عدلیہ اور پارلیمان کی محاذ آرائی کا آغاز کیسے

عدلیہ اور پارلیمان کی محاذ آرائی کا آغاز کیسے

عدلیہ اور پارلیمان کی محاذ آرائی کا آغاز کیسے ہوا اور اس کا انجام کیا ہو گا؟

’ہم وزیر اعظم کی قربانی نہیں دیں گے‘ (خواجہ آصف)۔ ’عدالت چیف جسٹس کو بلا کر پوچھے انھوں نے ہمارا ریکارڈ کیوں مانگا‘ (شاہد خاقان عباسی)۔ ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہاؤس کی بالادستی پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں ہو گا‘ (سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف)۔

پاکستان میں سیاست دانوں کے عدلیہ سے گلے تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، یوسف رضا گیلانی کی نااہلی سے لیکر نواز شریف کی سزا تک پاکستانی تاریخ اور سیاست متنازع عدالتی فیصلوں سے بھرپور ہے جن کے اثرات کی بازگشت آج تک ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی سے آج کل بھی جس قسم کے بیانات اور اقدامات سامنے آ رہے ہیں ان کے بعد عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان ایک غیر معمولی محاذ آرائی کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں رہا۔

یہ محاذ آرائی کس حد تک غیر معمولی ہے، اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت ایک ایسے چیف جسٹس کی حمایت میں ریلیاں نکالنے کا اعلان کر چکی ہے جن کو خود 15 رکنی سپریم کورٹ میں تقسیم اور اختلافات کا سامنا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ صرف ایک سال قبل اسی سپریم کورٹ کے حکم نے موجودہ قومی اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچایا جس کے نتیجے میں تحریک انصاف حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور پی ڈی ایم اتحادی برسراقتدار آئے تو پھر اتنے قلیل عرصے میں حالات اس نہج تک کیسے پہنچے کہ اب قومی اسمبلی میں چیف جسٹس کو طلب کرنے کے مطالبے تک کیے جا رہے ہیں۔

یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ کچھ ہی عرصہ قبل حکومت نے سپریم کورٹ میں دو جونیئر ججز کی تقرری کی منظوری بھی دی جس کے بارے میں حال ہی میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بیان دیا کہ یہ تعیناتی اس وقت کے آرمی چیف کے مشورے پر چیف جسٹس سے تناؤ کو کم کرنے کے لیے ایک سمجھوتہ تھا۔

عدلیہ اور پارلیمان میں محاذ آرائی کا آغاز کیسے ہوا؟

پاکستان

پنجاب میں الیکشن کے انعقاد پر عدالتی ازخود نوٹس کے بعد تناؤ کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا گیا۔ پہلے خود حکومت میں شامل جماعتوں نے سپریم کورٹ کے بینچ پر اعتراضات کیے تو بعد میں عدالتی بینچ میں شامل ججوں کے الگ ہونے پر سپریم کورٹ کے اندر کی تقسیم واضح ہونا شروع ہوئی۔

اسی تقسیم کا ایک اور ثبوت اس وقت سامنے آیا جب سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اختیارات پر سوال اٹھایا جس کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل متعارف کروایا۔

تاہم اس سے قبل یہ بل باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرتا، سپریم کورٹ نے حکم امتنازع جاری کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد روک دیا جسے پارلیمنٹ نے اپنے آئینی اختیارات میں مداخلت قرار دیا۔

معاملہ صرف قانونی اور آئینی بحث تک محدود نہیں رہا بلکہ ن لیگ کی جانب سے سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے اثاثوں پر سوالات اٹھائے گئے۔

اسی تنازعے کے بیچ سوشل میڈیا پر سامنے آنی والی چند مبینہ آڈیوز نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ ایک آڈیو میں مبینہ طور پر موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس جبکہ ایک اور آڈیو میں مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی آواز تھی۔

صرف ایک ہفتہ قبل سپیکر قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر پارلیمانی کارروائی میں عدالتی مداخلت پر شکوہ کیا جس کے بعد گذشتہ روز سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

پاکستان

اس عدالتی ہدایت پر قومی اسمبلی میں باآواز بلند تنقید کی گئی اور ایسی تجاویز سامنے آئیں کہ چیف جسٹس کو بلا کر پوچھا جائے کہ انھوں نے یہ ریکارڈ کیوں مانگا۔ اس تنقید کے جواب میں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے ایوان کو یقین دلایا کہ ہاؤس کی بالادستی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔

دوسری جانب سابق چیف جسٹس کے بیٹے کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جبکہ چیئرمین پبلک اکاوئنٹس کمیٹی نور عالم خان نے بھی قومی اسمبلی کو بتایا کہ انھوں نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیلات کا 10 سالہ ریکارڈ مانگتے ہوئے 16 مئی کو عدالت کے پرنسپل اکاوئنٹنگ افسر کو طلب کیا ہے جن کی عدم پیشی پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے جا سکتے ہیں۔

کیا پارلیمان چیف جسٹس کو طلب کر سکتی ہے؟

اس سے پہلے کہ ہم اس تفصیل میں جائیں کہ پارلیمان اور عدلیہ کی اس لڑائی میں اگلہ مرحلہ کیا ہو گا پہلے اس سوال کا جواب جانتے ہیں کہ کیا قومی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ چیف جسٹس کو طلب کر سکے جیسا کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 68 کے مطابق پاکستان کی مجلس شوری یعنی پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے ججوں پر فرائض کی ادائیگی کے دوران ان کے کنڈکٹ پر بحث کی ممانعت ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی سندھ ہائی کورٹ کے جج رہے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئین میں اداروں کے اختیارات کو طے کر دیا گیا، جس کے تحت ایگزیکٹیو، پارلیمان اور عدلیہ کا اپنا اپنا کردار ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’آئین میں ایسی کوئی چیز نہیں لکھی جو پارلیمان کو یہ اختیار دیتی ہو کہ وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو طلب کر سکے۔‘

پاکستان

احمد بلال محبوب پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی کے صدر ہیں۔

بی بی سی نے جب ان سے سوال کیا کہ آیا پارلیمان کے پاس چیف جسٹس کو بلانے کا اختیار ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک سوال ضرور ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ جو لوگ چیف جسٹس کو بلانے کی بات کر رہے ہیں کیا اس کے لیے ان کو بلانے کی ضرورت بھی ہے؟ آپ ایک خط لکھ دیں۔‘

دوسری جانب ان کا کہنا تھا کہ ’قومی اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ تو عوامی ہوتا ہے جو ویب سائٹ پر دیا جاتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ ریکارڈ جاننا چاہتی ہے تو اسے ریکارڈ مانگنے کی ضرورت نہیں۔‘

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ’اصل میں تو یہ پاور پلے ہے کہ دونوں بتانا چاہتے ہیں کہ ہم طاقتور ہیں حالانکہ ریاستی اداروں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘

پارلیمان اور عدلیہ کی لڑائی کا انجام کیا ہو گا؟

جسٹس شائق عثمانی کہا کہنا ہے کہ ’سارا تنازع ایک ایسے فیصلے سے شروع ہوا جس میں چیف جسٹس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ ان کو یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘

تاہم ان کے مطابق معاملات اس لیے زیادہ سنگین ہوئے کہ حکومت الیکشن نہیں کروانا چاہتی اور ’یہ سب کچھ اسی لیے کیا جا رہا ہے کہ الیکشن کو روکا جائے۔‘

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ نے چند ایسے فیصلے کیے جن پر حکومت ناراض ہے۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا طریقہ کار بھی صحیح نہیں رہا لیکن تین چار واقعات کی وجہ سے معاملات خراب ہوئے۔‘

لیکن اب یہ محاذ آرائی کیا شکل اختیار کرے گی اور دونوں میں سے کس کو پیچھے ہٹنا پڑے گا؟

اس سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کا موقف تھا کہ ’اس بات کا امکان موجود ہے کہ سپریم کورٹ وزیر اعظم یا کابینہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کر سکتی ہے اور اسی لیے قومی اسمبلی اپنی طاقت دکھا رہی ہے۔ وہ عدالت کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم چپ نہیں رہیں گے۔‘

تاہم ان کی رائے میں سپریم کورٹ کو ہی پیچھے ہٹنا پڑے گا۔

اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ معاملہ الیکشن کی تاریخ دینے سے شروع ہوا تھا لیکن ’میرا خیال ہے کہ اچھی چیز یہ ہوئی کہ الیکشن کمیشن نے نظر ثانی کی درخواست دائر کی، جس سے سپریم کورٹ کو ایک راستہ مل گیا ہے کہ الیکشن کے فیصلے پر دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے۔‘

’میرا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کو پیچھے ہٹنا ہو گا کیونکہ وہ اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کروا سکتے۔‘

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ’اب دو راستے ہیں، یا تو فیصلے پر نظر ثانی کر لیں یا فل کورٹ بنا لیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بظاہر فل کورٹ کے لیے لگتا ہے چیف جسٹس کو اکثریت حاصل ہے۔ اس طرح کسی کی بے توقیری بھی نہیں ہو گی۔‘

دوسری جانب جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی کہتے ہیں کہ ’چیف جسٹس نے اب تک فل کورٹ اسی لیے نہیں بنایا کیونکہ سپریم کورٹ میں اختلافات موجود ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کیس پر بینچ کی تشکیل کی وجہ سے ہی شکوک وشبہات پیدا ہوئے۔

تاہم جسٹس شائق عثمانی کا بھی کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست نے چیف جسٹس کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے فیصلے پر غور کریں اور ایسا فیصلہ دیں جس سے یہ تنازع ختم ہو۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *