انڈیا میں ’میاں‘ مسلمانوں کا میوزیم، جس کے مالک کو جیل بھیج دیا گیا
مہیتن بی بی کئی دن سے جیل سے اپنے بیٹے کی واپسی کی منتظر ہیں۔ موہرعلی کو ایک ماہ قبل انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے ضلع گوالپارا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں واقع اپنے گھر میں ایک میوزیم کھولنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ میوزیم آسام میں رہائش پذیر بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کی ثقافت کا میوزیم ہے، جنھیں ’میاں‘ افراد بھی کہا جاتا ہے۔
موہر علی ایک مقامی سیاسی جماعت کے رہنما ہیں اور اُنھوں نے اس جگہ کے قیام کے لیے 7000 انڈین روپے یا 86 ڈالر خرچ کیے تھے۔ یہاں پر کچھ زرعی اوزار اور کپڑے رکھے گئے تھے مگر دو دن بعد ہی مقامی حکام نے یہ میوزیم بند کر دیا۔
اُنھوں نے موہر علی کا گھر بھی سیل کر دیا اور الزام عائد کیا کہ اُنھوں نے حکومتی سکیم کے تحت الاٹ کیے گئے گھر کا غیر قانونی طور پر کمرشل استعمال کیا ہے۔
پولیس نے ان کے بھائی اور دو دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا جنھوں نے اُنھیں میوزیم قائم کرنے میں مدد دی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان افراد کے خلاف مقدمہ میوزیم کی وجہ سے نہیں بلکہ دو دہشتگردوں سے مبینہ تعلق کی وجہ سے ہے۔ ان تین افراد پر انسدادِ دہشتگردی کے ایک سخت گیر قانون کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ہے جس کے تحت ان کے لیے ضمانت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
ان افراد نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔
گرفتاریوں نے آسام کے بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
مہیتن بی بی کہتی ہیں: ’آخر اس کا جرم کیا ہے۔‘ یہ کہتے ہوئے وہ رو پڑیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں آسام میں اس برادری کو دیوار سے لگانے کے ایک طویل سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔ واضح رہے کہ آسام میں کئی قومیتیں آباد ہیں اور یہاں پر لسانی شناخت اور شہریت کے معاملات دکھتی ہوئی سیاسی رگ ہیں۔
یہاں پر بنگالی اور آسامی بولنے والے ہندو، کئی قبائل اور مسلمان آباد ہیں اور یہاں کئی دہائیوں سے پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے آنے والے ’غیر ملکیوں‘ کے خلاف جذبات پنپ رہے ہیں۔
بنگلہ زبان بولنے والے مسلمان بالخصوص غیر قانونی تارکِ وطن ہونے کے الزامات کا سامنا کرتے ہیں۔
سنہ 2016 میں اقتدار میں آنے سے اب تک حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ہندو برادریوں اور قبائل کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایسی پالیسیاں متعارف کروائی ہیں جو ناقدین کے مطابق مسلمانوں سے تفریق برتتی ہیں۔ کئی سیاست دانوں بشمول موجودہ وزیرِ اعلیٰ ہمنت بسوا شرما نے بھی انھیں اپنی تقریروں میں نشانہ بنایا ہے۔
سنہ 2021 میں اقتدار میں لوٹنے کے بعد سے بی جے پی حکومت نے تجاوزات کے خلاف اپنے متنازع آپریشن میں ہزاروں لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد بنگلہ بولنے والے مسلمان تھے۔
رواں سال کے آغاز میں حکومت نے پانچ مسلمان گروہوں کو ’اصلی آسامی باشندے‘ قرار دینے کی منظوری دی تھی جس کے باعث دیگر افراد کے مزید پس جانے کے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔
ایک مقامی سکالر ڈاکٹر حافظ احمد نے کہا کہ ’بنگالی جڑیں رکھنے والے مسلمان سیاست کا آسان ہدف بن گئے ہیں۔‘
’مقصد یہ ہے کہ اکثریت کو یہ دکھایا جائے کہ میاں افراد آسامی معاشرے کا حصہ نہیں بلکہ دشمن ہیں۔‘
بی جے پی کے سینیئر رہنما وجے کمار گپتا نے اس تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’دیگر‘ افراد برادریوں کے درمیان ’تنازع پیدا کرنے‘ کی کوشش کر رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ’میوزیم کسی برادری کے ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے کے لیے ہوتا ہے مگر یہاں ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔‘
جنوبی ایشیا میں میاں کا لفظ مسلمان مرد حضرات کے لیے احتراماً استعمال ہوتا ہے مگر آسام میں اسے ایک گالی تصور کیا جاتا ہے اور ان ہزاروں مسلمان مزدوروں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو مشرقی بنگال سے ہجرت کر کے یہاں آئے جو اب بنگلہ دیش کا حصہ ہے۔ آسام کی پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے ساتھ 900 کلومیٹر طویل سرحد لگتی ہے۔
ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے دریائے برہمپترا میں اپنی جگہ تبدیل کرتے جزائر میں رہائش اختیار کر لی جہاں دوسری برادریاں بھی آباد تھیں۔
ان جزائر کے رہائشی افراد زیادہ تر غریب کسان اور یومیہ اجرتوں پر کام کرنے والے مزدور تھے جن کے روزگار اور زندگیاں دریا کے بدلتے مزاج پر منحصر ہیں۔
اس کے علاوہ انھیں تفریق کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور ’گھس بیٹھیا‘ کہا جاتا ہے جو مقامی نوکریوں، زمین اور آسامی بولنے والی آبادی کی ثقافت پر قبضہ کر رہے ہیں۔
مگر گذشتہ چند برسوں میں کئی بنگلہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو قبول کیا ہے اور میاں کے لفظ کو اپنی جدا شناخت کے طور پر اپنا لیا ہے۔
گوالپارا میں واقع مسلمان میوزیم میں کچھ روایتی زرعی اوزار، بانس سے بنائے گئے مچھلی پکڑنے کے کانٹے اور آسام کا ہاتھ سے بُنا جانے والا روایتی کپڑا ’گموسا‘ بھی شامل تھا۔
موہر علی کہتے ہیں کہ یہ سب ’میاں افراد کی ثقافت‘ کا حصہ ہے۔
مگر کئی بی جے پی رہنماؤں نے اُن پر معاشرے میں تفریق پیدا کرنے کا الزام عائد کیا ہے کہ اور کہا ہے کہ یہ نوادرات آسامی شناخت ہیں، بنگلہ بولنے والی مسلمان برادری کی نہیں۔
وزیرِ اعلیٰ شرما نے میوزیم سیل ہونے سے چند گھنٹے قبل کہا کہ ’کیا میاں نام کی کوئی برادری ہے بھی؟‘
اس میوزیم کا تصور سب سے پہلے سنہ 2020 میں کانگریس کے رہنما شرمن علی احمد نے پیش کیا تھا جو اس برادری کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں مگر اُنھیں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سے قبل سنہ 2019 میں کچھ شعرا کو ’میاں شاعری‘ کہلانے والی پرجوش اور مزاحمتی شاعری لکھنے پر مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اُنھوں نے یہ شاعری روایتی تحریری آسامی زبان میں لکھنے کے بجائے اپنی برادری کے لہجے میں لکھی تھی۔ ان میں سے 10 افراد پر مذہبی بنیادوں پر ’گروہوں میں دشمنی پھیلانے‘ کے مقدمات درج کیے گئے۔
شرمن علی احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے نزدیک موہر علی کو حکومت کے الاٹ کردہ گھر میں یہ میوزیم نہیں کھولنا چاہیے تھا مگر ان کی سزا بے جا ہے۔
اُنھوں نے کہا: ’اس نے کوئی بڑا جرم نہیں کیا مگر حکومت نے ان کے خلاف سخت ایکشن لیا ہے اور اس برادری کو ڈرانے کی کوشش کی ہے۔‘
ڈاکٹر شرمن احمد نے الزام عائد کیا کہ حکومت اس ریاست کے لسانی تنوع کی پیچیدگیوں کا فائدہ اٹھا کر آسامی افراد کی پریشانیوں سے کھیل رہی ہے جنھیں ایک طویل عرصے سے خوف ہے کہ وہ تارکینِ وطن کے ہاتھوں اپنی شناخت کھو بیٹھیں گے۔
اس دوران موہر علی کے گاؤں میں لوگ اب بھی گرفتاریوں کے صدمے میں ہیں۔ ان میں کئی نے مزید پریشانی کے پیشِ نظر میوزیم کے متعلق مزید بات کرنے سے انکار کر دیا۔
دیگر افراد نے کہا کہ اس تنازعے کا ان کی زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک مقامی شخص شہید علی نے کہا کہ ’ہمیں میوزیم نہیں، بجلی، سڑکیں اور روزگار چاہیے۔‘
ڈاکٹر شرمن احمد کہتے ہیں کہ حالانکہ ان کے نزدیک یہ میوزیم بے فائدہ ہے مگر پھر بھی اس برادری کو اپنی ثقافت کے تحفظ کا حق ہے۔
’کئی سال تک نشانہ بنتے رہنے کے بعد میاں مسلمان اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی برادری اپنی ثقافت کے بغیر کیسے زندہ رہ سکتی ہے؟‘