حماس کی قید میں موجود یرغمالی کون ہیں جو اسرائیل کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہو سکتے ہیں؟
سنیچر سات اکتوبر کو اسرائیلی شہروں پر حملے کی صورت میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ میں جہاں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے وہیں جنگجو درجنوں افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ بھی لے گئے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ یرغمال بنائے گئے افراد کی تعداد 100 سے 150 کے درمیان ہے اور ان میں اسرائیلی شہریوں کے علاوہ دیگر ممالک کے شہری بھی شامل ہیں۔
حماس کے مطابق ان افراد کو ’محفوظ مقامات‘ کے علاوہ غزہ میں موجود اُن سرنگوں میں بھی رکھا گیا ہے جنھیں اسرائیل ماضی میں نشانہ بناتا رہا ہے۔ فلسطینی تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ کے آبادی والے علاقوں پر بمباری کا سلسلہ نہ روکا تو اِن یرغمالیوں کو ہلاک کر دیا جائے گا۔
حماس کے ہاتھوں یرغمال بننے والے افراد کون ہیں، اس کے بارے میں سوشل میڈیا پر بہت سے دعوے سامنے آئے ہیں۔ ذیل میں ان لوگوں کی کہانیاں دی جا رہی ہیں جن کے بارے میں بی بی سی نے تصدیق کی ہے یا معتبر اطلاعات ملی ہیں کہ وہ مغویوں میں شامل ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ شیری، یاردن، ایریل اور کفیر بیباس جنوبی اسرائیل میں ایک ’کبوتز‘ سے اغوا کیے گئے۔ کبوتز ایسی یہودی بستیوں کو کہا جاتا ہے جو اسرائیل کی ریاست کی تاریخ میں ایک گہری علامتی حیثیت رکھتی ہیں۔
یہ سب ایک ہی کبوتز کے ہی رہائشی ہیں جہاں شیری ایک کنڈرگارٹن ٹیچر کے طور پر کام کرتی تھیں۔ شیری کی تین سالہ بیٹی ایریل اور نو ماہ کے کفیر کے ہمراہ ایک تصویر اس وقت لی گئی جب وہ حماس کے مسلح کارکنوں کے گھیرے میں تھیں۔
شیری کے والدین یوسیع اور مارگٹ سلبرمین بھی ابھی تک لاپتہ ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں بھی یرغمال بنایا گیا ہے۔
اسی دورون، راز اور اویو ایشر کو غزہ کی سرحد کے قریب سے پکڑا گیا جہاں وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ قیام پذیر تھے۔
یونی نے اپنی بیوی اور تین اور پانچ سالہ بیٹیوں کو دوسرے یرغمالیوں کے ساتھ ٹرک میں لادے جانے کی ویڈیو دیکھی۔ لوگوں نے ان کی اہلیہ کے موبائل فون کو بھی ٹریک کیا اور وہ غزہ میں پایا گیا۔
کارمیلا، نویا دان، اوفر، ایریز، اور صفار کالڈرون نیر اوز نامی شہر میں پکڑے گئے، جو غزہ سے متصل ایک کبوتز ہے۔ ان کے ایک رشتہ دار آئیدو دان نے بی بی سی کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو کلپ میں دکھائی دیتا ہے کہ مسلح افراد 12 سالہ ایریز کو غزہ لے جا رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ انھیں 80 سالہ کارمیلا کی صحت کے حوالے سے بھی خدشات ہیں جنھیں اب علاج کی سہولت میسر نہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ادا ساگی کو غزہ کی سرحد سے 400 میٹر کے فاصلے پر نیر اوز میں واقع ان کے گھر سے اغوا کیا گیا تھا۔ اس کے بیٹے نعوم نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں کو خون کے دھبے ملے لیکن انہیں اس کی والدہ کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ اس چھوٹے کمپاؤنڈ میں مرنے والوں یا زخمیوں میں شامل نہیں تھیں۔
لندن میں مقیم ایک فنکار شیرون لِفشِٹز کے والدین کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں بھی نیر اوز میں یرغمال بنایا گیا تھا۔ لفشٹز نے اپنے والدین کی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ کہا کہ ان کے والد عربی بولتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا وقت ان فلسطینیوں کو لانے اور لیجانے میں گزارتے ہیں جنھیں ہسپتال میں طبی علاج کی ضرورت ہوتی تھی۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والے سیاح شانی لیوک غزہ کی سرحد کے قریب ایک میوزک میلے میں شریک تھیں کہ حماس کے مسلح کارکنوں نے اس علاقے پر دھاوا بول دیا، فائرنگ شروع کر دی اور خوفزدہ شرکا کو صحرا سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ ان کی والدہ ریکارڈا نے کہا کہ انھوں نے شانی کو اغوا کیے جانے کے بعد ان کی ایک ویڈیو دیکھی۔
بعد ازاں انھوں نے مزید بتایا کہ انھیں اطلاع ملی ہے کہ شانی سر میں چوٹ لگنے کے بعد غزہ میں تشویشناک حالت میں ہیں۔
چینی نژاد اسرائیلی شہری نواہ ارگمانی کو میلے سے اغوا کیا گیا تھا۔ ویڈیو فوٹیج، جس کی تصدیق ان کے والد یاکوف ارگمانی نے اسرائیلی چینل 12 کے لیے کی، ظاہر کرتی ہے کہ 25 سالہ لڑکی کو ایک مسلح شخص کی موٹر سائیکل پر لے جایا گیا اور وہ چیخ رہی تھی: ’مجھے مت مارو!‘
85 سالہ یافا ادار کو غزہ کی سرحد کے قریب واقع کبوتز سے اغوا کیا گیا تھا۔ ان کی پوتی ایڈوا کو ایک ویڈیو کلپ ملا جس میں دکھایا گیا ہے کہ انھیں غزہ لے جایا جا رہا ہے اور چار مسلح افراد نے گھیر رکھا ہے۔
انوچا انگکیو، جنھوں نے تقریباً دو سال تک ایوکاڈو فارم پر کام کیا، ان 11 تھائی شہریوں میں سے ایک ہیں جو حملوں کے بعد اب بھی لاپتہ ہیں۔
ان کی اہلیہ ونیدہ مارسا نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اپنے شوہر کو حماس کی جانب سے پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو سے پہچانا ہے۔
تھائی وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا کہ یرغمال بنائے گئے 11 تھائی شہریوں میں پونگساتھورن، کمکرت چومبوا، کیتیساک پتی، منی گیراچارٹ، نوٹا پورن اورونکاو، بونٹم پنکنگ اور ساسیوان پنکنگ شامل ہیں۔
اسرائیل کو یرغمالیوں کے تاریخی بحران کا سامنا: تجزیہ فرینک گارڈنر، سکیورٹی نامہ نگار
قطر، مصر اور ممکنہ طور پر دیگر ممالک بھی اس وقت اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی جزوی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ حماس خواتین اور بچوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید 36 فلسطینی خواتین اور کم عمر قیدیوں کے بدلے رہا کرے گا۔
تاہم اسرائیل کی ریخمین یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ برائے پالیسی اینڈ سٹریٹجی کے سینیئر تجزیہ کار مائیکل ملسٹیئن کہتے ہیں کہ ’کوئی اور وقت ہوتا تو شاید اسرائیل کی پہلی ترجیح یرغمالیوں کی واپسی ہوتی، لیکن اس وقت اسرائیل کی پہلی ترجیح حماس کو ایک عسکری خطرے کے طور پر ختم کرنا ہے۔‘
ایک ایسے وقت میں جب دونوں طرف تناؤ اور غصہ عروج پر ہے، اسرائیل اور حماس میں سے کوئی بھی سمجھوتہ کرنے یا رعایت دینے کے موڈ میں نہیں۔
حماس نے دھمکی دی ہے کہ ہر بار جب اسرائیلی فضائی حملے میں عام شہری ہلاک ہوں گے تو ایک یرغمالی کو قتل کر دیا جائے گا۔ تاہم اب تک ایسا ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے بھی کسی قسم کا تحمل دکھانے کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ غزہ کی پٹی کے زیادہ تر علاقے تباہ کیے جا رہے ہیں۔
تاہم مائیکل ملسٹیئن کا ماننا ہے کہ حماس شاید خواتین، بچوں اور بوڑھے یرغمالیوں کو زیادہ دیر تک نہیں رکھنا چاہے گا کیوں کہ اس کی عالمی شہرت پر ان کی وجہ سے منفی اثر پڑ رہا ہے اور ایسے یرغمالیوں کا فضائی حملوں کے درمیان خیال رکھنا بھی آسان نہیں جبکہ حماس کو اس بات کا خیال بھی رکھنا ہے کہ ان یرغمالیوں کی وجہ سے اسرائیل غزہ میں خفیہ طریقے سے ان کے اڈوں کا سراغ نہ لگا لے۔
دوسری جانب حماس اسرائیلی فوجی یرغمالیوں کے بدلے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔
ایسے میں اسرائیلی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا درد سر ہے۔ کیا وہ یرغمالیوں کو چھڑانے کے لیے فوجی آپریشن کی کوشش کرے گا جو خطرات سے بھرپور ہو؟ یا انتظار کرے جب تک حماس فضائی حملوں سے کمزور نہ پڑ جائے اور ڈیل کرنے پر رضامند ہو؟
یہ دوسرا راستہ بھی خطرات سے خالی نہیں۔ اگرچہ خیال کیا جاتا ہے کہ یرغمالیوں کو زیر زمین سرنگوں اور بنکرز میں رکھا گیا ہے، تاہم فضائی حملوں سے یہ بھی مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ یہ خطرہ ہمیشہ موجود ہے کہ یرغمالیوں کو غصے میں آ کر یا پھر ریسکیو آپریشن کے خوف سے قتل کر دیا جائے۔ ایسا 2012 میں نائجیریا میں بھی ہو چکا ہے جب برطانوی اور نائجیریا کی سپیشل فورسز نے دو یرغمالیوں کو رہا کروانے کے لیے ایک آپریشن کیا تھا۔
اسرائیل اس وقت تمام یرغمالیوں کی شناخت اور دیگر معلومات اکھٹی کر رہا ہے۔ تاہم مائیکل ملسٹیئن، جنھوں نے اسرائیلی فوجی انٹیلیجنس میں 20 سال گزارے ہیں، خبردار کرتے ہیں کہ ’ہم غزہ کی پٹی میں ہر گھر اور گلی کے بارے میں سب کچھ نہیں جانتے۔‘
غزہ حماس کا علاقہ ہے جہاں وہ خود کو اور یرغمالیوں کو زیر زمین سرنگوں کے نیٹ ورک میں چھپا کر رکھ سکتے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل یرغمالیوں کو بچانے میں خصوصی مہارت رکھتا ہے۔ 1957 میں قائم ہونے والا خفیہ ’سیارت ماٹکال یونٹ‘ 1976 میں اس وقت مشہور ہوا تھا جب اس کے کمانڈوز نے یوگینڈا کے ایک ایئر پورٹ پر ہائی جیک ہونے والے طیارے سے یرغمالیوں کو چھڑا لیا تھا۔
اس آپریشن کے اسرائیلی کمانڈر یوناٹن نیتن یاہو ہلاک ہونے والے واحد کمانڈو تھے۔ آج ان کے بھائی بنیامن نیتن یاہو اسرائیل کے وزیر اعظم ہیں اور یہ فیصلہ ان کو ہی کرنا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے رہائی کا انتظار کریں یا پھر قوت کا استعمال کرتے ہوئے یرغمالیوں کو چھڑاوانے کی کوشش کریں۔
مائیکل میلسٹیئن کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اسرائیل کی تاریخ میں یرغمالیوں کا یہ سب سے مشکل بحران ہے۔‘