کیا پرویز الٰہی کی شمولیت سے تحریک انصاف کی اسٹیبلشمنٹ سے دوریاں ختم ہو پائیں گی؟
خان صاحب نے کہہ دیا ہے کہ (صدر) بنانا ہے آپ کو۔۔۔ خان صاحب نے کہہ دیا ہے۔‘ پرویز الٰہی نے صحافی سے بات کرتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے فواد چوہدری کو ٹوکتے ہوئے کہا۔
یہ دلچسپ صورتحال لاہور میں زمان پارک کے باہر منگل کو فواد چوہدری اور پرویز الٰہی کی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دیکھنے کو ملی جس میں پرویز الٰہی اور دیگر ق لیگی رہنماؤں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا گیا۔
دراصل پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کی جانب سے فواد چوہدری کے اس بیان کی وضاحت مانگی گئی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’سینیئر قیادت نے پرویز الٰہی کو جماعت کا صدر بنانے کی منظوری دے دی ہے۔‘
اس پر فواد چوہدری بولے کہ سینیئر قیادت نے ’سفارش‘ کی ہے، اس حوالے سے کچھ مراحل طے ہونے ہیں‘، جس پر انھیں پرویز الٰہی نے ٹوکا۔
پریس کانفرنس کے دوران یہ دلچسپ واقعہ پرویز الٰہی کے پی ٹی آئی کے ساتھ گذشتہ چند سال کے اس مشکل تعلق کا عکاس ہے جس کا وجود پی ٹی آئی کی ’ضرورت‘ کے باعث عمل میں آیا تھا۔
خیال رہے کہ کچھ ہفتے قبل فواد چوہدی کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے پرویز الٰہی نے کہا تھا کہ ’اگر یہ پہلے پکڑے جاتے تو ہمارا کام ٹھیک ہو جانا تھا۔‘
تاہم ان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کو سیاسی حلقوں میں خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ پرویز الٰہی اور ان کی جماعت کا اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ ہے اور ان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان برف پگھلنے کے امکانات کے بارے میں بات کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب گذشتہ کئی دہائیوں سے ق لیگ اور ’گجرات کے چوہدریوں‘ کا اثر و رسوخ بھی زیرِ بحث ہے جس پر تحریکِ عدم اعتماد کے دوران ہونے والی تقسیم کے بعد پہلی ضرب لگی تھی اور اب پرویز الٰہی کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد اس میں مزید کمی کے امکانات ہیں۔
تجزیہ کاروں کی مدد سے جائزہ لیتے ہیں کہ پرویز الٰہی کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے جماعت کو کیا فائدہ ہو گا اور خود پرویز الٰہی اور ان کے دیگر ساتھی اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
’پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو‘ سے پی ٹی آئی کا ممکنہ مرکزی صدر بننے تک
ق لیگ کو ہمیشہ سے ہی ’کنگز پارٹی‘ کا نام دیا جاتا ہے اور ان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے قربت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
مشرف دور میں گجرات کے چوہدریوں کا سیاسی اثر و رسوخ اپنے عروج پر تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی اس دور میں پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ تھے تاہم بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی پاکستان واپسی کے بعد سے یہ صورتحال تبدیل ہونے لگی۔
اس کے باوجود سنہ 2008 کے الیکشن میں ق لیگ ملک میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت تھی۔
مسلم لیگ ن کے مرکزی حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد ق لیگ پیپلز پارٹی کے ساتھ مرکز میں حکومت کا حصہ بنی اور پرویز الٰہی کو ’ڈپٹی وزیرِ اعظم‘ کا عہدہ دیا گیا۔
اس دور میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اپنی تقریروں کے دوران پرویز الٰہی کو ’پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو‘ کہا کرتے تھے۔
تاہم سنہ 2013 کے انتخابات میں جب پاکستان مسلم لیگ ن نے پنجاب میں بھاری مارجن سے فتح حاصل کی اور پی ٹی آئی ایک ابھرتی ہوئی جماعت کے طور پر سامنے آئی تو ق لیگ سکڑ کر رہ گئی۔
کہا جاتا ہے کہ آپ کے دشمن کا دشمن آپ کا دوست ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ساتھ ساتھ بھی ہوا۔ دونوں ہی کی پاکستان مسلم لیگ ن سے نہیں بنتی تھی جو سنہ 2018 الیکشن کے بعد دونوں جماعتوں کی دوستی اور پنجاب میں اکٹھے حکومت قائم کرنے کا باعث بنی۔
پرویز الٰہی کو شروعات میں وزارتِ اعلٰی تو نہ مل سکی اور وہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر بن گئے تاہم مرکز میں تحریکِ عدم اعتماد اور پنجاب میں پیدا ہونے والے آئینی بحران کا اختتام ان کے وزیرِ اعلٰی بننے پر ہوا۔
پی ٹی آئی کو پنجاب کی حد تک گذشتہ چند سال میں مشکل موقعوں پر سہارا دینے والے پرویز الٰہی کیا الیکشن کے سال میں جماعت کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے بحال کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔
پی ٹی آئی کی اسٹیبلشمنٹ سے دوری قربت میں بدلے گی؟
گذشتہ ایک سال کے دوران ٹی وی انٹرویوز میں چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی پی ٹی آئی اور فوج کے درمیان تعلقات اور اس دوران جنرل باجوہ کے کردار پر بات کر چکے ہیں۔
مونس الٰہی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے انھیں پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کا مشورہ دیا تھا۔
مونس الٰہی نے اس انٹرویو میں جنرل باجوہ کو پی ٹی آئی کا ’محسن‘ قرار دیا تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے پی ٹی آئی پر گذشتہ دسمبر میں جنرل باجوہ پر تنقید کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے بی بی سی کو بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ سے دوریاں کم کرنے میں پرویز الٰہی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ ’ان کا جھکاؤ اسٹیبلشمنٹ کی جانب رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس فیصلے سے شاید تحریک انصاف کی اسٹیبلشمنٹ سے دوری قربت میں بدل جائے، شاید وہ مذاکرات کروانے میں کردار ادا کریں۔
’لیکن اس سے فاصلے بڑھ بھی سکتے ہیں کیونکہ پرویز الٰہی اور عمران خان کے درمیان خیالات اور سوچ کا بڑا فرق ہے۔‘
اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’پرویز الٰہی ڈرائنگ روم کی سیاست کرتے رہے ہیں، یہ حلقے کی سیاست کرتے ہیں جبکہ عمران خان عوام کی سیاست کرتے ہیں اس لیے دونوں کی سوچ میں بڑا فرق ہے۔‘
صحافی فرح ضیا نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کیونکہ یہ الیکشن کا سال ہے اور ہمارے ہاں ویسے ہی ہر چیز پہلے سے طے شدہ لگتی ہے تو کچھ لوگوں کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ان کی پی ٹی آئی میں شمولیت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی طرف اشارہ ہے لیکن میرے نزدیک یہ ایک منطقی انجام بھی ہے۔‘
وہ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’جس طرح پاکستان مسلم لیگ ق کو ہم جانتے ہیں، یہ ایک کنگز پارٹی تھی جسے چوہدری پرویز الٰہی اور شجاعت حسین مل کر چلا رہے تھے۔
’اب کیونکہ ان دونوں کے درمیان تقسیم ہو گئی تو ان کے پاس شاید اس کے علاوہ کوئی آپشن بھی نہیں تھا۔ تو پاکستان مسلم ق تو ختم ہو گئی۔‘
خیال رہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کے وقت چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی نے پی ٹی آئی جبکہ چوہدری شجاعت حسین اور ان کے حمایتی ارکانِ قومی اسمبلی نے پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
صحافی اور تجزیہ کار خالد عظیم کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلق میں بہتری کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ ’پرویز الٰہی کے موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے روابط کیسے ہیں کیونکہ جنرل باجوہ کے ساتھ روابط تو انھوں نے چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی تھی۔‘
تاہم خالد عظیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’یہ بات درست ہے چوہدری پرویز الٰہی کے ہمیشہ سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی روابط رہے ہیں۔
الیکشنز میں ق لیگ کا مستقبل کیا ہو گا؟
اس فیصلے کا ق لیگ کو الیکشن میں کتنا فائدہ ہو گا، اس بارے میں بات کرتے ہوئے خالد عظیم کا کہنا تھا کہ ’پہلے تو اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ آپ ق لیگ کہتے کسے ہیں۔‘
’ق لیگ والے تو جب پریس ریلیز بھی نکالتے ہیں تو اس میں چند لوگوں کے علاوہ کسی کے نام نہیں ہوتے، کبھی کبھار کامل علی آغا کا نام آتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اب ق لیگ کی بطور جماعت وہ اہمیت نہیں رہی، اب یہ چند افراد کی جماعت رہ گئی ہے جو اپنا انفرادی سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’الیکشن میں نمایاں لوگوں کو تو پی ٹی آئی کا ٹکٹ مل سکتا ہے لیکن باقی رہنماؤں کی جب بات آئے گی تو شاید یہ ممکن نہ ہو سکے۔‘
صحافی فرح ضیا نے کہا کہ پرویز الٰہی منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اس لیے ظاہر ہے (انتخابات کے حوالے سے) کچھ نہ کچھ پہلے سے طے ہوا ہو گا جیسے انھوں نے مرکزی صدارت کے حوالے سے بات کی ہے۔
سہیل وڑائچ نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ ’ان کا خیال تھا کہ ان کی تجویز پر زیادہ سیٹیں مل جائیں گی لیکن عمران خان نہیں چاہیں گے کہ پارٹی کے اندر ایک نیا گروپ قائم ہو۔
’اس لیے انھوں نے ق لیگ کو اپنے ساتھ شامل بھی کروایا کیونکہ جماعت کے ایک گروپ کو پرویز الٰہی کو وزارتِ اعلیٰ کا عہدہ رکھنے پر اختلاف تھا۔‘
’گجرات کے چوہدریوں‘ کے اثر و رسوخ پر کیا اثر پڑے گا؟
پاکستان میں خصوصاً پنجاب کی سیاست میں جب بھی کوئی اہم موڑ آتا ہے تو سیاسی جماعتیں ’گجرات کے چوہدریوں‘ کے پاس ضرور جاتی ہیں۔
گذشتہ برس تحریکِ عدم اعتماد کے وقت ہونے والے جوڑ توڑ کے دوران گجرات کے چوہدریوں کے پاس حزبِ اختلاف اور حکومت دونوں کے رہنماؤں کا تانتا بندھ گیا تھا۔ اب جبکہ پرویز الٰہی نے پی ٹی آئی نے میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو کیا اس اثرورسوخ میں کمی واقع ہو گی؟
صحافی خالد عظیم نے گجرات کے چوہدریوں کے اثر و رسوخ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ق لیگ نے ہمیشہ سے ہی دھڑوں اور ڈرائنگ روم کی سیاست کی ہے۔
’اس لیے صورتحال یہ ہے کہ ابھی وہ الیکشن مہم کے دوران چکوال، گجرات اور منڈی بہاول دین میں کیے گئے ترقیاتی کام کی بنیاد پر ووٹ مانگ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاست میں ان کا کردار اب سکڑ جائے گا۔‘
سہیل وڑائچ کے نزدیک گجرات کے چوہدری ’اب اپنی انفرادیت کھو دیں گے اور جو آزادانہ سیاست پہلے کر سکتے تھے وہ اب نہیں کر پائیں گے۔‘
صحافی فرح ضیا نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ’یہ کنگز پارٹی تھی جسے فوج کی بھرپور حمایت حاصل تھی جس کے باعث اس کا اثر و رسوخ تھا۔‘
’انھیں بڑے پیمانے پر عوامی حمایت تو کبھی بھی نہیں تھی اسٹیبلشمنٹ کے باعث ہی ان کو پنجاب کے وزارتِ اعلٰی ملی تھی۔‘
فرح ضیا کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہو گی کہ آئندہ سیاست کرنے میں پرویز الٰہی اور شجاعت حسین کے بیٹے اہم کردار ادا کریں گے۔‘