں گے۔’

رات کے وقت بچوں نے کہا کہ ہر خیمے سے بچوں کے بلک بلک کر رونے کی آوازیں آتی تھیں۔

سنڈی نے کہا کہ ‘ہم سب روتے تھے، سب سے چھوٹے تھے۔ وہاں دو سالہ، یا ڈیڑھ سالہ بچے بھی تھے، کیونکہ وہ اپنی ماں کے پاس جانا چاہتے تھے، وہ رو رہے تھے۔’

پاؤلا نے کہا کہ اس نے چھوٹے بچوں کی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن انہیں یہ بھی خوف تھا کہ شاید وہ خود بھی اپنی ماں سے دوبارہ مل نہیں پائیں گی۔

Paola
سولہ برس کی پاؤلا نے بتایا کہ اُس نے دیگر ساتھیوں کا خیال رکھنے کی کوشش کی۔

’انھوں نے میرے سامنے پکارا اور میں نے انہیں صرف تسلی دینے اور انہیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ ایک دن ہم وہاں سے چلے جائیں گے — حالانکہ کبھی کبھی مجھے اندر سے شک ہوتا تھا، کیونکہ (وہاں کا عملہ) مجھ سے میری ماں کا نمبر نہیں مانگتا تھا، اس کا پتہ بھی نہیں، تب مجھے شک ہوتا تھا کہ ہم شاید یہیں رہیں گے۔‘

ہزاروں بچوں کو لے جانے والی پروازیں

اور پھر ایک دن سنڈی کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوگئی۔ اس کا کوویڈ-19 کا ٹیسٹ پوزیٹو آیا، کیونکہ حراست میں آنے والے تارکینِ وطن بچوں کی حیرت انگیز حد تک بہت زیادہ ہے۔ صحت اور انسانی خدمات انجام دینے والی تنظیم ‘ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز’ (ایچ ایچ ایس) نے گذشتہ سال سے صرف ٹیکساس میں تارکین وطن بچوں میں کورونا وائرس کے 3،000 سے زیادہ واقعات کی اطلاع دی۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ ملک بھر میں نئی ایمرجنسی حراستی مقامات میں کیسوں کی کل تعداد کیا ہے۔

آخر کار سنڈی کو، بغیر بتائے کہ وہ کہاں جارہی ہے، 40 دیگر کوویڈ مثبت بچوں کے ساتھ بس، پھر طیارے میں سوار کر کے کہیں اور منتقل کردیا گیا، اور 2،400 کلومیٹر (1،500 میل) دور کیلیفورنیا کے سان ڈیاگو بھیج دیا گیا۔ انہیں ایک نئے حراستی مرکز لے جایا گیا — ایک کنونشن سینٹر جس میں تقریبا 1500 بچوں کی گنجائش ہے، اور جس میں گھٹیا درجے کے بستروں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ کوویڈ سے متاثرہ بچوں سے الگ انھیں صحت مند بچوں میں رکھا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ ڈونا کے مقابلے میں یہاں حالات بہتر تھے، لیکن یہاں بھی ان کے نہانے کی باری کئی کئی دن بعد آتی تھی۔

presentational grey line

یہ بچے کون ہیں؟

  • ظلم، سماجی تشدد اور منظم جرائم، قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات (سن 2020 میں دو وسطی امریکی سمندری طوفان بھی شامل ہیں)، اور غربت سب کے سبب والدین اپنے بچوں کو امریکہ میں پناہ کے لیے بھیجنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ تارکین وطن ہونے والے بچے راستے میں عمومی زیاتیوں اور جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں
  • زیادہ تر نوجوانوں کا تعلق گوئٹے مالا، ہونڈوراس یا ایل سلواڈور سے ہوتا ہے، ان میں سے کچھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی چھ یا سات سال کی عمر ہوتی ہے
  • یا تو وہ اپنے طور پر رشتہ داروں کے ہمراہ بھیجے جاتے ہیں، یا ان اسمگلروں کے ہمراہ جو ہزاروں ڈالر وصول کرتے ہیں، اگرچہ چند رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ کچھ خاندان بچوں کے ساتھ سرحد پر جاتے ہیں اور پھر انہیں امریکہ میں داخل ہونے کے امکانات کو بہتر دیکھ کر تنہا بھیج دیتے ہیں۔
  • زیادہ تر بچوں کے رشتہ دار اور خاندان کے افراد پہلے ہی امریکہ میں موجود ہیں، جن میں سے نصف والدین ہیں
  • سنہ 2014 سے پناہ لینے والے غیر متوازن نابالغوں میں سے صرف 4.3 فیصد کو واپس ان کے ملک بھیجا گیا تھا
presentational grey line

ہر روز بچوں سے بھری ہوئی پروازیں امریکہ کے سرحدی شہروں سے روانہ ہوتی ہیں۔

پروازوں پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم، ‘وِٹنس ایٹ دی بارڈر’ کے تھامس کارٹ رائٹ نے کہا کہ ‘کچھ دنوں میں تو ہمارے اندازے کے مطابق سینکڑوں بچے ان پروازوں کے ذریعے ملک بھر میں منتقل ہو رہے ہیں۔’

A plane being loaded with migrant children
ایک طیارے میں بچوں کو سوار کیا جا رہا ہے۔

گذشتہ کچھ ہفتوں میں حکام نے ڈونا میں بارڈر پٹرولنگ کیمپوں سے تقریبا 3000 بچوں کو منتقل کیا ہے، اور بہت سے افراد کو ایچ ایچ ایس کے زیرانتظام ملک بھر میں بچوں کے حراستی مراکز کے ایک نئے نیٹ ورک میں منتقل کیا ہے، جس میں ایک سنڈی بھی شامل ہے جسے سان ڈیاگو میں منتقل کیا گیا تھا۔

امریکہ کے بڑے شہروں میں کم سے کم 14 ایسے مراکز موجود ہیں جو فوجی اڈوں، کنونشن سینٹرز، یا کھلے میدانوں میں قائم کیے گئے ہیں جنہیں ‘ایمرجنسی انٹیک سائٹس’ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ 22 ریاستوں میں پھیلے تارکین وطن بچوں کے لیے 200 حراستی مراکز کے نیٹ ورک کا ایک نیا حصہ ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈونا میں اب زیادہ ہجوم نہیں ہے، اس کیمپ میں قریب 300 بچے ہیں۔ اس سہولت میں توسیع کی جارہی ہے، کیونکہ سرحد پار سے تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

ایمرجنسی انٹیک سائٹس میں سے ایک سینٹرل ڈلاس میں ‘کے بیلی ہچسنسن کانفرنس سینٹر’ ہے، جس میں ایک بڑے ہال میں ایک گرڈ سسٹم میں 2،270 کیمپ بیڈز لگے ہوئے ہیں اور سیکڑوں نوعمر لڑکے، جن کی عمریں 13 سال سے 17 سال ہوتی ہیں، رکھے گئے ہیں۔

ڈلاس سائٹ میں کام کرنے والے عملے کا کہنا ہے کہ انہیں عدم انکشاف کے معاہدوں پر دستخط کرنے پڑتے ہیں جو اس بات کا ایک اشارہ ہے کہ وہ اندر کی باتوں کے بارے میں کوئی بات بیان نہیں کریں گے۔

خودکشی کی طرف مائل بچے

تاہم عملے کے چند افراد اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہم سے بات کرنے پر راضی ہوئے۔

عملے کے ایک ممبر نے بتایا کہ ‘بچے ہمیشہ ہر چیز کی کمی اور کافی مقدار میں نہ کھانے کی شکایت کرتے ہیں۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کنونشن ہال ٹھنڈا ہوتا تھا، لڑکوں کے پاس ایک ایک پتلا کمبل ہوتا تھا، اور انہیں تقریبا سارا دن اپنے کیمپ کے بستروں میں ہی رہنے کا حکم ہوتا تھا۔

عملے کے ممبر نے بتایا کہ ‘لڑکے وہاں سارا دن دھوپ کی روشنی، باہر تفریح اور تازہ ہوا سے محروم رہتے تھے۔‘

The moment Ariany reunited with her mother and brother
وہ لمحہ جب آریانی کی اپنی ماں اور ب ھائی سے جدائئ ختم ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ لڑکوں کو صرف ہفتہ میں دو بار اندر کمرے میں 30 منٹ کی تفریح کا موقع ملتا تھا جبکہ وہ ان مراکز میں کئی کئی ہفتوں سے رہ رہے تھے۔

‘وہ سب افسردہ ہیں۔ میں نے دوسرے دن سنا ہے کہ یہاں کے حالات کی وجہ سے متعدد افراد خود کشی کے بارے میں سوچتے ہیں۔’

عملے کے ارکان نے کہا کہ ‘ان کے ساتھ قیدیوں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے، جیسے کہ ہم قیدی ہوں۔ یہ پریشان کن بات ہے کہ یہ مرکز غیر اعلانیہ نابالغ بچوں کی دیکھ بھال کے کم سے کم معیاروں پر پورے نہیں اتر سکتے ہیں۔’

نئی حراست والے مقامات پر تارکین وطن بچوں کو نظرانداز کیے جانے کے الزامات کے جواب میں محکمہ صحت اور انسانی خدمات (ایچ ایچ ایس) نے کہا کہ ‘بچوں کو ایک محفوظ اور صحت مند ماحول مہیا کیا گیا ہے جس میں غذائیت سے بھرپور کھانا، صاف کپڑے، آرام دہ بستر، تعلیم، تفریحی سرگرمیاں، اور طبی خدمات مہیا کی جاتی ہیں۔’

بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ڈلاس ای آئی ایس (ایمرجنسی انٹیک سائٹ) دیکھ بھال کے مطلوبہ معیار پورے کررہی ہے۔’

محکمے نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ‘پوری انتظامیہ کی اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وفاقی تحویل بچوں کے قیام کو کم سے کم عرصے کے لیے کیا جائے۔’ انھوں نے مزید کہا کہ ایچ ایچ ایس کی دیکھ بھال میں بچوں کی تعداد دوگنا ہوچکی ہے۔’

بچوں کو باقاعدگی سے رہا کیا جارہا ہے، لیکن بہت سوں کے لیے یہ ایک انتہائی سست عمل ہے۔ ہنگامی مراکز میں نظربند رہنے کا اوسط وقت ایک مہینہ ہوتا ہے۔

سب سے بڑی ایمرجنسی انٹیک سائٹ، ٹیکساس کے ایل پاسو میں فورٹ بلیس فوجی اڈے میں ایک کرایہ کی سہولت میں حراستی مرکز قائم کیا گیا ہے، جو صحرا میں ہے اور اس میں 4،500 سے زیادہ بچے رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی گنجائش 10،000 سے زیادہ ہے۔

اندر کے ایک ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ کچھ خیموں میں 500-800 لڑکیاں اور لڑکے شامل ہیں جو لمبی قطار میں بنک بستروں (دو منزلہ بستر) پر سوتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سینکڑوں بچے کوویڈ کی وجہ سے قرنطینہ میں ہیں، اور اس جگہ پر وباؤں، خارش اور جوؤں سے متاثرہ بچوں کے لیے مخصوص کیمپس بھی موجود ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہاں کے حالات مضرِ صحت ہیں، اور لڑکیوں کے کیمپوں میں جنسی زیادتی کی کم از کم ایک اطلاع سامنے آئی ہے۔ ایک سرکاری دستاویز میں اشارہ کیا گیا ہے کہ چھ سال سے کم عمر بچوں کو فورٹ بلیس میں بھیجا جاسکتا ہے۔

ایچ ایچ ایس نے ان الزامات پر تبصرہ کرنے کے لیے بی بی سی کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

سرحد پر اذیت ناک ماحول

لاس اینجلس میں ملک کے دوسری طرف مقیم ایک ماہر نفسیات ایمی کوہن کو صدمے میں مبتلا بچوں کے ساتھ کام کرنے کا 30 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ کیمپوں میں مبینہ برے حالات لوگوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘ان حالات میں چند ہفتے گزارنے کے بعد بھی بہت سارے بچوں کو بعد میں ساری زندگی بڑی نفسیاتی بیماریوں کا خطرہ ہوتا ہے، جس میں منشیات کے استعمال کا خطرہ ہوتا ہے اور خود کشی کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔’

کوہن نے کہا کہ یہ تارکین وطن بچے اس سے بھی زیادہ خطرے سے دوچار ہوں گے کیونکہ بہت سے اپنے کسی رشتہ دار سے الگ ہو چکے تھے یا وہ سرحد پر کسی فرد کے کنبہ کے طور پر انحصار کرتے ہوئے آئے تھے وہ اُس سے بھی جدا ہو چکے تھے۔

’اگر کوئی بچہ کسی کے ساتھ آجاتا ہے جو ان کے حیاتیاتی والدین نہیں ہیں، چاہے وہ ان کے نفسیاتی والدین ہوں، ان کی جدائی بھی ایک ہی طرح کا صدمہ پہنچاتی ہے۔ انھیں کسی کی گود میں سے نکال لیا جاتا ہے، ان کے بازوؤں سے نکال لیا جاتا ہے، اور اسے ایک نگہداشت کے بغیر کا بچہ کہا جاتا ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ والدین کو اپنے بچوں سے اپنے آپ کو جدا کرنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے، کیونکہ جن خاندانوں کو واپس بھیج دیا جاتا ہے وہ میکسیکو کی سرحد کے ساتھ خطرناک شہروں میں اپنی فلاح و بہبود کو خطرے میں ڈالنے کی بجائے اپنے بچوں کو صرف سرحد کے اس پار بھیج دیتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہیں یہ بچے ریپ، اسمگلنگ اور جنسی حملے کا شکار ہوتی ہیں۔

‘لہذا جب یہ والدین اپنے بچوں کی حفاظت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو ان کی جان بچانے کے لیے ان بچوں کو دریا کے پار بھیجنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔’

کوہن نے کہا کہ اگرچہ اب سرحدی گارڈز کے ذریعہ بچوں کو ان کے حیاتیاتی والدین سے جسمانی طور پر نہیں لیا جارہا تھا — جیسا کہ سابق صدر ٹرمپ کی نام نہاد ‘مکمل عدم رواداری کی پالیسی’ (زیرہ ٹالرنس پالیسی) کے دور میں ہوا تھا۔ خاندانی جدائی کے عمل کو نفسیاتی طور پر بہت نقصان پہنچا تھا۔

‘میں نے ٹرمپ انتظامیہ کی ‘زیرو ٹالرنس’ پالیسی کے تحت والدین سے جدا کیے جانے والے بچوں کا انٹرویو لیا… اور میں نے ان بہت سارے بچوں کا انٹرویو کیا جن کو اب آنٹیوں، چچاوں، اور بہن بھائیوں سے چھین لیا گیا تھا… میں ان میں بالکل ویسا ہی صدمہ دیکھ رہی ہوں جیسا کہ ان بچوں میں ہم نے دیکھا تھا جنھیں ماں باپ سے چھینا گیا ہو۔’

سی پی بی نے بی بی سی کو بتایا کہ وفاقی قانون کے تحت والدین یا قانونی سرپرست کے بغیر پہنچنے والے کسی بھی بچے کو غیر متنازع سمجھا جاتا ہے اور اسے بالغ رشتے دار کے نہ ہونے کی صورت میں HHS میں منتقل کرنا ضروری ہے۔

presentational grey line

جو بائیڈن سابق صدر ٹرمپ کی پالیسیوں میں کیا فرق ہے

  • بائیڈن نے تارکین وطن پروٹیکشن پروٹوکول پروگرام معطل کردیا ہے، جسے میکسیکو میں رہنا بھی کہا جاتا ہے، جس کے تحت جب تک تارکین وطن کے کیسز پر امریکی امیگریشن عدالتوں کی سماعت جاری ہے وہ میکسیکو میں انتظار کریں۔
  • پہلے ہی پروگرام میں داخل ہونے والوں کو امریکہ میں انتظار کرنے کے لیے بتدریج داخل کیا گیا ہے جبکہ ان کے کیسوں کی سماعت جاری ہے، اور اس بات پر زور دیا کہ ان کی سرحد دوسروں کے لیے بند ہے۔
  • بائیڈن نے ان خاندانوں کو دوبارہ ملانے کے لئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو ٹرمپ کی نام نہاد ‘صفر ٹالرنس” کی پالیسی کے دوران ایک دوسرے سے جدا کردیے گئے تھے۔
  • میکسیکو کی سرحد کی دیوار کی تعمیر ملتوی کردی ہے اور ایک نیا امیگریشن بل تجویز کیا ہے جو پہلے سے ہی امریکہ میں مقیم غیر دستاویزی تارکین وطن کے لئے شہریت کا راستہ مہیا کرے گا۔
presentational grey line
Sonia and Ariany
سونیا کہتی ہے کہ اس کی بیٹی اریانی اب بہت زیادہ بدل چکی ہے۔

اریانی کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی ملنسار لڑکی تھی، حراست میں رہنے کے بعد سے اس کی شخصیت بدل گئی۔ ‘وہ بہت خاموش ہے، وہ بڑی مشکل سے بولتی ہیں۔ وہ اب دوسرے بچوں کو اپنے قریب کھڑا دیکھ نہیں سکتی ہے‘

بچوں کے صدمے کی ماہر امی کوہین نے کہا کہ ‘جن بچوں کی ہم زیادہ تر فکر کرتے ہیں وہی بچے خاموش ہوجاتے ہیں۔’ ان کا کہنا ہے کہ خاص طور پر سب سے کم عمر بچوں کے لیے خطرہ یہ ہے کہ ان کا ‘صدمہ ان کی شخصیت میں اندر چلا جاتا ہے، یہ سطح کے نیچے بارودی سرنگوں کی طرح بیٹھ جاتا ہے’۔

ان کی والدہ سونیا نے کہا کہ ‘اب اریانی کو خوفناک خواب آتے ہیں۔ وہ سونے سے بہت ڈرتی ہیں۔ وہ کبھی کبھار چیختے ہوئے اٹھ جاتی ہے۔’

پاؤلا نے بتایا کہ جب وہ رات اور دن کے وقت گھر آتی تھی تو روتی تھی، اور اسے نیند میں بھی دشواری ہوتی تھی۔

اُس نے کہا کہ ‘مجھے نہیں لگتا کہ اس ملک میں… کسی کے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جانا چاہیے۔’

‘کبھی کبھی میں نے اپنے آپ کو مضبوط ظاہر کرنے کی کوشش کی، کیوں کہ اس زندگی میں آپ کو مضبوط ہونا پڑتا ہے۔ لیکن اس طرح کا تجربہ ہمارے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے کیونکہ اگر ہم اس پر قابو بھی پا لیں تب بھی یہ صدمہ ہمیں ہمیشہ یاد رہتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *