افغانستان کابل دھماکے میں روسی سفارت

افغانستان کابل دھماکے میں روسی سفارت

افغانستان کابل دھماکے میں روسی سفارت خانے کے دو اہلکاروں سمیت چھ افراد ہلاک

روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ افغان دار الحکومت میں واقع اس کے سفارت خانے کے باہر کیے گئے خود کش دھماکے میں سفارت خانے کے دو اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔

کابل میں پولیس کا کہنا ہے کہ خود کش حملہ آور نے جیسے ہی سفارت خانے کے گیٹ تک جانے کی کوشش کی تو اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں دھماکہ خیز مواد پھٹ گیا۔ حکام کے مطابق حملہ آور کا مقصد سفارت خانے کے باہر جمع ہونے والے مجمعے تک پہنچ کر دھماکہ کرنا تھا۔

تاہم روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے ہی دھماکہ کیا ہے۔

افغانستان میں اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی بھی غیر ملکی مشن کے خلاف یہ پہلا حملہ ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ایک ترجمان نے حملے کی مذمت کی ہے۔

روسی حکومت کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بلا شبہ ہم دہشت گردی کی بات کر رہے ہیں جو قطعی طور پر نا قابل قبول ہے۔‘

طالبان حکام کے مطابق دھماکے میں 10 افغان شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔ دیگر ذرائع نے زخمیوں کی تعداد کہیں زیادہ بیان کی ہے۔

روس کی سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے کے مطابق دو روسی شہری بھی زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک روسی سفارت کار اور ایک سکیورٹی گارڈ ہے۔

دھماکے کی ذمہ داری اب تک کسی گروہ نے قبول نہیں کی ہے، لیکن ماضی میں نام نہاد دولت اسلامیہ کئی حملوں میں ملوث رہی ہے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں تشدد میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سے پہلے افغانستان میں امریکی سرکردگی میں 20 برس تک موجود غیر ملکی افواج کے خلاف خود طالبان جنگجوؤں نے بہت سے حملے کیے تھے۔

تاہم حالیہ مہینوں کے دوران ملک میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہوئی ہے۔ متعدد ہلاکت خیز بم دھماکوں میں مساجد اور اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، اور ان میں سے کئی حملوں کی ذمہ داری نام نہاد دولت اسلامیہ نے قبول کی ہے۔

گزشتہ ہفتہ ایک خودکش بمبار نے مغربی افغانستان کے شہر ہرات میں ایک مسجد پر حملہ کیا تھا جس میں 18 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں طالبان حامی ایک با اثر عالمِ دین بھی شامل تھے۔

روس ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جس نے گزشتہ برس افغانستان میں طالبان کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد کابل میں اپنا سفارت خانہ قائم رکھا۔

روس نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ تاہم طرفین کے درمیان ماسکو سے گندم، گیس اور تیل وغیرہ کی خرید و فروخت کے بارے میں بات چیت ہوتی رہی ہے۔

فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ آیا کوئی افغانستان میں روسی مفادات کو نشانہ بنانا چاہتا ہے یا پھر، اس اور اس سے قبل ملک میں دوسرے حملوں کی مدد سے، طالبان کی سکیورٹی فراہم کرنے کے بارے میں یقین دہانیوں کو زک پہنچانا چاہتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *