کیا تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی مجلس

کیا تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی مجلس

کیا تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی مجلس وحدت المسلمین میں شمولیت سے مخصوص نشستیں حاصل ہو پائیں گی؟

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے رواں ہفتے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اس کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار قومی اسمبلی اور پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے مجلس وحدت المسلیمین اور جماعت اسلامی سے الحاق کریں گے۔

تاہم جماعت اسلامی نے اس ضمن میں پی ٹی آئی سے الحاق کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے لیکن مجلس وحدت المسلمین نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اس الحاق کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

اگرچہ جماعت اسلامی ایک قومی سطح کی معروف جماعت ہے تاہم مجلس وحدت المسلمین کے حوالے سے لوگ زیادہ تر تفصیلات نہیں جانتے۔ سوشل میڈیا پر اس جماعت کے حوالے سے جہاں سوال کیا جا رہا ہے وہیں یہ سوالات بھی پوچھے جا رہے ہیں اس کہ اس پارٹی کے ساتھ الحاق کرنے سے تحریک انصاف اور وحدت المسلمین کو کیا فائدہ ہو گا؟

اس رپورٹ میں ہم نے انھی سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔

مجلس وحدت المسلمین ہے کیا؟

مجلس وحدت المسلمین ایک مذہبی، سیاسی جماعت ہے جس کی بنیاد سنہ 2009 میں رکھی گئی تھی اور اس جماعت کے کارکنوں کی زیادہ تعداد شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔

اس جماعت کی جڑیں زیادہ تر صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں ہے۔

راجہ ناصر عباس اس جماعت کے بانی قائد ہیں۔ جب اس جماعت کی بنیاد رکھی گئی تھی تو اس وقت سب سے بڑا عہدہ سیکریٹری جنرل کا ہوتا تھا اور راجہ ناصر عباس اس جماعت کے پہلے سیکریٹری جنرل تھے تاہم اس جماعت کے دستور میں ترمیم کرکے صدر کا عہدہ بھی رکھا گیا اور الیکشن کمیشن میں جو ریکارڈ جمع کروایا گیا اس کے مطابق راجہ ناصر عباس اب اس جماعت کے چیئرمین ہیں۔

مجلس وحدت المسلمین نے سنہ 2013 کے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور انھوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹیوں میں متعدد امیدوار بھی کھڑے کیے تھے تاہم اس جماعت کو بڑی کامیابی نہیں مل کسی اور صرف بلوچستان سے یہ جماعت صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیت پائی تھی۔

سنہ 2020 میں گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات میں مجلس وحدت المسلمین نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ الحاق کیا تھا جس کے نتیجے میں یہ جماعت اس خطے سے ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔

سنہ 2024 کے انتخابات میں مجلس وحدت المسلمین نے قومی اسمبلی کے حلقہ 37 سے کامیابی حاصل کی ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہے کہ یہ جماعت قومی اسمبلی کی کوئی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

الیکشن

پی ٹی آئی کو مجلس وحدت المسلمین میں شمولیت سے کیا فائدہ ہو گا؟

اس بابت فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کا کہنا تھا کہ چونکہ 2024 کے انتخابات میں اُن کی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں تھا اس لیے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے کسی جماعت کے ساتھ الحاق ہونا ضروری ہے اور اسی لیے مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ سیاسی الحاق کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔

پی ٹی آئی کے ایک ترجمان رضوان احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اُن کی جماعت 150 سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں جیت چکی ہے لیکن اگر الیکشن کمیشن کی طرف سے جن 92 آزاد امیدواروں کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، اور صرف اسی کو ہی سامنے رکھا جائے تو ان کے پاس لگ بھگ 25 مخصوص نشستیں بھی آ سکتی ہیں جس سے اُن کی جماعت کی قومی اسمبلی میں پوزیشن مزید مضبوط ہو گی۔

مجلس وحدت المسلمین کو آزاد امیدواروں کی شمولیت سے کیا فائدہ ہو گا؟

مجلس وحدت المسلمین نے انتخابات سے قبل خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے صرف دو خواتین کے نام دیے تھے جن کو فوقیت پر رکھا گیا ہے۔

چونکہ 2024 کے انتخابات میں یہ جماعت صرف ایک ہی نشست حاصل کر سکی ہے اس لیے مخصوص نشستوں پر یہ جماعت اپنے بل بوتے پر ایک سیٹ بھی نہیں حاصل کر سکتی تاہم پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی اس جماعت میں شمولیت کے بعد ان دو خواتین کو فوقیت دی جائے گی جنھیں مجلس وحدت المسلمین نے نامزد کیا تھا۔

مجلس وحدت المسلمین کے جنرل سیکریٹری ناصر شیرازی کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق جو بھی لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا اس کی منظوری ان کی جماعت کے سربراہ اور پی ٹی آئی بانی عمران خان دیں گے۔

انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کے درمیان سیاسی اور جماعتی الحاق کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ان دونوں جماعتوں کے قائدین دس سال سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی ان کی جماعت میں شمولیت کے بعد وہ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو ایک نئی درخواست دیں گے جس میں ان خواتین کے نام شامل ہوں گے جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہو گا۔

الیکشن کمیشن کے معاملات کی نگرانی کرنے والے صحافی فہیم ملک کا کہنا ہے کہ 2024 کے انتخابات سے پہلے پاکستان تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں سے متعلق ایک لسٹ الیکشن کمیشن کو بجھوائی تھی لیکن پی ٹی آئی سے انتخابی نشان چھن جانے کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے ان کی یہ فہرست مسترد کر دی ہے۔

انھوں نے کہا کہ سنہ 2018 کے انتخابات میں خیبر پختونخوا سے دو امیدوار آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے تھے اور انھوں نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی جس پر الیکشن کمیشن نے ان کے لیے صوبے خیبر پختونخوا میں خواتین کی مخصوص نشتوں کی فہرست جمع کروانے کی اجازت دی تھی۔

تاہم الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ اگر کوئی آزاد امیدوار پارلیمان میں موجود کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتا بھی ہے تو اس جماعت کی طرف سے مخصوص نشستوں کے لیے جو لسٹ فراہم کی گئی تھی اس میں کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر صرف اسی لسٹ کو فوقیت دے گا جو اس سیاسی جماعت نے انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی ہو۔

mwm

کیا ایم ڈبلیو ایم میں شامل ہونے سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں مل پائیں گی؟

صحافی فہیم ملک کا کہنا تھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے کی وجہ سے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان چھن گیا تھا جس کی وجہ سے اس جماعت کے حمایت یافتہ امیدواروں نے آزاد حثیت میں انتخابات میں حصہ لیا۔

انھوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے مخصوص نشستوں پر ناموں کی فہرست، انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی آخری تاریخ تک جمع کروائی جا سکتی ہے ۔

انھوں نے کہا کہ الیکشن رولز میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اگر کسی جماعت کو عام انتخابات میں اس کی توقع سے زیادہ سیٹیں مل جائیں تو وہ مخصوص نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن میں پہلے سے جمع کروائی گئی لسٹ پر نظرثانی کی درخواست دائر کر سکتا ہے۔

تاہم سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اس لسٹ پر نظرثانی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستا ن تحریک انصاف کو اس ضمن میں صرف عدالتوں سے ہی ریلیف مل سکتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں اگر وہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہلے انٹراپارٹی انتخابات کروائیں اور اس کے بعد وہ متعقلہ فورم کو اس حوالے سے درخواست دیں۔

کیا پی ٹی آئی کی ایم ڈبلیو ایم میں شمولیت کا مقصد آزاد ارکان کو روکنا ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے ایک ترجمان رضوان احمد کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کی حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو کہیں نا کہیں تو جانا تھا اس لیے انھوں نے مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ سیاسی الحاق کیا ہے۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو مجلس وحدت المسلمین میں شامل کرنے کا مقصد سیاسی سے زیادہ قانونی ہے اور شاید پی ٹی آئی کی قیادت یہ سوچ رکھتی ہے کہ اس شمولیت سے ان پر سے ’آزاد‘ کا لیبل ختم ہو جائے گا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو کسی سیاسی جماعت میں ضم ہونا سیاسی طور پر سوٹ نہیں کرتا لیکن اپنے ارکان کو رولز کا پابند رکھنے کے لیے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے تاکہ مستقبل میں یہ ارکان پارلیمان میں ہونے والی کارروائی میں حکومت کے کسی بل کی حمایت میں ووٹ نہ دے سکیں۔

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی مجلس وحدت المسلیمن میں شمولیت صرف اسی صورت میں فائدہ مند ہوسکتی تھی اگر پی ٹی آئی کی قیادت کے ریاست یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اچھے ہوتے۔

انھوں نے کہا کہ جب کوئی سیاسی جماعت حزب اختلاف میں ہو تو اس وقت ان کے لیے قوانین کی تشریح مزید سخت ہو جاتی ہے اور اداروں کی طرف سے بھی انھیں کم ہی ریلیف ملتا ہے۔

mwm

انتخابی نشان واپس ہونے سے کیا پی ٹی آئی بحال ہو سکتی ہے؟

صحافی فہیم ملک کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو انتحابی نشان کی بحالی کے لیے پراسیس کو مکمل کرنا ہو گا لیکن اس کے لیے اس جماعت کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کے دو ہفتوں کے اندر اندر کامیاب امیدواروں کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوتا ہے اور انتخابات کو گزرے ایک ہفتہ ہو گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ابھی تک الیکشن کمیشن نے الیشکن ٹربیونلز بھی تشکیل نہیں دیے اور نہ ہی اس ضمن میں متعقلہ ہائی کورٹس کو لکھا ہے۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں مشکل دکھائی دے رہا ہے کہ پی ٹی آئی اگلے دو ہفتوں میں بھی انٹرا پارٹی انتخابات کروا کر الیکشن کمیشن سے سرٹیفکیٹ حاصل کرے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شعیب شاہین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ چونکہ وقت کی کمی ہے اس لیے ان کی جماعت نے ایم ڈبیلو ایم سے سیاسی الحاق کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس الحاق کا مقصد پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے حصول کو یقینی بنانا ہے۔

انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے کامیاب امیدواروں کے گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے 72 گھنٹوں تک آزاد امیدواروں کے پاس یہ وقت ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کریں۔

انھوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 104 اس ضمن میں واضح ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت توقع سے زیادہ سیٹیں حاصل کر لے تو وہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی ہوئی لسٹ پر نظرثانی کے لیے درخواست دائر کر سکتی ہے۔

شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ 2013 میں جب پاکستان مسلم لیگ ن نے توقع سے زیادہ سیٹیں لی تھیں تو انھوں نے بھی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے جمع کروائی گئی لسٹ پر نظر ثانی کی درخواست دی تھی جسے الیکشن کمیشن نے منظور کر لیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *