بلاول بھٹو جنھیں ان کی والدہ بے نظیر نے بتایا کہ ’ہر انڈین میں تھوڑا سا پاکستان ہے
1988 پاکستانی سیاست میں ایک ہنگامہ خیز سال تھا۔ یہ وہ سال ہے جب فوجی آمر ضیا الحق طیارہ حادثے میں مارے گئے اور ان کے 11 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار ہوئی مگر یہ وہی سال ہے جب پاکستان کے موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی پیدائش ہوئی تھی۔
بلاول کی تاریخ پیدائش کو انتہائی رازداری میں رکھا گیا تھا کیونکہ پیپلزپارٹی کو خدشہ تھا کہ ضیا حکومت اسے بےنظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی۔
اینڈریا فلیشین برگ نے ’ایشیا میں خاندان اور خواتین سیاسی رہنما: صنف، طاقت اور نسب‘ نامی کتاب میں چھپے اپنے مقالے میں لکھا کہ ضیا الحق نے نومبر 1988 میں الیکشن کی تاریخ یہی اندازہ لگا کر مقرر کی تھی کہ یہ بے نظیر کے ہاں بچے کی پیدائش کے قریب کا وقت ہو گا اور وہ اس دوران پورے زور و شور سے انتخابی مہم نہیں چلا سکیں گی ’لیکن رازداری نے کام کیا اور ضیا حکومت کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔‘
بلاول عام انتخابات سے تقریباً دو ماہ قبل 21 ستمبر 1988 کو پیدا ہوئے۔ جس کے بعد ان کی والدہ بے نظیر بھٹو نے ایک بھر پور انتخابی مہم چلائی اور نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔
بلاول ابھی تین ماہ کے بھی نہیں تھے جب ان کی والدہ نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر حلف لیا۔
بلاول کا ابتدائی طور پر والد سے اختلاف
بلاول کی پیدائش کے آس پاس پاکستان میں ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہوا۔ ان کی پیدائش سے ایک ماہ قبل ضیا الحق، جو ان کے نانا اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کرنے اور پھانسی دینے کے ذمہ دار تھے اور جن کے دور اقتدار میں بھٹو خاندان، جمہوریت اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو پابندیاں اور سختیاں سہنی پڑیں، ایک طیارہ حادثے میں مارے گئے۔
ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی دوبارہ حکومت میں آئی اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی ہوئی۔ تین ماہ کے بلاول اپنی والدہ کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد منتقل ہوئے جہاں انھوں نے اپنا ابتدائی بچپن گزارا۔
1988 سے 1996 تک بے نظیر دو بار حکومت میں آئیں لیکن پھر نکالی گئیں۔ ایک حکمران سیاسی خانوادے میں پیدا ہونے کے باوجود بلاول کے حصے میں بھی بچپن سے کئی چیلنجز آئے جن کا سامنا عام طور پر جنوبی ایشیائی خطے کی خونی اور انتقامی سیاست میں حصہ لینے والوں کو کرنا پڑتا ہے۔
ان کا بیشتر بچپن اپنے والد سے جدائی میں گزرا۔ آصف علی زرداری 1996 میں بے نظیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد گرفتار ہوئے اور آٹھ سال بدعنوانی کے الزامات پر سلاخوں کے پیچھے رہے۔
’میں نے بہت سی چیزوں کا سامنا کیا، اور وہ ( والد) میرے ساتھ نہیں تھے۔ اس وقت جب ہمیں ان کی ضرورت تھی، ان کا ساتھ چھین لیا گیا۔ ہمیں نارمل زندگی سے محروم کیا گیا۔‘ یہ الفاظ بلاول بھٹو نے اپنے ایک انٹرویو میں کہے تھے۔
اپریل 1999 میں جب بے نظیر بھٹو اپنے سیاسی مخالف نواز شریف، جو اس وقت پاکستان کے وزیراعظم تھے، کی انتقامی سیاست کی وجہ سے خود ساختہ جلاوطنی پر بیرون ملک گئیں تو بلاول بھی ان کے ساتھ تھے۔
بلاول کا بچپن اور نوعمری کے سال دبئی اور لندن میں گزرے۔ انھوں نے سنہ 2012 میں آکسفرڈ یونیورسٹی کے کرائسٹ چرچ کالج سے ماڈرن ہسٹری اور پالٹیکس میں گریجویشن کیا۔
لیکن اپنی تعلیم مکمل کرنے سے کئی سال پہلے، ان کی زندگی 2007 میں اس وقت بدل گئی جب ان کی والدہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں ایک عوامی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔
بلاول کو ہمیشہ سے ہی بے نظیر کا سیاسی جانشین سمجھا جاتا تھا لیکن کسی نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ صرف 19 سال کی عمر میں انھیں بھٹو خاندان کی سیاسی میراث کا بوجھ اٹھانا پڑے گا اور پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی باگ ڈور سنبھالنی پڑے گی۔
بے نظیر کی موت کے فوراً بعد انھیں پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ ابتدائی طور پر، انھوں نے ایک رسمی سربراہ کے طور پر کام کیا اور لندن میں اپنی تعلیم مکمل کی جبکہ ان کے والد آصف علی زرداری سیاسی معاملات کو دیکھتے رہے۔
ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں سیاسیات کے ڈین ڈاکٹر ریاض شیخ کے مطابق بلاول کے ابتدائی طور پر پارٹی امور چلانے پر اپنے والد سے اختلافات تھے۔
’بلاول کو (اردو) زبان اور ثقافت کی بہت زیادہ سمجھ نہیں تھی، انھوں نے اپنا زیادہ تر وقت اپنی والدہ کے ساتھ خود ساختہ جلاوطنی میں گزارا تھا، اس لیے وہ اپنے نانا کے برعکس اس ماحول سے پیوستہ نہیں تھے جہاں انھیں قیادت سنبھالنی تھی۔ آصف علی زرداری ایک محتاط سیاستدان ہیں، ان کے برعکس نوجوان بلاول اپنی شخصیت دکھانا چاہتے تھے، وہ چیزوں پر سٹینڈ لینا چاہتے تھے اور ہمت سے قیادت کرنا چاہتے تھے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’2007 کے ماحول میں اس کا مطلب ان کی سکیورٹی پر سمجھوتہ کرنا تھا، ایسا خطرہ جو آصف زرداری لینا نہیں چاہتے تھے۔‘
2007 میں پاکستان عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے حملوں سے دوچار تھا۔ ریاض شیخ نے مزید کہا کہ زرداری نے بلاول کو اس لیے بیرون ملک بھیجا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ بلاول محفوظ رہیں لیکن وہ اپنے مفاہمتی نقطہ نظر سے پاکستان کے منقسم سیاسی منظرنامے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے ایک جگہ بھی بنانا چاہتے تھے اور یہ نہیں چاہتے تھے کہ بلاول کا جارحانہ انداز رکاوٹ بنے۔
سیاست میں حادثاتی انٹری
2012 میں بلاول نے باضابطہ طور پر سیاست کا آغاز کیا اور 2013 کے انتخابات کی مہم کی قیادت کی لیکن ابھی ان کی عمر اتنی نہیں ہوئی تھی کہ وہ الیکشن لڑ سکیں۔
پاکستان میں الیکشن میں حصہ لینے کی قانونی عمر 25 سال ہے۔ سو 2018 میں وہ پہلی بار پارلیمنٹ کے رکن بنے۔
بلاول نے سنہ 2018 میں ٹھٹھہ میں اپنی انتخابی مہم کے دوران خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ’میری والدہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ میں نے یہ (سیاسی) زندگی نہیں چنی۔ اس نے مجھے چنا۔ مجھے لگتا ہے یہ (فقرہ) مجھ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔‘
صحافی فیاض نائچ کئی دہائیوں سے پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاست پر نظر رکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی حوالوں سے بلاول اور ان کی والدہ بےبظیر بھٹو کے سیاسی کیریئرز میں مماثلت ہے جبکہ کچھ لحاظ سے یہ مختلف بھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’بلاول اور متحرمہ بے نظیر بھٹو دونوں حادثاتی طور پر سیاست میں شامل ہوئے۔ بی بی اپنے والد جبکہ بلاول اپنی ماں کو کھونے کے بعد لیکن بلاول اس لحاظ سے بہتر رہے کہ ان کے سیاست میں حصہ لیتے ہی ان کی پارٹی برسرِ اقتدار آ گئی، اس کے برعکس محترمہ کو کئی سال صعوبتیں حتیٰ کے قید و بند بھی جھیلنا پڑیں۔‘
2018 میں بلاول نے پہلی بار الیکشن لڑا اور پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر میں عمران خان کے لیے ’سلیکٹڈ وزیراعظم‘ کی اصطلاح استعمال کی جو فوج کی جانب سے عمران خان کی کھلی اور خفیہ مدد کی طرف اشارہ تھا۔
اس اصطلاح کو خاص طور پر عمران خان کے مخالفین میں کافی مقبولیت ملی۔
2019 میں بلاول قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین بنے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے پرانے کارکن رب نواز بلوچ کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کے بارے میں بلاول کا مؤقف ان کی اور ان کی پارٹی کی سیاست کی بنیاد ہے۔
’وہ خواتین مذہبی اقلیتوں اور ٹرانس جینڈر کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ وہ آزادی اظہار کی حمایت کرتے ہیں اور شدت پسندی کے خلاف کھل کے بات کرتے ہیں۔ یہی باتیں انھیں نوجوانوں میں مقبول کرتی ہیں۔‘
کم تجربے والے غیر روایتی وزیر خارجہ
2022 میں عمران حکومت کے خاتمے کے بعد 33 سالہ بلاول بھٹو پاکستان کے سب سے کم عمر وزیر خارجہ بنے، جو ان کا پہلا سرکاری عہدہ ہے۔
عہدہ سنھبالنے کے بعد سے وہ درجنوں غیر ملکی دورے کرچکے ہیں جن میں انھوں نے دوطرفہ اور کثیر الاجہتی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔
ان کی مخالف پاکستان تحریک انصاف ان کے دوروں کو قومی خزانے کا ضیاع قرار دیتی ہے اور الزام لگاتی ہے کہ ان دوروں سے نہ تو کسی ملک سے تعلقات میں بہتری ہوئی ہے اور نہ ہی پاکستان کا کوئی فائدہ لیکن کچھ حلقوں میں ان کی کارکردگی کو سراہا بھی گیا۔
لوگ ان کی فصاحت اور خوش گفتاری کا موازانہ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو سے کرتے ہیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز وزیر خارجہ کی حثیت سے کیا تھا تاہم کئی مبصرین سمجھتے ہیں ابھی یہ موازنہ مناسب نہیں۔
تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق بلاول کے پاس ابھی وہ سیاسی استدلال اور سفارتی ہوشیاری نہیں، جو ان کے نانا کا طرہ امتیاز تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بلاول کی ناتجربہ کاری کی جھلک ان کی کاکردگی میں دکھائی دیتی ہے۔ ان کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ صرف وزیر خارجہ نہیں بلکہ ایک بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ خارجہ پالیسی کے معاملات پر اس طرح سے توجہ نہیں دے پا رہے جس طرح انھیں دینی چاہیے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جب پاکستان سفارتی اور سیاسی محاذ پر کئی پیچیدہ بحرانوں سے نمٹ رہا ہے۔‘
بلاول بھٹو پر ایک تنقید یہ بھی ہوئی کہ ان کی زیادہ تر سفارت کاری امریکہ تک محدود رہی اور پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ بلاول نے امریکہ کے تو کئی دورے کیے لیکن افغانستان جو پاکستان کی سلامتی کے لیے بے پناہ اہمیت رکھتا ہے اسے زیادہ توجہ نہیں دی۔
پر کئی مبصرین اس رائے سے متفق نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بلاول نے عالمی سطح پر پاکستان کا نقطۂ نظر اور مقدمہ بھر پور انداز میں پیش کیا۔ خاص طور پر گذشتہ سال سیلاب کی تباہ کاریوں سے دنیا کو آگاہ کرنے کے حوالے سے ان کے سفارتی جوہر قابل تعریف رہے۔
روایتی وزرائے خارجہ کے مقابلے میں ان کی کم عمری جہاں کچھ لوگوں کے لیے ناتجربہ کاری کی صورت میں ان کی کمزوری ہے وہیں بلاول پاکستان کی اکثریتی نوجوان آبادی کا چہرہ بھی ہیں۔ نوجوان جو روایتی سانچوں کو توڑ کر پاکستان کی نئی تصویر بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نسبتاً کم نپے تلے اور جذباتی انداز کو کچھ حلقوں میں پذیرائی بھی ملی ہے۔
جب بلاول نے مودی کا موازنہ ’اسامہ بن لادن‘ سے کیا
بلاول بھٹو چار مئی (آج) کو انڈیا کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ یہ ہمسایہ ملک کا ان کا دوسرا دورہ ہو گا۔
اس سے پہلے سنہ 2012 میں وہ اپنے والد اور اس وقت پاکستان کے صدر آصف علی زداری کے ساتھ انڈیا گئے تھے۔
انھوں نے اجمیر شریف درگار پر حاضری دی تھی اور اس وقت کے انڈین وزیراعظم منموہن سنگھ اور کانگرس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی سے ملاقات بھی کی تھی۔
اس دوران انھوں نے سلسلہ وار ٹویٹس میں بہت کھل کر انڈیا کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا۔
ایک ٹویٹ میں اپنی والدہ کے ایک اقتباس کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بے نظیر کہتی تھیں کہ ہر پاکستانی میں تھوڑا سا انڈیا اور ہر انڈین میں تھوڑا سا پاکستانی ہوتا ہے۔‘
انھوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان اسلحے کے حصول کی دوڑ کو شرمناک قرار دیا تھا۔ انڈین میڈیا ٹوئٹر پر ان کے کھلے عام اظہار خیال کو لے کر کافی حیران بھی ہوا تھا اور اس کا موازنہ راہول گاندھی کی سوشل میڈیا پر موجودگی سے کیا گیا تھا۔
لیکن اب بلاول بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے انڈیا جا رہے ہیں جہاں وہ اپنے ملک کی نمائندگی کریں گے تو خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کا طرزِ عمل اور لہجہ ماضی سے بالکل مختلف ہوگا۔
اور ایسا ہی کچھ ماحول انڈیا میں ان کے دورے کو لے کر ہو گا جو شاید ماضی کی طرح بہت فراخ دلانہ نہ ہو۔
دونوں ملکوں کے کشیدہ تعلقات کی تلخی کے ساتھ بلاول کا دسمبر میں اقوام متحدہ میں انڈین وزیراعظم نریند مودی کے بارے میں بیان بھی نئی دلی میں غصے کا سبب بنا۔
انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کے جانب سے پاکستان کو عالمی دہشتگردی کا مرکز قرار دیے جانے پر ردعمل دیتے ہوئے بلاول نے کہا تھا ’میں انڈیا کے قابل وزیر خارجہ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اسامہ بن لادن اب اس دنیا میں نہیں لیکن گجرات کا قصاب زندہ ہے اور وہ انڈیا کا وزیراعظم ہے۔‘
بلاول کا اشارہ 2002 میں انڈیا میں ریاست گجرات میں ہونے والے فسادات کی طرف تھا جن میں سینکڑوں مسلمان مارے گئے تھے اور جس کا الزام نریند مودی پر عائد کیا گیا تھا۔
بلاول کے اس بیان کا انڈیا میں بہت بُرا منایا گیا۔ ان کے خلاف خاص طور پر وزیراعظم مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے جلوس نکالے گئے۔ یہاں تک کہ بلاول کے سر کی قیمت تک مقرر کی گئی۔
تاہم پاکستان میں ان کے بیان کو کافی پذیرائی ملی، یہاں تک کہ عام طور پر ان کی مخالفت کرنے والوں نے بھی اتنی بے باکی سے انڈین وزیر خارجہ کو جواب دینے پر انھیں سراہا۔
کچھ دن بعد بلومبرگ کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے یوں اپنے بیان کا دفاع کیا۔ ’میں ایک تاریخی حقیقت کا ذکر کر رہا تھا، میں نے جو الفاظ استعمال کیے وہ میرے اپنے نہیں تھے، میں نے مسٹر مودی کے لیے گجرات کے قصائی کی اصطلاح ایجاد نہیں کی۔ ان (انڈینز) کے نزدیک تاریخ دہرانا ذاتی توہین ہے۔‘
تاریخی طور پر، بلاول بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ سے انڈیا کے ساتھ امن اور اچھے تعلقات کی حامی رہی ہے، لیکن بطور وزیر خارجہ ان کے اس سخت بیان نے بہت سے لوگوں کو حیران بھی کیا۔
سیاسی مبصر زاہد حسین کا کہتے ہیں کہ اگرچہ انڈین وزیر کی طرف سے اشتعال انگیزی کی گئی تھی لیکن بلاول کا ردعمل جذباتی تھا۔ ’اسے سفارتی لحاظ سے اور محتاط ہونا چاہیے تھا۔‘
’انڈیا میں تمام نظریں بلاول پر ہی ہوں گی‘
پاکستان میں بھٹو خاندان کا موازنہ کچھ حوالوں سے انڈیا کے گاندھی خاندان سے بھی کیا جاتا ہے، موروثی سیاست اور خونی تاریخ کی وجہ سے جہاں دونوں خاندانوں کے لیے کچھ حلقوں میں نرم گوشہ ہے وہیں ان پر سخت تنقید بھی ہوتی ہے۔
بلاول نے گذشتہ سال سی این این کی بیکی اینڈرسن کو اپنے ایک انٹرویو میں مورثی سیاست کے حوالے سے ایک تنقیدی سوال کے جواب میں کہا کہ ’آپ خاندانی سیاست پر جتنی بھی چاہیں تنقید کر سکتے ہیں لیکن آخرکار یہ فیصلہ کسی بھی ملک کے عوام پر ہے کہ وہ کس کو پسند یا منتخب کریں۔‘
گاندھی خاندان سے بھٹو خاندان کے کچھ اور مشترکہ تاریخی حوالے بھی ہیں، مثال کے طور پر بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 میں اندرا گاندھی کے ساتھ شملہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
بلاول کی والدہ بے نظیر نے 1989 میں اسلام آباد میں راجیو گاندھی کی بطور وزیراعظم میزبانی کی۔ کچھ مماثلت راجیو گاندھی اور بلاول میں بھی جوڑی جاتی ہے۔
ان دونوں کو اپنی ماؤں کی ناگہانی موت کے بعد حادثاتی طور پر سیاست میں آنا پڑا جبکہ راہول گاندھی اور بلاول بھٹو کو سیاسی طور پر کئی لحاظ سے ایک ہی خانے میں رکھا جاتا ہے۔
بہرحال بلاول کا ایس سی او اجلاس کے لیے انڈیا جانے کا فیصلہ سفارتی لحاظ سے ایک پیغام تو ہے۔ ورنہ وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کو بھی اس دورے کے لیے نامزد کیا جا سکتا تھا۔
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے بار بار اصرار کے باوجود کہ گوا میٹنگ ایک کثیر الجہتی پلیٹ فارم ہے اور دورے کے دوران کسی دوطرفہ مصروفیات کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں پھر بھی ’تمام نظریں بلاول پر ہی ہوں گی، ان کی اپنے انڈین ہم منصب کے ساتھ کیمسٹری کیسی رہے گی، ان کا رویہ، بدن بولی اور الفاظ کا چناؤ کیا پیغام دیں گے۔ کسی نہ کسی حد تک یہ دورہ مستقبل قریب میں انڈیا پاکستان رشتوں کی سمت ضرور طے کرے گا۔‘