کینیڈا کا ’سٹارٹ اپ ویزا پروگرام‘ جس کے لیے نہ تعلیم

کینیڈا کا ’سٹارٹ اپ ویزا پروگرام‘ جس کے لیے نہ تعلیم

کینیڈا کا ’سٹارٹ اپ ویزا پروگرام‘ جس کے لیے نہ تعلیم، تجربے یا نوکری کی ضرورت اور عمر کی بھی کوئی قید نہیں

پاکستانی انٹرپرینیور ثمینہ (فرضی نام) نے حال ہی میں کینیڈین امیگریشن کے لیے ایک منفرد راستہ اختیار کیا ہے جس میں تعلیم، تجربے یا نوکری کی پیشکش جیسی شرائط والے پوائنٹس سسٹم کا اطلاق نہیں ہوتا۔

ان کے لیے کینیڈا کا سٹارٹ اپ ویزا اس لیے بھی پُرکشش تھا کیونکہ اس میں عمر کی کوئی حد نہیں۔

تاہم آپ صرف تب اس پروگرام میں اپلائی کر سکتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس ٹیکنالوجی سے متعلق کوئی ایسا بزنس آئیڈیا ہو جو ’اُن کے مطابق کینیڈا کی مارکیٹ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’کینیڈا میں ایکسپریس انٹری کے لیے کم پیسے درکار ہوتے ہیں جبکہ بزنس ویزا کے لیے بہت زیادہ پیسے چاہیے ہوتے ہیں۔ سٹارٹ اپ ویزا اس کے بیچ کی چیز ہے۔‘

کینیڈین سٹارٹ اپ ویزا پروگرام کیا ہے؟

 کینیڈا کا پُرکشش ’سٹارٹ اپ ویزا پروگرام‘ کیا ہے؟

ہر سال انڈیا اور پاکستان سے ہزاروں لوگ بہتر مواقع اور روشن مستقبل کے لیے امریکہ، کینیڈا اور یورپی ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔

اس لیے ان ممالک میں امیگریشن اور ورک ویزا کے قوانین میں کسی بھی تبدیلی یا کسی نئے پروگرام کے تعارف پر گہری نظر رکھی جاتی ہے۔

جیسے کینیڈا نے رواں ماہ ورک پرمٹ کے قانون میں تبدیلی کی ہے۔ کینیڈین حکام نے کووڈ دور میں لیبر مارکیٹ میں مانگ بڑھنے کے باعث 18 ماہ تک ورک پرمٹ میں توسیع کی تھی جسے اگلے سال جنوری سے ختم کیا جا رہا ہے۔

اس کے بعد سے کینیڈا کے اعلان کردہ سٹارٹ اپ ویزا پروگرام کو بعض ماہرین ایک ’سنہری موقع‘ قرار دے رہے ہیں۔

یہ پروگرام بنیادی طور پر ان باصلاحیت غیر ملکیوں کے لیے ہے جو کینیڈا میں اپنا چھوٹا کاروبار یا سٹارٹ اپ قائم کرنا چاہتے ہیں۔

سٹارٹ اپ کا معیار جانچنے کے لیے کچھ معیار طے کیے گئے ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ اس سٹارٹ اپ میں اختراعیت (انوویشن) ہو، یہ مقامی لوگوں کے لیے نئی نوکریاں پیدا کرے اور عالمی سطح پر مقابلہ کر سکے۔

 کینیڈا کا پُرکشش ’سٹارٹ اپ ویزا پروگرام‘ کیا ہے؟

کینیڈین سٹارٹ اپ ویزا کے لیے کون اپلائی کر سکتا ہے؟

کینیڈین سٹارٹ اپ ویزا کی درخواست دینے کے لیے امیدوار کے پاس ایک ویلڈ بزنس یعنی کاروبار ہونا چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ امیدوار اس کاروبار کے شیئرز کی ملکیت رکھتا ہو۔ اس کے پاس کمپنی کے 10 فیصد یا اس سے زیادہ شیئرز ہوں اور اس کے پاس (شیئر ہولڈرز میٹنگ میں) ووٹنگ کا اختیار ہو۔

اس پروگرام میں زیادہ سے زیادہ پانچ افراد اپلائی کر سکتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ اس سٹارٹ اپ کو کسی کینیڈین تنظیم یا ’ڈیزگنیٹڈ بوڈی‘ کی حمایت ملے اور لیٹر آف سپورٹ جاری کیا جائے۔

یہ لازم ہے کہ آپ کا کاروبار کینیڈا سے آپریٹ کرے، اس کی اہم سرگرمیاں کینیڈا سے ہوں اور اسے کینیڈا میں ہی قائم کیا جائے۔

انگلش زبان پر گرفت کے علاوہ اگر آپ کو فرانسیسی زبان بھی آتی ہو تو اس سے آپ کا سٹارٹ اپ کینیڈا میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ کینیڈین ویزا قوانین کے مطابق آپ کو انگلش یا فرانسیسی زبانوں میں سے ایک پر بولنے، لکھنے اور سمجھنے میں عبور ہونا ضروری ہیں۔

سٹارٹ اپ ویزے کے امیدوار کو اس حوالے سے بھی کینیڈین حکومت کو شواہد دینے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے اور ڈیپنڈنٹ لوگوں کے مالی اخراجات برداشت کرنے کے وسائل ہوں۔ امیدوار کسی سے ادھار رقم لے کر ان پیسوں کا انتظام نہیں کرسکتا۔

امیگریشن ماہر جولی دیسائی نے بی بی سی گجراتی کو بتایا کہ ’سٹارٹ اپ ویزا عام ورک پرمٹ ویزا سے کافی مختلف ہے۔ اس کا مقصد صرف کاروباری افراد اور انٹرپرینیورز کو کینیڈا کی طرف مائل کرنا ہے۔‘

’سب سے اہم تقاضہ یہ ہے کہ امیدوار کا کاروبار اختراعیت رکھتا ہو جس سے کینیڈا میں نئی نوکریاں پیدا ہوسکیں۔ یہ ویزا عام کاروباری افراد کے لیے نہیں۔ ایسے سٹارٹ اپ پلان درکار ہیں جو پوری دنیا کو ٹکر دے سکیں۔‘

 کینیڈا کا پُرکشش ’سٹارٹ اپ ویزا پروگرام‘ کیا ہے؟

اس پروگرام کے تحت کسی خاندان کو درکار مالی وسائل کا تعین اس کے ارکان کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔ اگر صرف ایک شخص اس پروگرام کے تحت کینیڈا جانا چاہتا ہے تو اسے 13757 کینیڈین ڈالر درکار ہوں گے۔ یہ رقم بڑھ سکتی ہے اگر فیملی کے دیگر ارکان بھی ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ کینیڈین حکام ہر سال اس رقم پر نظر ثانی کرتے ہیں تو یہ دیکھنا بھی ضروری ہوگا۔

دریں اثنا امیدوار کو کینیڈا میں تسلیم شدہ بزنس گروپ سے اپنے سٹارٹ اپ کے لیے ’لیٹر آف سپورٹ‘ درکار ہوتا ہے۔ اس کے لیے امیدوار ان تنظیموں سے رجوع کرتا ہے اور انھیں یقین دہانی کراتا ہے کہ ان کا سٹارٹ اپ آئیڈیا حمایت کے مستحق ہے۔

امیدوار کو لیٹر آف سپورٹ کے لیے ان اداروں کے ساتھ معاہدہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ لیٹر دراصل ثبوت ہے کہ کینیڈا کا کوئی سرمایہ کار جیسے وینچر کیپیٹل فنڈ، اینجل انویسٹر گروپ یا بزنس انکیوبیٹر امیدوار کے آئیڈیا کی حمایت کرتا ہے۔

مزید یہ کہ تسلیم شدہ تنظیمیں امیدواران کو کینیڈین حکومت کے ’سرٹیفیکیٹ آف کمٹمنٹ‘ بھی جاری کرتی ہیں۔ اس کے بعد حکومت ویزا اپلیکیشن کے لیے دونوں لیٹرز کی تصدیق کرتی ہے۔

کینیڈین حکومت آپ کے سٹارٹ اپ کے بارے میں مزید معلومات مانگ سکتی ہے تاکہ معلومات کا جائزہ لے سکے۔

لیٹر آف سپورٹ یا دیگر تقاضے پورے نہ کرنے کی صورت میں کینیڈین حکومت درخواست مسترد کر سکتی ہے۔

امیگریشن وکیل پرشانٹ اجمیرا کہتے ہیں کہ ’یہ بہت ضروری ہے کہ آپ کے سٹارٹ اپ پلان کو کینیڈین تنظیموں کی حمایت حاصل ہو۔ آپ کے پاس مفصل بزنس پلان ہونا چاہیے اور آپ کے پاس کینیڈین مارکیٹ کے حوالے سے معلومات ہونی چاہیے۔‘

اس نوعیت کے ویزے کے فوائد بیان کرتے ہوئے اجمیرا نے کہا کہ کئی ملکوں نے کینیڈا کے بعد سٹارٹ اپ ویزا متعارف کرایا تاہم کینیڈا واحد ملک ہے جہاں امیدوار بغیر کسی شرط کے سٹارٹ اپ ویزا حاصل کرنے کے بعد مستقل رہائشی یعنی پرمیننٹ ریزیڈنٹ بن سکتا ہے جبکہ دوسرے ممالک صرف سٹارٹ اپ ورک پرمٹ جاری کرتے ہیں۔

اجمیرا نے مزید بتایا کہ کینیڈا کے محکمہ امیگریشن کے پاس کوٹا ہوتا ہے کہ ہر سال کس ملک کے کتنے لوگ کینیڈا آسکتے ہیں۔ ’انڈیا اور چین کے شہریوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس پر بین الاقوامی تعلقات (میں خرابی) سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

سٹارٹ اپ

مگر اس پر کتنا خرچ آتا ہے اور کیا یہ آسان ہے؟

پاکستان سے تعلق رکھنے والی انٹرپرینیور ثمینہ (فرضی نام) نے ہی حال ہی میں اپنے اور اپنی فیملی کے لیے اسی سٹارٹ اپ ویزا پروگرام کے تحت اپلائی کیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی کوئی کمپنی اپنے ملک، ان کے کیس میں پاکستان، میں رجسٹرڈ ہو۔ اس کمپنی کی حکمت عملی میں کچھ تبدیلیوں کے بعد اسے کینیڈا میں رجسٹر کرانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ سٹارٹ اپ شروع ہونے کے بعد ہر کچھ ماہ بعد پروگریس رپورٹ بھی جمع کرانی ہوتی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ اگر آپ کسی کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرتے ہیں تو اس مد میں ایک بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ’آپ کے زیادہ پیسے وہی لگتے ہیں جو آپ سے آپ کا کنسلٹنٹ لیتا ہے کیونکہ وہ آپ کے لیے لیٹر آف سپورٹ کا بندوبست کرتا ہے۔‘

ان کی کمپنی کے پانچ شریک بانی ہیں جنھوں نے انکیوبیٹر کو 30 ہزار سے زیادہ کینیڈین ڈالر جمع کرائے ہیں جو سب میں تقسیم ہوئے جبکہ اتنے ہی پیسے کنسلٹنٹ فی فرد لے چکا ہے۔

ثمینہ نے بتایا کہ ان کی چار لوگوں کی فیملی سٹارٹ اپ ویزا پروگرام کے لیے ایک کروڑ روپے سے زیادہ پیسے لگا چکی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس پروگرام کے انکیوبیٹر سٹارٹ اپ کو فنڈنگ دینے کا وعدہ کرتے ہیں اور انھیں کینیڈین مارکیٹ کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے مختلف کورسز بھی سکھاتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ کینیڈین حکام اس چیز کی نگرانی کرتے ہیں کہ آیا آپ اپنے سٹارٹ اپ کو کامیاب بنانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس پروگرام کی اچھی چیز یہ ہے کہ اس میں عمر کی کوئی حد نہیں، بعض سٹارٹ اپس کے بانی 60 سال سے زیادہ عمر کے بھی ہوتے ہیں۔

ثمینہ نے کہا کہ اگر کسی شخص کے پاس واقعی سرمایہ ہے اور اس کے پاس سٹارٹ اپ کا اچھا آئیڈیا ہے تو وہ پروگرام میں اپلائی کر سکتا ہے۔

انھوں نے متنبہ کیا کہ اس پروگرام کے لیے اگر آپ کسی کنسلٹنٹ کو ہائر کرتے ہیں تو وہ قابل اعتماد ہونا چاہیے کیونکہ اکثر لوگ اس بارے میں معلومات چھپا کر رکھتے ہیں اور آہستہ آہستہ بتاتے ہیں۔ ’یہ اتنا آسان نہیں کہ صرف پیسے دینے ہیں یا صرف سٹارٹ اپ بنانا ہے۔ اس میں کئی مرحلے آتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’بہتر یہ ہوگا کہ آپ ایسے کنسلٹنٹ سے رابطہ کریں جو خود کینیڈین تنظیموں کے بارے میں باخبر ہو اور آپ کے سٹارٹ اپ کے لیے لیٹر آف سپورٹ کا انتظام کرنے میں آپ کی مدد کر سکے۔‘

ثمینہ کی تجویز ہے کہ پاکستان میں جو لوگ نئے شعبوں جیسے ٹیکنالوجی کی صنعت میں کام کر رہے ہیں انھیں اس پروگرام پر غور کرنا چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *