یوکرین روس جنگ پانچ نتائج جن پر جنگ کا اختتام

یوکرین روس جنگ پانچ نتائج جن پر جنگ کا اختتام

یوکرین روس جنگ پانچ نتائج جن پر جنگ کا اختتام ہو سکتا ہے

جنگ کے سائے اور آگ و بارود کے دھوئیں میں آگے کا راستہ دیکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ میدان جنگ سے آنے والی خبریں، سفارتی شور و کوششیں، غمزدہ اور بے گھر افراد کے جذبات؛ یہ سب ذہن پر بہت زیادہ بوجھ ڈال سکتا ہے۔

تو آئیے ایک لمحے کے لیے غور کرتے ہیں کہ یوکرین میں جنگ کیسے ختم ہو سکتی ہے اور کچھ ممکنہ منظرنامے کیا ہیں جن کا سیاست دان اور عسکری منصوبہ ساز جائزہ لے رہے ہیں؟

بہت کم لوگ اعتماد کے ساتھ مستقبل کی پیش گوئی کر سکتے ہیں، لیکن یہاں کچھ ممکنہ نتائج ہیں۔ مگر ان میں سے زیادہ تر تاریک یا کمزور ہیں۔

  • روس یوکرین تنازع: اس جنگ کے آپ کی زندگی پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟ ہمیں اپنے سوال بھیجیں

قلیل مدتی جنگ

پہلے ممکنہ منظر نامے کے تحت روس اپنی فوجی کارروائیوں میں اضافہ کر دیتا ہے۔ یوکرین بھر میں اندھا دھند گولہ باری اور راکٹ حملے ہو رہے ہیں۔ اب تک ایک کم اہم کردار ادا کرنے والی روسی فضائیہ تباہ کن فضائی حملے شروع کر دیتی ہے۔ یوکرین میں بڑے پیمانے پر سائبر حملے شروع ہوتے ہیں جو اہم قومی انفراسٹرکچر کو نشانہ بناتے ہیں۔

ملک بھر میں بجلی اور مواصلات کا نظام منقطع ہو جاتا ہے۔ ہزاروں یوکرینی شہری مارے جاتے ہیں۔ سخت اور دلیرانہ مزاحمت کے باوجود، کیئو پر دنوں میں قبضہ ہو جاتا ہے۔ یوکرینی حکومت کو ماسکو نواز کٹھ پتلی حکومت سے بدل دیا جاتا ہے۔

یوکرینی صدر زیلنسکی کو یا تو قتل کر دیا جاتا ہے یا وہ مغربی یوکرین یا ملک سے فرار ہو کر جلا وطنی میں حکومت قائم کرتے ہیں۔ صدر پوتن فتح کا اعلان کرتے ہیں اور کچھ فوج کو یوکرین سے پیچھے ہٹا دیتے ہیں لیکن ملک پر کنٹرول قائم رکھنے کے لیے کافی فوج کو ملک میں ہی رہنے دیتے ہیں۔

ہزاروں یوکرینی پناہ گزینوں کا مغرب کی طرف نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ یوکرین کا بھی بیلاروس کی طرح ماسکو کی ذیلی یا حمایتی ریاست کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔

یہ نتیجہ کسی بھی طرح سے ناممکن نہیں ہے لیکن اس کا انحصار بدلتے ہوئے کئی عوامل پر ہو گا جیسا کہ روسی افواج بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں، اس تناظر میں مزید فوج کو تعینات کیا جائے، اور یوکرین کا غیر معمولی جنگی جذبہ ختم ہو جائے۔

صدر پوتن کیئو میں حکومت کی تبدیلی اور یوکرین کے مغربی انضمام کا خاتمہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن کوئی بھی روس نواز حکومت ناجائز تصور ہو گی اور ملک شورش کا شکار رہے گا۔ اس طرح کا نتیجہ غیر مستحکم ہو گا اور دوبارہ تنازعات کے پھوٹ پڑنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔

طویل جنگ

دوسری صورت میں شاید زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ ایک طویل جنگ کی شکل اختیار کر لے۔ ہو سکتا ہے کہ روسی فوجیں پست ہو جائیں، کم حوصلے، ناقص لاجسٹکس اور نااہل قیادت ان کی راہ کی رکاوٹ بن جائے۔

ہو سکتا ہے کہ روسی افواج کو کیئو جیسے شہروں کو محفوظ بنانے میں زیادہ وقت لگے کیونکہ اس کے محافظ شہری فوج سے گوریلا جنگ شروع کر دیں یا لڑائی گلیوں میں شروع ہو۔

ایسی صورت میں شہر کا طویل محاصرہ رہے گا۔ یہ لڑائی 1990 کی دہائی میں چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی پر قبضہ کرنے اور اسے بڑے پیمانے پر تباہ کرنے کے لیے روس کی طویل اور وحشیانہ کوشش کی تاریخ دہرائے گی۔

Chechens during the Russian occupation of Grozny

اور اگر روسی افواج یوکرین کے شہروں میں اپنی کچھ تسلط برقرار کر لیتی ہیں تو بھی شاید وہ وہاں کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ روس اتنے وسیع ملک کا احاطہ کرنے کے لیے کافی فوج فراہم نہ کر سکے۔

ایسے میں ہو سکتا ہے کہ یوکرین کی فوج مقامی افراد کی حمایت حاصل کر کے ایک مؤثر مزاحمت اور شورش کے لیے اُن کی حوصلہ افزائی کریں اور مغرب انھیں ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرتا رہے۔

اور پھر شاید کئی برسوں کے بعد ماسکو میں نئی قیادت کے ساتھ روسی افواج بالآخر یوکرین سے ہار کر اور خون آلود ہو کر نکل جائیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ان کے پیشرو 1989 میں ایک دہائی تک افغان عسکریت پسندوں سے لڑنے کے بعد افغانستان سے چلے گئے تھے۔

یورپی جنگ

یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جنگ یوکرین کی سرحدوں سے باہر تک پھیل جائے اور صدر پوتن سابق سوویت جمہوریہ مولڈووا اور جارجیا میں فوج بھیج کر روس کی سابقہ سلطنت کے مزید حصوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، جو نیٹو کا حصہ نہیں ہیں۔

یا صرف غلط اندازوں کے باعث جنگ کی شدت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ صدر پوتن یوکرین کی افواج کو مغربی ممالک کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی کے عمل کو جارحیت قرار دے سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جوابی کارروائی کر سکتے ہیں۔

وہ نیٹو اتحاد کی رکن لتھوانیا جیسی بالٹک ریاستوں میں فوج بھیجنے کی دھمکی دے سکتے ہیں تاکہ وہ روسی ساحلی علاقے کلینن گراڈ کے ساتھ زمینی راستہ اور رابطہ قائم کر سکیں۔

A view of the square outside the damaged city hall of Kharkiv, north-eastern Ukraine, on March 1, 2022, destroyed as a result of Russian troop shelling

یہ انتہائی خطرناک ہو گا اور نیٹو کے ساتھ جنگ کے خطرات کو بڑھا دے گا۔ نیٹو کے فوجی اتحاد کے چارٹر کی شق پانچ کے تحت ایک رکن پر حملہ سب پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔

لیکن صدر پوتن کو اگر یہ لگتا ہے کہ یہ ان کی قیادت کو بچانے کا واحد راستہ ہے تو وہ یہ خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ شاید اگر انھیں یوکرین میں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو تو وہ مزید آگے بڑھنے کی لالچ میں آ سکتے ہیں۔

اب ہم یہ جانتے ہیں کہ روسی رہنما دیرینہ بین الاقوامی اصولوں کو توڑنے کے لیے تیار ہیں۔ اسی منطق کا اطلاق جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر بھی ہو سکتا ہے۔ اس ہفتے ہی صدر پوتن نے اپنی جوہری قوتوں کو اعلیٰ سطح پر الرٹ کر دیا۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں کو شک ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ ان کے استعمال کا قوی امکان ہے۔

لیکن یہ ایک یاد دہانی تھی کہ روسی نظریہ میدان جنگ میں ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کی اجازت دیتا ہے۔

سفارتی حل

کیا آج بھی اس جنگ کا سفارتی حل ممکن ہے؟

اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گتیریس نے کہا ہے کہ ‘اس وقت تو بندوقیں بول رہی ہیں مگر بات چیت کا راستہ ہمیشہ کھلا ہوتا ہے۔‘

اور بات چیت جاری بھی ہے۔

فرانسیسی صدر نے صدر پوتن نے فون پر بات کی ہے اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ماسکو میں بات چیت کے لیے اشارہ دیے جا رہے ہیں۔ اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ روسی اور یوکرینی حکام بیلاروس کی سرحد پر ایک دوسرے سے ملے ہیں۔

ابھی ان کے درمیان کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی مگر بات چیت پر رضا مندی ظاہر کر کے پوتن نے اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی کم از کم ایک امکان تو ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا مغرب ممالک روس کو اس سب سے نکلنے کا راستہ دے سکتے ہیں۔ سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بات اہم ہے کہ روسی صدر کو یہ پتا ہو کہ مغربی پابندیاں ہٹوانے کے لیے کیا کچھ درکار ہوگا تاکہ کوئی ایسی ڈیل ہو سکے جس میں سب کی عزت بچ جائے۔

ذرا اس ممکنہ صورتحال کے بارے میں سوچیں۔ روس کے لیے جنگی محاذ کچھ اچھا نہیں جاتا۔ پابندیاں روس میں مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ جیسے جیسے فوجی ہلاکتیں بڑھتی ہیں مخالفت بڑھنے لگتی ہے۔

پوتن سوچتے ہیں کہ اس نے کہیں بہت زیادہ مشکل تو اپنے سر نہیں لے لی۔ وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ جنگ جاری رکھنا ان کی قیادت کے لیے اس کو اس کو ختم کرنے کی بے عزتی سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔

چین مداخلت کرتا ہے اور ماسکو پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ سمجھوتہ کرے ورنہ وہ روسی تیل اور گیس نہیں خریدے گا۔ پوتن مسئلے سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔

ادھر یوکرینی حکام اپنے ملک کی متواتر تباہی دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جانی نقصان روکنے کے لیے سیاسی سمجھوتہ ہی واحد راستہ ہے۔ سفارتکار ملتے ہیں اور معاہدہ ہو جاتا ہے۔ یوکرین کرائمیا اور دونباس کے علاقوں پر روسی خود مختاری تسلیم کر لیتا ہے۔ بدلے میں پوتن یوکرینی آزادی اور یورپ کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے اس کے حق کو تسلیم کر لیتے ہیں۔

یہ سب ہونا کافی مشکل ہے۔ مگر ایسا نہیں کہ ایک خونی جنگ سے ایسی صورتحال نکلنا بالکل ناممکن ہے۔

پوتن کو نکال دیا جائے

اور ولادیمیر پوتن کا کیا ہو سکتا ہے۔ جب انھوں نے یہ حملہ کیا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ ہم کسی بھی نتیجے کے لیے تیار ہیں۔

مگر کیا اس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ انھیں خود اقتدار سے ہٹا دیا جائے۔ ابھی یہ خارج از امکان لگتا ہے۔ مگر دنیا گذشتہ چند دنوں میں بدلی ہے اور اب ایسی چیزوں کے بارے کم ہی سوچا جاتا ہے۔

کنگز کالج لندن کے پروفیسر سر لارنس فریڈمین نے اسی ہفتے لکھا تھا کہ اس وقت روس میں مقتدر حلقے بدل دیے جانے کا امکان اتنا ہی ہے جتنا یوکرین میں ہے۔

روس
ماسکو میں یوکرین پر حملے کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک شخص کو حراست میں لیا جا رہا ہے

مگر ایسا کیوں ہے؟ ہو سکتا ہے کہ صدر پوتن ایک تباہ کن جنگ لڑیں۔ ہزاروں روسی فوجی ہلاک ہو جائیں۔ معاشی پابندیاں تنگ کرنے لگیں۔ پوتن کی مقبولیت کم ہو جائے اور کہیں سے عوامی انقلاب کا خطرہ نظر آئے۔

وہ روسی داخلی سیکیورٹی فورسز کا استعمال کریں مگر یہ کھٹائی میں پڑ جائے اور روسی فوجی، سیاسی، اور معاشی اشرافیہ کے سرکردہ لوگ ان کے خلاف ہو جائیں۔ مغربی ممالک یہ واضح کر دیں کہ اگر پوتن کو ہٹا کر کوئی معتدل رہنما آتا ہے تو معاشی پابندیاں کم کر دی جائیں گی۔ ماسکو کے محل میں ایک خونی بغاوت ہوتی ہے اور پوتن کو نکال دیا جاتا ہے۔

ایک مرتبہ پھر، اس وقت یہ خارج از امکان لگتا ہے۔ مگر یہ ناممکن نہیں ہے اگر وہ لوگ جنھوں نے پوتن سے فائدے اٹھائے ہیں انھیں لگے کہ پوتن ان کے مفادات کا مزید دفاع نہیں کر سکتے۔

نتیجہ

ان سب ممکنہ منظرناموں میں ضروری نہیں کہ کوئی ایک یا دوسری ہو، کچھ ملا جلا بھی ہو سکتا ہے۔ مگر جیسے جیسے یہ جنگ لڑی جا رہی ہے، دنیا بدل گئی ہے۔ اور دنیا اب ماضی کے حالات کو نہیں لوٹے گی۔

روس کا بیرونی دنیا سے رشتہ بدل گیا ہے۔ سیکیورٹی کے حوالے سے یورپی رویہ بدل جائے گا۔ اور آزاد خیال، قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کو شاید پھر سے پتا چلے کہ اسے قائم کیوں کیا گیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *