کیا سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک

کیا سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک

کیا سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک آئی ایم ایف کی وجہ سے پاکستان کی فوری مدد نہیں کر پا رہے؟

پاکستان کی معاشی صورتحال کے تناظر میں ایک سوال بار بار اٹھ رہا ہے کہ اس بار ماضی کی طرح سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین جیسے دوست ممالک کی جانب سے فوری اور قلیل مدتی مدد کیوں نہیں مل رہی۔ حال ہی میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے ایک بیان نے اسی بحث سے جڑے ایک اور سوال کو جنم دیا کہ آیا آئی ایم ایف کی وجہ سے دوست ممالک پاکستان کی مدد سے گریزاں ہیں؟

خیال رہے کہ پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے حالیہ چند دنوں کے دوران متعدد بار میڈیا پر آ کر یہ بیان دیا کہ ایک دو ہفتے کے اندر قریبی دوست ممالک سے پاکستان کو امداد مل جائے گی جس سے معیشت میں بہتری آئے گی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ممکن ہو سکے گا۔

انھوں نے گذشتہ ہفتے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب سے تین بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری کے امکانات ہیں۔ اس ضمن میں آج یعنی منگل کی صبح سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے خبر دی کہ سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان نے ہدایات جاری کی ہیں کہ سعودی عرب کی پاکستان میں جاری سرمایہ کاری کو ایک ارب سے بڑھا کر دس ارب ڈالر تک کرنے کے منصوبے پر ’غور‘ کیا جائے۔

ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ ولی عہد نے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں سعودی ڈیپازٹ کی رقم کو بڑھا کر پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے پر ’غور‘ کرنے کی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔

تاہم یہ اعلان ابھی سعودی عرب کے متعلقہ محکموں کو اس بابت ’غور‘ کرنے سے متعلق ہیں۔ ماہرین معیشت کے مطابق جیسے ہی پاکستان کے آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے معاملات طے پائے جائیں گے سعودی عرب کی جانب سے یہ اعلان کردہ اقدامات ٹھوس شکل اختیار کر لیں گے۔

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے پاکستان نے متحدہ عرب امارات کو ایک ارب سے زائد کا قرض واپس کیا ہے، جس سے زرمبادلہ میں مزید کمی واقع ہوئی اور معاشی چیلنجز میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوتا نظر آیا۔ اس قرض کی واپسی کے بعد پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو گئے جس کے بعد ڈیفالٹ کی باتیں دوبارہ زور پکڑنے لگیں۔

ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان کے پاس پانچ ارب ڈالر سے کم کے ذخائر ہیں جن سے صرف تین ہفتے کی درآمدات کی ادائیگیاں ہی ممکن ہو سکیں گی اور اگر جلد بیرونی امداد یا قرض نہ ملا تو ایسی صورت میں ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔

خود وزیر خزانہ اسحاق ڈار زرمبادلہ میں اضافے کے لیے دوست ممالک کو براہ راست قیمتی اثاثوں کی فروخت کے منصوبے پر بات کر چکے ہیں تاہم اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ اب تک سامنے نہیں آ سکا۔

اس پر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا آئی ایم ایف سے معاملات طے نہ پانے کی وجہ سے دوست ممالک پاکستان کی مدد سے گریزاں ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ آئی ایم ایف سے معاملات کیوں سلجھ نہیں پا رہے؟

پاکستان اور آئی ایم ایف

IMF Pakisan

اسحاق ڈار نے ابھی تک یہ تو نہیں بتایا کہ جن قریبی دوستوں سے جلد امداد ملنے کا امکان تھا وہ امداد ابھی تک کیوں نہیں مل سکی تاہم سکیورٹی امور پر کڑی نظر رکھنے والے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے پنجاب کے صنعتی شہر فیصل آباد میں چند دن قبل ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ دوست ممالک نے ہمیں بتایا ہے کہ پہلے اپنے معاملات آئی ایم ایف سے ٹھیک کریں اور اس کے بعد پھر ہمارے پاس آئیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوست ممالک کو کہیں آئی ایم ایف کی اجازت تو نہیں درکار؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا آئی ایم ایف مشن کے ساتھ نواں جائزہ اکتوبر میں ہونا تھا مگر ان مذاکرات میں اس وجہ سے تعطل آیا کہ اسلام آباد اور آئی ایم ایف کے درمیان ایکسچینج ریٹ پالیسیز، درآمدات پر پابندیوں، اضافی ٹیکس لگانے کی شرط اور بجلی پر نرخوں میں اضافے کے ذریعے تقریباً پانچ ہزار ارب روپے کے گردشی قرضوں کو ختم کرنے جیسے اقدامات اٹھانے پر اختلافات پیدا ہوئے۔

تاہم پیر کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف مشن چیف برائے پاکستان ناتھن پورٹر کے ساتھ جنیوا کانفرنس کے موقع پر ملاقات کی جس میں وزارت خزانہ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر علاقائی معیشتوں کو درپیش چیلنجز پر بات چیت ہوئی۔

وزیر خزانہ نے اس ملاقات میں آئی ایف ایم کے پروگرام کو مکمل کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ بھی کیا۔

تاہم اس ملاقات میں ایم ایف نے کون سی شرائط گنوائی ہیں اس پر وزارت خزانہ نے ابھی تک خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ ہفتے ایک تقریب سے اپنے خطاب میں کہا کہ انھیں آئی ایم ایف کی ایم ڈی کی فون کال آئی ہے اور انھوں نے چین اور سعودی عرب سے متعلق بھی پوچھا ہے کہ وہ پاکستان کی مدد کر رہے ہیں یا نہیں؟

آئی ایم ایف نے بعد میں میڈیا کو یہ وضاحت جاری کی کہ فون پاکستان کی طرف سے آیا تھا اور اس کا مقصد جنیوا کانفرنس پر تبادلہ خیال اور وہاں مشن کے ساتھ پاکستان کے وفد کی ملاقات سے متعلق امور پر بات کرنا تھا۔

تو کیا اب پاکستان دوستوں اور مالیاتی اداروں کو امداد یا قرض دینے پر راضی کرنے پر کامیاب ہو گیا ہے؟

اب یہ ایک ایسی صورتحال ہے جسے سمجھنے کے لیے ماہرین کی رائے معلوم کرنا ضروری ہے۔

ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

آئی ایم ایف کو مطمئن کیے بغیر کوئی بھی ملک ڈگمگاتی معیشت کو سہارا نہیں دے گا‘

ممبر اکنامک ایڈوائزی گروپ اور وائس چانسلر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس ڈاکٹر ندیم الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک طے شدہ بات ہے جو اب ایک عالمی قانون کی حثییت اختیار کر گئی ہے کہ آئی ایم ایف کے اطمینان (ہیلتھ سرٹیفکیٹ) کے بغیر کوئی بھی ملک یا بینک کسی ڈگمگاتی معیشت کو سہارا نہیں دے گا۔

’اگر ہمیں چین اور سعودی عرب امداد یا قرض نہیں دے رہا ہے تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق یہ بات 1983 پھر 1987 اور 2008 کے عالمی بحران سے بھی واضح ہو گئی ہے کہ پہلے کسی بھی ملک کو اپنی عادات سنوارنی ہوں گی اور آئی ایم ایف کا اعتماد حاصل کرنا ہو گا اس کے بعد ہی دوسرے ادارے اور ملک پھر اس پر اعتبار کر سکیں گے۔

ماہر معیشیت محمد سہیل نے بی بی سی کو بتایا کہ دراصل پاکستان کے قرضے اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ اب ہمارے ملک پر اعتماد کا لیول بہت کم ہو کر رہ گیا ہے۔

ان کے مطابق اب دوست ممالک کی مدد بھی آئی ایم ایف سے لنک ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ بائی لیٹرل اور ملٹی لیٹرل ایجنسیوں کا اعتبار بھی آئی ایم ایف کی تحقیق کے بعد ہی بڑھتا ہے۔

ان کے مطابق آئی ایم ایف کی مداخلت سے اعتماد بڑھنے کا اس وجہ سے تعلق ہے کہ یہ عالمی مالیاتی ادارہ کسی بھی ملک کو پروگرام میں لانے سے پہلے ایک ضابطے میں اور قاعدے پر لے کر آتا ہے، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی ملک قرضے واپس کیسے کر سکے گا۔

Pakistan IMF

’پاکستان کا آئی ایم ایف ریکارڈ بہت کمزور ہے‘

ڈاکٹر ندیم الحق کے مطابق قرضے واپس کرنے سے متعلق پاکستان کا ریکارڈ بہت کمزور ہے۔ ان کے مطابق یہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا 23 واں پروگرام چل رہا ہے مگر ابھی تک پاکستان ایک آدھ ہی پروگرام رعایتی نمبرز لے کر پورا کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔

ندیم الحق کے مطابق اب یا تو کوئی جنگی صورتحال ہو یا افغانستان جیسا منصوبہ تو ہی پاکستان کو رعایت مل سکتی ہے وگرنہ ہمیں اپنے آپ کو بہتر کرنا ہو گا اور اپنے معاشی اطوار ٹھیک کرنے ہوں گے۔

ان کے خیال میں اس وقت یوکرین ایسا ملک ہے جسے دنیا جنگ کی وجہ سے رعائتیں دے سکتی ہے مگر پاکستان کو اب دوست ممالک اور عالمی برادری سے ایسی کوئی امید نہیں باندھنی چاہیے۔

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) سے منسلک ڈاکٹر ہادیہ ماجد نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت فوری طور پر ہمارا مشن یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کیا جا سکے مگر اب اسے طویل المدتی پلان پر عمل کرتے ہوئے معیشیت کو بہتر کرنا ہو گا اور اس حوالے سے چین جیسے ماڈل پر چلنا ہو گا۔

ان کے مطابق چین نے آبادی، زراعت اور ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنی معیشیت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ہے۔ ڈاکٹر ہادیہ کے مطابق پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانا ہوں گی اور درآمدات میں کمی لانا ہو گی۔

ڈاکٹر ہادیہ کے مطابق دوست ممالک کو یہ لگ رہا ہو کہ پتا نہیں پاکستان اپنی معیشیت پر قابو پا سکے گا یا نہیں تو پھر وہ ایسے میں قرض کیسے دیں گے۔

ان کے مطابق دوست ممالک کو یہ دیکھنا بھی چاہیے کیونکہ بغیر کسی اعتماد کے تو لین دین نہیں کیا جا سکتا۔

جنیوا کانفرنس کی امداد معاشی بحران سے نمٹنے میں فائدہ مند ہو گی؟

Geneva Conference

دوسری جانب جنیوا کانفرنس میں پاکستان کے لیے دس ارب ڈالر سے زائد کی امداد کے اعلانات کیے گئے ہیں جو پاکستان کو اگلے تین برس میں وصول ہو سکیں گے۔

ابھی اگر پاکستان کے لیے امداد کے اعلانات پر ہی بات کی جائے تو مفتاح اسماعیل اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب ہی نہیں بلکہ اسحاق ڈار بھی خاصے پرجوش نظر آتے ہیں۔

ان امداد کے وعدوں پر جب ایک صارف نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’جنیوا ڈونرز کانفرنس پاکستان کو وینٹی لیٹر سے ہٹا دے گی انشااللہ اور بہت جلد سب بہتر ہو جائے گا۔‘ تو اس ٹویٹ کو اسحاق ڈار نے بھی ری ٹویٹ کیا۔

پاکستان کے سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل اسے اچھی پیشرفت قرار دے رہے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ امداد پاکستان کی توقعات سے زیادہ ہے اور اب پاکستان کو آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔‘

تاہم ان کے مطابق آئی ایم ایف کے پروگرام کو مکمل کرنا پھر بھی ضروری ہو گا اور مشکل فیصلے لینے ہوں گے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی خوشی اپنی جگہ مگر معاشی ماہرین ابھی بھی ان اعلانات سے مطمئن نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ اعلانات ابھی محض وعدے ہیں اور ابھی فوری طور پر پاکستان کی معیشیت کو اس سے کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچ سکے گا۔

ان ماہرین کے مطابق جس وقت تک آئی ایم ایف پاکستان سے سمجھوتہ نہیں کرتا اور اسے کسی ڈسپلن میں نہیں لے کر آتا اس امداد کا حصول مشکل ہو جائے گا۔

Army

مفتاح اسماعیل کے مطابق جب اتنے بڑے فورم پر ممالک اور ادارے کوئی اعلانات کرتے ہیں تو پھر ان پر عمل بھی ہوتا ہے۔ تاہم ان کے مطابق ایشین بینک اور ورلڈ بینک نے پہلے سے ہی یہ اعلانات کر رکھے تھے جنھیں کانفرنس میں پھر سے دہرایا گیا ہے۔

ڈاکٹر ندیم الحق کے مطابق عالمی سفارتکاری کے کچھ آداب ہوتے ہیں اور ایسے فورمز پر میٹھی میٹھی باتیں کی جاتی ہیں اور ایسے اعلانات کیے جاتے ہیں کہ جی بالکل ہم اتنی مدد کو تیار ہیں۔ تاہم ان کے مطابق عملی طور پر ان پر کم ہی عمل ہوتا ہے۔

اپنی بات کی دلیل میں ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2010 کے سیلاب کے بعد پاکستان نے فرینڈز آف پاکستان سے امداد کے وعدے حاصل کیے مگر امداد صرف 15 ملین ڈالر تک ہی مل سکی تھی۔

ان کے مطابق اب جب اعلانات کی تفصیل سامنے آئے گی تو پھر ہمیں شرائط کا بھی پتا چل سکے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *