یوکرین میں اندھا دھند برسنے والے کامیکازی ڈرون

یوکرین میں اندھا دھند برسنے والے کامیکازی ڈرون

یوکرین میں اندھا دھند برسنے والے کامیکازی ڈرون وہ ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں اور نشانہ بنا رہے ہیں

سیریبریانسکی کا جنگل روشن ہے۔ پہلی نظر میں یہ تازہ ہوا کے جھونکے جیسا منظر محسوس ہوتا ہے مگر پھر پائن کے درختوں کے بیچ لکڑی جلنے کی بو آتی ہے۔

اسی دوران دھماکے کی زوردار آواز آنے پر یوکرین کے تین فوجی اہلکار اپنی بکتربند گاڑی کی طرف لپکتے ہیں۔

دھماکے کی آواز آنے سے تھوڑی دیر پہلے ہی ایک فوجی بریگیڈ کے پریس آفیسر نے پہلی عالمی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ’یہ ورڈن کی جنگ جیسا ماحول ہے۔‘

سیریبریانسکی کا یہ وسیع و عریض جنگل لیمن شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ یہاں اور شمال کی جانب کوپیانسک شہر تک پھیلے ہوئے روسیوں نے حالیہ ہفتوں میں معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یوکرین کی مشرقی افواج کے کمانڈر کے مطابق صورتحال تشویشناک ہے۔

گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر جنرل اولیکسینڈر سرسکی نے روسی افواج کے مشرق میں دوبارہ منظم ہونے سے متعلق خبردار کیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ روس نے اس علاقے میں ایک لاکھ فوجیوں اور نو سے زیادہ ٹینکوں کو تعینات کیا ہے۔

روس یوکرین میں اپنے زیر قبضہ مشرقی علاقوں پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان علاقوں میں سے بیشتر پر یوکرین کی افواج نے گذشتہ سال ستمبر میں دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔

روس نے جنگ کا مقصد ڈونباس کی ’آزادی‘ کو قرار دیا ہے جو لوہانسک اور ڈونیٹسک کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ لیکن اپنی زیادہ سے زیادہ افرادی قوت کے ساتھ یہ یوکرین کے وسائل کو بھی ہتھیانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیئو کو ملک کے جنوب میں ایک علیحدہ قسم کے حملے کا سامنا ہے۔

جیسے ہی بکتر بند گاڑی جنگل میں اندر کی جانب بڑھتی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ کئی درخت نذر آتش ہیں۔ کچھ وہیں کھڑے کھڑے جل رہے ہیں اور باقیوں کے سیاہ تنے نیچے گر رہے ہیں۔

دھول اور دھواں گاڑی میں داخل ہوتا جاتا ہے۔

کامیکازی

بٹالین کمانڈر سپیکر مسافروں کی سیٹ پر آگے بیٹھے ہیں اور ان کی توجہ آگے کی سڑک اور اوپر آسمان کی جانب ہے جہاں تک اسے چٹخی ہوئی ونڈ سکرین اجازت دیکھنے کی اجازت دے رہی ہے۔

انھوں نے بتایا ’یہ (نقصان) آج صبح ایک توپ خانے کے حملے کا نتیجہ ہے جو شاید چند گھنٹے پہلے ہی ہوا ہے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ یہ اب بھی جل رہا ہے۔‘

سپیکر برسوں سے روس اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں سے لڑ رہے ہیں۔ اُن کا یہ سفر 2014 میں ڈونباس سے شروع ہوا جس میں گذشتہ ستمبر میں صرف ایک ماہ اس وقت وقفہ آیا جب ہاتھ میں گولی لگنے کے بعد وہ ہسپتال میں داخل رہے۔

کار میں سفر کے وقت وہ زیادہ نہیں بولتے تاکہ ریڈیو مواصلات کو کم سے کم رکھا جا سکے۔

اس سے پہلے کے روسی راکٹ حملوں نے درخت کی کنوپی (چھت) کو تباہ کر دیا ہے۔ یہاں زمین اور آگے سڑک خالی پڑی ہے۔ بکتر بند گاڑی اور ایک پک اپ ٹرک صبح کے آخری حصے میں ہوا، مٹی اور ریت کے بڑے بگولوں کو اڑاتے جاتے ہیں۔

ڈرائیور، جس کا کال سائن ’اکاؤنٹنٹ ‘ ہے، ہموی کا انجن ٹریک میں پھنسنے اور مڑنے پر مزاحمت پر سٹیئرنگ وہیل کو مضبوطی سے پکڑتا ہے جس سے اس کا ہیلمٹ سنٹر کنسول نیچے گرتا ہے ۔

تقریبا 40 منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی کے سامنے بارود کا ایک گولہ آ کر پھٹتا جاتا ہے تاہم سب کی بچت ہو جاتی ہے۔

اس دوران سپیکر نے چیخ کر کہا ’بے شمار ڈرونز۔۔۔ لعنت ہو۔ یہ ہماری کار پر ہونے والا ایک ڈرون حملہ تھا۔۔۔ روسی کامیکازی ڈرون۔‘

انھوں نے وضاحت کی کہ کامیکازی ڈرون درستگی کے ساتھ اہداف سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنے ہدف پر جا کر پھٹتے ہیں۔ سپیکر نے مزید کہا کہ ’انھوں نے ہمیں اوپر سے دیکھا اور پھر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ہمیں دیکھ لیا ہے اور اب وہ ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں اور ہمیں نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں تیزی سے واپس جانا چاہیے۔‘

ڈرون ہموی اور آگے جانے والے پک اپ ٹرک کے درمیان سڑک سے ٹکرا گیا جس سے ہم ایک میٹر تک دھول کے بادل میں غائب ہو گئے۔ اس دھول مٹی نے روسیوں کو نہ ہماری پوزیشن سے آگاہ کر دیا بلکہ ممکنہ طور پر ان کے نشانے بھی دھوئیں کے بادل کی نذر ہو گئے۔

روسی کامیکازی ڈرون کیا ہے؟

ایرانی ساختہ ڈرون شاھد 136، جسے روس نے جیرانیئم 2 کا نام دیا ہے ایک طرح کا فضائی بم ہے۔

دھماکہ خیز مواد سے لیس یہ ڈرون ہدف کے آس پاس اس وقت تک اڑ سکتا ہے جب تک اسے حملے کا پیغام نہ ملے۔

ہدف سے ٹکرائے جانے پر دھماکہ خیز مواد پھٹ جاتا ہے جس کے نتجے میں ڈرون بھی تباہ ہو جاتا ہے۔

شاھد 136 ڈرون تقریباً آٹھ فٹ دو انچ چوڑا ہے جس کا ریڈار کے ذریعے سراغ لگانا مشکل ہوتا ہے۔

عسکری امور کے ماہر جسٹن کرمپکے مطابق ’یہ ڈرون بہت نیچا اڑتے ہیں اور ان کو لہروں میں بھیجا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے فضائی دفاع کے ذریعے ان کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘

روس یوکرین جنگ

انسانی جانوں کے نقصان کے پیش نظر آبادی کے انخلا کے احکامات

سپیکر نے بتایا کہ دو ڈرونز اوپر آسمان پر تھے۔ ایک نگرانی کے لیے، دوسرا حملے کے لیے۔ جیسے ہی ہم ایک اور کچی سڑک پر واپس جاتے ہیں ہمیں ایک تباہ شدہ ہموی ( بکتر بند گاڑی) کی سیاہ باقیات دکھائی دیتی ہیں جس کا بکتر کھلا ہوا اور اس کا چھت ختم ہو گئی تھی۔ سڑک کے کنارے پڑی یہ گاڑی پہلے ہونے والے حملے کا شکار تھی۔

سپیکر نے بتایا کہ ’ایک ہفتہ قبل ایک کامیکازی ڈرون نے بٹالین کی ایک اور گاڑی کو اڑایا جس میں ان کا ایک فوجی ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔‘

یوکرین کو روسی ڈرون کی حکمت عملی اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے چیلینـجز کا سامنا ہے۔

روس کے پاس اب ایسے ڈرونز ہیں جو اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے لیزر کا استعمال کرتے ہوئے پیئرز(جوڑوں) میں شکار کرتے ہیں۔ روس کی اس پیش قدمی پر یوکراینی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ اس میں انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔

واپس اپنے اڈے پہنچنے پر سپیکر نے مزید وضاحت دی اور بتایا کہ ’پچھلے دو ہفتوں میں، ڈرونز بہت زیادہ حملے کر رہے ہیں۔ کیونکہ روسی ان ڈرونز کو پڑھ اور سیکھ کر کمانڈ حاصل کر چکے ہیں۔ وہ اپنے ڈرون آپریٹرز کو تعلیم دے رہے ہیں اور ایسے میں ان پر غلبہ پانا یا ان سے لڑنا مشکل ہو رہا ہے۔‘

فوجیوں کو بلاشبہ اس باعث بہت فائدہ ہے جبکہ عام شہری اس سے نقصان میں ہیں۔ کوپیانسک کے ارد گرد یوکرین نے گذشتہ ستمبر میں دوبارہ قبضہ کر لیا تھا اور اب روسی ایک بار پھرعام لوگوں کے گھروں پر گولہ باری کر رہی ہیں۔

لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں مدد کرنے والے آرتر وینوہرادوف ’آئی ایم سیوڈ (میں محفوظ ہوں) نامی خیراتی ادارے کے ایک رضاکار ہیں۔ یہ الفاظ ان کی ٹی شرٹ پر بھی لکھے ہوئے ہیں اور اس کے دوہرے معنی ہیں۔

یہ گروہ ایسے صحت یاب ہونے والے افراد پر مشتمل ہے جو پہلے نشے کے عادی رہے تھے۔ یہ رضاکار اپنی تین ٹوٹی ہوئی وینیں خطرے میں پڑنے والے دیہاتوں تک ان کی مدد کے لیے لے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے انھوں نے تقریباً 17 ہزار افراد کو بچایا ہے۔

آرتر نے بتایا کہ ’ہم بچوں کو لے جاتے رہتے ہیں۔ انخلا کی پہلی ترجیح بچوں کی ہے۔‘

ان کی ایک وین کے پچھلے حصے میں پانچ ماہ کی صوفیہ ہے، جو اپنی ماں ٹیٹیانا کے بازوؤں میں لپٹی ہوئی ہے۔ اس صبح ان کے محلے پر گولہ باری کی گئی۔

’یہاں رہنا بہت خوفناک ہے۔ اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے مجھے وہاں سے جانا ہو گا۔‘

انھوں نے اپنی بیٹی صوفیا کے سر کو چومتے ہوئے مجھے بتایا۔

بھری ہوئی وین میں ان کے ساتھ ان کے دادا بھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے صبح کے وقت سے آنے جانے کے دوران اب تک بہت سے خوفناک مناظر دیکھے ہیں۔‘

انھوں نے کہا ’میں بستر پر بیٹھا کافی پی رہا تھا اور اچانک خود کو میز کے نیچے پایا۔ دھماکے نے مجھے بستر سے نیچے پھینک دیا تھا۔‘

72 سالہ انتونینا سیمینیونا کہتی ہیں کہ وہ ابھی یہاں رہنے کا خطرہ مول لیں گی۔’ یہاں کے لوگ پہلے ہی چھ ماہ تک روسی قبضے میں رہے اور بہت سے لوگ اسے دہرانا نہیں چاہتے۔‘

انھوں نے بتایا ’کل ایک بم پھٹا۔ پہلے ہم نے سوچا کہ یہ ہوائی جہاز کی آواز ہے لیکن پھر ایک دھماکا ہوا۔ کاش (یوکرین کے فوجی) ان کا پیچھا کر سکتے۔ ‘

لائمن سے کپیانسک تک سامنے پھیلے ہوئےحصے میں روس کو ابھی تک بہت زیادہ فائدہ تو نہیں پا سکا لیکن انتونینا اور اس کے پڑوسیوں کے لیے یہ جگہ ہبہت معنی رکھتی ہے، جنگ کے المیے کا ایسا اعادہ جو دوبارہ یوکرانی خاندانوں کی علیحدگی پر ختم ہوتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *