کیا عمران خان کی تقاریر روکنے کے لیے ’انٹرنیٹ تھروٹلنگ‘ کا استعمال کیا جا رہا ہے؟
اکیس اگست کو جب پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپنی تقریر شروع کی تو ان کی اس تقریر کو سننے کے لیے صرف اس پنڈال کے لوگ ہی نہیں بلکہ دور دراز علاقوں اور بیرونِ ملک کے عوام بھی منتظر تھے۔
اس تقریر سے ایک روز پہلے پاکستان کی الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے عمران خان کی لائیو یا براہِ راست تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔
تو پھر جب لیاقت باغ میں عمران خان نے تقریر شروع کی تو اس میں کئی نکات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئے۔ ٹوئٹر پر کئی لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے دکھائی دیے کہ کیا ان کو بھی تقریر سننے میں مشکل پیش آ رہی ہے؟
اس کے جواب میں تقریباً آدھے سے زیادہ لوگوں نے کہا کہ انھیں تقریر سننے میں مسائل پیش آرہے ہیں۔ اس واقعے کے ایک ہفتے بعد بھی یہ تقریر یوٹیوب پر موجود ہے اور اسے سن کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ آواز میں خاصا تعطل ہے۔
اب اس روز کیا یوٹیوب کو بلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی یا پھر انٹرنیٹ کو جان بوجھ کر آہستہ کرنے کا عمل جسے ’انٹرنیٹ تھروٹلنگ‘ کہا جاتا ہے، استعمال کیا گیا تھا؟
انٹرنیٹ تھروٹلنگ کیا ہوتی ہے؟
مزید تفصیلات میں جانے سے پہلے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انٹرنیٹ تھروٹلنگ ہوتی کیا ہے۔ انٹرنیٹ تھروٹلنگ اس عمل کو کہا جاتا ہے جب کسی بھی ملک میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنی جان بوجھ کر آپ کے انٹرنیٹ کی بینڈوِڈتھ رفتار کو کم کر دیتی ہے۔
اس کے نتیجے میں کسی بھی ویب سائٹ یا ایپلیکیشن کے صفحات کو لوڈ ہونے میں ضرورت سے زیادہ وقت لگتا ہے۔ اور اگر کوئی بھی براہِ راست نشریات جاری ہوتی ہے تو وہ بھی متاثر ہوکر اٹکتی رہتی ہے۔
اس سے پہلے یہ عمل جنوبی کوریا اور چین میں استعمال کیا جاتا رہا ہے، اور واضح رہے کہ یہ عمل سینسرشِپ کے لیے خاص طور سے استعمال ہوتا ہے تاکہ ناقدین کے بیانات اور ایسے مواد کو انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں تک پہنچنے میں ضرورت سے زیادہ وقت لگے۔
لیکن ان دونوں ملکوں میں صارفین کو انتظامیہ اور حکومت کی جانب سے سست رفتار نیٹ کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے لیے ایسے مواد کا استعمال خطرے سے خالی نہیں اور ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے حکومت انھیں آن لائن فراڈ سے بچانا چاہتی ہے۔
جبکہ انٹرنیٹ تھروٹلنگ کے ذریعے ہی یہ حکومتیں مبینہ طور پر ایسے مواد کی روک تھام بھی کرتی ہیں جسے وہ ’غیر اخلاقی‘ سمجھتی ہیں۔ لیکن جنوبی کوریا کے برعکس چین میں اس وقت غیر ملکی ویب سائٹس نہیں چل سکتیں جو اس بات کا نتیجہ ہے کہ چین انٹرنیٹ ٹولز میں ضرورت سے زیادہ دخل اندازی کر کے اس کے رزلٹس کو روک لیتا ہے۔ اسی وجہ سے سرچ انجن گوُگل نے وہاں سے اپنا تمام تر آپریشن کئی سال پہلے ختم کر دیا تھا۔
اس عمل کا اثر یہ ہوتا ہے کہ صحافی کسی بھی قسم کی صورتحال کو براہِ راست نشر نہیں کر سکتے۔ اور اس کی مثال انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر، وینیزویلا اور اردن میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں آزادی رائے کو روکنے کے لیے ان ملکوں کی ریاست سینسرشِپ کا یہ حربہ استعمال کرتی رہی ہیں۔
کیا پاکستان میں انٹرنیٹ تھروٹلنگ کا استعمال ہوا؟
اب اگر بات کریں پاکستان کی تو انٹرنیٹ کی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی نے پاکستان میں سینسرشِپ اور اس سے پہلے ویب سائٹس کی بلاکنگ کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں مئی 2010 میں کچھ دیر کے لیے فیس بُک کو بلاک کیا گیا تھا جبکہ یوٹیوب کو تین سال کے لیے بلاک کیا گیا تھا۔ پاکستان میں نیٹ اس لیے سست نہیں کیا جاتا کیونکہ نیٹ پہلے سے ہی بہت سست رفتار ہے۔ تو بلاکنگ ہوتی رہی ہے اور اس کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔‘
لیاقت باغ میں عمران خان کی تقریر کے دوران تعطل کے بارے میں جب قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں تو اس وقت انٹرنیٹ قوانین اور آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے نیٹ بلاکس نے ٹویٹ میں بتایا تھا کہ ملک بھر میں مختلف انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں میں یوٹیوب کی سروس میں غیر معمولی تعطل دیکھنے کو ملا تھا۔
اس ادارے نے یہ بھی واضح کیا کہ یوٹیوب کی نشریات میں غیر معمولی تعطل تب دیکھنے میں آیا جب پیمرا کی طرف سے براِہِ راست تقریر نشر کرنے پر پابندی کے باوجود سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی تقریر یوٹیوب سے براہِ راست نشر کی جا رہی تھی۔
اس واقعے سے ایک روز پہلے اسی ادارے کی جانب سے پاکستان کی انٹرنیٹ سروس کی مجموعی صورتحال بتائی گئی تھی جس کے مطابق کئی علاقوں میں سیلابی ریلا آنے کے نتیجے میں پی ٹی سی ایل فائبر متاثر ہوئی تھی جس کے نتیجے میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کئی کمپنیوں کو خاصا نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا۔
عمران خان کی تقریر کے بارے میں نیٹ بلاکس نے انٹرنیٹ صارفین کو ایک ایپ کو کلک کرنے کو کہا تھا۔ یہ ایپ آپ کے نیٹ ورک کا تجزیہ کرتی ہے کہ نیٹ ورک کا معیار کیا ہے، کتنی سینسرشِپ ہے اور اس کے مطابق بہت کم افراد یوٹیوب دیکھ پا رہے تھے۔
اسامہ خلجی نے بتایا کہ اس تقریر پر تھروٹلنگ نہیں کی گئی تھی بلکہ یوٹیوب کو بلاک کیا گیا تھا۔
‘ایک تو یہ طریقہ کار ہوتا ہے کہ آپ پورے انٹرنیٹ کو بلاک کر دیں۔ یہ تھروٹلنگ کرنے کے زمرے میں نہیں آتا۔ دوسرا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ آپ کسی ایپ کو بلاک کر دیں۔ عمران خان کی تقریر کو یوٹیوب پر بلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس سے پہلے پاکستان میں تھروٹلنگ کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس یہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے وہ کسی بھی ویب سائٹ کو براہِ راست سینسر کر سکتے ہیں۔ اس ویب مانیٹرنگ سسٹم کو ایک کروڑ 80 لاکھ ڈالرز میں دسمبر 2018 میں ایک کینیڈین کمپنی ’سینڈ وائن‘ سے خریدا گیا تھا۔
اس سسٹم کے تحت ان تمام تر ویب سائٹس کی نگرانی کی جاتی ہے جن پر حکام کو شک ہوتا ہے۔ تو ڈیپ پیکٹ انسپیکشن کہلانے والے اس طریقے کو سینسرشِپ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔