پاکستانی خواتین کو اپنے شوہروں سے منتقل ہونے

پاکستانی خواتین کو اپنے شوہروں سے منتقل ہونے

پاکستانی خواتین کو اپنے شوہروں سے منتقل ہونے والی جنسی بیماریاں جو کبھی کینسر تو کبھی طلاق کا باعث بنتی ہیں

کافی تکلیف کاٹنے کے بعد بھی میں نے کسی نہ کسی طرح  جینیٹل وارٹس یا مسوں کا علاج کروا ہی لیا ہے۔ مجھے ڈاکٹر نے بتایا کہ اگر کچھ اور تاخیر ہو جاتی تو ممکنہ طور  پر مجھے کینسر بھی ہو سکتا تھا۔‘

یہ کہنا ہے پشاور کی رہائشی خاتون ساجدہ  کا جو کچھ عرصہ قبل ’ہیومن پیپیلوما وائرس‘ کا شکار ہونے کے بعد اس کے نتیجے میں جینیٹل وارٹس کا شکار ہوئی تھیں۔ ساجدہ کا دعویٰ ہے کہ یہ بیماری انھیں ان کے سابق شوہر سے منتقل ہوئی تھی۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ہماری شادی ہوئی تو وہ اس کا شکار تھے۔ میں نے پوچھا تو کہنے لگے کہ ویسے ہی دانے ہیں کوئی مسئلے کی بات نہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مگر جب کچھ عرصے بعد یہ مجھے ہوئے اور بہت تیزی سے بڑھے اور میں ڈاکٹر کے پاس گئی تو پتا چلا کہ میرے شوہر وائرس کا شکار تھے اور وہ وائرس انھوں نے مجھ میں بھی منتقل کر دیا تھا۔‘

ساجدہ نے بتایا کہ ’جب میں نے اپنے شوہر سے بات کی تو وہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے اس کا قصور وار مجھے ٹھہرایا۔ ہماری بات بڑھی میں نے ان سے علاج کا تقاضا کیا تو انھوں نے مجھے طلاق دے دی۔‘

ساجدہ تو کسی حد تک خوش قسمت تھیں کہ وہ کینسر کا شکار نہیں ہوئیں لیکن راولپنڈی کی رہائشی شازیہ کا مرض بڑھتا رہا اور کینسر تک جا پہنچا۔ اسی طرح ایک اور خاتون مریم کی بھی بدقسمتی رہی کہ ان میں اپنے شوہر سے سیفلس یعنی آتشک کا مرض منتقل ہوا۔

اس سے نہ صرف ان کا حمل ضائع ہوا بلکہ بروقت علاج نہ کروانے کے سبب اب وہ مزید پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔

شازیہ اور ان جیسی کئی خواتین کیسے قابل علاج مرض سے انتہائی پیچیدگیوں کا شکار ہوتی ہیں اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ پہلے یہ جانتے ہیں کہ یہ مرض ہیں کیا اور پھیلتے کیسے ہیں؟

relation

جنسی امراض اور ان کی وجوہات

ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد کے شعبہ ایمرجنسی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جنید سرور کہتے ہیں کہ جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کو جنسی انفیکشن بھی کہا جاتا ہے۔

ان کے بارے میں عموماً یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ جِلد کے جِلد سے رابطے سے بھی پیدا ہوتی ہیں۔ یہ بیماریاں مرد اور عورت کے تعلق کے علاوہ ہم جنسی پرستی سے بھی پھیلتی ہیں۔

ڈاکٹر جنید سرور کا کہنا تھا کہ ’ان امراض کے پھیلنے کا بڑا سبب غیر محفوظ اور زیادہ پارٹنرز کے ساتھ جنسی تعلق کا قائم ہونا ہے۔ اس کے علاوہ شعور اور آگاہی کی کمی اور ہمارے معاشرے کے مختلف اقدار بھی ان کی وجہ ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جنسی انفیکشن کئی قسم کے ہیں مگر پاکستان اور دنیا بھر میں ا س وقت دیکھا جا رہا ہے کہ وارٹس، سیفلس، گونوریا، ایڈز، ہیپاٹائٹس اور دیگر تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

’ایڈز اور کسی حد تک ہیپاٹائٹس کے علاوہ باقی سب امراض قابل علاج ہیں۔ احتیاط کی جائے تو ان سے بھی بچا جا سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر جنید سرور کہتے ہیں کہ ’ان امراض سے متاثرہ لوگوں میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں۔‘

حالیہ عرصہ میں اسلام آباد میں بھی ایڈز سے پڑھے لکھے نوجوانوں کے متاثر ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ ایڈز اور ہیپاٹائیٹیس کے پھیلاؤ کا ایک اور سبب متاثرہ شخص کا خون بھی ہو سکتا ہے جبکہ دیگر جنسی انفیکشنز جنسی تعلق ہی سے پھیلتے اور بیمار کرتے ہیں۔

پاکستان میں اس بارے میں اعداد و شمار دستیاب نہیں کہ کتنے لوگ ان انفیکشنز سے متاثر ہیں تاہم ملک کے تمام بڑے شہروں میں موجود معالجین کی رائے ہے کہ وہ پچھلے دس، پندرہ سال کے اندر ان سے متاثرہ افراد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

پاکستان کی ممتاز گائنا کالوجسٹ طاہرہ کاظمی جو اب بیرونِ ملک خدمات انجام دے رہی ہیں، کا کہنا ہے کہ ’میں نے دورانِ پریکٹس ان خواتین کی تعداد میں اضافہ دیکھا ہے، جنھیں جنسی انفیکشن ہو۔

لاہور میں 42 سال سے پریکٹس کرنے والے ماہر امراض جلد و جنسیات پروفسیر ڈاکٹر عاطف حسنین کاظمی کہتے ہیں کہ ’گذشتہ برسوں کے مقابلے میں تو میں نے جنسی انفیکشن میں ایک ہزار فیصد اضافہ دیکھا اور اس پر کوئی کنٹرول نہیں۔‘

یورالوجسٹ ڈاکٹر ناصر جمیل کی بھی رائے ہے کہ یہ اضافہ خطرناک ہے اور کوئی کنٹرول بھی نہیں۔

culture

’میرے خاوند نہیں چاہتے تھے کہ جلدی اولاد ہو‘

شازیہ کی تعلیم صرف انٹرمیڈیٹ ہے وہ اس وقت سروائیکل کینسر یا رحم کے نچلے حصے کے کینسر سے لڑ رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ 15 سال قبل ان کی شادی ایک دولت مند کاروباری شخص سے ہوئی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’شادی کے بعد میں نے دیکھا کہ میرے خاوند کے مخصوص اعضا پر دانے ہیں۔ پہلے تو میں نہ بولی مگر ایک روز پوچھا تو کہنے لگے کچھ نہیں ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔ میں چپ ہو گئی مگر اس کے کچھ عرصے بعد مجھے بھی دانے نکلنے شروع ہو گئے۔‘

شازیہ کا کہنا تھا کہ اس دوران کئی سال گزر گئے۔ میرے خاوند کے دانے بڑھتے گئے اور اسی طرح میرے دانے بھی بڑھتے رہے۔

’اس کے ساتھ خارش اور دیگر تکالیف بھی ہوئیں۔ میرا پہلا حمل تقریباً شادی کے چھ سال بعد ٹھہرا تھا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’اصل میں میرے خاوند نہیں چاہتے تھے کہ جلدی اولاد ہو۔ جب میں ان کے نہ چاہنے کے باوجود حاملہ ہوئی تو مجھے لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’لیڈی ڈاکٹر نے دانے دیکھے تو وہ چونک گئیں۔ انھوں نے مجھ سے کرید کرید کر پوچھنا شروع کر دیا کہ یہ کیسے ہوئے۔‘

’اس کا سارا زور اس بات پر تھا کہ کیا میرا تعلق ایک سے زائد لوگوں سے تو نہیں۔ جب میں نے اس کو بتایا کہ میرے خاوند کو بھی یہ دانے ہیں تو لیڈی ڈاکٹر نے ٹیسٹ لکھ کر دیے اور کہا کہ میں اپنا اور اپنے خاوند کے ٹیسٹ کرواؤں۔‘

شازیہ کا دعویٰ ہے کہ ’جب میں نے اپنے خاوند کو بتایا تو انھوں نے مجھے ڈانٹ کر چپ کروا دیا۔ اس کے بعد بچے کی پیدائش گھر ہی میں ہوئی۔ بچے کی پیدائش کے بعد مجھے تکلیف شروع ہو گئی تھی جب بھی خاوند کو کہتی تو ٹال دیتے تھے۔ اس دوران میرے اعضا مخصوصہ پر دانے بڑھتے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پھر مجھے انتہائی ناقابل بیان تکلیف شروع ہو گئی۔ درد کے بعد پانی نکلتا اور اتنی تکلیف ہوتی کہ بیان سے باہر ہے۔‘

’جس پر مجبور ہو کر میرے خاوند نے مجھے دوبارہ ڈاکٹر کو دکھایا تو ٹیسٹوں کے بعد پتا چلا کہ میں پہلے جینیٹل وارٹس کا شکار ہوئی اور اب کینسر کا شکار ہو چکی ہوں۔‘

بین الاقوامی ادارے ایچ پی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی خواتین میں رحم یا سروائیکل کینسر تیسرا بڑا کینسر ہے اور ہر سال اس سے 5008 خواتین متاثر ہوتی ہیں جبکہ ہر سال 3197 ہلاک ہو جاتی ہیں۔

رحم یا سروائیکل کینسر کی دیگر وجوہات بھی ہیں مگر ماہرین کے مطابق بڑی وجہ جینیٹل وارٹس ہیں۔

new

’جینیٹل وارٹس عام ہو رہے ہیں‘

مختلف ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ پاکستان میں ایڈز اور ہیپاٹائیٹس کے علاوہ بات کی جائے تو اس وقت جینیٹل وارٹس کا مرض عام ہو چکا ہے۔ سیفیلس، گونوریا اور دیگر کے مقابلے میں جنیٹیل وارٹس کے زیادہ مریض سامنے آ رہے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کہتی ہیں کہ ہم نے پاکستان میں دیکھا ہے کہ بیویاں عام طور پر اپنے شوہروں سے اس مرض میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ایسا نہیں کہ یہ کسی ایک طبقے تک ہی محدود ہے۔ ’ہماری ایک ڈاکٹر دوست کی شادی ہوئی اور اس نے ہمیں بتایا کہ وہ خود بال بال بچی۔ شادی کی پہلی رات انھوں نے دیکھا کہ ان کے خاوند جنیٹیل وارٹس کا شکار ہیں، جس پر انھوں نے خاوند سے کہا کہ حقِ زوجیت سے پہلے ڈاکٹر کے پاس چلو اور چیک کرواؤ۔‘

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کہتی ہیں کہ ’ان کے خاوند کا چند دن تک علاج ہوا اور وہ ٹھیک ہو گئے۔ اب وہ لوگ ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں مگر اس کے شوہر نے اب تک یہ تسلیم نہیں کیا کہ وہ اس مرض کا شکار جنسی تعلق کی وجہ سے ہوئے ہیں۔‘

’وہ اب تک بہانے بناتے ہیں حالانکہ کوئی شخص جنیٹیل وارٹس کا شکار صرف اور صرف ایک سے زائد اور غیر محفوظ جنسی تعلق قائم کرنے کے وجہ سے ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ایک پڑھے لکھے خاندان کی یہ حالت ہے تو کم پڑھے لکھے افراد کا کیا حال ہوتا ہو گا۔ ’جس کسی کو بھی یہ مرض لاحق ہو جائے تو اس کو چاہیے کہ فوراً ماہر امراض جلد سے رجوع کریں۔‘

 وارٹس اور اس کی اقسام

health

پروفسیر ڈاکٹر عاطف حسنین کاظمی کہتے ہیں کہ وارٹس کی عموماً پانچ اقسام بیان کی جا سکتی ہیں۔ ’ان میں سے ایک جنیٹیل وارٹس جو کہ متاثرہ مرد و خواتین کو اعضائے مخصوصہ پر ہوتے ہیں کہ علاوہ باقی سب کے لیے پہلے تو علاج کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ کچھ عرصے میں خود ہی ختم ہو جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر وارٹس جنیٹیل نہ ہوں تو ان کے ٹھیک ہونے میں انسان کا قوت مدافعت کا نظام کام کرتا ہے۔

’جس کا زیادہ اچھا قوت مدافعت کا نظام ہوتا ہے وہ جلدی بہتر ہو جاتا ہے کم قوت مدافعت والوں کو کچھ علاج کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ جینیٹل وارٹس کے لیے باقاعدہ علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔‘

پروفسیر ڈاکٹر عاطف حسنین کاظمی کہتے ہیں کہ ’جینیٹل وارٹس کے علاج کے لیے مختلف طریقہ کار ہیں۔ یہ جینیٹل وارٹس پر ہوتا ہے کہ وہ کس نوعیت کے ہیں اور ان کو کتنا عرصہ گزر چکا ہے۔‘

ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد کے ماہر امراض جلد اور جنسیات ڈاکٹر سجاد کہتے ہیں کہ ’متاثرہ مرد یا عورت سے جنسی تعلق کے پہلے رابطے کے عموماً دو، تین ماہ یا اس سے بھی کم عرصے میں جینیٹل وارٹس پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ شروع میں یہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔‘

ڈاکٹر سجاد کے مطابق ’جینیٹل وارٹس کی تشخیص ایک ماہر ڈاکٹر کے معائنے سے ہو سکتی ہے۔ آغاز ہی میں ان کا علاج کروا لیا جائے تو یہ بہت کم مدت کا علاج ہوتا ہے۔

’اس میں عموماً ڈاکٹروں کے پاس صورتحال کے مطابق ایک سے زائد طریقے ہوتے ہیں۔ جس میں ان کو جلانا، لیکوئیڈ نائیٹروجن کے ساتھ فریز کر دینا، سرجیکل اور لیزر جیسے آپشن موجود ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر شروع ہی میں ان کا علاج کروایا جائے تو صرف متاثرہ جگہ ہی کو تکلیف سے بچانے کے  لیے سن کر کے ان کا علاج کر دیا جاتا ہے لیکن اگر یہ زیادہ ہو جائیں اور زیادہ وقت گزر جائے تو پھر مریض کا علاج ہفتوں تک جاری رہ سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر سجاد کے مطابق ’عموماً اس کے علاج کی زیادہ تر سہولیات موجود نہیں ہوتیں اور بہت سے معالج کرتے بھی نہیں۔

romance

’خاوند نے مرض لگا کر طلاق دے دی‘

مریم کی عمر 39 سال ہے۔ اس وقت وہ مختلف بیماریوں سے لڑ رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی شادی 24 سال کی عمر میں ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شادی کے کچھ عرصہ بعد مجھے رحم اور اردگرد پھنسیاں نکلیں تھیں۔ جب خاوند کو بتایا تو انھوں نے کہا کچھ بھی نہیں۔ ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔‘

مریم کہتی ہیں کہ ’اس کے بعد مجھے مختلف تکالیف ہوتی رہیں مگر میرے شوہر نے کوئی توجہ نہیں دی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرا حمل ٹھہرا اور اس میں کئی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں اور جب میں ڈاکٹر کے پاس گئی تو اس نے مجھے بتایا کہ مجھے سیفیلس کا مرض لاحق ہے۔ پیچیدگیاں اتنی زیادہ پیدا ہو چکی ہیں کہ شاید حمل گر جائے یا بچہ پیدا ہونے میں بہت مشکلات پیدا ہوں۔‘

’ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اپنے خاوند کا ٹیسٹ بھی کرواؤں۔ میری تشخیص کے بعد یہ بات خاندان میں پھیل گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خاوند نے مجھے قصور وار قرار دے دیا۔ میرا حمل بھی ضائع ہوا اور مجھے طلاق بھی مل گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اب میں کئی بیماریوں کا سامنا کر رہی ہوں۔ اگر بروقت علاج ہو جاتا تو شاید میری زندگی اتنی عذاب والی نہ ہوتی۔‘

inside

’قابل علاج مرض کو نا قابل علاج نہ بنائیں‘

ایوب میڈیکل کمپلکیس کے ماہر یورالوجسٹ اسسٹنٹ پروفسیر ڈاکٹر ناصر جمیل کہتے ہیں کہ ’سیفیلس ہو یا گونوریا، ایڈز اور ہیپٹاٹائیس کے علاوہ باقی تمام جنسی امراض قابل علاج ہیں۔ ’کچھ کا علاج ماہر امراض جلد کرتے ہیں جبکہ کچھ کا علاج یورالوجسٹ کرتے ہیں۔ عموماً گائنا گالوجسٹ اور دیگر معالجین بھی اس کا علاج کر دیتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ناصر جمیل کے مطابق سیفیلس اور گونوریا کی ابتدا ہی میں تشخیص ہو جائے جو کہ کوئی بڑا مشکل کام نہیں ہوتا، تو ان کا علاج مناسب اینٹی بائیوٹیک سے چند دن میں کیا جا سکتا ہے۔

’جس کے بعد کچھ عرصہ تک مختلف ٹیسٹ وغیرہ کروانے لازمی ہوتے ہیں لیکن اگر بروقت علاج نہ کروایا جائے تو یہ انفیکشن ہڈیوں، گردے، دماغ، آنکھوں کو متاثر کر دیتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ متاثرہ خواتین سے بچوں میں بھی منتقل ہو جاتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ناصر جمیل کے مطابق ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ مختلف وجوہات کی بنا پر مریض بروقت ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے، جس کے بعد مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔ ’ویسے بھی جنسی امراض کا علاج اور اس کی روک تھام کسی ایک کے علاج پر منحصر نہیں ہوتی، اس کے لیے جوڑے کا علاج کرنا لازم ہوتا ہے۔ ورنہ یہ دوبارہ ہو جاتے ہیں۔‘

’رابطوں کا پتا لگانا لازم ہے‘

 پروفسیر ڈاکٹر عاطف حسنین کاظمی کہتے ہیں کہ ویسے تو ہر معاشرے سے مریض آتے ہیں مگر دیکھا جا رہا ہے کہ گھروں سے دور رہنے والے، سفر کرنے والے اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور انھیں پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ اس مرض کو کہاں سے لے کر آئے ہیں اور آگے کس طرح پھیلا رہے ہیں۔

ڈاکٹر سجاد کہتے ہیں کہ ہمارے پاس جب مرد و خواتین مریض آتے ہیں تو عموماً شادی شدہ خواتین جن کا ایک صرف اپنے خاوند ہی کے ساتھ جنسی رابطہ ہوتا ہے وہ تو واضح طور بتا دیتی ہیں مگر وہ مرد و خواتین جن کے ایک سے زیادہ پارٹنرز کے ساتھ رابطے ہوتے ہیں وہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ اس مرض کی وجہ ایک سے زائد جنسی رابطہ ہے۔

ڈاکٹر سجاد کہتے ہیں کہ ’عموماً اس طرح بھی ہوتا ہے کہ ایک بار مریض آتے ہیں تو جب ان کو تشخیص کر کے بتایا جاتا ہے اور علاج کے بارے میں سمجھایا جاتا ہے تو وہ دوبارہ نہیں آتے۔

’اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ جس میں ایک وجہ طبی عملے کی جانب سے بھی توہین  آمیز رویہ اختیار کرنا شامل ہے۔‘

ڈاکٹر ناصر جمیل کہتے ہیں کہ ’ترقی یافتہ ممالک میں کسی جنسی انفیکشن کا مریض کسی معالج کے پاس پہنچتا ہے تو وہاں پر سب سے پہلے معالج کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ محکمہ صحت کے پاس اس کو رپورٹ کرے۔ جس میں متاثرہ شخص کی راز داری کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد محکمہ صحت، معالج کی مدد سے مریض کے رابطوں کا پتا کرتے ہیں اور ان سب کا معائنہ کیا جاتا ہے اور جس جس کو علاج کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ ہمارے پاس پاکستان میں ایڈز کے علاوہ شاید ایسا کوئی نظام موجود نہیں۔‘

ڈاکٹر ناصر  جمیل کہتے ہیں کہ ’اکثر جنسی امراض سے متاثرہ لوگوں میں تو بظاہر انفیکشن کی علامات بہت دیر سے ظاہر ہوتی ہیں۔

’وہ لوگ بھی اپنے ایک سے زائد رابطوں کی وجہ سے اس کو پھیلا رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں رابطہ کا پتا کرنے اور رپورٹ کرنے کا کوئی انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ان تک پہنچا نہیں جا سکتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس جب مرد مریض آتے ہیں تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ اپنی  پارٹنر یا بیویوں کو بھی معائنہ کے لیے لے کر آئیں تو وہ ایسا نہیں کرتے۔‘

’وہ سمجھانے کے باوجود اس بات کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ اگر وہ علاج سے ٹھیک بھی ہوجائیں تو اپنے پارٹنر یا بیوی کے ساتھ دوبارہ رابطے کی بدولت بیمار ہوجاتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ناصر جمیل کہتے ہیں کہ ’خواتین تولیدی ذمہ داریاں نبھا رہی ہوتی ہیں، جس وجہ سے ان کا نظام صحت کافی پیچیدہ ہوتا ہے۔ اگر خواتین متاثر ہو جائیں اور ان کو فوراً مناسب علاج نہ ملے تو ان کے لیے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘

’ویسے بھی ہمارے معاشرے میں جنس لفظ ہی کو ممنوعہ سمجھا گیا ہے تو وہاں پر اس کا علاج کروانا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر ناصر جمیل کہتے ہیں کہ جنسی امراض پر قابو پانے کے لیے شعور پیدا کرنا ہو گا۔ پورے ملک کے اندر ایک سسٹم تیار  کرنا ہو گا۔

’علاج معالجے کی سہولتوں کو پھیلانے کے علاوہ ہر ایک کی پہنچ میں رکھنا ہو گا۔ جہاں پر عام لوگوں میں اس حوالے میں آگاہی پیدا کرنا ہو گئی وہاں پر ملک کے طبی عملے میں بھی شعور پیدا کرنا ہو گا کہ وہ مرض سے نفرت کریں مریض سے نہیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *