کیا مشرقِ وسطی کا تنازع مذہبی اختلافات سے زیادہ طاقت

کیا مشرقِ وسطی کا تنازع مذہبی اختلافات سے زیادہ طاقت

کیا مشرقِ وسطی کا تنازع مذہبی اختلافات سے زیادہ طاقت کی جدوجہد بن گیا ہے؟

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ مشرق وسطیٰ کی حالیہ تاریخ کے سب سے زیادہ ہنگامہ خیز دور کا آغاز تھا۔ اس تنازعے کے علاوہ حالیہ ہفتوں میں لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جھڑپوں سے خطہ ہل کر رہ گیا ہے۔

یمن میں مغربی افواج اور حوثی باغیوں کے درمیان باہمی حملے، عراق، شام اور پاکستان میں اہداف کے خلاف ایران کی کارروائیاں اور امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے اہداف کے خلاف دیگر ایران نواز ملیشیاؤں کے حملے دیکھنے کو آئے ہیں۔

تشدد کے یہ متعدد ذرائع مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کے خوف کو ہوا دیتے ہیں اور روایتی علاقائی طاقت کے اتحاد کو بدل دیتے ہیں۔

ایک طرف اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان دشمنی اور دوسری طرف شیعہ کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والے ایران اور سنی کمیونٹی کی قیادت کرنے والے سعودی عرب کے درمیان مذہبی بنیادوں پر تقسیم دو ایسی مستقل وجوہات ہیں جو مشرق وسطیٰ کی سیاست کو واضح کر دیتی ہیں۔

ماہرین اس بات پر متّفق ہیں کہ خطہ حال ہی میں عقیدے کے اختلافات کی وجہ سے کم اور عارضی سیاسی اور فوجی اتحاد کی وجہ سے اس کشیدہ صورتحال تک پہنچا ہے۔

ایران اور غیر ریاستی مسلح گروہ

ایران نے عالمی سطح پر اس وقت خطرے کی گھنٹی بجا دی جب اس نے 15 اور 17 جنوری کے درمیان صرف تین دن میں تین مختلف ممالک عراق، شام اور پاکستان میں اہداف کو نشانہ بنایا۔

اگرچہ یہ کارروائیاں مخصوص اہداف کے خلاف تھیں، جیسے کہ عراق میں مشتبہ اسرائیلی انٹیلیجنس بیس اور شام اور پاکستان کے معاملے میں اسلام پسند حریف گروہوں کے خلاف تھیں تاہم ماہرین نے ان حملوں کی وجہ مشکلات سے گزرنے والے ایران کی طرف سے اپنی طاقت دکھانے کی بے صبری کو قرار دیا۔

اگرچہ تہران نے اپنے اس عزم کو دہرایا ہے کہ وہ کسی بڑے تنازعے میں نہیں پڑنا چاہتا مگر اس کے برعکس حالیہ ہفتوں میں اس کا نام نہاد ’محورِ مزاحمت‘ بہت فعال رہا ہے۔

یہ محور لبنان میں حزب اللہ جیسے مسلح گروہوں پر مشتمل ہے۔ عراق، افغانستان اور پاکستان میں شیعہ ملیشیا، فلسطینی علاقوں میں حماس اور دیگر عسکریت پسند گروپ اور یمن میں حوثی اس کی مثال ہیں۔

بی بی سی فارسی سروس نے ایران کے نظریے کو واضح طور پر امریکہ مخالف اور اسرائیل مخالف قرار دیا ہے۔

اکتوبر میں غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے سبھی نے اسرائیلی یا اس کے اتحادی اہداف پر حملہ کیا ہے۔

ایلکانو رائل انسٹیٹیوٹ کے مشرق وسطیٰ کے ماہر ہیزم امیرہ فرنینڈیز نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’ایران کا اس کے ’محورِ مزاحمت‘ کے ساتھ اتحاد خطے میں سب سے زیادہ مستحکم‘ اور دیرپا ہے۔

لندن میں ایس او اے ایس مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر لینا خطیب نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’ایران اور ان گروپوں کے درمیان اتحاد سنہ 1979 کے اسلامی ایرانی انقلاب کی پیداوار ہے جو اس کے سیاسی مقاصد کو فروغ دینے کے طریقے کے طور پر کام کرتے ہیں۔‘

ماہرین کے مطابق گروہوں کا جنم اپنے ملکوں کی سیاسی صورتحال کی وجہ سے ہوا، جہاں عوام میں نظام پر عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ ایسے گروہوں کا فائدہ ایران اپنے علاقائی اثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے اٹھاتا ہے۔

بی بی سی منڈو کے سنہ 2020 میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں، بی بی سی فارسی سروس کے ایک صحافی، کیوان حسینی نے کہا کہ ان تمام گروپوں کو ایران سے ’لاجسٹک، اقتصادی اور نظریاتی مدد‘ ملتی ہے۔

ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر مائیکل کگلمین کا کہنا ہے کہ ’ایران کی شیعہ گروپوں سے قربت اور سعودی عرب کی سنی گروہوں کے ساتھ حمایت کی وجہ سے مذہبی فرقہ واریت کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘

لیکن ساتھ ہی وہ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ محاذ آرائی کا تعلق مذہبی اختلافات سے زیادہ طاقت کی جدوجہد سے ہے۔

مثال کے طور پر ایران اسرائیل کے خلاف سنّی اتحاد پر مشتمل حماس کی حمایت کر رہا ہے۔ اسی طرح حماس اور حزب اللہ نے شام میں مختلف گروہوں کی حمایت کی تھی مگر اسرائیل کے خاتمے کے لیے دونوں ہی ایک صفحے پر ہیں۔

ایران کا شام کی بشارالاسد حکومت سے قریبی اتحاد ضرور قائم رہا مگر ایسے مزید اتحاد میں وہ ناکام رہا۔ جہاں تک خطے میں ایران کی ’تنہائی‘ کا تعلق ہے تو ماہرین اس کی وجہ دو اہم عوامل کو قرار دیتے ہیں۔

ہیزم امیرہ کے مطابق اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ کیونکہ اسلامی انقلاب والے ماڈل کو تیل کی پیداوار والے خلیجی ممالک اور خطے کے دیگر ممالک کی طرف سے ایک خطرے کے طور پر دیکھا گیا اور دوسری وجہ یہ کہ ایران خود کو اپنے وسائل اور سلطنت فارس کے وارث کے طور پر تاریخ میں ایک علاقائی بالادستی کا حقدار سمجھتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ایران کے یہ عزائم براہ راست سعودی عرب جیسے ممالک سے مزاحم ہو جاتے ہیں۔

ایران سعودی عرب

سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کا بلاک

سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں عرب دنیا میں خود کو ایک لیڈر کے طور پر منوانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔

چند دہائیاں قبل عرب کا مرکز مصر میں مرکوز تھا، یہ ملک کبھی خطے میں سب سے زیادہ آبادی، سیاسی اور ثقافتی وزن کا حامل تھا۔

لیکن طاقت اب خلیج اور جزیرہ نما عرب کے ممالک کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں توانائی کے وسیع وسائل اور دولت کی فراوانی نے آہستہ آہستہ سیاسی منظر نامے پر اثر و رسوخ کو بڑھا دیا۔

متحدہ عرب امارات یا قطر جیسے چھوٹے ممالک پہلے منظر پر ابھر کر سامنے آئے۔ اس کے بعد خاص طور پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی سعودی عرب اندرونی طور پر اور عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر تبدیل ہو گیا۔

MBS

،تصویر کا ذریعہREUTERS

تجزیہ کار ہیزم امیرہ فرنینڈیز کہتی ہیں کہ ’اس کے عروج کو اس کی بھرپور ہائیڈرو کاربن معیشت اور ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران ایران کے خلاف دباؤ کے اقدام کے طور پر امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ حمایت سے بھی تقویت ملی۔‘

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سعودی عرب 22 ممالک کی علاقائی تنظیم عرب لیگ کا لیڈر اور ’ڈی فیکٹو‘ سربراہ ہے۔

لینا خطیب بتاتی ہیں کہ ’عام طور پر اگرچہ ہر ملک کے اپنے عزائم ہوتے ہیں مگر اب مصر اور اردن جیسے ممالک بھی سعودیوں کی ہی پیروی کرتے ہیں۔‘

تقریباً 40 سال تک، سعودی عرب اور ایران میں کھلی دشمنی رہی جسے کچھ ماہرین ’مشرق وسطیٰ کی نئی سرد جنگ‘ کے طور پر بیان کرتے رہے اور حالیہ برسوں میں خطے کے مختلف حصوں میں ’پراکسی جنگوں‘ کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوا۔

یمن میں سعودی عرب سنہ 2015 سے حوثی باغیوں کے خلاف جنگ میں حکومتی فورسز کی مدد کر رہا ہے۔

ایران جس پر حوثیوں کی حمایت کا الزام لگایا جاتا ہے، نے اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ اس گروپ کو ہتھیار بھیجتا ہے۔

سعودی عرب نے ایران پر لبنان اور عراق میں مداخلت کا الزام بھی لگایا، جہاں شیعہ ملیشیا نے وسیع سیاسی اور فوجی اثر و رسوخ جمع کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ ان گروہوں میں سے بعض کو سعودی تنصیبات پر حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

مارچ 2023 میں چین کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں سعودی عرب اور ایران میں سفارتی تعلقات کی بحالی، سلامتی، تجارتی، اقتصادی اور سرمایہ کاری کے معاہدوں کے ذریعے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

ماہرین نے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے تعلقات کی مسلسل تبدیلی اور پیچیدگی کے بارے میں بھی خبردار کیا ہے۔

Qatar

،تصویر کا ذریعہEPA

قطر کا ثالثی کا کردار

لینا خطیب اورہیزم امیرہ قطر کو سعودیوں کے زیر قیادت ممالک کے اتحاد کے ساتھ رکھنے پر متفق ہیں، حالانکہ وہ اس کے ثالثی کے کردار کو بھی اجاگر کرتے ہیں، جو اسے طاقت کے علاقائی توازن میں ایک خاص معاملہ بناتا ہے۔

فی الحال قطری مذاکرات کار اسرائیل اور حماس کے درمیان بنیادی ثالث کے طور پر ایک منفرد کردار ادا کر رہے ہیں۔

برسوں سے یہ ارب پتی خلیجی ملک اسرائیل یا ایران جیسے ممالک اور سیاسی گروپوں کے ساتھ میل جول بڑھاتا رہا ہے، جو اس کے باقی پڑوسیوں کے حمایت یافتہ گروہوں سے بہت مختلف پالیسی ہے۔ زیادہ تر اسلامی گروپ جیسا کہ حماس یا اخوان المسلمون سعودیوں کے حریف کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

لینا خطیب کہتی ہیں کہ ’سنہ 2017 میں قطر کو سعودی عرب، بحرین، مصر، متحدہ عرب امارات، یمن اور لیبیا نے بلاک کر دیا تھا کیونکہ اسے اس کے سیاسی عزائم کی وجہ سے ایک خطرے کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا۔‘

قطر ایک انتہائی امیر لیکن چھوٹا ملک ہے، جو اس کی کمزوری بھی بن جاتی ہے۔ جیسا کہ ماہر سیاسیات مہران کامروا نے اپنی کتاب ’قطر: سمال سٹیٹ، بگ پولیٹکس‘ میں اشارہ کیا ہے کہ کیسے وہ مختلف اتحادوں کے ذریعے اپنی سلامتی اور اپنے سفارتی قد اور مقام کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔

قطر پر سے پابندی سنہ 2021 میں ختم کر دی گئی تھی اور اس کے پڑوسیوں بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ تعلقات اب دوستانہ ہیں۔

لینا خطیب نے اعادہ کیا کہ بلاشبہ قطر اب بھی ’اپنی جغرافیائی سیاسی حکمت عملی میں خود کو ایک ثالث اور مفاہمت کرنے والے ملک کے طور پر منوانا چاہتا ہے۔‘

اسرائیل کہاں کھڑا ہے؟

ہیزم امیرہ نے اسرائیلی کی مثال کو خطے میں اس کے اتحاد کی ایک ’غیر معمولی‘ مثال کے طور پر بیان کیا اور الینا خطیب کا کہنا ہے کہ ’یہ ملک (اسرائیل) کسی اتحاد سے تعلق رکھے بغیر آزادانہ طور پر کام کرتا ہے۔‘

اسرائیل نے ایران اور اس کی حمایت کرنے والی ملیشیاؤں کے خلاف ایک طویل اور غیر اعلانیہ جنگ کو برقرار رکھا ہے، جہاں کم درجے کی دشمنی کو اب تک مکمل اور کھلے تنازع تک پہنچائے بغیر دہرایا جاتا ہے۔

اس کے عرب پڑوسیوں کے ساتھ بھی تعلقات کوئی آسان نہیں۔

ترکی اور ایران کے علاوہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں واحد غیر عرب ممالک ہیں، جہاں اسے بطور ریاست بہت محدود پیمانے پر ہی تسلیم کیا گیا۔

عرب ممالک میں سے صرف مصر سنہ 1979 سے، اردن سنہ 1994 سے اور متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے سنہ 2020 سے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کیا۔

ہیزم امیرہ کے مطابق ’یہ بنیادی طور پر اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ ’اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ تنازعات کی وجہ سے عرب مسلم ملک اسے ایک قابض اور جارح کے طور پر دیکھتے ہیں اور موجودہ غزہ جنگ کی وجہ سے یہ تاثر گہرا ہوا۔‘

7 اکتوبر 2023 کو حماس کے خلاف جنگ شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بات چیت کر رہا تھا جو کہ ایک یہودی ریاست کے لیے ایک بڑی پیشرفت ہوتی۔

تاہم اس حملے کے چند دن بعد یہ خبر آئی کہ سعودی حکام نے امریکہ سے کہا کہ وہ ان تین طرفہ مذاکرات کو ختم کر دے۔

ماہرین کے مطابق اسرائیل کے لیے فلسطینیوں کے ساتھ تنازع کے واضح حل کے بغیر اپنے اتحاد اور تعلقات کو معمول پر لے کر آنا بہت مشکل ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *