یکساں قومی نصاب کی کتب میں خواتین کی عکاسی ’تاثر دیا

یکساں قومی نصاب کی کتب میں خواتین کی عکاسی ’تاثر دیا

یکساں قومی نصاب کی کتب میں خواتین کی عکاسی ’تاثر دیا گیا کہ خواتین گھر کو سنبھالتی ہیں یا صرف ٹیچر اور نرس ہوتی ہیں‘

پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے یکساں قومی نصاب یعنی سنگل نیشنل کریکولم (ایس این اسی) کے تحت شائع ہونے والی پانچویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں ایک خاندان کو ساتھ وقت گزارتے دکھایا گیا ہے۔

اس تصویر میں باپ اور بیٹا قمیض پتلون پہنے ہوئے صوفے پر براجمان کتاب کے مطالعے میں مصروف ہیں جبکہ ماں اور بیٹی کو حجاب پہنے ان کے سامنے زمین پر بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایسی ہی مزید تصاویر خیبر پختونخوا اور پنجاب میں متعارف کروائے جانے والے اس یکساں قومی نصاب کی کتب میں نظر آتی ہیں۔ یہ تصاویر نہ صرف اسلامیات بلکہ اردو، انگریزی اور معاشرتی علوم کی کتابوں میں بھی ہیں، جہاں خواتین اور بچیوں کو حجاب میں دکھایا گیا ہے۔

دوسری جانب مردوں اور بچوں کے لباس موقع کی مناسبت سے پیش کیے گئے ہیں جیسے کہیں پر وہ مغربی لباس پہنے ہوئے ہیں اور کہیں وہ روایتی شلوار قمیض یا اپنا پیشہ وارانہ لباس پہنے ہوئے ہیں۔

ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ اس پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے بچوں کی نصابی کتب میں خواتین کی کس انداز سے عکاسی کر رہے ہیں۔

تاریخ دان اور مصنف یعقوب خان بنگش کا کہنا ہے کہ ’ان کتب میں آخر کون سی ثقافتی اقدار دکھائی جا رہی ہیں؟ ایسا تو ان عرب ممالک میں بھی نہیں ہوتا جہاں سے حجاب کی یہ روایت آئی ہے۔‘

انھوں نے مزید کھا ’ایک لڑکی اپنے بہن بھائیوں اور والدین کے ساتھ حجاب پہن کر کیوں بیٹھے گی؟‘

یعقوب بنگش نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نصاب کی کتب چھاپتے ہوئے یہ احتیاط برتنی چاہیے کہ ان میں لوگوں کی کیسی تصویر کشی کی گئی ہے کیوںکہ بچے جو کچھ سکول میں سیکھتے اور دیکھتے ہیں، وہ بعد میں ویسا ہی اپنے گھر میں دہرانا چاہیں گے۔

کتاب

یعقوب بنگش نے مزید کہا کہ سنہ 1980 کی دہائی میں یہ عمل عام ہونا شروع ہوا جب ہر لڑکی نے سر پر دوپٹہ لینا شروع کیا اور اس طرح یہ عمل ثقافتی اقدار میں ڈھل گیا۔

یعقوب بنگش کا مزید کہنا تھا کہ ان نصابی کتب کی تصاویر کو دیکھیں تو یہ دوپٹے نہیں بلکہ حجاب ہیں اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ شاید ہم اپنی ثقافت سے مطمئن نہیں۔

یکساں قومی نصاب کی کتب میں خواتین کی عکاسی

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی سنہ 2018 میں کی جانے والی ایک رائے شماری میں پاکستان کو خواتین کے لیے چھٹے خطرناک ترین ملک کا درجہ دیا گیا تھا۔

حالیہ کچھ عرصے میں بھی ملک میں خواتین کے خلاف گھناؤنے ترین جرائم سامنے آ رہے ہیں اور معاشرے میں اس حوالے سے ایک شدید بحث چھڑ چکی ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔

خواتین کی جانب سے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے بھی کیے گئے ہیں اور حکومت سے خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یکساں قومی نصاب کی کتب میں خواتین کی عکاسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزارتِ تعلیم و فنی تربیت کی تکنیکی مشیر ڈاکٹر عائشہ رزاق کا مؤقف ہے کہ بچوں کی نصابی کتب میں خواتین کی عکاسی ریاست کے برابر شہری کے طور پر کی جانی چاہیے۔

تعلیم

ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ اگر لڑکے اپنی کتب میں خواتین اور بچیوں کو صرف سر ڈھانپیں ہی دیکھیں گے تو وہ سوچ سکتے ہیں کہ ان کی کتب میں عکاسی کی جانے والی خواتین سے مختلف لباس پہننے والی کو ہراساں کرنا جائز ہے۔

’آہستہ آہستہ آپ بچوں کی تربیت کر رہے ہیں کہ اگر کوئی عورت ان کپڑوں کے علاوہ کسی اور کپڑوں میں ملبوس ہو تو وہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔‘

ان کتب میں خواتین کا ایک مخصوص لباس تو مسئلے کا ایک پہلو ہے لیکن دوسرا تشویشناک امر ان کتب میں خواتین کو روایتی کرداروں میں دکھایا جانا ہے۔

یکساں نصاب کی تیسری جماعت کی اردو کی کتاب میں گرامر کی ایک مشق دی گئی ہے جس میں ایک جملہ کچھ یوں ہے کہ ’عائشہ نے نماز پڑھی‘ جبکہ اس سے اگلا جملہ ہے کہ ’لڑکوں نے فٹ بال کھیلا۔‘

پانچویں جماعت کی انگریزی کی نصابی کتاب میں ایک جملہ ہے کہ ’میرے والد روزانہ اخبار پڑھتے ہیں‘ اور اسی صفحے میں آگے چل کر کہا گیا ہے کہ ’میری والدہ کپڑے دھوتی ہیں۔‘

کتاب

خیبر پختونخوا صوبے میں پہلی جماعت کی انگریزی کی کتاب میں ایک بچی کی تصویر کا عنوان ہے کہ ’یہ حنا ہے اور یہ اس کے کپڑے ہیں‘ جبکہ لڑکے کی تصویر کا عنوان کچھ یوں ہے کہ ’یہ جان ہے اور یہ اس کا فٹبال ہے۔‘

یکساں قومی نصاب کے تحت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مختلف جماعتوں میں پڑھائی جانے والی دس سے زیادہ کتب کے جائزے میں دیکھا گیا ہے کہ خواتین کو یا تو گھریلو کردار یا ٹیچر کے طور پر دکھایا گیا ہے جبکہ بچیوں کو تصاویر میں پھولوں، کپڑوں یا بلیوں سے کھیلتے دکھایا گیا ہے۔

دوسری جانب لڑکوں کو مختلف کھیل کھیلتے دکھایا گیا ہے اور مردوں کو متنوع پیشہ ور کرداروں میں پیش کیا گیا ہے مثلاً ٹرک ڈرائیور، کسان، ڈاکٹر یا فوجی۔

ان نصابی کتب میں شاذ و نادر ہی ایسی تصاویر موجود ہیں جن میں خواتین کو فائٹر جیٹ پائلٹ یا سائنسدان دکھایا گیا ہے، اس پر ڈاکٹرعائشہ رزاق کا کہنا ہے کہ ’خواتین کو دیگر کرداروں میں دکھانے کے باوجود بچوں کا شعور ’ٹوکن ازم‘ (یعنی اکا دکا مثالوں) سے تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان کتب میں عمومی تاثر یہی دیا گیا ہے کہ خواتین گھر کو اچھے طریقے سے سنبھالتی ہیں یا صرف ٹیچر اور نرس ہوتی ہیں۔‘

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا مؤقف جاننے کے لیے ان سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب نہیں ملا جبکہ پنجاب میں یکساں نصاب کی کتب شائع کرنے کے متعلقہ ادارہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ایم ڈی ڈاکٹر فاروق منظور کی جانب سے بھی رابطہ کرنے کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

کتاب

یہاں اس بات کی نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے کہ خواتین کی ایسی رجعت پسندانہ منظر کشی صرف یکساں نصاب تک ہی محدود نہیں۔

ایس این سی کی کتب کا پرانے نصاب کے ساتھ موازنہ کرنے کے لیے پنجاب کی گذشتہ سال کی کتب کا بھی جائزہ لیا گیا۔

جماعت پنجم کی انگریزی کی 102 صفحات پر مبنی کتاب میں خواتین کی صرف دو تصاویر تھیں اور ان دونوں خواتین کو دوپٹہ اوڑھے دکھایا گیا ہے۔

اسی کتاب میں ایک لکڑہارے کی کہانی ہے جس کے ہاتھ پیتل کی جادوئی کیتلی لگ جاتی ہے جس میں وہ حادثاتی طور پر اپنی بیوی کو گرا دیتا ہے اور بعد ازاں اس میں سے ایک کے بجائے اس کی دو بیویاں برآمد ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر عائشہ رزاق کا کہنا ہے کہ اکثریت بچوں کی متفرق مطالعاتی مواد تک رسائی نہیں ہوتی اور اسی بنا پر ان کی نصابی کتب بہت سوچ سمجھ کر تیار کرنی چاہیے۔

وہ کہتی ہیں ’دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات یہی بتاتی ہیں کہ چھوٹی بچیوں کا رجحان سائنسدان یا انجینئر بننے کی طرف اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب وہ ان شعبہ جات میں کام کرنے والی مثالی خواتین شخصیات کو زیادہ دیکھتی ہیں۔‘

ڈاکٹر یعقوب بنگش بھی اس خیال سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نصابی کتب کے ذریعے بچوں کو یہ تعلیم دینی چاہیے کہ مرد و عورت برابر ہیں۔

’اگر ہم ان کی تصویر کشی برابری سے نہیں کریں گے تو کیسے ان دونوں کی برابری کی تعلیم دیں گے۔ مرد و زن کی برابری تو ہمارے آئین کا حصہ ہے۔‘

یکساں نظام تعلیم

یکساں نظام تعلیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے انتخابی منشور میں یکساں قومی نصاب کو رائج کرنا ایک اہم مشن کے طور پر پیش کیا لیکن 18ویں ترمیم کے بعد سے چونکہ تعلیم ایک صوبائی موضوع بن گیا تو پورے ملک میں ایس این سی کا نفاذ تو نہیں ہو سکا تاہم پی ٹی آئی کے زیر حکومت صوبہ پنجاب، خبیر پختونخواہ اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سکولوں میں یہ نصاب رائج کر دیا گیا۔

وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے یکساں نصاب تعلیم کو نافذ کرنے کے ارادے کے پیچھے کارفرما سوچ یہ ہے کہ تمام سرکاری و نجی سکول، حتیٰ کہ دینی مدارس یہ یقینی بنا سکیں کہ ’اعلیٰ معیار کی تعلیم کے لیے بچوں کو مساوی اور منصفانہ مواقع فراہم ہونے چاہیے۔‘

وزارت کی ویب سائٹ کے مطابق یکساں نصاب تعلیم کا مقصد قرآن و سنت کی تعلیم کو فروغ دینے کے علاوہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے افکار سمیت طلبا میں رٹے رٹائے علوم کی بجائے تنقیدی و تخلیقی سوچ پیدا کرنا ہے۔

اس سال مارچ میں پہلی سے پانچویں جماعت تک کے طلبہ کی پڑھائی کے لیے نیا نصاب لاگو کر دیا گیا اور اس کے تحت انگریزی، جنرل سائنس، ریاضی، معاشرتی علوم اور جنرل نالج کے مضامین لازمی ہوں گے جبکہ غیر مسلم طلبہ کو اختیار ہو گا کہ وہ اسلامیات کے بجائے مذہبی تعلیمات کا مضمون پڑھ لیں۔

نیا نصاب تین مراحل میں لاگو کیا جائے گا۔ رواں سال مارچ میں پہلی سے پانچویں جماعت تک کے نصاب کے بعد اگلے سال چھٹی سے آٹھویں تک جبکہ اُس سے اگلے سال نہم سے بارہویں تک یکساں نصابِ تعلیم نافذ کر دیا جائے گا۔

تاہم اقلیتوں کی طرف سے کی جانے والی شکایات کے علاوہ نئے نصاب کے معیار پر اور بالخصوص ان کتب میں خواتین کی نمائندگی اور عکاسی کے بارے میں ماہرین اور والدین، دونوں کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا گیا۔

لاہور میں کھانے پکانے کا کام کرنے والی ثمینہ کے دو بچے اس وقت زیر تعلیم ہیں۔ ان سے جب بچوں کی کتب میں خواتین کی تصویر کشی سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’مرد اپنے آپ کو مضبوط دکھانا چاہتے ہیں۔‘

’اس سے وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ صرف ہم ہی تمہارے لیے کما سکتے ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ آپ خواتین کو باورچی خانے میں دکھائیں لیکن بطورایک ڈاکٹر کے دکھانے میں کیا حرج تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *