کیا اٹک سازش کیس نے بھٹو کا ’اعتماد‘ حاصل کرنے میں جنرل ضیا کی مدد کی؟
یہ بغاوت کی کوشش تھی جسے بری فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل ٹکا خان کی بھرپور کوشش کے ساتھ ناکام بنا دیا گیا تھا۔ انھوں نے نہ صرف بڑی سرعت کے ساتھ آئی ایس آئی کو منصوبہ بندی کرتے ہوئے بغاوت سے بچاﺅ کی ہدایت کی بلکہ انھوں نے جونئیر افسران سے آرمی اور ائیر فورس (فضائیہ) کے افسران کے اُس گروپ میں خاموشی سے داخل ہو جانے کے لیے بھی کہا جو اس بغاوت کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
24 مارچ 1973 کو آرمی اور ائیر فورس کے افسران کے گروپ کی بغاوت کی منصوبہ بندی کے لیے لاہور میں ملاقات ہوئی۔ گروپ کے اندر رائے تقسیم تھی۔
اُن میں سے کچھ کا مؤقف تھا کہ اس وقت عارضی طور پر زیر زمین چلے جانا چاہیے کیونکہ انھیں یہ رپورٹس مل چکی تھیں کہ جنرل ٹکا خان کو معاملے کی سُن گُن لگ گئی ہے اور ملٹری انٹیلیجنس ان کے گروپ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو چکی ہے جبکہ دیگر کا خیال تھا کہ بہت دیر ہو چکی، اب زیر زمین جانے کا وقت نہیں رہا بلکہ یہ کارروائی کرنے کا وقت ہے۔
بریگیڈئیر ایف بی علی اس گروپ کا حصہ تھے جبکہ گروپ کے دیگر افراد میں میجر فاروق اعوان جنجوعہ (مستقبل کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کے کزن) میجر نادر پرویز (1990 میں نوازشریف کی کابینہ کے وفاقی وزیر) اور میجر سعید اختر ملک (1965 کی جنگ کے فوجی ہیرو میجر جنرل اختر علی ملک کے بیٹے) شامل تھے۔
آرمی کی طرح ائیر فورس کے گروپ کی قیادت سکواڈرن لیڈر غوث کر رہے تھے اور وہ بھی اسی طرح کے منصوبے تیار کر رہے تھے تاکہ اس وقت کی سویلین حکومت اور فوجی قیادت کا تختہ اُلٹ دے۔
پاکستان آرمی کے تاریخ دان شجاع نواز نے’کراس سورڈز‘ کے عنوان سے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’اپنے دائرے کو بڑھانے کے عمل میں گروپ میں ملٹری انٹیلیجنس کے لوگ شامل ہو گئے۔ گروپ کے ایک رکن لیفٹیننٹ کرنل طارق رفیع نے اعلیٰ فوجی حکام کے سامنے یہ راز اُگل دیا تھا۔۔۔ آئی ایس آئی کے ذریعے ٹکا خان نے رفیع کی پیٹھ تھپتھپائی کہ وہ باغیوں کے گروہ میں شرکت جاری رکھیں۔‘
شجاع نواز جو فوجی امور کے نامور تجزیہ نگار ہیں، اب واشنگٹن میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ سابق چیف آرمی جنرل آصف نواز جنجوعہ کے حقیقی بھائی ہیں۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ان کے کزنز میں سے ایک بغاوت کی تیاری کرنے والوں میں شامل تھا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والے اسلام آباد میں فوجی حکومت کا قیام نہیں چاہتے تھے۔ شجاع نواز کے مطابق بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والے بھٹو حکومت کے ’سویلین ڈکٹیٹرشپ‘ میں تبدیل ہو جانے کے بعد قائل تھے کہ وہ ایک منتخب جمہوری حکومت قائم کریں گے۔
30 مارچ 1973 کو جب بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والے گرفتار کر لیے گئے تو بھٹو حکومت نے سرکاری میڈیا کے ذریعے کہانی جاری کی کہ باغی، سویلین اور فوجی قیادت کو ہٹانے کے بعد ائیر مارشل اصغر خان کی سربراہی میں حکومت قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ائیر مارشل اصغر خان اس وقت اپوزیشن کی جماعت تحریک استقلال کے سربراہ تھے۔
پاکستان میں تاریخ کی کتب اور فوجی امور سے متعلق ادب حیرت انگیز طور پر ائیر فورس کے باغی افسران کے بارے میں خاموش ہے جنھوں نے گروپ کی سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا۔
پاکستان ملٹری پر چند کتابوں میں چند حقائق سکواڈرن لیڈر غوث کے بارے میں ملتے ہیں جو 12 ائیر فورس کے باغی افسران کے لیڈر تھے، حتیٰ کہ دیگر ائیر فورس افسران کے نام تک نہیں دیے گئے۔
حسن عسکری اپنی کتاب ’ملٹری سٹیٹ اینڈ سوسائٹی اِن پاکستان‘ (پاکستان میں فوج اور معاشرے کی حالت) میں لکھتے ہیں کہ ’ان میں سے سات ائیر فورس افسران کو بعد ازاں فوجی ٹریبیونل نے فوجی بغاوت کرنے کی کوشش میں حصہ لینے کے الزامات سے بری کر دیا تھا۔ اس وقت کے ائیر فورس کے چیف ظفر چوہدری نے بریت کے بعد ان افسران کو نوکری پر بحال کرنے سے انکار کر دیا تھا۔‘
’بھٹو حکومت نے 1973 کی فوجی بغاوت کی سازش کرنے کے الزمات سے بری ہونے والے ان سات ائیر فورس افسران کو وقت سے پہلے ریٹائر کرنے کا ائیر چیف کا فیصلہ مسترد کر دیا تھا۔ بھٹو نے جب اُن کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا تو ائیر چیف مارشل ظفر چوہدری مستعفی ہو گئے تھے۔‘
تاہم شجاع نواز فوجی افسران کی تشکیل اور گروپ کی ہئیت کے بارے میں واضح تفصیلات بیان کی ہیں۔ فوجی بغاوت کی یہ کوشش بعدازاں اٹک سازش کیس کے نام سے مشہور ہوئی۔
انھوں نے لکھا کہ میرے کزن میجر فاروق نواز جنجوعہ نے ’میرے جمع کردہ سیاسی اقوال پر مشتمل فولڈر کو مجھ سے مستعار لیا جس میں تھامس پین کے آزادی اورجمہوریت پر برٹرینڈ رسل کے اقوال بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ ایڈورڈ لُٹوارکس کی ’بغاوت: ایک عملی رہنما کتاب‘ بھی لی تھی جو میرے لکھے تشریحی نکات سے بھری پڑی تھی۔‘
شجاع نواز نے اپنی کتاب ’کراس سورڈز‘ میں لکھا کہ ’ان افسران میں سے بہت سارے پلاٹون کمانڈر تھے اور کاکول میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کا دیگر عملہ تھا جو لگاتار ملاقاتیں کرتے تھے۔۔۔ ایک وقت پر انھوں نے فاروق نواز کی جہلم میں شادی کی تقریب کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا تھا۔ سکواڈرن لیڈر غوث کی قیادت میں ائیر فورس کے افسران کا ایک اور گروہ بھی اسی خیال پر کاربند تھا۔‘
دونوں گروہ ایک اور آرمی افسر کرنل علیم آفریدی کے ذریعے جُڑے ہوئے تھے۔ کرنل علیم آفریدی وہی شخص تھے جو ’دسمبر 1971 میں یحیٰی خان کو برطرف کرنے کا بریگیڈئیر ایف بی علی کا مطالبہ جی ایچ کیو لے کر گئے تھے۔‘
بھٹو ان باغیوں کو عبرت کی ایک مثال بنانا چاہتے تھے۔ ’انھیں سخت تفتیش کے عمل سے گزارا گیا۔ آرمی افسران کو اٹک قلعہ میں رکھا گیا جبکہ ائیر فورس افسران کو پشاور کے قریب واقع سابق امریکی فضائی اڈے بڈابیر میں رکھا گیا تھا۔‘
بعد کے برسوں میں بریگیڈئیر ایف بی علی اور کرنل سعید اختر ملک دونوں نے انکار کیا کہ وہ بغاوت کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ اپنے میڈیا انٹرویوز میں انھوں نے کہا تھا کہ ’(گروہ کے ارکان میں) بات چیت ابتدائی مراحل میں تھی۔‘
شجاع نواز نے اپنی کتاب میں لکھا کہ سازشی اور باغی قرار دیے جانے والے یہ افسران پاکستان آرمی اور ائیر فورس کے نوجوان افسران کے ہیرو بن گئے۔
وہ کتاب ’کراس سورڈز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اٹک اور کیمپبل پور میں باغیوں سے ملنے جانے والے ملاقاتی واپسی پر ملکی قیادت پر ان کے اظہار کردہ عدم اعتماد کو باقی ماندہ فوج تک پہنچانے کا ذریعہ بن گئے تھے، (جس کے نتیجے میں فوج کے اندر) سویلین ایڈمنسٹریشن پر عدم اعتماد کے جذبات بڑھتے گئے۔‘
آرمی اور ائیر فورس کے ان افسران کی تفتیش اور مقدمے کی کارروائی کرنے والے فوجی ٹریبونل کے سربراہ فوجی آمر ضیا الحق تھے اور اس ساری کہانی کے اصل فاتح بھی جنرل ضیا الحق ثابت ہوئے۔
بغاوت کی کوشش پر ان افسران کو مجرم قرار دے کر جنرل ضیا نے نہ صرف بھٹو کا اعتماد جیتا بلکہ بعد ازں سازش کرنے والوں کی طرف سے بھی داد و تعریف کے مستحق قرار پائے، جن کا کہنا تھا کہ ضیا نے مقدمے کی کارروائی ’منصفانہ انداز‘ میں چلائی۔ ان افسران کا کہنا تھا کہ کمرہ عدالت میں انھوں نے ان افسران کو اپنے غم وغصے کے اظہار کا پورا موقع دیا۔
فوج سے متعلق بہت سارے تاریخ دان کہتے ہیں کہ جس انداز میں ضیا نے اس مقدمے کی کارروائی چلائی تھی، اس کے نتیجے میں وہ وزیراعظم بھٹو کے منظور نظر بن گئے تھے جس پر بعد میں بھٹو نے انھیں چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا۔
اور بغاوت کی سازش کرنے والوں کے خلاف مقدمے کی سربراہی کرنے کے چار سال بعد اسی ضیا نے بھٹو کا تختہ اُلٹ دیا۔