میں نے شوہر سے کہا کہ آپ ضروریات پوری کریں

میں نے شوہر سے کہا کہ آپ ضروریات پوری کریں

میں نے شوہر سے کہا کہ آپ ضروریات پوری کریں، میں خواہشات پوری کروں گی، آج میں اُن سے دس گنا زیادہ کماتی ہوں

میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ آپ ضروریات پوری کریں، میں خواہشات پوری کروں گی، اور آج میں اُن سے دس گنا زیادہ پیسے کماتی ہوں۔‘

یہ کہنا ہے عبیدہ باسط کا، جو پیشے کے لحاظ سے سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہیں۔ عبیدہ تین سال قبل خیبرپختونخوا کے شہر ایبٹ آباد سے اپنے شوہر اور چار بچوں کے ہمراہ اسلام آباد منتقل ہوئی تھیں۔

عبیدہ کے شوہر بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں، جس کی وجہ سے اُن پر سارے گھر کی ذمہ داری تھی۔ عبیدہ نے ان حالات میں ماہانہ خرچے میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کا سوچا اور پھر بچوں کے یوٹیوب چینل چلانے سے شروع ہونے والا ان کا سفر اب سوشل میڈیا ایکسپرٹ میں تبدیل ہو گیا ہے۔

عبیدہ نے بغیر کسی کورس اور ڈگری کے یہ سب کیسے حاصل کیا؟

کورونا کی وبا کے دوران لوگ بچوں سمیت گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ بچوں کی بات کی جائے تو سکول اور غیر نصابی سرگرمیاں ختم ہونے کی وجہ سے بچوں کے سکرین ٹائم (وہ وقت جو موبائل یا کمپیوٹر دیکھتے گزارا جاتا ہے) میں اضافہ ہوا تھا۔

سکرین ٹائم

عبیدہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے لاک ڈاؤن کے دوران سوچا کہ میرے بچوں کا کیا مستقبل ہو گا۔ بچوں کو موبائل پر وقت گزارنے کے بجائے اِس وقت کا درست استعمال کرتے ہوئے وہ کام کرنا چاہیے جس جانب ان کا رجحان ہو۔‘

عبیدہ کے چار بچوں میں سے بڑے بیٹے دس سالہ عبدل احد ہیں۔ احد تھری ڈی اینیمیٹر ہیں۔ احد فقط دس سال کم عمر میں تھری ڈی اینیمیٹر کیسے بنے اس بارے میں ہم آگے چل کر بات کریں گے۔

عبیدہ کے مطابق وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کر بھی فکرمند تھیں۔ تو پھر اُنھوں نے بچوں کے وقت کو مثبت بنانے کے لیے ایک یوٹیوب چینل شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

’کوکو سمارٹی کے نام سے میں نے بچوں کا چینل بنایا کیونکہ مجھے اس دوران پتا چلا تھا کہ یوٹیوب سے لوگ کافی پیسے کما رہے ہیں۔ پھر میں نے یوٹیوب پر ہی مختلف ویڈیوز دیکھ دیکھ کر ایڈیٹنگ سیکھی اور پھر ویڈیو سکرپٹنگ اور thumbnails بنانا سیکھے، اور ایک ہی سال میں میں ایس ای او (سرچ انجن آپٹامائیزیشن) سمیت ویڈیو ایڈیٹنگ میں ماہر ہو گئی تھی۔‘

یاد رہے کہ سرچ انجن آپٹامائیزیشن وہ تیکنیک ہے جس کے ذریعے آپ اپنا آن لائن مواد یا ویڈیوز زیادہ سے زیادہ آن لائن صارفین پر پہنچانا ممکن بناتے ہیں۔

پاکستان میں لوگ آن لائن ذرائع سے پیسے کمانے کے لیے یوٹیوب سے مختلف طرح کے ہنر سیکھتے ہیں تاکہ فری لانسر کے طور پر مختلف کمپنیوں کے ساتھ کام کر کے پیسے کما سکیں۔ مگر یہ اتنا آسان نہیں اور ویسے بھی کسی بھی کام کے لیے مکمل معلومات ہونی چاہییں۔

عبیدہ کے مطابق بچوں کی ویڈیوز بناتے ہوئے اُنھیں یہ احساس ہوا کہ اُن کو اس کام میں ایسی مہارت حاصل ہو گئی ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ آن لائن مختلف ویب سائٹس پر کام کر کے وہ پیسے کما سکتی ہیں۔ اور پھر اُنھوں ’فائیوور‘ پر اپنا اکاؤنٹ بنایا۔

پاکستان
آن لائن ملنے والا پہلا آرڈر صرف پانچ ڈالر کے تھا مگر پھر کام اتنا بڑھا کہ 25، 20 لوگوں کو ملازمت پر رکھنا پڑا

فری لانسر کے طور پر پیش آنے والے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے عبیدہ کا کہنا تھا کہ آغاز میں انھیں کوئی آرڈر نہیں ملا مگر وہ اس دوران مایوس نہیں ہوئیں اور اپنے ہنر کو مزید نکھارنے پر توجہ جاری رکھی۔

اور پھر اُن کو وہ پہلا آڈر ایک کینیڈا کی کمپنی سے ملا جس نے اُن کی زندگی تبدیل کر دی۔

’مجھے پہلا آڈر صرف پانچ ڈالر کا ملا تھا، مگر میرا کام یعنی میری بنائی ہوئی ویڈیو اس کینیڈین کمپنی کو اتنی پسند آئی کہ اُنھوں نے مجھے فل ٹائم نوکری کی پیشکش کر دی، جسے میں نے قبول کر لیا۔‘

عبیدہ کے اب لنکڈ اِن، فائیور، اور اپ ورک پر بے شمار کلائنٹس موجود ہیں۔ عبیدہ اُس مرحلے پر پہنچ گئی تھیں، جہاں گھر کے ایک کمپیوٹر سے شروع ہونے والا کام 20 سے 25 لوگوں کی ٹیم تک پہنچ گیا۔

’کام اتنا ہو گیا تھا کہ میں اکیلے سب نہیں کر سکتی تھی، جس وجہ سے میں نے آفس بنایا اور لوگوں کو کام پر رکھا۔ اب میں صرف کام کی نگرانی کرتی ہوں۔‘

عبیدہ نے ہاؤس وائف ہوتے ہوئے وہ کام کر کے دکھایا جو بہت سی دوسری خواتین کے لیے مثال ہے، اور اُنھوں نے ناصرف اپنے لیے بلکہ اپنے بچوں کے ہنر کو پہچان کر اُس کو تراشا ،جس کی مثال اُن کا بڑا بیٹا عبدالاحد ہے۔

عبدالاحد 3D اینیمیٹر کیسے بنا؟

پاکستان
احد دس سال کے ہیں اور تھری ڈی اینیمیٹر ہیں

عبیدہ کے مطابق کورونا کے دوران اُنھوں نے بچوں کے سکرین ٹائم کو کم کرنے کے لیے مختلف طرح کی سرگرمیوں میں شامل کیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’احد جب بھی کوئی کارٹون دیکھتا تو پوچھتا تھا کہ یہ کیسے بنا، مجھے سمجھ آ گیا کہ اس کا رجحان تھری ڈی  کی طرف ہے کیونکہ کارٹون تھری ڈی تیکنیک کی مدد سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ پھر میں اُسے تھری ڈی سے متعلق ہر روز کسی کھلونے کا لالچ دے کر ایک ٹاسک دیتی جس کو مکمل کرنے پر اُس کو اُس کا من پسند کھلونا ملتا۔‘

احد کو پہلے ٹاسک کےطور پر عبیدہ نے تھری ڈی ڈونٹ بنانے کے لیے دیا جس کو دیکھ کر وہ خود بھی حیران ہو گئیں۔ احد دو سال کے عرصے میں ہی اس کام میں اتنے ماہر ہو گئے ہیں، کہ اب اُن کا اپنا یوٹیوب چینل بھی چل رہا ہے۔ ‘

اپنی والدہ کی موجودگی میں احد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں اپنے یوٹیوب چینل پر بہت ہی آسان الفاظ میں لوگوں کو تھری ڈی ویڈیوز بنانا سیکھتا ہوں۔ کیونکہ میں نے بھی خود یوٹیوب چینل سے مختلف سوفٹ ویئر سیکھے تھے۔‘

احد کو چینل پر ایک مہینے میں ہی ویوز ٹائم دس ہزار سے زیادہ مل گئے ہیں۔ احد نے اب تک فری لانسر کے طور پر کئی پراجیکٹس پر کام کیا ہے۔ ’مجھے ایک کام ملا تھا جہاں مجھے کلائنٹ کے لیے لوگو بنانا تھا۔ جس کے بعد مجھے 100 ڈالر ملے۔‘

عبیدہ کے مطابق ’بچے جب کمپیوٹر پر زیادہ  وقت لگاتے ہیں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ بچہ تعلیم میں پیچھے رہ جائے گا۔ مگر احد نے سکول اور اپنے شوق کو اس اچھی طرح مینیج کیا کہ وہ دوسرے بچوں کے لیے ایک مثال ہے۔‘

پاکستان

احد کہتے ہیں کہ ’میں سکول سے آتا ہوں تو کھانا کھانے کے بعد اپنے سکول کا کام کرتا ہوں ، پھر دوسرے بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتا ہوں۔ اور سب کاموں سے فارغ ہو کر میں تین سے چار دن میں یا چھٹی والے دن ایک ہی رات میں ویڈیو بنا لیتا ہوں، کیونکہ یہ میرا شوق ہے۔‘

احد نے 10 سال کی عمر میں تھری ڈی اینیمیٹر بن کر اس فیلڈ کے دیگر لوگوں کو بھی حیران کر دیا ہے۔ جس کا اعتراف اینیمیشن ایکسپرٹ عمران علی دینہ نے بھی کیا۔

بچوں سے پوچھا جائے کہ اُنھوں نے بڑے ہو کر کیا بننا ہے تو عموًما بچے کہتے کہ اُنھیں ڈاکٹر یا انجینیئر بننا  ہے۔ احد بھی آج سے تین سال پہلے تک آرمی میں جانے کا ارادہ رکھتے تھے مگر اب وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے تھری ڈی اینیمیٹر بننا ہے۔

احد ہی نہیں عبیدہ اپنی آٹھ سالہ بیٹی کو بھی ویڈیو ایڈیٹگ اور اینیمیشن سیکھا رہی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *